جادو کا تماشہ
ایک دن بیٹھے بٹھائے گلو میاں کو جانے کیا سوجھی کہ وہ ضد کرنے لگے کہ ان کی سالگرہ منائی جائے۔ انہوں نے یا تو کسی ٹی وی کے ڈرامے میں کسی بچے کی سالگرہ ہوتے دیکھ لی تھی اور یا پھر رات خواب ہی میں کسی کی سالگرہ میں شرکت کرلی تھی۔
بہرحال وجہ خواہ کچھ بھی رہی ہو، انہوں نے تو بس اپنی امی کا پیچھا ہی لے لیا تھا۔ صبح سے ریں ریں کرتے ان کے پیچھے پھر رہے تھے۔ رٹ بس یہ ہی تھی کہ بہت سارے مہمانوں کو بلوا کر اور گھر کو رنگ برنگے غباروں سے سجا کر ان سے کیک کٹوایا جائے۔
ان کی امی ان کے اس مستقل تقاضے سے بری طرح تنگ آگئی تھیں۔ انہوں نے گلو میاں کو پیار سے سمجھایا، آنکھیں بھی دکھائیں۔ ان کو بہلانے کے لیے ٹافیوں کا بھی لالچ دیا مگر نتیجہ وہ ہی کہ ان کی سالگرہ منائی جائے۔
ان کی سالگرہ تو خیر ہر سال ہی منائی جاتی تھی اور وہ بھی بڑی دھوم دھام سے۔ مگر قصہ یہ تھا کہ وہ مئی میں پیدا ہوئے تھے اور سالگرہ منانے کی ضد کر رہے تھے مارچ میں۔ ان کی امی نے انھیں بہت سمجھایا کہ جو بچہ مئی میں پیدا ہوتا ہے اس کی سالگرہ مارچ میں نہیں منا سکتے۔
مگر گلو میاں صرف تین سال اور دس ماہ کے تھے۔ ان کی سمجھ میں مارچ اور مئی کا مسلہ آ ہی نہیں سکا۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ امی کا کوئی بہانہ ہے، اس لیے انہوں نے باقائدہ رونا دھونا شروع کردیا۔ امی نے بڑی مشکلوں سے انھیں چپ کرایا اور پھر کسی نہ کسی طرح سلا دیا۔
دوپہر کو گلو میاں کا بارہ سالہ بھائی انور اسکول سے آیا تو امی نے ان کی ضد کے بارے میں انور کو بتایا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گلو میاں کی معصومانہ حماقت پر ہنستی بھی جا رہی تھیں۔ انور خود ایسی تقریبات کو بہت پسند کرتا تھا۔ اس نے اپنی امی سے کہا۔ ’’ تو امی اس میں حرج ہی کیا ہے۔ گلو میاں کی سالگرہ دو ماہ بعد نہ سہی، دو ماہ پہلے ہی سہی‘‘۔
مگر امی انور کی بات سے متفق نہ ہوسکیں۔ گلو میاں جب سو کر اٹھے تو امی کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کہ سلسلہ پھر وہیں سے جڑا ہوا تھا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ ’’میری سالگرہ۔ میری سالگرہ‘‘۔
ابا جان کے دفتر سے آنے تک یہ ضد وقفے وقفے سے برابر جاری رہی۔ ابا جان کو جب سارا ماجرہ سنایا گیا تو انہوں نے سارے دن کا جھگڑا ایک لمحے میں نمٹا دیا۔ انہوں نے کہا۔ ’’پرسوں جمعہ کا دن ہے۔ کل ہم کارڈوں کا اور دوسری اشیا کا انتظام کرلیتے ہیں۔ پرسوں بعد نماز جمعہ گلو میاں کی سالگرہ منائی جائے گی‘‘۔
گلو میاں تو اس فیصلے سے بہت خوش ہوگئے تھے۔ انہوں نے اپنے ابا جان کے گلے میں بانہیں ڈالدیں۔ ان کی امی کو تھوڑا سا غصہ آگیا تھا۔ انہوں گلو میاں کی ضد اور ہٹ دھرمی کا سارا الزام ان کے ابا جان کے سر پر ڈالا اور کمرے سے چلی گئیں۔
بہرحال جمعہ کے روز بڑی دھوم دھام سے گلو میاں کی سالگرہ منائی گئی۔ مہمانوں کو کارڈ ان کے ابا اور انور گھر گھر دے کر آئے تھے۔ بڑی تعداد میں مہمانوں نے شرکت کی جو ان کے لیے تحفے تحائف بھی ساتھ لے کر آئے تھے۔ یہ بڑا سا کیک کاٹا گیا۔ اس زبردستی کی سالگرہ میں بہت ہلہ گلہ ہوا اور سب نے خوب لطف اٹھایا۔
تقریب کے اختتام پر دور رہنے والے مہمان تو اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ چند رشتے دار جن کے گھر قریب میں ہی تھے وہ موجود رہے۔ گلو میاں کافی مگن تھے اور گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے پورے گھر میں گھومتے پھر رہے تھے۔
مہمان ڈرائنگ روم میں ابّا جان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ سردی کی شدّت میں اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے سب لوگ گرم گرم چائے کا انتظار کررہے تھے۔
