جادو کا کمرہ
شہزادی لیلیٰ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے وہ اس کو بہت چاہتا تھا۔ ملکہ بھی اپنی شہزادی سے بہت محبّت کرتی تھی اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ شہزادی لیلیٰ کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ وہ نہ صرف بے انتہا خوبصورت تھی بلکہ دل کی بھی نیک تھی اور سب سے بہت اچھا سلوک کرتی تھی۔
اس کی دسویں سالگرہ نزدیک تھی۔ بادشاہ نے سوچا کہ اس سالگرہ پر اسے کوئی بہت اچھا سا تحفہ دے۔ اس نے ایک بات محسوس کی تھی کہ شہزادی لیلیٰ کو باغ میں رہنا، وہاں کھیلنا کودنا اور پڑھنا لکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ باغ تھا بھی بہت خوبصورت۔ اس میں پانی کا ایک فوارہ بھی تھا اور موروں کا پنجرہ بھی۔ اس کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے بادشاہ کے ذہن میں ایک بہت اچھا سا خیال آگیا۔
اس نے اگلے روز ملک کے سب سے بڑے ماہر تعمیرات شیر افگن کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ باغ میں شہزادی لیلیٰ کا ایک ایسا کمرہ تیار کرے جسے دیکھ کر شہزادی خوش ہو جائے۔
شیر افگن نے کہا ۔’’جہاں پناہ۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ شہزادی صاحبہ کے لیے میں ایسا عمدہ کمرہ بناؤں گا کہ جو دیکھے گا تعریف کیے بنا رہ نہیں سکے گا۔ اسے دیکھ کر شہزادی صاحبہ بھی خوشی سے پھولا نہیں سمائیں گی‘‘۔
اس کی بات سن کر بادشاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
شہزادی کی سالگرہ قریب تھی اس لیے کمرہ بنانے کا کام فوراً ہی شروع کردیا گیا۔ بہت سارے مزدور اس کام پر لگے ہوئے تھے اور کمرے کی تعمیر پر دن رات کام ہو رہا تھا۔
اسی دوران بادشاہ کے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس سے درخواست کی کہ وہ اپنے محل میں کچھ تبدیلیاں کروانا چاہتا ہے اس لیے شیر افگن کو چند دنوں کے لیے اس کے ملک میں بھیج دیا جائے۔ شیر افگن اتنا اچھا ماہر تعمیرات تھا کہ اس کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ عمارتوں کی بہترین تعمیر میں اسے کمال حاصل تھا۔ بادشاہ نے یہ درخواست رد نہیں کی اور شیر افگن کو حکم دیا کہ وہ جا کر اس کے دوست بادشاہ کے کام کو مکمل کرے۔
شہزادی کے کمرے کا تھوڑا سا ہی کام باقی تھا۔ شیر افگن نے راج مستریوں اور مزدوروں کو کام کے سلسلے میں چند ہدایات دیں اور چلا گیا۔
شہزادی لیلیٰ کی سالگرہ سے ایک دن پہلے کمرہ پوری طرح تیار ہوگیا تھا۔ بادشاہ نے کمرے کا معائینہ کیا تو بہت خوش ہوا۔
یہ کمرہ شیشم کی قیمتی لکڑیوں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس میں داخل ہوتے ہی ایک فرحت بخش ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا اور کمرے میں استعمال شدہ لکڑیوں سے بھینی بھینی خوشبو آتی تھی۔ کمرے میں ایک ہی کھڑکی تھی۔ اس کھڑکی کے اوپری حصے پر کسی دھات کی چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی نلکیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ جب کھڑکی سے ہوا اندر داخل ہوتی تو نلکیاں آپس میں ٹکرا کر جلترنگ بجنے کی آوازیں پیدا کرتی تھیں۔ اس میں کوئی خاص تکنیک استعمال کی گئی تھی جو بادشاہ کی سمجھ میں نہیں آئی مگر وہ شیر افگن کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
