جھوٹ پکڑا گیا
جواد چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ ایک تمیز دار اور ہونہار بچہ تھا۔ پڑھائی لکھائی میں تیز تھا اور کبھی اسکول سے چھٹی نہیں کرتا تھا۔ اس کا دوسرے بچوں سے برتاؤ بہت اچھا تھا اور وہ ان کے ساتھ پیار محبّت سے رہتا تھا۔ وہ اپنے بڑوں سے نہایت دھیمے لہجے اور ادب سے بات کرتا تھا، اس لیے اس کو سب پسند کرتے تھے۔
سعید اس کا ہم جماعت تھا مگر اسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا کیوں کہ وہ ایک جھگڑالو لڑکا تھا۔ وہ پڑھنے لکھنے میں دل چسپی نہیں لیتا تھا۔ کلاس میں مس پڑھا رہی ہوتیں تو اس کا دھیان سبق سے زیادہ شرارتوں میں ہوتا ۔ اسے دوسرے بچوں کو تنگ کرنے میں بھی بہت مزہ آتا تھا۔ اسے ذرا سا بھی غصہ آجاتا تو وہ چیخ کر بات کرنے لگتا تھا۔ اس بات پر اسے کلاس میں اکثر ڈانٹ بھی پڑتی تھی اور سزا کے طور پر دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا بھی ہونا پڑتا تھا۔
ایک دفعہ ماہانہ ٹیسٹوں میں جواد کے پوری کلاس میں سب سے زیادہ مارکس آئے تو کلاس ٹیچر نے اسے بہت شاباش دی اور بچوں کو اس کی مثال دیتے ہوئے تاکید کی کہ وہ بھی جواد کی طرح دل لگا کر پڑھیں۔
سب بچے جواد کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس کی یہ عزت افزائی دیکھ کر سعید کو بہت غصہ آیا اور وہ جواد سے حسد محسوس کرنے لگا۔ حسد تو ایک ایسی عادت ہوتی ہے کہ اس میں مبتلا شخص خود ہی اس آگ میں جل جاتا ہے۔ سعید چھٹی کے بعد اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ترکیب کرے جس سے جواد کو نیچا دکھایا جا سکے۔ اس کے تین دوست بھی تھے اور بالکل اسی کے جیسے تھے۔ سعید نے انھیں ایک جگہ جمع کیا اور ان سے کہا۔ ’’ہر کوئی جواد کی تعریف کرتا رہتا ہے۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھ سمیت تم تینوں کو اسکول میں کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ دوسرے لڑکے ہماے ساتھ کھیلنے سے کتراتے ہیں اور جواد کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ ہمیں کوئی ایسی ترکیب کرنا چاہیے کہ جس سے جواد کی پورے اسکول میں بے عزتی ہوجائے‘‘۔
اس کا دوست رفعت بولا۔ ’’دنیا میں کوئی بات ناممکن نہیں۔ ہمیں تھوڑا وقت دو۔ ہم سوچ کر کوئی ایسا منصوبہ بنائیں گے کہ اسکول تو اسکول، اسکول سے باہر بھی لوگ جواد سے نفرت کرنے لگیں گے۔ سب بچوں کی مائیں تک انھیں منع کر دیں گی کہ وہ اس کے ساتھ نہ کھیلا کریں‘‘۔
یہ بات سن کر سعید خوش ہوگیا۔ اس بات کو چند دن گزر گئے۔ ان کے اسکول میں ایک پکنک پارٹی کا پروگرام بنا۔ ہر بچے سے کہہ دیا گیا تھا کہ ہر کوئی اپنے لیے کھانے پینے کی چیزیں گھر سے لائے۔ پکنک پارٹی کا سن کر سارے بچے خوش ہوگئے تھے۔ انھیں محراب پور کے پہاڑوں پر جانا تھا۔ پہاڑ کے نزدیک ایک دریا بھی بہتا تھا اور وہاں گھنا جنگل بھی تھا۔ پورا علاقہ قدرتی نظاروں کی وجہ سے بہت ہی خوب صورت نظر آتا تھا۔
