Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جادو کی چھڑی

مختار احمد

جادو کی چھڑی

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک گاؤں تھا۔ اس گاؤں کے تمام لوگ سیدھے سادھے تھے مگر بے چارے تھے بہت غریب۔ان کی غربت کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ کاہل اور آرام پسند تھے اور اپنا اپنا کام محنت اور دل لگا کر نہیں کرتے تھے۔ دل چاہا تو کام پر چلے گئے، نہ چاہا تو نہ گئے۔ انھیں گاؤں کے چوپال میں درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں بھی بہت مزہ آتا تھا۔ کام سے زیادہ ان کا دل میلوں ٹھیلوں میں لگتا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کی ان عادتوں کی وجہ سے انھیں محنت مزدوری کے زیادہ پیسے بھی نہیں ملتے تھے۔

    اسی گاؤں میں رحمت نامی ایک بہت ہی امیر آدمی بھی رہتا تھا۔ اس کی ایک بڑی سی حویلی تھی اور اس کے بہت سے نوکر چاکر بھی تھے۔ اس حویلی میں وہ اپنی بیوی اور ایک بیٹے کے ساتھ بڑے ٹھاٹ سے رہتا تھا۔

    وہ نہایت لالچی، مکار اور خود غرض انسان تھا۔ اس کے پاس بہت ساری زمینیں تھیں مگر وہ ان پر کھیتی باڑی نہیں کرتا تھا۔ اب ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ کھیتی باڑی بھی نہیں کرتا تھا تو اس کے پاس اتنی دولت کیسے آگئی تھی کہ وہ گاؤں کا سب سے امیر کبیر شخص بن گیا۔

    اس کی ایک وجہ تھی۔ وہ گاؤں کے غریب ضرورت مند لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتا تھا۔ فرض کرو اس نے کسی کو پانچ سو روپے ادھار دئیے۔ ان پانچ سو روپوں پر وہ ہر ماہ ان سے اتنا زیادہ سود لیتا تھا کہ اصل رقم جوں کی توں رہتی تھی اور قرض دار بے چارے پوری عمر سود ہی چکاتے رہتے تھے۔ سود کو تو الله نے حرام قرار دیا ہے مگر اس کے باوجود وہ یہ کام کرتا تھا اور ایک مقررہ مدت کے بعد اسے سود کی شکل میں بہت سارے روپے مل جاتے تھے۔ جو لوگ اس کو سود کی رقم دینے میں ناکام رہتے، انھیں اس کے کارندے ہنٹر وں سے پیٹا کرتے تھے۔ گاؤں میں کوئی شخص بھی اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا کیوں کہ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے وہ لوگ بہت پریشان تھے۔

    ایک روز کا ذکر ہے۔ تیز بارش کی وجہ سے ہر طرف جل تھل ایک ہوگیا تھا۔ کئی دن سے جاری بارش تھوڑی دیر کے لیے رک گئی تھی۔ ایسے میں ایک چھوٹا سا بونا بھیگتا بھاگتا، اپنے چھوٹے سے خوبصورت گھوڑے پر سوار اس گاؤں میں داخل ہوا۔ اس کے جسم پر سرخ قمیض، نیلا پاجامہ، پیلے رنگ کی لمبوتری ٹوپی اور پیروں میں نوکیلے رنگ برنگے لانگ شوز تھے۔ اس نے سوچا جب تک بارشوں کا موسم ختم نہیں ہوجاتا وہ کسی سرائے میں ٹہر جائے گا۔ اسے اپنے گھر جانا تھا جو بہت دور پرستان میں تھا اور بارشوں میں سفر کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ وہ کسی سرائے کی تلاش میں ادھر ادھر پھرنے لگا۔

    اچانک ایک جگہ اس نے بہت سارے لوگوں کا جمگھٹا دیکھا۔ شاید وہ گاؤں کی چوپال تھی۔ بہت سارے لوگ ایک گھیرے کی شکل میں وہاں کھڑے تھے۔ بونا بھی حال احوال معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے دیکھا رحمت کے کارندوں نے چند غریب گاؤں والوں کو پکڑ رکھا ہے اور انھیں ہنٹروں سے خوب مار رہے ہیں۔ وہ غریب چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہے تھے کہ ان پر یہ ظلم نہ کیا جائے مگر مارنے والوں پر ان کی دہائیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ رحمت بھی اپنے چار پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ وہاں موجود تھا اور یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔

