جادو کی گیند
مختار احمد
شہزادی نازیہ نے ایک روز بادشاہ سے کہا کہ وہ کہیں سیر کرنے جانا چاہتی ہے۔ بادشاہ کو امور مملکت سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔ وہ بہت مصروف رہتا تھا۔ اس نے شہزادی نازیہ سے کہا- “شہزادی۔ آج کل تو ہم بہت مصروف ہیں، جیسے ہی موقع ملے گا ہم آپ کو پہاڑوں، دریا اور جنگل کی سیر کے لیے لے جائیں گے”۔
شہزادی نازیہ ابھی صرف آٹھ برس ہی کی تھی مگر تھی بہت سمجھدار۔ بادشاہ کی بات سن کر وہ بولی- “کوئی بات نہیں ابّا حضور۔ جب آپ کو فرصت ملے اور جب آپ مناسب سمجھیں ہمیں لے جائیے گا۔ ہم دریا کے کنارے سے چھوٹے چھوٹے گول گول پتھر بھی جمع کریں گے، وہ ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں”۔
اسے پتہ تھا کہ اس کے ابّا جان اپنے کاموں میں بہت مصروف رہتے ہیں اور ان کو ذرا سی بھی فرصت نہیں ملتی۔ اسی لیے اس نے اچھے بچوں کی طرح بالکل بھی ضد نہیں کی اور اپنے دوسرے مشاغل میں لگ گئی۔
اسے پڑھنے لکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ اس کے اتالیق اس کو جو سبق بھی پڑھاتے تھے، وہ دھیان سے سمجھ کر پڑھتی تھی اور اسے خوب اچھی طرح یاد کر کے ان کو سناتی تھی۔ اس کے اتالیق اس سے بہت خوش تھے اور اس کو خوب شاباش دیا کرتے تھے۔
اس کو ایک اور بھی شوق تھا اور وہ شوق تھا کہانی سننے کا۔ وہ روز رات کو سوتے وقت ملکہ سے کہانی سنتی تھی۔ ملکہ نے اسے وہ تمام کہانیاں سنا دی تھیں جو اس نے بچپن میں اپنی ماں سے سنی تھیں۔ شہزادی کہانیاں سنتے ہوۓ مختلف سوالات بھی کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے اس کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ اسے پودنے اور پودنی کی کہانی بہت اچھی لگتی تھی۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ وقت آ ہی گیا جب بادشاہ کے پاس فرصت ہی فرصت تھی۔ بہت سارے درباریوں کو ضروری کام پڑ گئے تھے، انہوں نے چھٹی کی درخواستیں جمع کروا دیں۔ وزیر کی بیٹے کی شادی تھی، وہ وہاں مصروف ہوگیا تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور شہزادی نازیہ کو اپنے ساتھ گھمانے پھرانے لے جائے۔ بادشاہ تو چاہتا تھا کہ ملکہ بھی ان کے ساتھ چلے، مگر اس دوران اس کی ماں اپنے ملک سے اس سے ملنے کے لیے آگئی تھی اس وجہ سے ملکہ ان کے ساتھ نہیں جاستی تھی۔
جب یہ طے ہوگیا کہ گھومنے پھرنے کب جانا ہے تو بادشاہ نے تیاری کا حکم دے دیا۔ ساری تیاریاں جلد ہی مکمل ہوگئیں۔ اگلے روز انھیں سفر پر نکلنا تھا۔ شہزادی نازیہ بہت خوش خوش پھر رہی تھی اور ہر ایک کو بتا رہی تھی کہ کل وہ دریا، پہاڑ اور جنگل تفریح کرنے جائے گی۔ جب اسے ملکہ نظر آئ تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچی۔ “امی حضور۔ آپ وہ بات بھولیں تو نہیں؟”۔ اس نے پوچھا۔
ملکہ نے حیرانی سے کہا “کونسی بات؟”۔
“یہ ہی کہ کل ہم ابّا حضور کے ساتھ گھومنے پھرنے جائیں گے”۔ شہزادی نازیہ نے بتایا-
ملکہ کو ہنسی آگئی بولی ۔ “ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ شہزادی صبح سے اب تک یہ بات آپ ہمیں دس مرتبہ سے زیادہ بتا چکی ہیں”۔
“ہم یہ بات بار بار آپ کو اس لیے بتا رہے ہیں کہ کہیں آپ بھول نہ جائیں”۔ شہزادی نے اٹھلا کر کہا۔ ملکہ اس کی خوشی محسوس کرکے مسکرانے لگی۔
