پٹنہ کے قریب ایک جنگل تھا۔ اس کا نام تھا پیلی کانن۔ بہت دن ہوئے پیلی کانن میں ایک طرف ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا کبھی اس عمارت کی شان بھی نرالی ہوگی۔
ایک روز دوپہر کے وقت چند بچے عمارت کے قریب ایک ٹیلے پر راجہ کا کھیل کھیل رہے تھے۔ ایک لڑکے کے چہرے پر کچھ عجیب سانور چھایا ہوا تھا اسی باعث اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ وہ راجہ بنا تھا۔ باقی اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھے تھے۔
اسی وقت ایک برہمن ٹیلے کے قریب پہنچا۔ اس کا سر گھٹا ہوا تھا اور سر ایک بڑی سی لمبی چوٹی نظر آرہی تھی اس نے لڑکے کو نہایت غور سے دیکھا اور ازراہ مذاق بول اٹھا۔ ’’مہاراج! میں ایک غریب برہمن ہوں۔ مجھے دودھ پینے کے لئے ایک گائے چاہئے‘‘۔
سامنے میدان میں بہت سی گائیں چر رہی تھیں۔ اس لڑکے نے فوراً ان کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے برہمن سے کہا۔ ’’جاؤ ان گائیوں میں سے جتنی گائیں چاہو لے لو۔‘‘
برہمن بولا۔ ’’مہاراج! وہ گائیں تو اوروں کی ہیں۔ اگر اس کے لیے کوئی مجھے سزا دے تو۔۔۔‘‘
لڑکے کی بھوئیں تن گئیں۔ اس نے چھاتی پھلا کر برہمن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کس میں ہمت ہے جو ہمارے حکم کی عدولی کرے۔‘‘
لڑکے کی بات سن کر برہمن سناٹے میں آ گیا اور وہ دل ہی دل میں اس کی ہمت کی تعریف کرنے لگا۔
برہمن ابھی اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ اتنے میں راجہ بنے ہوئے لڑکے کی ماں باہر نکل آئی۔ وہ اسی مکان میں رہتی تھی۔ اس نے جب برہمن کو لڑکے کے پاس کھڑے دیکھا تو وہ سن سی رہ گئی۔ اس نے سمجھا کہ ضرور یہ کوئی راجہ کا جاسوس ہے اور اس کی کیفیت جاننے آیا ہے۔
ان دنوں پٹنہ کو پاٹلی پتر کہا جاتا تھا۔ وہاں ایک بہت بڑا راجہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا نام نند تھا۔ یہ لڑکا اس راجہ کے سپہ سالار کا بیٹا تھا۔ راجہ نے کسی وجہ سے ناخوش ہوکر سپہ سالار کو جیل میں بند کر دیا تھا اور لڑکا اپنی ماں کے ساتھ جنگل میں رہتا تھا۔
لڑکے کی ماں ڈر کر فوراً برہمن کے پاس جاپہنچی اور بولی۔ ’’مہاراج! معاف کیجئے۔ یہ لڑکا بڑا چنچل ہے۔ اگر اس نے آپ کی شان میں کوئی گستاخی کی ہو تو آپ بچہ سمجھ کر اس کی بات پر دھیان نہ دیجئےگا۔‘‘
برہمن نے کہا۔ ’’بہن تم اس بچے کی فکر مت کرو۔ یہ بڑا ہونہار بچہ ہے۔
تمہیں اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا چاہئے۔ تم اسے میرے ساتھ بھیج دو۔ میں اسے مہاراج نند کے دربار میں لے جاؤں گا‘‘۔
پہلے تو لڑکے کی ماں اسے دربار میں بھیجتے ہوئے گھبرائی۔ لیکن جب برہمن نے مسلسل ضد کی تو اس نے لڑکے کو اس کے ساتھ بھیج دیا۔
برہمن لڑکے کو اپنے ساتھ لے کر مہاراج نند کے دربار میں جاپہنچا۔ جب برہمن اور لڑکا دربار میں پہنچے اس وقت تمام دربار ایک گہرے معاملے پر آپس میں غوروفکر کر رہے تھے۔
دربار کے عین بیچوں بیچ لوہے کا ایک پنجرہ رکھا تھا۔ اس میں ایک شیر بند تھا۔ یہ پنجرہ کسی دوسرے دیس کے راجہ نے مہاراج نند کے دربار میں بھیجا تھا اور یہ کہلوایا تھا کہ جو شخص لوہے کا یہ پنجرہ توڑے بغیر شیر کو باہر نکال لے گا اسے سب سے زیادہ دانش مند سمجھا جائےگا۔ راجہ نند کے دربار کے بڑے بڑے عالموں اور دانشوروں نے سر مارا لیکن کسی کو سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ پنجرے کو توڑے بغیر شیر کو باہر کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
لڑکا برہمن کے ساتھ دربار میں پہنچا تو اس نے بھی پنجرے کو ایک نظر دیکھا اور پھر اس نے مہاراج نند سے کہا۔ ’’مہاراج میں شیر کو پنجرہ توڑے بغیر باہر نکال سکتا ہوں‘‘۔
راجہ نند بچے کی بات سن کر پہلے تو بھونچکا رہ گیا تو پھر اس نے کہا۔ ’’اگر تو شیر کو باہر نہیں نکال سکےگا تو تجھے پنجرے میں شیر کے پاس ڈال دیا جائےگا۔‘‘
لڑکے نے یہ شرط قبول کر لی اور اپنا سرخم کر دیا۔
اس کے بعد لڑکے نے پنجرے کے چاروں طرف آگ جلا دی۔ دراصل پنجرے کا شیر موم کا بنا ہوا تھا۔ لڑکے نے دربار میں آتے ہی دیکھ لیا تھا کہ شیر حرکت نہیں کر رہا۔ اس نے سمجھ لیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
ادھر آگ کی گرمی سے پنجرے کی سلاخیں گرم ہوئیں تو اس کی تپش سے موم کا وہ شیر پگھل کر باہر نکل آیا۔
لڑکے کی اس ہوشیاری سے راجہ بہت خوش ہوا۔ اس نے لڑکے سے پوچھا۔ ’’کہو، تمہیں کیا انعام دیا جائے‘‘۔
برہمن لڑکے کے پیچھے کھڑا تھا وہ فوراً بولا۔ ’’مہاراج آپ اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیجئے۔ یہی اس کا انعام ہے‘‘۔
مہاراج مان گئے اور لڑکے کو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے ٹیکسلا بھیج دیا گیا۔ یہی لڑکا تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد شہنشاہ چندر گپت کے نام مشہور ہوا اور وہ مردم شناس برہمن تھا چانکیہ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.