    بونا یہ منظر دیکھ کر فوراً اپنے گھوڑے سے اترا اور بھیڑ کو چیرتا ہوا رحمت کے قریب پہنچ گیا۔ رحمت نے اسے دیکھا تو بولا۔ ’’او بونے تو یہاں کیا لینے آیا ہے۔ یہاں سے چلا جا ورنہ لوگوں کے پاؤں تلے کچل کر مارا جائے گا‘‘۔

    ’’تم ان غریبوں پر کیوں ظلم کر رہے ہو؟‘‘۔ بونے نے اپنی باریک مگر تیز آواز میں پوچھا۔

    ’’تو اپنی راہ لے۔ تجھے اس سے کیا۔ یہ لوگ میرے مقروض ہیں اور اصل رقم تو ایک طرف رہی، سود کے پیسے بھی نہیں دے رہے اسی لیے میرے ملازم انہیں سزا دے رہے ہیں۔ تو نے اگر میرے کام میں مداخلت کی تو اپنے آدمیوں سے کہہ کر تیری بھی پٹائی لگوا دوں گا‘‘۔ اس رئیس آدمی نے بڑی رعونت سے کہا۔

    یہ سن کر بونا مسکرایا اور بولا۔ ’’تم مجھے نہیں جانتے۔ اگر جانتے ہوتے تو ایسی بات نہ کرتے‘‘۔

    رحمت نے کہا۔ ’’کیوں نہیں جانتا۔ تم بالشت بھر کے ایک بونے ہو۔ میں چاہوں تو تمہیں یہیں کھڑے کھڑے کانوں سے پکڑ کر پھینکوں تو سیدھے دریا میں جا گرو‘‘۔

    اس کی بات ختم ہوئی تو بونے نے اپنی کمر میں بندھی چھوٹی سی چھڑی نکالی اور اس سے رحمت کے چار پانچ سال کے بیٹے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بچہ فضا میں بلند ہوا اور زمین سے کچھ اوپر جا کر ہوا میں معلق ہوگیا۔ اس اچانک افتاد سے بچہ خوفزدہ ہوگیا تھا اور مارے ڈر کے زور زور سے رونے لگا۔

    رحمت نے یہ منظر دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ زور سے چلایا۔ ’’بدمعاش بونے۔ تو تو مجھے کوئی جادوگر معلوم دیتا ہے۔ میرے بیٹے کو نیچے اتار دے ورنہ بہت برا حشر کروں گا‘‘۔

    یہ کہہ کر اس نے اپنے کارندوں کو اشارہ کیا۔ اس کے کارندوں کے دل پر بونے کی دہشت سوار ہوگئی تھی، وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے ہنٹر بھی زمین پر پھینک دئیے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’یہ بونا کوئی جادوگر ہے۔ ہم تمھارے کہنے سے اس پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ اس نے غصے میں آکر ہمیں کتا بلی بنا دیا تو ہم کیا کریں گے۔ اس گاؤں کے بچے بہت بدمعاش ہیں، کتے بلیوں کو دیکھ لیں تو انھیں پتھر مارنے لگ جاتے ہیں۔؟‘‘

    ’’ٹھیک ہے حرام خورو میں ہی اس کا کچھ انتظام کرتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر رحمت بونے پر جھپٹا۔ مگر یہ کیا؟ ابھی وہ اس کے نزدیک بھی نہیں پہنچا تھا کہ بونے نےچھڑی کا رخ اس کی طرف کر کے اسے ہلکے سے گھمایا۔ رحمت کسی غبارے کی مانند فضا میں بلند ہوا اور اپنے بیٹے کے نزدیک جا کر رک گیا۔ اس کا بیٹا اس سے چمٹ گیا اور پہلے سے بھی زیادہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔

    آس پاس کھڑے لوگوں نے انھیں زمین سے اتنی بلندی پر دیکھا تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیرت سے انھیں دیکھنے لگے۔ انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ بونا کوئی جادوگر ہے اور اس ظالم اور لالچی انسان کو سزا دینے کے لیے اس نے یہ سب کچھ کیا ہے۔