جس روز پکنک پر جانا تھا، اس روز سارے بچے صبح ہی صبح اسکول میں جمع ہوگئے تھے۔ تمام ٹیچرز اور ڈرل ماسٹر صاحب بھی آ گئے تھے۔ پرنسپل صاحبہ نے ٹیچرز کو بچوں کی حفاظت سے متعلق بہت سی ہدایات دیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ پیش آئے۔ اس بات کی تو خاص تاکید کی تھی کہ کوئی بھی بچہ نہانے کے لیے دریا میں نہ اترے۔ پکنک پر جانے کے لیے اسکول کی بس کا انتظام کیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے بس ڈرائیور کا فون آیا تھا کہ وہ پٹرول ڈلوا کر کچھ ہی دیر میں اسکول پہنچ جائے گا۔ بس کے انتظار کے دوران تمام ٹیچرز اپنی اپنی کلاس کے بچوں کو بتانے لگیں کہ وہاں پہنچ کر انھیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔
جواد کی کلاس کے بچے بڑے غور سے اپنی مس کی ہدایات سن رہے تھے مگر سعید اور اس کے تینوں دوستوں رفعت، شرافت اور نوید کا دھیان ان کی باتوں کی جانب نہیں تھا۔ وہ تو ان خیالوں میں مگن تھے کہ پکنک پوائنٹ پر پہنچ کر کن کن طریقوں سے اپنے ساتھیوں کو تنگ کریں گے اور اگر موقع ملا تو ٹیچرز کی نظر بچا کر دریا میں بھی نہائیں گے۔ حالانکہ انھیں دریا میں نہانے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔
اچانک سعید کو کچھ خیال آیا۔ اس نے کہا۔ ’’موقع اچھا ہے۔ ہمیں کچھ ایسا ضرور کرنا چاہیے کہ جس سے جواد کی بے عزتی ہوجائے‘‘۔
شرافت اس طرح کے کاموں میں بہت تیز تھا۔ وہ سعید کا پکّا دوست تھا۔ سعید کی بات سن کر اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ آج ہم جواد کا ایسا انتظام کریں گے کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ گھر سے کھیر بھی بنوا کر لایا ہے‘‘۔
’’کھیر تو میری امی نے بھی بنا کر دی ہے‘‘۔ سعید نے اپنے بیگ کو تھپتھپا کر کہا۔
شرافت نے کہا۔ ’’مجھے پتہ ہے۔ یہ بات تم ہمیں پہلے ہی بتا چکے ہو۔ تمھاری کھیر کو ہم سب مل کر ابھی کھالیتے ہیں۔ پکنک پوائنٹ پر جا کر تم شور مچا دینا کہ تمھاری کھیر کا ڈبہ جواد نے چوری کر لیا ہے۔ جب اس کے پاس سے کھیر برآمد ہو گی تو سوچو اس کی کتنی بے عزتی ہوگی؟۔ وہ سب کی نظروں سے گر جائے گا‘‘۔
شرافت کی بات سن کر سعید خوش ہوگیا۔ وہ اپنے تینوں دوستوں کے ساتھ ایک کونے میں گیا اور وہاں بیٹھ کر سب نے اس کی لائی ہوئی کھیر خوب مزے سے کھائی۔ کھیر کھانے کے بعد انہوں نے اچھی طرح سے اپنے ہاتھ منہ صاف کیے اور کھیر کا پلاسٹک کا ڈبہ دور کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے۔
تھوڑی دیر میں بس آگئی۔ سب بچے لائن لگا کر اس میں سوار ہوئے۔ ان کے بیٹھنے کے بعد ان کی پرنسپل صاحبہ، ٹیچرز اور ڈرل ماسٹر صاحب بھی اس میں سوار ہوگئےاور بس چل پڑی۔