کمرے میں ایک چھوٹا سا قیمتی اور خوبصورت بستر تھا جس پر ریشم کا گدا اور تکیے تھے۔ تین چھوٹی بڑی کرسیاں ایک میز کے گرد رکھی تھیں۔ کونے میں ایک چھوٹی سی الماری بھی تھی۔
شہزادی نے جب اتنا خوبصورت کمرہ دیکھا تو اس کی خوشی اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگی۔ اس نے بادشاہ کا بہت شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس کی سالگرہ پر اتنا شاندار کمرہ بنوا کر دیا ہے۔
اس کی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی اور اس میں وزیروں اور رئیسوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ شرکت کی۔ سالگرہ والے روز شہزادی کا کمرہ اس کے حوالے کردیا گیا۔ شہزادی نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ اب اسی کمرے میں رہا کرے گی۔ بادشاہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس نے سپاہیوں کے افسر کو بلا کر ہدایت کردی کہ شہزادی کے کمرے کے باہر پہرے داروں کو تعینات کردیا جائے۔
اس افسر نے بارہ سپاہی شہزادی کے کمرے کی حفاظت کی غرض سے لگا دئیے۔ رات کو کھانے کے بعد شہزادی لیلیٰ بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ اپنے نئے اور خوبصورت کمرے میں آئ۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس کو خوش دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ بھی خوش ہوگئے۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ دونوں تو واپس محل میں چلے گئے اور شہزادی کھڑکی کے پاس آکر باہر دیکھنے لگی۔ کھڑکی سے پورا باغ نظر آ رہا۔ باغ میں چاروں طرف طرح طرح کے خوشنما پھول کھلے ہوئے تھے۔ درختوں پر پھل لگے ہوئے تھے۔ رات ہونے کی وجہ سے تمام پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں جا چکے تھے۔ دن ہوتا تو شہزادی انھیں چہچہاتا ہوا بھی دیکھتی۔ کھڑکی میں سے باغ کا یہ حسین و جمیل منظر دیکھ کر شہزادی مسحور ہو کر رہ گئی تھی۔ کچھ دیر بعد اسے نیند نے آ لیا اور وہ اپنے بستر پر آکر سو گئی۔
اس کی آنکھ صبح ہی صبح کھل گئی تھی۔ وہ بستر سے پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ مگر یہ کیا؟ کھڑکی میں سے اسے محل کے قریب بہتا ہوا دریا نظر آیا۔ دریا میں اسے کشتیاں بھی تیرتی نظر آئیں۔ ان میں سوار مچھیرے مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے۔
خوف کی ایک سرد لہر شہزادی کے جسم میں دوڑ گئی۔ اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ رات سونے سے پہلے وہ کھڑکی میں سے باغ کا نظارہ کر رہی تھی۔ اس نے جو پھولوں کے پودے اور پھلوں کے درخت دیکھے تھے اسے اچھی طرح یاد تھے۔ اب اسی کھڑکی میں سے دریا کا منظر دیکھ کر وہ حیران اور پریشان ہو گئی تھی۔
اس نے جلدی سے جوتے پہنے اور بھاگی بھاگی بادشاہ کے پاس آئی۔ اس نے جلدی جلدی بادشاہ کو ساری بات بتائی۔ اس کی بات سن کر بادشاہ مسکرانے لگا۔ اس نے سوچا شہزادی نے کوئی خواب دیکھا ہوگا۔
