ہنر مند لڑکی
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں حارث نامی ایک لڑکا رہتا تھا۔اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔اس کا باپ کھیتوں میں کام کر کے اپنے بیوی بچے کا پیٹ پالتا تھا۔وہ اتنا غریب تھا کہ اس کے پاس ہل میں جوتنے کے لیے کوئی بیل بھی نہیں تھا۔بے چارے کو بیج بونے کے لیے کدال اور کھرپی سے خود ہی زمین کھودنا پڑتی تھی، جس میں بہت محنت لگتی تھی۔
ایک روز اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ وہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے ایک بیل خرید لے۔یہ سوچ کر اس نے اپنے کھیتوں میں اور زیادہ محنت سے کام کرنا شروع کردیا تاکہ فصل زیادہ ہو اور اسے اچھے پیسے ملیں جنہیں جمع کر کے وہ ایک بیل خرید لے۔اس کی بیوی کو جب اس بات کا پتہ چلا کہ اس کا شوہر بیل خریدے گا تو وہ بھی بہت خوش ہوئی۔اس نے اپنے بیٹے حارث کو بھی یہ بات بتائی۔
حارث بولا۔“میں اس بیل کا بہت خیال رکھا کروں گا اور اس کو گھاس کھلانے کے لیے باہر میدان میں بھی لے جایا کروں گا اور اسے ندی پر لے جا کر خود ہی نہلایا بھی کروں گا”۔
جب سے بیل خریدنے کی بات ہوئی تھی، کسان اور اس کی بیوی نہایت کفایت شعاری سے گھر کا خرچ چلانے لگے تھے تاکہ ان کے پاس بیل خریدنے کے پیسے جلد سے جلد جمع ہوجائیں۔ان کی اس تدبیر کی وجہ سے کچھ پیسے جمع ہو بھی گئے تھے۔
ایک روز خبر آئی کہ حارث کے باپ کا چھوٹا بھائی شدید بیمار ہوگیا ہے۔بھائی کی بیماری کا سن کر اس کا باپ بے چین ہوگیا اور اس نے ارادہ کرلیا کہ بیمار بھائی کو دیکھنے جائے گا جو ایک دوسرے گاؤں میں رہتا تھا۔یہ گاؤں کافی دور تھا اور تقریباً آٹھ روز کی مسافت پر تھا۔
جب وہ سفر پر روانہ ہونے لگا تو اس کی بیوی نے وہ رقم جو بیل خریدنے کے لیے جمع کی تھی اس کے حوالے کردی اور بولی ۔ “حارث کے ابّا۔یہ پیسے ساتھ رکھ لو۔بھائی کی بیماری میں کام آئیں گے۔بیل تو ہم بعد میں بھی خرید لیں گے۔تمہارے ساتھ میں بھی چلتی پر یہاں بکری، مرغیوں ، بطخوں اور کھیتوں کی رکھوالی کون کرے گا۔ان کاموں کی دیکھ بھال کے لیے میں حارث کو بھی اپنے ساتھ لگا لوں گی۔تم کوئی فکر مت کرنا”۔
حارث کو بھی علم ہو گیا تھا کہ اب وہ لوگ بیل نہیں خرید سکیں گے کیوں کہ اس رقم سے اس کے چچا کا علاج ہوگا۔وہ ایک اچھا لڑکا تھا اور اپنے ماں باپ کی خوشی میں خوش رہتا تھا۔اس نے اپنی ماں سے کہا۔“ماں فکر کی کوئی بات نہیں۔ہم پھر سے پیسے جمع کر لیں گے۔کل سے میں کھیتوں پر جایا کروں گا”۔
اگلے روز حارث صبح سویرے ہی کھیتوں پر پہنچ گیا۔اس نے کھیتوں کی صفائی ستھرائی کی۔ قریبی دریا سے پانی بھر بھر کر لایا اور اسے کھیتوں میں ڈالا۔جب وہ دریا سے پانی بھر رہا تھا تو اچانک اس نے دور ایک تختہ دیکھا جو دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا جا رہا تھا۔اس تختے پر اسے کوئی شخص لیٹا ہوا بھی نظر آیا جو یقیناً بے ہوش تھا۔