چائے آئ، سب لوگ باتوں کے دوران چائے سے لطف اندوز ہونے لگے۔ اچانک گلو میاں کی امی کی نظریں ٹی وی کے پیچھے پڑے گلدان کے ٹکڑوں پر پڑیں۔ یہ گلدان بے حد قیمتی تھا اور اس کو ان کے بھائی جاپان سے لے کر آئے تھے۔ وہ لپک کر اٹھیں، ان ٹکڑوں کو سمیٹا اور اپنے شوہر سے اس کے ٹوٹنے کی شکا یت کی۔
ان کے شوہر جانتے تھے کہ ان کو یہ گلدان بے حد عزیز تھا۔ انہوں نے بھی اس پر اظہار افسوس کیا۔ گلو میاں کی امی کے چہرے پر ملال کے آثار تھے۔ اتنی دیر میں انور بھی وہاں پر آگیا۔ اس نے بھی ٹوٹے ہوئے گلدان کے ٹکڑے دیکھ لیے تھے۔ وہ بولا۔ ’’یہ کیسے ٹوٹا امی جان؟‘‘۔
امی جان کو تو خود پتہ نہیں تھا کہ یہ کیسے ٹوٹا تھا، اس لیے وہ خاموش رہیں۔
انور نے کہا۔ ’’امی جان ایسا معلوم دیتا ہے کہ آپ کو اس کے ٹوٹ جانے کا بہت رنج ہے‘‘۔
’’میں رنج کیوں نہ کروں؟ یہ تمہارے ماموں جان نے لا کر دیا تھا۔ میں تو اس کو بہت سنبھال کر رکھتی تھی‘‘۔ اس کی امی نے اداسی سے کہا۔
’’اگر آپ اسے سنبھال کر رکھتیں تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی‘‘۔ انور نے مسکرا کر کہا۔
دوسروں کے ساتھ اس کی امی بھی ہنسنے لگیں۔ انور پھر بولا۔’’خیر آپ فکر نہ کریں۔ میں نے ایک ایسی ترکیب سیکھ لی ہے جس سے یہ گلدان بالکل پہلے والے گلدان جیسا ہو جائے گا‘‘۔
’’اب تم مجھ سے مذاق کرنے کی کوشش مت کرو انور‘‘۔ اس کی امی نے کہا۔ دوسرے لوگ بھی پھر سے باتوں میں مشغول ہوجانے کی کوشش کر رہے تھے کہ انور نے پھر کہا۔ ’’امی جان میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے گلدان کے ٹکڑے اپنی امی کے ہاتھوں سے لے لیے۔
’’آپ انور کو سمجھاتے کیوں نہیں ہیں‘‘۔ انور کی امی نے اس کے ابا سے کہا۔
’’گر انور گلدان کو توڑنے کے بارے میں کہتا تو میں اسے ضرور سمجھاتا مگر اس وقت تو یہ گلدان کو جوڑنے کی بات کر رہا ہے۔ میں اسے کیوں سمجھاؤں؟‘‘۔ انور کے ابا نے مسکرا کر کہا۔
’’آپ بھی میرا مذاق اڑا لیجیے‘‘۔ انور کی امی نے انھیں شکایتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
انور نے اتنی دیر میں گلدان کے ٹکڑوں کو کمرے میں پڑی کوڑے کی ٹوکری میں ڈالدیا۔ پھر اس نے ایک کپڑا ٹوکری پر ڈالا اور کہا۔’’آپ سب کو شائد میری بات جھوٹ لگ رہی ہو گی۔ مگر تھوڑی دیر بعد جب آپ ایک ثابت گلدان دیکھیں گے تو عش عش کر اٹھیں گے‘‘۔
انور کے ماموں بھی اس محفل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ وہ ہی والے ماموں تھے جو اس گلدان کو جاپان سے لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بڑے غور سے انور کی بات سنی تھی ۔ پھر انہوں نے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’انور بیٹے۔ یہ ناممکن بات ہے۔ سائنس بھی اس بات کی نفی کرتی ہے۔ ایک دفعہ اس طرح کی کسی چیز کے اجزا بکھر جائیں تو وہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آسکتے‘‘۔
انور یہ سن کر بھی اپنی بات پر اڑا رہا۔ بولا۔’’ماموں جان۔ ابھی میں جادو کے الفاظ پڑھوں گا اور گلدان اس ٹوکری میں سے بالکل صحیح سالم اور ثابت شکل میں نکل آئے گا‘‘۔
انور کے لہجے میں کچھ ایسی بات تھی کہ وہاں پر موجود تمام لوگ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے۔
’’اگر تم جادوگری کا دعویٰ کر رہے ہو تو اس ٹوکری میں سے ثابت گلدان نکالنے کی صورت میں میں تم کو پانچ سو روپے انعام میں دوں گا‘‘۔ انور کے ماموں نے مسکرا کر کہا۔
’’ماموں جان میں جادوگری کا دعویٰ نہیں کر رہا ہوں۔ اسے آپ میرے ہاتھ کی صفائی کہہ سکتے ہیں‘‘۔ انور نے کہا۔
پھر وہ آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر ٹوکری پر پڑے کپڑے میں ہاتھ ڈالا۔ پھر یہ دیکھ کر وہاں پر موجود سب لوگ دنگ رہ گئے کہ اس کے ہاتھ میں ثابت و سالم گلدان موجود تھا۔
