انعامی ٹوکن
احمد اور دانش دو بھائی تھے۔ احمد کی عمر تقریباً چودہ سال تھی اور دانش بارہ سال کا تھا۔ وہ دونوں اپنے کمرے میں تھے۔ یہ کمرہ ان کا مشترکہ کمرہ تھا۔ اس میں بے ترتیبی صاف نظر آ رہی تھی۔ کتابیں اور کپڑے ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ دانش کے جوتے فرش پر ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ ان کی امی روز اس کمرے کی صفائی ستھرائی کرتی تھیں اور بکھری ہوئی چیزوں کو قرینے سے رکھ دیتی تھیں، مگر شام تک کمرے کی حالت پھر بگڑ جاتی تھی۔
احمد کے ہاتھ میں نیٹ سے ڈاوٴن لوڈ کیا ہوا ایک نہایت مشہور و معروف صابن کی کمپنی کا ایک کاغذ تھا جس پر بہت سارے نمبر درج تھے اور وہ دیوار پر لکھے ہوئے نمبر کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ کے نمبروں سے ملا رہا تھا۔ پھر یکایک اس نے خوشی سے ایک نعرہ مارا اور دانش سے بولا۔ “لو دانش اب تو ہم دونوں بھی ایک عدد چار گئیر والی سائیکل کے مالک بن گئے ہیں۔ ہمارے ٹوکن پر انعام نکل آیا ہے”۔
احمد اور دانش دو تین ماہ پہلے اپنی امی اور پاپا کے ساتھ الہ دین پارک گئے تھے۔ وہاں اس صابن بنانے کی کمپنی کا بھی ایک اسٹال تھا۔ کمپنی والے اپنا بنایا ہوا صابن بیچ رہےتھے اور خریدنے والوں کو گتے پر چھپا ایک ٹوکن دے رہے تھے۔ ہر ٹوکن پر ایک نمبر دیا ہوا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ان نمبروں کی قرعہ اندازی ہونا تھی اور جیتنے والوں کو سائیکل، ویڈیو گیمز اور دوسری بہت سی چیزیں انعام میں ملتیں۔ گھر آ کر احمد نے اس ٹوکن پر لکھا ہوا نمبر پنسل سے دیوار پر لکھ لیا تھا تاکہ جب قرعہ اندازی ہو تو فٹا فٹ چیک ہوجائے۔
آج اس کمپنی نے انعامات کا اعلان کردیا تھا۔ احمد نے جب نمبر چیک کیا تو انعام میں ان کی سائیکل نکل آئی تھی۔ ان کے پاس سائیکل تو تھی مگر ایک تو وہ بہت پرانی ہوگئی تھی، دوسرے وہ گئیر والی نہ تھی، تیز چلاوٴ تو چین بھی اتر جاتی تھی۔ گئیر والی سائیکل خریدنے کے لیے وہ پیسے تو جمع کررہے تھے مگر کوئی نہ کوئی ایسا موقعہ آجاتا تھا کہ انھیں جمع کیے ہوئے پیسوں میں سے کچھ پیسے خرچ کرنا پڑ جاتے تھے ۔ اس صورت حال میں گئیر والی سائیکل خریدنا بہت مشکل تھا۔ یہ نہیں کہ ان کے ماں باپ غریب تھے اور ان میں سائیکل خریدنے کی سکت نہیں تھی۔ وہ دونوں بہت سمجھدار اور اپنے ماں باپ کا خیال رکھنے والے بچے تھے، وہ کسی بات کے لیے ان سے ضد نہیں کرتے تھے۔
جب انھیں اچھی طرح اطمینان ہوگیا کہ انعام میں ان کی گئیر الی سائیکل نکل آئی ہے تو سب سے پہلے انہوں نے اس کے بارے میں اپنی امی پاپا کو بتایا- وہ بھی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے۔
احمد نے کہا۔ “دانش۔ اب وہ سائیکل جو ہمارے پاس ہے تم بالکل سے لے لینا”۔
دانش نے کہا ۔ “میں تو گئیر والی سائیکل چلاوٴں گا”۔
“ہاں ہاں اسے بھی چلا لیا کرنا۔ میں اس کی چابی تمہیں بھی دے دیا کروں گا”۔ احمد نے کہا۔