سارے بچے بہت خوش اور پرجوش تھے اور آپس میں ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔ سعید اپنے تینوں دوستوں کے ساتھ بس کی آخری سیٹ پر بیٹھا تھا اور اس کی نظریں جواد پر لگی ہوئی تھیں۔ جواد کے ہاتھ میں ایک نوٹ بک اور پنسل تھی۔ وہ اس میں پکنک سے متعلق باتیں لکھتا جا رہا تھا۔ راستے میں جو جو مقامات تھے وہ بھی اس نے اپنی نوٹ بک میں لکھ لیے تھے۔
’’ہونہہ۔ ہم تفریح کرنے نکلے ہیں مگر یہ یہاں بھی لکھنے پڑھنے سے باز نہیں آ رہا‘‘۔ سعید نے منہ بنا کر سوچا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔
ایک گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ محراب پور کے پہاڑوں کے نزدیک پہنچ گئے – ایک کھلی اور مناسب جگہ دیکھ کر سب لوگ بس سے اتر گئے۔ بس سے اترتے ہی ہر کلاس کی مس نے اپنی اپنی کلاس کے بچوں کو اپنے ساتھ لے لیا تھا اور مختصراً انھیں احتیاطی تدابیر دوبارہ بتا دیں۔
یہ ایک بہت ہی حسین وادی تھی۔ وہ لوگ اونچی جگہ پر تھے جہاں سے انھیں دریا بھی بہتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ دھوپ میں اس کا پانی شیشے کی طرح جگمگا رہا تھا۔ سامنے جنگل تھا اور ہر طرف اونچے اونچے درخت تھے ا اور زمین پر جھاڑیاں تھیں۔ درختوں کی شاخوں پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے اور کبھی کبھی ان کی دلکش بولی فضا میں بلند ہوجاتی تھی جو سننے والوں کو بڑی بھلی لگتی تھی۔
سارے بچے اپنی اپنی کلاس ٹیچرز کے ساتھ ٹولیوں کی شکل میں ادھر ادھر گھومتے پھر رہے تھے۔ ڈرل ماسٹر صاحب بچوں پر نظر رکھے ہوے تھے کہ وہ کوئی ایسی شرارت نہ کریں جو نقصان دہ ہو۔ ان کے پاس ایک پستول بھی تھا جو انہوں نے اپنے بغلی ہولسٹر میں لگایا ہوا تھا۔ یہ پستول وہ اپنے ساتھ اس لیے لے آئے تھے کہ جنگل میں خون خوار جانور بھی تھے اور سننے میں آتا تھا کہ وہ انسانوں پر حملہ بھی کردیتے ہیں۔ ان جانوروں سے بچاؤ کے لیے انہوں نے ضروری سمجھا تھا کہ پستول اپنے ساتھ رکھیں۔
شکر یہ ہوا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ کافی دیر تک گھومتے پھرتے رہنے کی وجہ سے بچے تھک بھی گئے تھے اور انھیں بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ ٹیچرز نے فیصلہ کیا کہ اب کھانا کھالیا جائے۔ ہموار زمین کافی کشادہ تھی اور نرم نرم صاف ستھری گھاس سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ہر ٹولی نے زمین پر چادریں بچھائیں اور اپنے اپنے کھانے کے بیگ کھولنے لگے۔
جواد کی امی نے ایک بڑے سے ہاٹ پاٹ میں بریانی پکا کر رکھ دی تھی جو ابھی تک گرم تھی۔ بریانی کے ساتھ کباب بھی تھے، کچھ پھل تھے، کولڈ ڈرنک کے ٹن تھے اور ایک پلاسٹک کا ڈبہ تھا جس میں انہوں نے کھیر بنا کر رکھی تھی۔ سعید کی نظریں جواد پر لگی ہوئی تھیں۔ اس دوران وہ اپنا کھانا بھی نکالتا جا رہا تھا۔ اچانک وہ زور سے چلایا۔ ’’مس۔ مس۔ کسی نے میری کھیر کا ڈبہ میرے بیگ سے چرا لیا ہے!‘‘