اس کی بے یقینی شہزادی نے بھانپ لی تھی۔ ’’ابّا حضور۔ آپ کو میری بات کا یقین نہیں آ رہا۔ آپ خود چل کر دیکھ لیجیے‘‘۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ اس کمرے میں لائی۔ کمرے کے چاروں طرف سپاہی پہرا دے رہے تھے۔ بادشاہ کو دیکھ کر انہوں نے اسے تعظیم پیش کی۔
شہزادی اور بادشاہ جب کمرے میں داخل ہوئے تو شہزادی کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ کھڑکی میں سے اب اسے محل کے قریب جو پہاڑیاں تھیں وہ نظر آ رہی تھیں۔ پہاڑیوں پر بے تحاشا جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں اور چند چرواہے وہاں اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے۔
’’بیٹی تم تو کہہ رہی تھیں کہ کھڑکی میں سے دریا نظر آ رہا ہے مگر یہ تو پہاڑیاں ہیں‘‘۔ بادشاہ نے شہزادی سے کہا۔
’’اس وقت دریا ہی نظر آ رہا تھا‘‘۔ شہزادی بے بسی سے بولی۔
’’چلو اب محل میں چلتے ہیں۔ دربار کا بھی وقت ہو رہا ہے۔ یہاں پھر بعد میں آئیں گے‘‘۔ بادشاہ نے شفقت سے شہزادی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ شہزادی سوچ میں ڈوبی اس کے ساتھ چل پڑی۔ محل میں پہنچ کر بادشاہ دربار میں چلا گیا۔ شہزادی نے پوری داستان ملکہ کو سنا دی۔ ملکہ کو یقین تھا کہ شہزادی جھوٹ نہیں بولتی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ معاملہ کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولی۔ ’’مجھے کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے۔ اب تم اکیلی اس کمرے میں مت رہنا‘‘۔
شہزادی خود ڈر گئی تھی۔ وہ بھی اس جادو کے کمرے میں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ شام ہونے سے پہلے بادشاہ تمام کاموں سے فارغ ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ ملکہ اور شہزادی کو لیا اور اس پراسرار کمرے کی طرف آیا۔ وہ لوگ وہاں پہنچے تو بادشاہ کو بھی ایک بات کھٹکی۔ اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ صبح جب وہ شہزادی کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوا تھا تو کمرے کے دروازے کے سامنے پانی کا فوارہ تھا۔ اب دروازے کے سامنے مور کا پنجرہ نظر آرہا تھا۔ بادشاہ نے اس بات کا تذکرہ شہزادی سے نہیں کیا تھا کہ کہیں یہ بات سن کر وہ مزید نہ ڈر جائے۔
جب وہ تینوں کمرے میں پہنچے تو کھڑکی والا منظر بدل گیا تھا اور باغ میں لگے پھول پودے نظر آ رہے تھے۔
’’ابا حضور دیکھا آپ نے۔ میں سچ کہہ رہی تھی نا؟۔ شہزادی لیلیٰ نے بڑے جوش سے کہا۔
’’ہماری بیٹی جھوٹ نہیں بولتی۔ تم سچ ہی کہہ رہی تھیں۔ اب ہمیں اس بات کا کھوج لگانا پڑے گا کہ کمرہ بار بار کیوں گھوم رہا ہے۔ جب تک ہم اس بات کا پتہ نہ چلا لیں کہ یہ معاملہ کیا ہے یہ ہمارا حکم ہے کہ اس کمرے کو مقفل کر دیا جائے اور چابی ہمارے حوالے کی جائے‘‘۔
بادشاہ کے حکم کی فوراً تعمیل کی گئی۔ شہزادی کے اس نئے کمرے کو تالا لگا کر چابی بادشاہ کی خدمت میں پیش کردی گئی۔ بادشاہ نے سوچ لیا تھا کہ شیر افگن سے اس سلسلے میں بات کرے گا۔ وہ تو پڑوس کے ملک میں اس کے دوست بادشاہ کے کام سے گیا ہوا تھا اس لیے بادشاہ اس کا انتظار کرنے لگا۔