اس کی بات سن کر دانش کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔ اسے احساس ہونے لگا تھا کہ بعد میں احمد بھائی اپنی بات سے مکر جائیں گے۔
امی اس کی پریشانی سمجھ گئی تھیں۔ انہوں نے کہا ۔ “سائیکل کسی ایک کی نہیں ہوگی۔ دونوں کی ہوگی۔ تھوڑی تھوڑی دیر دونوں چلایا کریں گے”۔
اپنے دونوں بچوں کو خوش دیکھ کر ان کے امی پاپا بھی خوش ہوگئے تھے۔ ان کے پاس سے اٹھ کر دونوں بھائی کمرے میں آئے۔
دانش نے کہا ۔ “احمد بھائی۔ اب وہ گتے کا ٹوکن نکالیے۔ ہمیں اسے کمپنی والوں کو دکھانا پڑے گا”۔
اس کی بات سن کر احمد سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے اپنی جیب ٹٹولی۔ میز کی درازیں چیک کیں۔ پرانے کپڑوں کی جیبیں کھنگالیں۔ کتابوں اور کاپیوں کے صفحات پْھر پْھر کر کے دیکھے۔ ٹوکن نہیں ملا۔ وہ پریشان ہوگیا اور بستر پر گر کر سوچ میں پڑ گیا کہ اس نے ٹوکن رکھا تو کہاں رکھا تھا؟ اسے کچھ یاد ہی نہیں آ رہا تھا۔
اس کی پریشانی دیکھ کر دانش مایوسی سے بولا۔ “بغیر ٹوکن کے تو ہمیں انعام ملنے سے رہا۔ آپ نے اسے رکھا کہاں تھا۔ ذہن پر زور تو ڈالیے”۔
“ذہن پر زور ڈال تو رہا ہوں۔ کیا اینٹ سر پر رکھ لوں؟”۔ احمد چڑ کر بولا۔ “مجھے پتہ تھوڑا ہی تھا کہ اس پر انعام نکل ہی آئے گا۔ رکھ دیا ہوگا میں نے ادھر ادھر”۔
“ٹھیک ہے۔ یاد کرتے رہیے۔ یاد آجائے تو اسے نکال کر امی کو دے دیجیے گاوہ اسے سنبھال کر اپنے پرس میں رکھ لیں گی۔ ان کے پرس سے کوئی چیز نہیں کھوتی”۔ دانش نے اسے مشورہ دیا۔
مگر باوجود لاکھ کوششوں کے ٹوکن کو نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔ امی نے کھیر بنانے کے لیے بادام بھگوئے تھے۔ دانش نے چار پانچ بادام لا کر زبردستی احمد کو کھلائے۔ اسے امی نے بتا رکھا تھا کہ بادام کھانے سے ذہن تیز ہوتا ہے۔ مگر اس تدبیر سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ احمد کو بادام کھانے کے باوجود یاد نہیں آیا کہ اس نے ٹوکن کہاں رکھا تھا۔
رات کو ان کا تایا زاد بھائی سعد یونیورسٹی سے پڑھ کر گھر آیا۔ سلمان صاحب اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نچلی منزل میں رہتے تھے۔ ان کا بڑا بھائی کامران اوپر والے پورشن میں رہتا تھا۔ سعد کی امی نے اسے بتا دیا تھا کہ احمد اور دانش کی انعامی ٹوکن کے ذریعے سائیکل نکلی ہے۔ تھوڑی دیر بعد سعد ان کے پاس آیا اور تفصیل پوچھی۔
“بھائی جان اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارا انعام نکل آیا ہے اور بری خبر یہ ہے کہ احمد بھائی وہ ٹوکن کہیں رکھ کر بھول گئے ہیں جس کو دکھا کر انعام ملے گا”۔ دانش نے کہا۔ پھر اس نے پورا واقعہ سعد کو سنا دیا۔ سعد یہ کہانی سن کر کچھ سوچنے لگا۔
احمد نے کہا “سعد بھائی۔ میں نے یاد کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ ٹوکن میں نے کہاں رکھا ہے، مگر بالکل بھی یاد نہیں آ رہا ہے۔ مجھے اپنی تو فکر نہیں، مگر دانش کا خیال ہے۔ اسے گئیر والی سائیکل چلانے کا بہت شوق ہے”۔