اس خبر سے مس بے چاری پریشان ہوگئیں۔ سب بچے بھی حیرانی سے سعید کو دیکھ رہے تھے۔ مس اس لیے پریشان ہوگئی تھیں کہ اس طرح کی چوری سے کبھی ان کا واسطہ نہیں پڑا تھا۔ انہوں نے تو بچوں کو ہمیشہ یہ ہی تلقین کی تھی کہ کسی کی پنسل چرانا بھی ایک بہت بری حرکت ہے۔ انہوں نے سعید سے کہا۔’’سعید۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم اپنی کھیر کا ڈبہ گھر ہی بھول آئے ہو؟‘‘۔
’’نہیں مس۔ میری امی نے میرے سامنے ساری چیزیں میرے بیگ میں رکھی تھیں۔ میں نے اسے چکھ کر بھی دیکھا تھا۔ وہ بہت میٹھی تھی۔ امی نے اس میں ڈھیر ساری الائچی اور پستے بھی ڈالے تھے‘‘۔ سعید نے جواب دیا اور رونے جیسا منہ بنانے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک اس کی نظر جواد کے کھیر کے ڈبے پر پڑی۔
’’مس۔ مس۔ وہ رہا میرا کھیر کا ڈبہ۔ میں نے اسے پہچان لیا ہے‘‘۔ اس نے جواد کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ اس کی بات سن کر اس کا دوست شرافت زور سے بولا۔ ’’اب میری سمجھ میں آیا ہے۔ سعید جب اپنا بیگ رکھ کر پانی پینے گیا تھا تو میں نے دیکھا تھا کہ جواد اس کے بیگ کو کھول رہا ہے۔ اس وقت تو میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ میں یہ سمجھا کہ وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ سعید کھانے میں کیا کیا چیزیں لے کر آیا ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اس کا کھیر کا ڈبہ چوری کر رہا ہے۔ پتہ ہوتا تو میں کبھی بھی اسے چرانے نہیں دیتا‘‘۔
اس سفید جھوٹ پر جواد تلملا کر کھڑا ہوگیا اور بولا۔ ’’شرافت بھائی۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں تو سعید کے بیگ کے قریب تک نہیں گیا‘‘۔
’’ٹھیک ہے اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو تم بتاؤ تمہارے پاس جو یہ ڈبہ ہے اس میں کیا ہے؟‘‘۔ شرافت نے مکاری سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اس میں کھیر ہے۔ میری امی نے بنائی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس میں سے اپنے دوستوں کو بھی کھلانا‘‘۔ جواد نے جواب دیا۔ اس صورت حال سے وہ گھبرا سا گیا تھا اور اس کی گھبراہٹ اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔ مس اس کی حالت کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔
’’چوری کا مال ہے۔ دوست تو دوست دنیا بھر کے لوگ بھی کھا سکتے ہیں‘‘۔ سعید کے دوسرے دوست نوید نے جواد کو چڑانے کی خاطر کہا۔ ’’ویسے شرافت ٹھیک کہہ رہا۔ جب تم سعید کا بیگ کھول رہے تھے تو میں نے بھی تمہیں دیکھ لیا تھا‘‘۔
’’آپ لوگ میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں اور مجھ پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں‘‘۔ جواد نے روہانسی آواز میں کہا۔ ’’مجھے پتہ ہے چوری کرنا بہت بری بات ہے۔ میں سچ کہہ رہا ہوں، یہ کھیر کا ڈبہ میری امی نے مجھے دیا تھا‘‘۔