اگلے روز وہ لوگ دریا پر پہنچے۔ دریا کے نزدیک پہاڑ بھی تھے اور جنگل بھی۔ شہزادی نازیہ ادھر سے ادھر بھاگتی دوڑتی پھر رہی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ بادشاہ اپنے خیمے کے باہر بیٹھا اپنی شہزادی کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا بچے کسی کے بھی ہوں، بادشاہ کے ہوں یا عام آدمی کے، سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دل سے خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں، نہ کسی کے متعلق برا سوچتے ہیں، نہ کسی کا برا چاہتے ہیں۔ لیکن بڑے ہو کر ان ہی بچوں میں سے اکثر کی یہ سوچ بدل جاتی ہے، جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لیتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ وہ ہی بچے جو بچپن میں اتنے نیک دل اور معصوم ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر بڑے ہو کر برائیوں کی طرف کیوں مائل ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا بادشاہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ اس کا جواب وہ اپنے وزیر سے اس وقت معلوم کرے گا جب وہ اپنے بیٹے کی شادی سے فارغ ہو کر دربار میں حاضر ہوگا۔
بادشاہ کے ساتھ آئے ہوۓ خادم دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگے ہوۓ تھے۔ انہوں نے گیلی مٹی اور پتھروں کی مدد سے بڑے چولہے بنا لیے تھے اور ان پر دیگچیاں چڑھا کر مزے مزے کے کھانے پکا رہے تھے۔ فضا میں کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد شاہی باورچی نے اعلان کیا کہ کھانا تیار ہے۔ سب لوگ آجائیں۔
بادشاہ میں ایک بڑی اچھی بات تھی۔ جب وہ اپنے ساتھیوں اور خادموں کے ساتھ کہیں باہر نکلتا تھا تو دسترخوان پر ان سب کے ساتھ ہی کھانا کھاتا تھا۔ اس وقت بھی ایک بہت بڑا سا کپڑا بچھا کر کھانا اس پر چن دیا گیا تھا تاکہ سب لوگ بیٹھ کر ایک ساتھ کھانا کھا سکیں۔
شہزادی نازیہ کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوتی تھی۔ اس کی امی نے اسے بتا رکھا تھا کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے سے ہاتھوں پر لگے گندگی کے جراثیم صاف ہوجاتے ہیں اور کھانے کے ساتھ پیٹ میں پہنچ کر انسان کو بیمار نہیں کرتے۔
جب کھانا لگ جانے کا اعلان ہوا تو شہزادی بھاگ کر دریا کے کنارے ہاتھ دھونے گئی۔ کنیزیں اس کے پیچھے پیچھے تھیں۔ ہاتھ دھو کر جب وہ مڑی تو اس نے کچھ دور ایک بوڑھے شخص کو درخت سے ٹیک لگاے بیٹھے دیکھا۔ وہ بہت اداس نظر آرہا تھا۔ شہزادی نے سوچا کہ یہ کھانے کا وقت ہے مگر اس بوڑھے کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ دوڑ کر اس کے پاس گئی۔ کنیزیں بھی اس کے پیچھے لپکیں۔
اس بوڑھے کے قریب پہنچ کر پہلے تو شہزادی نے اسے سلام کیا پھر بولی ۔ “جناب۔ ہم سب کھانا کھانے جا رہے ہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھائیں تو ہمیں خوشی ہوگی”۔
بوڑھے کو بہت بھوک لگ رہی تھی۔ شہزادی کی بات سن کر وہ خوش ہوگیا اور اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ بادشاہ کے نزدیک پہنچ کر شہزادی نے کہا - “ابّا حضور۔ یہ بزرگ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے”۔
بادشاہ نے خوشدلی سے کہا۔ “ضرور۔ ضرور”۔ پھر اس نے اس بوڑھے شخص کو اپنی برابر میں بٹھایا۔ وہ شہزادی کی اس بات سے بہت خوش تھا کہ اس نے بغیر کسی کے کہے ایک بھوکے انسان کا خیال رکھا۔ بادشاہ نے دل ہی دل خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے دوسروں کا خیال رکھنے والی بیٹی عطا کی ہے۔
کھانے کے بعد سب کو نہایت خوشبودار اور خوش ذائقہ شربت پیش کیا گیا۔ جب سب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوگئے تو وہ بوڑھا شخص اٹھا۔ اس نے شہزادی سے کہا ۔ “جیتی رہو شہزادی۔ تم ایک بہت ہی نیک اور اچھے دل کی لڑکی ہو۔ تم نے شہزادی ہونے کے باوجود ایک غریب آدمی کو کھانے کی دعوت دی۔ خدا تمہیں خوش رکھے”۔