    بونے نے اپنے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے کہا۔ ’’او لالچی انسان۔ اب تو یوں ہی اوپر ٹنگا رہے۔ تو نے اس گاؤں کے مجبور اور بے کس لوگوں پر بڑا ظلم کیا ہے۔ تیری یہ ہی سزا ہے۔ میں تو اب چلتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں بارش شروع ہوجائے گی۔ مزے سے اس کا لطف اٹھانا‘‘۔

    رحمت نے جو یہ سنا تو وہ گڑگڑانے لگا۔ ’’اچھے بونے۔ تم شکل و صورت سے تو ایک نیک دل بونے لگتے ہو۔ پھر مجھ پر اتنا ظلم کیوں کر رہے ہو۔ ٹھنڈ بہت ہے اگر بارش بھی شروع ہوگئی تو میرا اور میرے بیٹے کا برا حال ہوجائے گا‘‘۔

    ’’یہ ظلم نہیں تمھارے کیے کی سزا ہے۔ تم نے تھوڑی تھوڑی رقمیں قرضہ دے کر زندگی بھر کے لیے گاؤں کے بہت سے معصوم لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔ وہ قرضے سے کہیں زیادہ رقم تمہیں سود کی شکل میں دے چکے ہیں مگر تم ان کی جان ہی نہیں چھوڑ رہے۔ تمہارا بچہ تو چھوٹا اور معصوم ہے اس لیے میں اسے نیچے اتار دیتا ہوں مگر تم یوں ہی لٹکے رہو گے‘‘۔

    بونے نے یہ کہہ کر اپنی جادو کی چھڑی کو پھر حرکت دی اور پھر رحمت کا بیٹا دھیرے دھیرے زمین کی طرف آنے لگا۔ اس کے پاؤں زمین سے لگے تو وہ ’’امی امی‘‘کہتا ہوا سیدھا اپنی حویلی کی طرف بھاگ گیا۔ رحمت فضا میں معلق بے بسی سے بونے کو دیکھے جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ ’’مجھے نیچے اتار دو۔ میں تمہیں اتنی دولت دوں گا کہ تم زندگی بھر عیش کرو گے‘‘۔

    ’’مجھے ایسی دولت نہیں چاہیے جو تم نے غریبوں کا خون چوس کر اور ان کی بددعایں لے لے کر جمع کی ہے۔ تم بہت لالچی ہو اور گاؤں کے ضرورت مندوں کو سود پر قرض دے کر ان سے اتنا زیادہ سود لیتے ہو کہ اصل رقم زندگی بھر جوں کی توں رہتی ہے اور وہ اس کا سود اتارتے اتارتے ہی ہلکان ہوجاتے ہیں۔ اپنی غربت کی وجہ سے جب وہ تمہیں رقم نہیں دیتے ہیں تو تم اپنے بدمعاش ملازموں سے ان کو سزا دلواتے ہو‘‘۔ یہ کہتے کہتے بونے نے زمین پر پڑے ہنٹروں کی طرف دیکھا اور چھڑی سے اشارہ کیا۔ سارے ہنٹر زمین پر سے اٹھے اور رحمت کے ان کارندوں پر برسنے لگے جو کچھ دیر پہلے غریب اور بے قصور لوگوں کو مار رہے تھے۔ ان کی دردناک چیخیں فضا میں بلند ہونیں لگیں۔ قریب کھڑے لوگ حیرت بھری نظروں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے وہ بہت خوش تھے اور بونے کو دعائیں دے رہے تھے۔

    جب ہنٹروں سے مار کھا کھا کر وہ لوگ ادھ موئے ہوگئے تو ہنٹروں نے رحمت کی طرف رخ کرلیا اور اوپر جاکر اس کی پٹائی شروع کردی۔ رحمت نے تو زندگی میں کبھی مار کھائی نہیں تھی، اب جو اس کی اتنی پٹائی ہوئی تو وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔ سارے گاؤں والے اس کی یہ حالت دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے۔