حارث نے بچپن ہی سے تیرنا سیکھ لیا تھا اور وہ ایک بہترین تیراک تھا۔اس نے فوراً دریا میں چھلانگ لگا دی اور تیرتا ہوا اس تختے کے قریب پہنچ گیا۔اس نے دیکھا تختے پر ایک خوبصورت لڑکی آنکھیں بند کیے بے سدھ پڑی ہے۔وہ بے ہوش تھی۔
حارث تختے کو دھکیلتا ہوا کنارے پر لے آیا۔اتنی دیر میں اس کی ماں بھی کھیتوں کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے وہاں پر آگئی۔دونوں نے مل کر بے ہوش لڑکی کو اٹھا کر گھاس پر لٹایا۔زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ لڑکی کو ہوش آگیا۔پہلے تو وہ حیرانی سے ان دونوں کو دیکھنے لگی پھر اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔اس نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک بڑی بادبانی کشتی میں بیٹھی اپنے ماں باپ کے گھر جا رہی تھی کہ طوفان آگیا۔طوفان کے تھپیڑے اتنے شدید تھے کہ کشتی ٹوٹ پھوٹ گئی۔سب لوگ پانی میں ڈوبنے لگے۔وہ ٹوٹی ہوئی کشتی کے ایک تختے پر سوار ہو گئی۔اس کی جان تو بچ گئی مگر شوہر کا کیا ہوا کچھ پتہ نہیں۔یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔
حارث کی ماں نے اسے تسلی دی اور اسے لے کر گھر آگئی اور اس کی خوب خاطر مدارات کی۔شام کو جب حارث کھیتوں سے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ لڑکی اس کی ماں کے ساتھ کام کروا رہی تھی۔رات کے کھانے کے بعد وہ سب لوگ باتیں کرنے لگے۔اس لڑکی کا نام نایاب تھا اور اس کا شوہر ایک سوداگر تھا۔حارث نے اسے اطمینان دلایا کہ الله نے چاہا تو اس کا شوہر مل جائے گا اس لیے وہ فکر نہ کرے۔
حارث کی ماں نے کہا کہ جب تک اس کا شوہر نہیں مل جاتا وہ اطمینان سے اس کے گھر میں رہے۔ایک دو روز میں نایاب کو ان کے حالات کے بارے میں سب کچھ پتہ چل گیا تھا۔اسے یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ بے حد غریب ہیں۔وہ حارث سے بھائیوں جیسا پیار کرنے لگی تھی۔
اس نے حارث سے کہا۔“حارث بھائی کھیتوں میں تو کام چلتا ہی رہے گا۔میں گھر میں خالی بیٹھ کر کیا کروں گی۔مجھے کھجور کے پتوں سے خوبصورت چھابیاں، گلدان، ہاتھ والے پنکھے، پھل رکھنے والی ٹوکریاں، زیور رکھنے اور پیسے رکھنے والے صندوقچے، کپڑے رکھنے والے صندوق، آرائشی چیزیں، ٹوکریاں ، چٹائیاں ، جھاڑو اور اسی قسم کی دوسری چیزیں بنانا آتی ہیں۔میرے ماں باپ بہت غریب تھے اور وہ یہ سب چیزیں بنا کر فروخت کیا کرتے تھے۔ان کا ہاتھ بٹاتے بٹاتے میں نے بھی یہ کام سیکھ لیا تھا۔کل ہم جنگل جا کر کھجور کے پتے لے کر آئیں گے اور ان سے طرح طرح کی چیزیں بنا کر فروخت کیا کریں گے۔ہمارے پاس چند دنوں میں ہی پیسوں کے ڈھیر لگ جائیں گے”۔
حارث یہ بات سن کر خوش ہوگیا ۔اگلے روز وہ نایاب کے ساتھ جنگل گیا اور دونوں وہاں سے بہت سارے کھجوروں کے پتے اور سرکنڈے لے آئے۔دوپہر کا کھانا کھا کر نایاب اپنے کام سے لگ گئی۔حارث اس کی مدد کرتا رہا۔وہ اپنے کام میں بہت ماہر تھی۔شام تک اس نے بہت ساری چیزیں بنا لی تھیں اور ان پر خوبصورت رنگ بھی کر دیے تھے۔