شہزادی نازیہ نے کہا۔ “محترم بزرگ۔ ہماری امی حضور نے ہمیں بتایا تھا کہ کسی کو کھانا کھلانا بہت ثواب کی بات ہوتی ہے۔ جیسی بھوک ہمیں لگتی ہے، ایسے ہی دوسروں کو بھی لگتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کھانے کا وقت ہوگیا ہے مگر آپ کے پاس کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے تو ہم آپ کے پاس گئے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے ہماری دعوت قبول کر لی تھی”۔
وہ بوڑھا شخص بہت خوش ہوا۔ اس نے شہزادی نازیہ کو بہت سی دعائیں دیں پھر اپنے لباس کی جیب سے اس نے ایک بڑی سی سنہری گیند نکالی اور شہزادی سے بولا ۔ “یہ تمہاری نیک دلی کا انعام ہے۔ اسے پا کر تم بہت خوش ہوجاؤ گی”۔ یہ کہہ کر اس نے وہ گیند شہزادی نازیہ کی طرف بڑھا دی۔
شہزادی نازیہ نے بادشاہ سے کہا ۔ “ابّا حضور۔ اگر اجازت ہو تو ہم یہ گیند لے لیں”۔
بادشاہ نے اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کا ہار نکال کر اس بوڑھے شخص کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔ “جی شہزادی۔ آپ یہ گیند بخوشی لے سکتی ہیں”۔
شہزادی نازیہ نے گیند لے لی، مگر بوڑھے شخص نے ہار نہیں لیا اور بادشاہ سے بولا۔ “شکریہ بادشاہ سلامت۔ مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ اتنی اچھی اور نیک بیٹی کے باپ ہیں”۔ یہ کہہ کر اس نے ایک تالی بجائی دوسرے ہی لمحے وہاں اس بوڑھے کی جگہ ایک حسین و جمیل پری کھڑی مسکرا رہی تھی۔ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے۔
پری نے کہا۔ “میں پرستان سے گھومنے پھرنے نکلی تھی۔ یہاں آپ لوگوں کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ آپ لوگوں کا امتحان لوں۔ ہم پریاں اکثر انسانوں کا امتحان لیتی رہتی ہیں پھر وہ جو کچھ ہمارے ساتھ کرتے ہیں، ہم پرستان جا کر اپنی ساتھی پریوں کو مزے لے لے کر سناتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ ایک بادشاہ ہونے کے باوجود غریب پرور ہیں۔ آپ کی شہزادی تو بہت ہی اچھی ہے”۔
شہزادی نازیہ پری کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بادشاہ کے پیچھے چھپ گئی اور چپکے چپکے مسکرانے لگی۔ اس کے بعد پری نے سب کو سلام کیا اور وہاں سے ایک سمت کو اڑ گئی۔
شہزادی وہ گیند پا کر بہت خوش تھی۔ اس نے اس کو احتیاط سے اپنے پاس رکھ لیا۔ وہ لوگ مزید کچھ دیر وہاں ٹہرے اس کے بعد بادشاہ نے واپس چلنے کا قصد کیا۔ ساتھ آئے ہوۓ خادموں نے سارا سامان لپیٹا اور انھیں گھوڑا گاڑیوں میں لادا اور پھر سب محل کی جانب روانہ ہوگئے۔
شہزادی نازیہ جلد سے جلد محل پہنچ کر وہ خوبصورت گیند ملکہ اور اپنی نانی ماں کو دکھانا چاہتی تھی۔ محل پہنچے تو وہ دوڑتی ہوئی ان دونوں کے پاس گئی۔ اس نے ملکہ اور اپنی نانی کو گیند دکھائی تو وہ سمجھیں کہ بادشاہ نے اسے گیند دلائی ہے مگر جب شہزادی نے انھیں پری والا قصہ سنایا تو وہ دونوں حیران رہ گئیں۔
رات ہوئی تو شہزادی نازیہ نے اس گیند کو احتیاط سے اپنے کمرے میں ایک میز پر رکھ دیا۔ بادشاہ دن بھر گھومنے پھرنے کی وجہ سے تھک گیا تھا اس لیے جلدی سو گیا۔ ملکہ اور اس کی ماں ایک دوسرے کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ملکہ کو کچھ یاد آیا وہ اپنی ماں سے بولی ۔ “امی جان۔ تھوڑی دیر کے لیے مجھے اجازت دیجیے۔ میں شہزادی کو کہانی سنا کر ابھی واپس آتی ہوں۔ وہ اس وقت تک نہیں سوتی جب تک کہانی نہ سن لے”۔