اس کی امی جھپٹ کر آگے بڑھیں۔ انور کے ہاتھ سے گلدان لیا اور اسے چاروں طرف سے گھما کر دیکھنے لگیں پھر ان کے منہ سے نکلا۔ ’’کمال ہے۔ یہ تو وہ ہی گلدان ہے!‘‘
انور فخریہ نگاہوں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے ماموں خود بے حد حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ انہوں نے تھوک نگل کر جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر انور کو دیا اور خود انور کی امی سے وہ گلدان لے کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔
انور کے ابا جان کو خود بڑی حیرت تھی کہ انور نے وہ ٹوٹا ہوا گلدان کیسے جوڑ دیا تھا۔ ابھی وہ انور سے اس سلسلے میں کچھ پوچھنا ہی چاہ رہے تھے کہ انور کی ممانی کمرے میں داخل ہوئیں۔
انور کے ماموں بیوی کو دیکھ کر بڑے جوش سے انھیں انور کے جادو کے تماشے کے بارے میں بتانے لگے۔
ان کی بات سن کر انور کی ممانی کو ذرا سا بھی یقین نہیں آیا۔ وہ بولیں۔ ’’اگر ایسا ہونے لگا تو کانچ کے برتنوں کی انڈسٹری ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔ ادھر برتن ٹوٹیں گے ادھر جادو سے جڑ جائیں گے‘‘۔
ان کی اس بات پر انور کی امی نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ انور کے ماموں غصے میں آگئے۔ انہوں نے ناراضگی سے کہا۔’’بیگم تمہیں میری بات پر یقین نہیں آیا ہے نا۔ لو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو‘‘۔
یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلدان کو زمین پر دے مارا۔ گلدان ٹوٹ گیا اور اس کے ٹکڑے قالین پر پھیل گئے۔ ’’لو میاں انور۔ اب تم اپنی ممانی کو دکھا دو کہ تم ٹوٹا ہوا گلدان جوڑ سکتے ہو‘‘۔ انہوں نے کہا۔
انور بوکھلا کر کھڑا ہوگیا۔ ماموں کے دیے ہوئے روپے اس نے جیب میں رکھے اور بولا۔ ’’ماموں جان اب یہ گلدان دوبارہ نہیں جڑ سکتا‘‘۔
’’کیوں؟ کیا اس سے پہلے تم ایسا نہیں کر چکے ہو؟‘‘۔ ماموں جان حیرت سے بولے۔
’’وہ تو میں ہاتھ کی صفائی دکھا رہا تھا‘‘۔ انور نے بے بسی سے کہا۔
’’تو اب بھی ہاتھ کی صفائی دکھا دو۔ اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘۔ ماموں جان نے کہا۔
انور خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا پھر بولا۔ ’’ماموں جان۔ آج دوپہر کو جب میں گھر آرہا تھا تو میں نے راستے میں ایک گلدان کے ٹکڑے پڑے دیکھے۔ اس گلدان کے ٹکڑے بالکل اس گلدان جیسے تھے جیسا کہ آپ امی کے لیے لے کر آئے تھے۔ اس ٹوٹے ہوئے گلدان کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک ترکیب آئ۔ میں نے سوچا کہ گلو میاں کی سالگرہ پر سب کو ایک تماشہ دکھاؤں گا۔ میں نے وہ ٹکڑے اٹھا لیے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ان ٹکڑوں کو ٹی وی کے پیچھے ڈالدیا اور اصلی والے گلدان کو کوڑے کی باسکٹ میں چھپا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ سب کچھ آپ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی چکے ہیں‘‘۔
انور کی بات ختم ہوئی تو سب نے ایک قہقہہ لگایا۔ اس کے ماموں شرمندہ شرمندہ سے نظر آرہے تھے جبکہ انور کی امی کچھ غصے میں نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے انور سے مخاطب ہو کر کہا۔’’انور ٹھیک ہے۔ تم سب کو جادو کا تماشہ دکھا چکے تھے۔ مگر جس وقت بھائی جان گلدان توڑ رہے تھے تو تم نے انھیں روکا کیوں نہیں ؟۔ میرا پیارا گلدان تو ضائع ہوگیا نا‘‘۔
’’امی‘‘۔ انور نے منہ بسورنے کی اداکاری کی۔’’آپ انھیں تو کچھ نہیں کہہ رہی ہیں جنہوں نے گلدان توڑا ہے۔ مجھ پر ہی غصہ کر رہی ہیں۔ اس میں میرا کیا قصور ہے؟‘‘۔
انور نے یہ بات کچھ ایسے انداز میں کی تھی کہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اس کی امی کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.