ان کے گاؤں کے آخری حصے میں ایک چھوٹا سا بازار تھا جہاں پر مختلف قسم کی دکانیں تھیں۔ان دکانوں سے گاؤں والے روز مرہ استعمال کی چیزیں خریدا کرتے تھے۔اگلے روز لوگوں نے دیکھا کہ حارث بھی اس بازار کے ایک حصے میں زمین پر چٹائی بچھائے ان پر کھجوروں کے پتوں سے بنی ہوئی مختلف خوبصورت چیزیں لے کر بیٹھا ہوا ہے۔ان رنگ برنگی اشیا کو دیکھ کر لوگ بہت خوش ہوئے اور وہ ہاتھوں ہاتھ بک بھی گئیں۔
شام کو جب حارث ان چیزوں کو فروخت کر کے گھر پہنچا تو اس کے پاس بہت سے سکے تھے۔ان سکوں کو دیکھ کر اس کی ماں اور نایاب بہت خوش ہوئیں اور انھیں احتیاط سے گھر میں چھپا کر رکھ دیا۔
ان کا یہ کام بہت اچھے طریقے سے چل گیا تھا۔اسی دوران قریبی شہر میں موسم بہار کے موقع پر ایک میلہ لگ رہا تھا۔اس میلے میں بادشاہ اور اس کی بیوی بچے، امرا، وزرا کے علاوہ پورے ملک سے عام لوگ بھی شرکت کرتے تھے۔یہ میلہ پورے تیس دن تک جاری رہتا تھا۔اس میں تمام لوگوں کے لیے ان کی دلچسپی کی ہر چیز موجود ہوتی تھی۔کیا بچے اور کیا بڑے سب اس میلے کا بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔
نایاب بھی اس میلے کے لیے بہت دنوں سے مختلف چیزیں تیار کر رہی تھی۔اس نے حارث سے کہا تھا اگر انہوں نے خوب محنت سے کام کیا تو اس میلے میں دکان لگانے سے ان کے پاس اتنے پیسے ہوجائیں گے کہ ان سے ایک نہیں دو بیل خریدے جاسکیں گے اور اس کے باوجود ان کے پاس کچھ رقم بچ جائے گی۔
وہ دونوں دن رات بڑی محنت سے اپنے کام میں جٹے رہتے۔میلہ لگنے تک انہوں نے کھجور کے پتوں سے بہت ساری چیزیں بنا لی تھیں۔حارث ایک ہوشیار لڑکا تھا۔اس نے میلے کی انتظامیہ سے مل کر ایک خیمہ نما دوکان بھی حاصل کر لی تھی اور نایاب کی تیار کی ہوئی اشیا اس دوکان میں رکھتا جا رہا تھا۔گاؤں کا ایک آدمی گامو جس کے پاس گھوڑا گاڑی تھی، پیسے لے کر اس کا سامان میلے کے خیمے میں پہنچا دیتا تھا۔حارث نے گامو سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ جب تک میلہ لگا رہے گا، وہ اسے روزانہ صبح وہاں چھوڑ کر بھی آیا کرے گا اور شام کو واپس بھی لایا کرے گا۔
میلہ شروع ہونے سے ایک روز پہلے شام کو نایاب نے اسے ایک نہایت خوبصورت پنکھا بنا کر دیا۔اس پنکھے میں بہت خوبصورت چمکدار رنگ تھے اور اس کے کناروں پر ننھے ننھے سنہری گھنگرو ٹنکے ہوئے تھے۔اس کے جھلنے سے وہ گھنگرو نہایت ہلکی اور دلفریب جھنکار پیدا کرتے تھے جو سننے والوں کو بہت بھلی لگتی تھی۔نایاب نے یہ پنکھا اسے دیتے ہوئے کہا۔“یہ تمہارے لیے ہے۔اس کو اپنے ساتھ میلے میں لے جانا اور وہاں جھلتے رہنا۔اگر کوئی اس کے بدلے ہزاروں اشرفیاں بھی دے تو اس کو فروخت مت کرنا”۔
ایسا خوبصورت پنکھا لے کر حارث بہت خوش ہوا اور اسے اپنے ساتھ میلے میں لے گیا۔میلے میں بہت چہل پہل تھی۔ایسا معلوم دیتا تھا جیسے پوری دنیا وہاں امڈ آئی ہے۔کیا عورتیں، کیا مرد اور کیا بچے۔سب لوگ نئے نئے کپڑے پہنے مزے سے میلے میں گھومتے پھر رہے تھے۔