جب ملکہ شہزادی کے کمرے میں آئ تو وہ بستر پر لیٹی میز پر رکھی گیند کو تک رہی تھی۔ ملکہ کو دیکھا تو بولی۔ “امی حضور۔ دیکھیے کتنی پیاری گیند ہے۔ وہ پری کتنی اچھی تھی جس نے ہمیں انعام میں اتنی اچھی گیند دی”۔
ملکہ نے محبّت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی ۔ “یہ تمہاری نیکی اور بادشاہ سلامت کے اچھے سلوک کا انعام ہے۔ مگر بیٹی ایک بات یاد رکھنا کہ ہمیں انعام ملے نہ ملے، کوئی صلہ دے یا نہ دے، ہمیں اچھے اچھے کام ضرور کرتے رہنا چاہیں۔ ہم انسان ہیں اور خدا نے انسانوں کو عقل عطا فرمائی ہے۔ اس عقل کو ہمیں اچھے اچھے کاموں میں استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ہی نہیں کہ ہم انسانوں سے ہی اچھا سلوک کریں، انسانوں کے ساتھ ساتھ ہمیں پرندوں اور جانوروں سے بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے”۔
ملکہ اتنا کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئی تھی کہ اچانک کمرے میں جلترنگ سے بجنے لگے۔ دونوں نے چونک کر اس طرف دیکھا جہاں سے آواز آرہی تھی۔ آواز گیند میں سے آرہی تھی، اور نہ صرف آواز آ رہی تھی بلکہ اس میں سے رنگ برنگی روشنی کی کرنیں بھی پھوٹ رہی تھیں۔
ملکہ تو کچھ خوفزدہ سی ہوگئی مگر شہزادی بستر سے اتر کر گیند کے قریب گئی اور اسے دلچسپی سے دیکھنے لگی۔ اچانک گیند کا ایک چھوٹا سے حصہ کسی دروازے کی طرح کھلا اور اس میں سے ایک ایک کرکے ننھے ننھے سات بونے باہر نکلے۔ انہوں نے خوبصورت ریشمی لباس پہنے ہوۓ تھے اور چھوٹی چھوٹی لمبوتری ٹوپیاں ان کے سر پر منڈھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے میز پر کھڑے کھڑے شہزادی کو جھک کر سلام کیا پھر ان میں سے ایک بولا۔ “شہزادی۔ ہفتے میں کتنے دن ہوتے ہیں؟”
شہزادی نے فوراً جواب دیا “ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں”۔
“بالکل ٹھیک”۔ بونے نے خوش ہو کر کہا۔ “ہم سات بونے ہیں۔ ہر روز رات کو سات بجے اس جادو کی گیند سے نکلا کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک بونا روز ایک نئی کہانی سنایا کرے گا۔ ساتویں روز ہمیں دو کہانیاں سننے کو ملیں گی”۔
“وہ کیسے؟”۔ شہزادی نے دلچسپی سے پوچھا۔
“ہر سات دن بعد آپ بھی ہمیں ایک کہانی سنایا کریں گی۔ ہم سب کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہے۔ کہانی ختم ہوجاتی ہے تو ہم پھر اپنی گیند میں واپس چلے جاتے ہیں اور اگلے روز کے سات بجنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں”۔ بونے نے کہا-
ان کی باتیں سن کر ملکہ کے دل سے بونوں کا خوف ختم ہوگیا تھا۔ وہ شہزادی سے بولی ۔ “شہزادی۔ تم تو بیٹھ کر کہانی سنو۔ میں امی حضور کے پاس جاتی ہوں۔ وہ انتظار کر رہی ہونگی”۔
ملکہ کے جانے کے بعد ساتوں بونے چھلانگ مار کر شہزادی کے بستر پر پہنچ گئے۔ شہزادی بھی بیٹھ گئی اور سارے بونے اس کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بونے نے کھنکھار کر اپنے گلے کو صاف کیا اور پھر کہانی سنانا شروع کی۔ کہانی شروع ہوتے ہی شہزادی نازیہ خوش ہوگئی کیونکہ بونا اس کی پسند کی پودنے اور پودنی کی کہانی سنا رہا تھا۔
جب کہانی ختم ہو گئی تو بونوں نے جمائیاں لیتے ہوۓ شہزادی کو شب بخیر کہا اور دوبارہ اپنی گیند میں چلے گئے۔ ان کے گیند میں جاتے ہی اس کا دروازہ خود بخود بند ہوگیا۔
شہزادی نازیہ بہت خوش تھی اور دل ہی دل میں اس مہربان پری کا شکریہ ادا کر رہی تھی جس نے اسے اتنی خوبصورت گیند دی تھی جس میں سات بونے رہتے تھے اور اچھی اچھی کہانیاں سناتے تھے۔ اس گیند کو دیکھتے دیکھتے شہزادی بھی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.