سعد نے کہا۔ “تم اب ذہن پر بالکل زور مت ڈالو۔ اس ٹوکن والی گاڑی کا خیال چھوڑو۔ گیر والی سائیکل میں تمہیں دلاوٴں گا”۔
وہ دونوں حیرانی سے اس کی شکل دیکھنے لگے۔ احمد نے کہا۔ “سعد بھائی آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ گئیر والی سائیکل ضروری تھوڑی ہے۔ ہمارے پاس اپنی سائیکل ہے۔ ہمارا گزارہ تو چل رہا ہے”۔
“میں جو کہہ دیتا ہوں۔ وہ ضرور کرتا ہوں”۔ یہ کہہ کر سعد نے دانش کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دونوں کمرے سے نکل گئے۔ احمد گم سم سا ہوکر اپنے بستر اپر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد دانش واپس کمرے میں آیا۔ اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے اور وہ ایک انگلی سے اپنے سر کو کھجانے میں مصروف تھا۔
احمد نے جلدی سے پوچھا۔ “کیا ہوا۔ تم پریشان سے دکھائی دیتے ہو۔ سعد بھائی کیا کہہ رہے تھے؟”۔
“ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ سعد بھائی۔ آپ پندرہ سولہ ہزار کی سائیکل کہاں سے خریدیں گے۔ انہوں نے مجھے جو بتایا میرا دل نہیں چاہ رہا احمد بھائی کہ آپ کو بتاوٴں۔ انہوں نے صاف صاف تو نہیں کہا مگر میں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ وہ کیا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے اپنے بھائی کی خوشی زیادہ عزیز ہے”۔
احمد جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ “میں کچھ سمجھا نہیں۔ جلدی سے صاف صاف بتاوٴ وہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟”۔
دانش نے آہستگی سے کہا۔ “میں نے پوچھا تھا کہ وہ اتنے پیسوں کا کہاں سے انتظام کریں گے تو بولے اس کی فکر مت کرو۔ امی نے مجھے آخری سمسٹر کی فیس جمع کروانے کے لیے پیسے دئیے ہیں۔ یہ بتا کر وہ خاموش ہو کر اپنی کتاب کھول کر بیٹھ گئے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کرنا کیا چاہ رہے ہیں”۔
“اس میں کونسی کوئی راکٹ سائنس ہے”۔ احمد نے بستر سے اتر کر جوتے پہنتے ہوئے کہا۔ “وہ ہماری اس بیہودہ سائیکل کے لیے اپنے سمسٹر کی فیس اس میں لگا دیں گے۔ لعنت ہے ایسی سائیکل پر اور ایسی سائیکل چلانے والوں پر”۔ احمد نے نہایت پریشانی کے عالم میں کہا۔ “اس منحوس سائیکل کے لیے سعد بھائی اپنی پڑھائی چھوڑ دیں، میں یہ ہرگز نہیں ہونے دوں گا”۔
“انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ پڑھائی چھوڑ دیں گے”۔ دانش نے کچھ الجھ کر کہا۔
“تم ابھی بچے ہو۔ تمہاری سمجھ میں یہ باتیں نہیں آئیں گی۔ لیکن سعد بھائی کریں گے یہ ہی۔ وہ ہماری خوشی کے لیے سمسٹر کی فیس کے پیسے سائیکل میں لگا دیں گے۔ مجھے نہیں چاہیے ایسی سائیکل”۔ احمد نے جذباتی ہو کر چلا کر کہا۔ اس وقت وہ سخت ذہنی دباوٴ میں تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ تمام پریشانیوں کی جڑ وہ منحوس ٹوکن ہے جسے وہ کہیں رکھ کر بھول گیا ہے۔
اچانک اس نے سوچا اگر وہ ٹوکن مل جائے تو سارے مسلے حل ہوجائیں گے۔ اس کے ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ “میں نے ٹوکن کہاں رکھا تھا، کہاں رکھا تھا، کہاں رکھا تھا”۔ اس کے منہ سے ان الفاظ کی تکرار ہونے لگی۔
دانش اس کی یہ حالت دیکھ کر گھبراگیا تھا اور اس کو حیرت سے دیکھے جا رہا تھا۔ اچانک احمد خوشی سے اچھل پڑا ۔ “یاد آگیا۔ یاد آگیا”۔
اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور سعد مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔ “احمد مجھے امید تھی کہ تمہیں یاد آ جائے گا کہ تم نے ٹوکن کہاں رکھا ہے”۔
اس کی بات سن کر احمد ہنس پڑا، دوڑ کر کچن میں گیا وہاں سے اسٹول اٹھا کر لایا، پھر اسے دیوار پر لگی گھڑی کے نیچے رکھ کر اس پر چڑھا اور گھڑی اتار لی۔ سعد دلچسپی سے اور دانش حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ احمد نے خوشی سے چمکتی آنکھوں سے سعد کو دیکھا اور گھڑی الٹی کر کے اس کو دکھائی۔
“اس دن میں گھڑی کا سیل تبدیل کر رہا تھا، سیل اس میں ٹھیک طرح سے نہیں لگ رہا تھا، ڈھیلا تھا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ کونسا ہمارا انعام نکلے گا، گتے کا یہ ٹوکن جیب سے نکال کر موڑ توڑ کر سیل کے ساتھ اڑا دیا تاکہ وہ ہل نہ سکے۔ یہ کہہ کر احمد نے ٹوکن گھڑی میں سے نکال لیا۔ وہ تینوں بے حد خوش تھے۔
اچانک احمد نے پوچھا ۔ “سعد بھائی کیا آپ واقعی اپنے آخری سمسٹر کی فیس کی سائیکل لے آتے”۔
سعد نے کہا “میں نے یہ تو نہیں کہا تھا۔ اپنی پڑھائی تو میں مرتے دم تک نہ چھوڑوں۔ پڑھائی کے لیے میں بھوکا پیاسا رہ سکتا ہوں، اپنے ہر آرام کو اس پر قربان کر سکتا ہوں۔ میں نے اور اور دانش نے گول مول باتیں تمہیں اس لیے بتائی تھیں، تاکہ تم ذہنی دباوٴ میں آجاوٴ۔ بعض ذہنی دباوٴ ایسے ہوتے ہیں کہ دماغ میں چھپی ہوئی باتیں انسان کو یکدم یاد آجاتی ہیں۔ تمہیں جب احساس ہوا کہ سائیکل خریدنے کی وجہ سے میری پڑھائی میں خلل پڑ جائے گا تو تم پریشان ہوگئے اور شدید دباوٴ میں آگئے، اس کا حل تمہیں یہ ہی سوجھ رہا تھا کہ انعامی ٹوکن تمہیں مل جائے، اور شکر ہے تم کامیاب ہوگئے”۔
اگلے روز سعد کی یونیورسٹی بند تھی۔ وہ احمد اور دانش کے ساتھ اس صابن کمپنی کے ہیڈ آفس گیا۔ وہاں کے اسٹاف نے ان کو خوش آمدید کہا، ٹی وی پر چلانے کے لیے ان کا مختصر سا انٹرویو لیا اور سائیکل کے ساتھ احمد اور دانش کی ویڈیو بھی بنائی۔
جب وہ سائیکل لے کر روانہ ہونے لگے تو وہاں موجود ایک لڑکی نے دانش کو چاکلیٹ کا ایک پیکٹ دیا اور اس سے پوچھا۔ “آپ اسی ٹوکن والے صابن سے نہاتے ہیں؟”۔
دانش نے بڑی معصومیت سے کہا “ٹوکن والے صابن تو ختم بھی ہوگئے۔ امی ہاتھ منہ دھونے اور نہانے کے لیے دوسرا صابن لائی ہیں”۔
اس کے جواب پر وہاں کھڑے لوگوں نے ایک زبردست قہقہہ بلند کیا۔ دانش دیر تک یہ ہی سوچتا رہا کہ وہ لوگ ہنسے تھے تو کیوں ہنسے تھے؟”۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.