’’اچھا تم لوگ لڑنا جھگڑنا چھوڑو۔ اس کا فیصلہ پرنسپل صاحبہ کریں گی‘‘۔ ان کی کلاس ٹیچر نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ پرنسپل صاحبہ کے پاس گئیں اور انھیں اس چوری کے متعلق بتایا۔ پرنسپل صاحبہ نے جواد اور سعید کو اپنے پاس طلب کیا۔ یہ ایک ایسا انوکھا واقعہ تھا جس نے سب بچوں کی بھوک اڑا دی تھی۔ سب کا یہ ہی خیال تھا کہ سعید اور اس کے دوست جھوٹ بول رہے ہیں۔ ڈرل ماسٹر صاحب بھی کسی سوچ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جواد اور سعید کے آجانے کے بعد سارے بچے ان کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے۔ پرنسپل صاحبہ بولیں۔ ’’میرے علم میں اس واقعہ کی تفصیلات آگئی ہیں۔ جواد ہمارے اسکول کا ایک نہایت اچھا اور نیک بچہ ہے۔ مجھے امید نہیں کہ اس نے یہ حرکت کی ہو گی‘‘۔
ان کی بات سن کر سعید نے بڑی گستاخی سے کہا۔ ’’تو کیا میڈم میں اور میرے دوست جھوٹ بول رہے ہیں؟۔ جواد چور ہے۔ اس نے چوری کی ہے۔ شرافت اور نوید نے اسے میرا بیگ کھولتے ہوئے دیکھا تھا‘‘۔
اس کے لہجے نے اگرچہ پرنسپل صاحبہ کو غصہ دلا دیا تھا مگر وہ ضبط کر گئیں۔ ڈرل ماسٹر صاحب نے تیز آواز میں کہا۔ ’’سعید۔ تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کرو۔ تم حد سے بڑھتے جا رہے ہو‘‘۔
’’سوری سر‘‘۔ سعید نے دھیمے لہجے میں کہا اور سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔ وہ ڈرل ماسٹر صاحب سے بہت ڈرتا تھا۔
پرنسپل صاحبہ بولیں۔’’یہ ایک افسوسناک واقعہ ہوا ہے۔ ہمارے اسکول میں کبھی بھی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے جواد اور سعید سے کہا۔ ’’تم دونوں مجھے ان چیزوں کے نام لکھ کر دو جو تم پکنک کے لیے گھر سے لائے تھے’’۔
دونوں لڑکوں نے جلدی جلدی کاغذ کے ٹکڑوں پر ان کھانوں کے نام لکھ کر ان کے حوالے کردیے جو وہ لے کر آئے تھے۔ پرنسپل صاحبہ نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر اپنے موبائل سے سعید کی امی کو فون کیا۔ ان کے فون سے سعید کی امی گھبرا گئی تھیں۔ وہ سمجھیں کہ جانے کیا بات ہوگئی ہے۔ پرنسپل صاحبہ نے انھیں تسلی دی کہ سب خیریت ہے اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے سعید کو کھانے میں کون کون سی چیزیں پکا کر دی تھیں۔ سعید کی امی نے تصدیق کی کہ انہوں نے دوسری چیزوں کے ساتھ اسے پلاسٹک کے ڈبے میں کھیر بھی بنا کر دی تھی۔
اس کے بعد پرنسپل صاحبہ نے جواد کی امی کو فون کیا اور ان سے یہ ہی سوال کیا۔ جواد کی امی نے بھی تصدیق کی کہ انہوں نے بریانی اور کبابوں کے ساتھ کھیر بھی رکھی تھی۔ جواد کی امی کے بہت ہی اصرار پر کہ وہ یہ تفصیلات کیوں پوچھ رہی ہیں، پرنسپل صاحبہ کو پورا واقعہ بتانا پڑ گیا۔
جواد کی امی بولیں۔ ’’میرا بیٹا جواد ایک بہت اچھا لڑکا ہے۔ وہ کبھی بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔ اس کے کلاس فیلوز کو یقیناً غلط فہمی ہوئی ہے‘‘۔
’’میرا اپنا بھی یہ ہی خیال ہے۔ مگر میں سخت مشکل میں ہوں۔ دونوں لڑکوں کی ماؤں نے کھیر بنا کر اور ڈبوں میں رکھ کر انھیں دی تھی۔ ایک کا ڈبہ غائب ہوگیا ہے۔ سعید اور اس کے دوست اس چوری کا الزام جواد پر لگا رہے ہیں۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ فیصلہ کیسے کروں؟‘‘۔ پرنسپل صاحبہ کے لہجے میں بے بسی تھی۔
ان کی بات سن کر جواد کی امی ہنس پڑیں اور بولیں۔’’شکر ہے کہ مسئلہ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ آپ اس کی پریشانی مت لیں۔ آپ کہیں تو میں آپ کی مشکل چٹکی بجاتے حل کردوں‘‘۔
’’اگر یہ مشکل حل ہوجائے تو میں آپ کی بہت مشکور ہونگی۔ میرا تو سر بھی بھاری ہوگیا ہے۔ سر درد کی گولی بھی کوئی نہیں ہے۔ ان لڑکوں نے پکنک کا سارا مزہ کرکرا کرکے رکھ دیا ہے‘‘۔ پرنسپل صاحبہ بے بسی سے بولیں۔
جواد کی امی نے کہا۔ ’’جب جواد اسکول کے لیے نکل گیا تو مجھے یاد آیا کہ میں کھیر میں چینی ڈالنا بھول گئی ہوں۔ دراصل جواد کا چھوٹا بھائی نو دس ماہ کا ہے اور دانت نکال رہا ہے۔ دانت نکلنے کی وجہ سے اس کو بخار بھی رہنے لگا ہے اور وہ چڑچڑا بھی ہوگیا ہے۔ میری گود سے اترتا ہی نہیں۔ جواد کے کھانے کی ساری تیاری میں نے اسے گود میں لیے لیے ہی کی تھی اور بے دھیانی میں کھیر میں چینی ڈالنا بھول گئی۔ اب آپ یہ کریں کہ جواد کے پاس موجود کھیر کے ڈبے میں سے اسے چکھ کر دیکھ لیں۔ اگر پھیکی ہوئی تو جواد کی اور میٹھی ہوئی تو سعید کی‘‘۔
پرنسپل صاحبہ کی مشکل حل ہوگئی تھی۔ انہوں نے سب ٹیچرز اور بچوں کو جواد کی امی سے ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔ ان کی بات سن کر سعید اور اس کے دوستوں کے چہروں کا رنگ فق ہوگیا تھا۔ ڈرل ماسٹر صاحب انھیں بغور دیکھ رہے تھے۔
پرنسپل صاحبہ نے خود کھیر چکھ کر دیکھی اور بولیں۔’’یہ کھیر تو بالکل پھیکی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جواد بے قصور ہے۔ ساری شرارت سعید اور اس کے دوستوں کی ہے‘‘۔
اس کے بعد ڈرل ماسٹر صاحب نے سعید اور اس کے تینوں دوستوں کو ایک لائن میں کھڑا کیا اور بولے۔’’تم لوگوں کا جھوٹ پکڑا گیا ہے۔ خیریت اسی میں ہے کہ اب تم لوگ سچ سچ بتا دو۔ ورنہ یاد رکھو کہ میں بہت برے طریقے سے پیش آوں گا‘‘۔
ڈرل ماسٹر صاحب کا رعب اور غصہ پورے اسکول میں مشہور تھا۔ سارے بچے ان کے غصے سے تھر تھر کانپتے تھے۔ ان کی دھمکی سن کر سعید بھی ڈر گیا تھا مگر اس کے تینوں ساتھیوں کا خوف کے مارے برا حال ہوگیا تھا۔
اس کے دوست رفعت نے تھوک نگل کر کہا۔’’سر۔ ہم بے قصور ہیں۔ ہمیں سعید نے کہا تھا کہ جواد کو ساری ٹیچرز اور سب بچے پسند کرتے ہیں۔ اس کو نیچا دکھانا چاہیے۔ اس لیے شرافت نے یہ منصوبہ بنایا کہ جواد پر چوری کا الزام لگا دیا جائے‘‘۔