حارث نے اپنے خیمے سے تمام چیزیں نکال کر باہر رکھ دی تھیں۔کچھ لوگ ان چیزوں کو صرف دیکھ ہی رہے تھے مگر بہت سے لوگ خرید بھی رہے تھے۔جب کوئی گاہک نہ ہوتا تو حارث بڑے پیار سے نایاب کا بنایا ہوا پنکھا اٹھاتا اور مزے سے جھلنے لگتا۔کئی ایک لوگوں نے اس سے پنکھے کے خریدنے کی بات بھی کی، مگر حارث نے صاف انکار کردیا۔
حارث ایک نوجوان کو دیکھ رہا تھا۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی دوکان کے سامنے نظر آجاتا تھا۔اس کی نظریں پنکھے پر ہی لگی ہوئی ہوتی تھیں مگر وہ اس بارے میں حارث سے سوال جواب نہیں کرتا تھا۔وہ نوجوان اگرچہ شکل و صورت سے کسی اچھے گھر کا لگتا تھا مگر حارث کو اس کی طرف سے کچھ کھٹکا سا ہوگیا تھا۔اس کے پاس کافی سکے جمع ہوگئے تھے۔جن میں دو چار چاندی کے سکے بھی تھے۔اسے فکر لگ گئی کہ یہ مشکوک نوجوان اس کی رقم پر نہ ہاتھ صاف کردے۔یہ خیال آتے ہی وہ مزید چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور سکوں کی تھیلی کو اپنے گھٹنے کے نیچے دبا لیا۔
شام ہوئی تو گامو حسب معمول گھوڑا گاڑی لے آیا۔حارث نے جلدی جلدی سامان سمیٹ کر خیمے میں رکھ کر اس کے دروازے کو رسی سے باندھا اور گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
وہ گھر پہنچا تو اس کی ماں سے زیادہ نایاب بے تابی سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ماں تو کھنکھناتے ہوئے پیسوں کی تھیلی دیکھ کر خوش ہوگئی مگر نایاب نے پیسوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔وہ حارث سے بولی۔“حارث بھیا۔کیا کوئی پنکھے کا خریدار بھی آیا تھا؟”
حارث نے جواب دیا۔“کوئی ایک نہیں بلکہ بہت سارے لوگ اس انوکھے پنکھے کو خریدنا چاہ رہے تھے مگر پنکھا میں نے کسی کو بھی نہیں دیا۔مجھے آپ کی بات یاد تھی کہ کوئی ہزاروں اشرفیاں بھی دے تو اسے فروخت مت کرنا”۔
“ان لوگوں کی شکلیں تمہیں یاد ہیں جو یہ پنکھا خریدنا چاہ رہے تھے؟ کیا ان میں کوئی ایسا بھی تھا جس کے لمبے لمبے بال تھے، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور رنگ سرخ و سفید تھا۔قد مجھ سے اتنا زیادہ ہوگا”۔نایاب نے ایک ہاتھ اونچا کر کے کہا۔
حارث اپنے ایک گال پر انگلی رکھ کر اس کے بتائے ہوئے حلیے پر غور کرنے لگا۔وہ نوجوان جو اس کے پنکھے کو دیکھے جا رہا تھا اس حلیے پر پورا اترتا تھا۔ابھی وہ نایاب کو کچھ جواب دینے ہی لگا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔وہ کچھ کہے بغیر دروازے پر گیا اور تھوڑی دیر بعد نایاب کے کانوں میں اس کی آواز آئی۔“نایاب باجی۔لمبے لمبے بالوں، بڑی بڑی سیاہ آنکھوں، سرخ و سفید رنگ اور آپ سے ایک ہاتھ لمبے والے بھائی صاحب یہاں دروازے پر کھڑے ہیں”۔
نایاب نے یہ سنا تو دوڑ کر دروازے پر گئی اور اس نوجوان کو دیکھتے ہی بے اختیار سسک سسک کر رونے لگی اور اس سے لپٹ گئی۔حارث یہ منظر حیرت سے دیکھ رہا تھا۔اس کی ماں بھی شور سن کر وہاں آ کر کھڑی ہوگئی تھی اور حیرانی سے اس نوجوان کو دیکھ رہی تھی۔
“اماں۔یہ میرے شوہر ہیں”۔نایاب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔حارث کی ماں نے شفقت سے اس نوجوان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے لے کر اندر آئی۔
اندر آ کر نایاب نے حارث سے کہا۔“خدا کا شکر ہے کہ یہ زندہ ہیں۔جب ہماری شادی ہوئی تھی تو میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کے لیے ننھے ننھے سونے کے گھنگروں والا پنکھا بنایا تھا۔یہ سونے کے لیے لیٹتے تھے تو میں اس پنکھے سے ان کو ہوا جھلتی تھی۔چھن چھن کی آواز سن کر یہ گہری نیند سوجاتے تھے۔تمہیں پنکھا دے کر میلے میں میں نے اس امید پر بھیجا تھا کہ اس میلے میں پورے ملک سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔شائد یہ بھی وہاں آجائیں اور اس پنکھے کو دیکھ کر پوچھیں کہ یہ کس نے بنایا ہے۔ایسا پنکھا صرف میں ہی بنا سکتی ہوں یہ بات انہیں پتہ ہے”۔
اس نوجوان نے کہا۔“پنکھا دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ تم نے ہی بنایا ہوگا۔میں نے اس بارے میں حارث سے کوئی بات نہیں کی تھی کہ کہیں یہ میری پوچھ گچھ سے خوف نہ کھا جائے۔میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جب یہ اپنی دوکان بند کرے گا تو میں اس کا پیچھا کروں گا۔وہ تو شکر ہے کہ میرا گھوڑا میرے ساتھ تھا ورنہ مجھے حارث کی گھوڑا گاڑی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر آنا پڑتا”۔
اس کے بعد نایاب کے شوہر نے اپنی کہانی سنانا شروع کی۔“مجھے چونکہ تیرنا آتا تھا اس لیے کشتی تباہ ہونے کے بعد میں تیرتا ہوا کنارے تک پہنچ گیا۔خوش قسمتی سے میری کمر سے بندھے پٹکے میں بہت ساری اشرفیاں موجود تھیں۔میں وہاں سے نکل کر شہر آیا اور ایک سرائے میں ٹھہر گیا۔مجھے نہ جانے کیوں یقین تھا کہ نایاب زندہ ہوگی اس لیے میں نے ایک گھوڑا خرید لیا اور اس پر بیٹھ کر حادثے والے علاقے میں گھومتا رہتا تھا کہ شائد نایاب مجھے کہیں نظر آ جائے۔جب یہ میلہ شروع ہوا تو مجھے یہ امید ہو چلی تھی کہ دور دور کے گاؤں دیہاتوں اور شہروں سے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں، شائد نایاب مجھے یہاں مل جائے۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں حارث کے پنکھے کی وجہ سے یہاں پہنچ گیا ہوں۔اگر حارث نہ ہوتا تو میں اپنی پیاری بیوی سے کبھی بھی نہیں مل سکتا تھا”۔
اس کی بات ختم ہوئی تو نایاب نے اسے اپنی کہانی سنائی اور حارث کا کارنامہ بتایا کہ اس نے اسے کیسے دریا میں سے نکالا تھا اور اس کی ماں نے اس کو بیٹی بنا کر گھر میں رکھا۔اس کے شوہر نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا۔اس رات نایاب نے بڑے مزے مزے کے کھانے پکائے اور سب کی دعوت کی۔
میلے کے ختم ہونے سے پہلے پہلے نایاب کی بنائی ہوئی تمام چیزیں فروخت ہوگئی تھیں۔حارث کی ماں کے پاس ڈھیروں روپے جمع ہوگئے تھے۔ایک شام وہ سب لوگ مویشی منڈی گئے اور وہاں سے دو بہت خوبصورت اور صحت مند بیل خرید کر لے آئے۔بیلوں کو گھر لا کر حارث بہت خوش تھا۔وہ ان کے کھانے پینے کے انتظامات کرنے میں لگ گیا۔