ایک ہفتے بعد شیر افگن کی واپسی ہوگئی۔ بادشاہ نے اسے فوراً طلب کرلیا۔ وہ حاضر ہوا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔
بادشاہ نے کہا۔ ’’تم نے شہزادی کا کمرہ بہت اچھا بنایا ہے۔ مگر ایک بات سے ہم پریشان ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی سمت تبدیل ہوجاتی ہے۔ کھڑکی میں سے کبھی باغ نظر آتا ہے، کبھی پہاڑیاں اور کبھی دریا۔ اس کی وجہ کیا ہے‘‘۔
شیر افگن نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔ ’’حضور والا۔ آپ کے ارشاد کے عین مطابق میں نے شہزادی صاحبہ کے لیے ایک بے مثال کمرہ بنانے کا سوچا تھا۔ چند سال پہلے میں ملک مصر گیا تھا۔ وہاں میں نے کل کا گھوڑا بھی دیکھا تھا۔ وہ گھوڑا ہوتا تو لکڑی کا ہے مگر اس کے اندر لوہے کی گراریاں وغیرہ لگی ہوتی ہیں اور ان کو چلانے کے لیے گھوڑے کی رکابوں میں کل پرزے لگے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ دوڑتا بھاگتا ہے۔ اس کام کا ماہر میرا ایک دوست تھا ۔ میں نے کچھ عرصہ لگا کر اس سے اس ہنر کے بارے میں کافی معلومات حاصل کرلی تھیں۔ میں جب شہزادی صاحبہ کا کمرہ بنانے لگا تو مجھے خیال آیا کہ مصر سے سیکھے ہوئے علم کو یہاں آزماؤں۔ میں نے اس کمرے کی بنیاد بہت ساری لوہے اور پیتل کی گراریوں پر رکھی اور ان کو کمرے سے باہر فرش میں لگی بڑی بڑی پکّی سلوں سے منسلک کر دیا۔ کوئی شخص اگر ان سلوں پر پاؤں رکھتا ہے تو کمرے کے نیچے لگی گراریاں حرکت کر کے کمرے کو تھوڑا سا گھما دیتی ہیں۔ کمرے کے باہر سپاہی چونکہ ہر وقت گشت میں مصروف رہتے ہیں اور اس گشت کے دوران ان کے قدم سلوں پر پڑتے رہتے ہیں اس لیے کمرہ بھی مسلسل حرکت کرتا رہتا ہے اور کھڑکی سے باہر کے مناظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے اچانک یہاں سے جانا پڑ گیا تھا ورنہ یہ باتیں میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتا‘‘۔
اس کی بات سن کر بادشاہ بہت متاثر ہوا۔ ’’شیر افگن تم واقعی بہت قابل اور ہنر مند ہو۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری رعایا میں تم جیسے لوگ بھی موجود ہیں۔ یہ سب تعلیم کا کمال ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے انسان کے دماغ میں بہت اچھے اچھے خیالات آتے ہیں اور ان خیالات کو عملی جامہ پہنا کر وہ پوری دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کر سکتا ہے‘‘۔
بادشاہ نے خوش ہو کر شیر افگن کو ڈھیر سارے انعام و اکرام سے نوازا۔
پھر اس نے شہزادی لیلیٰ کو بھی کمرے کی پوری تفصیل سے آگاہ کردیا۔ یہ تفصیل سن کر شہزادی کا خوف بھی دور ہو گیا اور وہ مزے سے باغ کے اس گھومنے والے کمرے میں رہنے لگی۔
یہاں پر ایک بات کا تذکرہ ضروری ہے۔ قابل اور اچھے لوگوں میں لالچ بالکل نہیں ہوتا۔ یہ ہی حال شیر افگن کا تھا۔ اسے جب بادشاہ کی طرف سے انعام ملا تو اس نے اس انعام کو خود اپنے پاس ہی نہیں رکھا۔ اس نے اس انعام میں سے ان تمام لوگوں کو بھی اپنی طرف سے حصہ دیا جنہوں نے شہزادی لیلیٰ کا کمرہ بنانے میں اس کی مدد کی تھی۔ وہ سب لوگ بھی خوش ہوگئے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.