’’سعید کی کھیر ہم سب نے مل کر کھالی تھی اور اس کا خالی ڈبہ دور کوڑے دان میں پھینک دیا تھا‘‘۔ نوید نے بتایا۔
’’سر ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔ ہمیں معاف کردیں‘‘۔ سعید نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔ ’’ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے‘‘۔
ان لوگوں کی باتیں سن کر پرنسپل صاحبہ سخت غصے میں آگئی تھیں۔ ’’تمہارا جھوٹ پکڑا گیا ہے۔ جھوٹے اور دھوکے باز بچوں کو میں اپنے اسکول میں نہیں رکھوں گی۔ کل تم چاروں اپنے اپنے والد صاحب کو لے کر اسکول آؤ گے۔ میں ان سے بات کرونگی‘‘۔
انھیں غصے میں دیکھ کر جواد آگے بڑھا اور پرنسپل صاحبہ سے نہایت ادب سے بولا۔ ’’میڈم۔ یہ سب کچھ ان لوگوں نے اپنی ناسمجھی کی وجہ سے کیا تھا۔ پکنک پر آنا ایک خوشی کا موقعہ ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس خوشی کے موقعہ پر انہیں معاف کردیں‘‘۔
پرنسپل صاحبہ ان چاروں سے بولیں۔ ’’تم لوگوں نے جواد کو دیکھا وہ کتنا اچھا بچہ ہے۔ جواد کے کہنے پر میں تمہیں معاف کرتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ تم لوگ بھی جواد جیسا بننے کی کوشش کرو گے‘‘۔
ان چاروں نے جب جواد کا یہ رویہ دیکھا تو ان کا دل بھر آیا۔ یہ وہ ہی جواد تھا جس کو نیچا دکھانے اور دوسروں کی نظروں سے گرانے کے لیے انہوں نے اس پر چوری کا جھوٹا الزام لگا دیا تھا اور اس کے باوجود اس نے پرنسپل صاحبہ سے ان کی سفارش کی تھی کہ انھیں معاف کردیا جائے۔
سعید نے نہایت شرمندگی سے کہا۔ ’’جواد۔ ہم لوگ تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہماری حرکت پر تم بجائے اس کے کہ ہم سے بدلہ لیتے، تم نے میڈم صاحبہ سے ہمیں معاف کرنے کے لیے کہا۔ ہم بھی وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے‘‘۔
پھر رفعت، شرافت اور نوید نے بھی جواد سے سوری کی۔ جواد نے ان سے ہاتھ ملایا اور گلے بھی ملا۔ اس نے انھیں سچے دل سے معاف کردیا تھا۔
سعید چونکہ اب ایک اچھا لڑکا بن گیا تھا اس لیے اس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ ہم نے جواد کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی مگر خود ہی بے عزت ہوگئے۔ اس بے عزتی سے ہمیں بہت بڑا سبق ملا ہے اور وہ سبق یہ ہے کہ جو کوئی دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے اس میں خود ہی گر پڑتا ہے۔ اب ہم بھی تمام بری حرکتیں چھوڑ دیں گے اور نئے لڑکے بن کر دکھائیں گے۔ ایسے لڑکے جو سب کے ساتھ پیار محبت سے رہتے ہیں اور کسی کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہیں پہنچاتے‘‘۔
سب بچوں نے یہ سن کر خوشی سے تالیاں بجائیں – اس کے بعد سب نے کھانا کھایا اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد خوشی خوشی ادھر ادھر گھوم پھر کر پکنک کا مزہ اٹھانے لگے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.