اگلے روز نایاب اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر روانہ ہوگئی۔اس نے حارث اور اس کی ماں کا بہت شکریہ ادا کیا تھا اور نہیں تاکید کی کہ وہ ان کے گھر ضرور آئیں۔اس نے انھیں اپنے شہر اور گھر کے محل وقوع کے بارے میں اچھی طرح بتادیا تھا۔ان لوگوں سے جدا ہوتے ہوئے وہ بہت اداس تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔حارث کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ نایاب ان کے گھر سے جائے مگر مجبوری تھی۔نایاب کا شوہر بھی رنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
چند دن ہی گزرے تھے کہ حارث کا باپ بھی اپنے بھائی کے گھر سے واپس آگیا۔اسے بڑی فکر لگی ہوئی تھی کہ اس کے جانے کے بعد گھر کا جانے کیا حال ہوا ہوگا۔وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی اسے دیکھ کر خوش ہوگئی۔
وہ بولا۔“تم نے بہت اچھا کیا کہ وہ رقم جس سے ہم بیل خریدتے، تم نے میرے بھائی کے علاج کے لیے دے دی تھی۔بیماری کی وجہ سے وہ کام پر بھی نہیں جا رہا تھا اور اس کے پاس علاج کے بھی پیسے نہیں تھے۔خدا کا شکر ہے کہ اب وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوگیا ہے۔بس افسوس اس بات کا ہے کہ ہم بہت دنوں تک بیل نہیں خرید سکیں گے۔ہمیں پھر سے پیسے جمع کرنے پڑیں گے”۔
“اب تمہیں اس بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔تم نے اپنے بھائی کی مدد کی تھی۔الله نے ہمیں بھی اس کا صلہ دے دیا ہے”۔ابھی اس کی بیوی کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ حارث دونوں بیلوں کو لے کر گھر کے اندر داخل ہوا۔وہ انھیں نہلانے کے لیے ندی پر لے گیا تھا۔اس کے باپ نے جب اتنے شاندار اور خوبصورت بیل دیکھے تو حیرت زدہ رہ گیا۔اس کی بیوی نے اسے شروع سے آخر تک پوری کہانی سنا دی۔تمام باتیں سن کر حارث کا باپ حیرانی سے ان دونوں کو دیکھنے لگا تھا۔وہ بے حد خوش بھی تھا کہ اب ان کی غربت کے دن بھی جلد ختم ہوجائیں گے۔
حارث کی ماں اپنی بات کہہ کر خاموش ہوئی تو حارث اداسی سے بولا۔“اماں مجھے نایاب باجی بہت یاد آ رہی ہیں۔ہم ان سے ملنے کب چلیں گے؟”
اس کے باپ نے کہا۔“ان بیلوں کی وجہ سے میں اپنی اس زمین پر بھی ہل چلا کر بیج بووں گا جو سالوں سے بے کار پڑی ہے۔اس لیے مجھے امید ہے کہ اس سال ہمیں اپنی فصلوں کو بیچ کر بہت سارے پیسے مل جائیں گے۔ان پیسوں سے ہم ایک اچھی سی گھوڑا گاڑی خریدیں گے اور اس میں بیٹھ کر نایاب اور اس کے شوہر سے ملنے جائیں گے۔نایاب بیٹی ہماری محسن ہے۔وہ بہت ہی ہنر مند لڑکی ہے اور اس نے ہماری بہت مدد کی ہے۔میں بھی اس کا شکریہ ادا کروں گا”۔
یہ سن کر حارث خوش ہوگیا اور بیلوں کو چارہ ڈالنے چلا گیا۔اس کو اس بات کی بھی خوشی تھی کہ بہت جلد بیلوں کے ساتھ ساتھ اس کے پاس ایک گھوڑا بھی ہو جائے گا۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.