    اتنے میں رحمت کی بیوی بھاگتی ہوئی آئی اور بونے کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔ ’’خدا کے لیے میرے شوہر پر اتنا ظلم مت کرو۔ اسے کچھ ہوگیا تو پھر گاؤں کے غریب لوگوں کو قرض کون دے گا؟‘‘۔

    ’’اچھا ہی ہے اسے کچھ ہوجائے۔ ویسے بھی قرض لینا کوئی اچھا کام تو نہیں۔ میں پرستان میں رہتا ہوں۔ وہاں کے لوگ دوسروں سے قرضہ لینے کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ وہ اتنی محنت سے اپنا کام کرتے ہیں کہ انھیں ان کی محنت کے خوب پیسے ملتے ہیں۔ اس گاؤں میں جب کوئی قرضہ دینے والا نہ ہوگا تو لوگوں کو اس طریقے سے رقم حاصل کرنے کی امید بھی نہیں ہوگی اس لیے وہ اور زیادہ محنت کرکے زیادہ پیسے کمانے لگیں گے۔ جب انھیں احساس ہوگا کہ پیسہ بہت محنت سے کمایا جاتاہے تو وہ فضول خرچیوں سے بھی بچیں گے۔ غیر ضروری رسموں اور تقریبوں پر بھی پیسہ ضائع نہیں کریں گے تاکہ محنت سے حاصل کیے ہوئے ان کے پیسے جائز کاموں کے لیے محفوظ رہیں اور وقت پڑنے پر انھیں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے‘‘۔

    گاؤں کے وہ لوگ جنہوں نے رحمت سے سود پر رقم قرض لی تھی یہ سن کر شرمندہ ہوگئے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ اگر وہ بے کار بیٹھ کر وقت ضائع نہ کرتے اور مسلسل محنت میں لگے رہتے تو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انھیں قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ انہوں نے اپنے دلوں میں عہد کرلیا کہ اب وہ خوب محنت سے اپنی روزی کمایا کریں گے اور زندگی میں کبھی بھی قرض نہیں لیں گے۔

    رحمت کی بیوی بڑی بے بسی سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ رحمت نے گڑگڑا کر کہا۔ ’’مجھے اس مصیبت سے چھٹکارا دلا دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ گاؤں والوں کی وہ ساری رقم جو میں نے اب تک سود کے طور پر لی ہے انھیں واپس کردوں گا۔ میں ان کا قرضہ بھی معاف کردوں گا اور اگر انھیں کبھی رقم کی ضرورت پڑی تو انھیں قرضہ نہیں بلکہ ادھار دے دیا کروں گا اور اس پر ذرا سا بھی سود نہیں لوں گا۔ اب مجھے یاد آگیا ہے کہ سود حرام ہوتا ہے۔ میرے پاس بہت ساری زمینیں ہیں۔ اب میں یہ سود والا کام چھوڑ کر کھیتی باڑی کرکے حلال روزی کمایا کروں گا‘‘۔

    بونے نے جب دیکھا کہ وہ ظالم اور لالچی آدمی راہ راست پر آگیا ہے تو اس نے اسے اپنی جادو کی چھڑی کے اشارے سے واپس زمین پر اتار لیا۔ رحمت اسی وقت بھاگا بھاگا گھر گیا اور ان تمام لوگوں کے پیسے جو اس نے ناجائز طریقے سے لیے تھے انھیں واپس کردئیے۔

    گاؤں والے خوش تھے۔ انہوں نے بونے کا شکریہ ادا کیا۔ گاؤں میں ایک چھوٹی سی صاف ستھری خوبصورت سرائے تھی۔ بونا اس سرائے میں چلا گیا۔ جب بارشوں کا موسم ختم ہوگیا تو بونا بھی گاؤں والوں کو خدا حافظ کہہ کر پرستان روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا گھر تھا۔ اس کے جانے سے سب گاؤں والے اداس ہوگئے تھے۔

    وہ دن اور آج کا دن، اس گاؤں کے کسی آدمی نے اپنی ضروریات کے لیے کبھی کسی سے قرضہ نہیں لیا۔ وہ لوگ زیادہ محنت سے اپنا کام کاج کرنے لگے تھے۔ اس کی وجہ سے انھیں زیادہ پیسے ملتے تھے جس سے وہ لوگ خوش حال ہوگئے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے