ایک سوداگر کسی سفر میں جہاز پر سوار ہوا تو باتوں باتوں میں کپتان سے پوچھا۔ ’’آپ کے والد کیا کام کرتے تھے؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’مہربان! باپ پر کیا موقوف ہے۔ ہماری سات پیڑھیاں جہاز رانی ہی کرتے تھے گزر گئی ہیں۔‘‘
سوداگر نے پوچھا۔ آپ کے باپ کی قبر کہاں ہے؟‘‘
کپتان نے کہا۔ ’’دوسال ہوئے وہ امپرس جہاز کو ہسپانیہ لے جا رہے تھے۔ راستے میں طوفان نے آ لیا۔ انہوں نے سواریوں کو تو کشتیوں پر سوار کرا کے بچا دیا۔ مگر آپ بے چارے جہاز سمیت سمندر میں ڈوب گئے۔‘‘
سوداگر نے افسوس کر کے تھوڑی دیر کے بعد پوچھا۔ ’’آپ کے دادا کیوں کر فوت ہوئے تھے؟‘‘
کپتان نے کہا۔ ’’اسی طرح ایک جہاز کے ڈوب جانے سے۔‘‘
سوداگر نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس خطرناک کام میں جب آپ کے باپ دادا مر گئے تو تعجب ہے کہ آپ نے اسے کیوں اختیار کیا؟‘‘
کپتان نے پھر تھوڑی دیر اور باتیں کر کے سوداگر سے پوچھا۔ آپ کے والد صاحب کس دکان پر بیٹھتے تھے؟‘‘
سوداگر نے کہا۔ ’’اسی دکان پر، جہاں میں بیٹھتا ہوں۔‘‘
پھر پوچھا۔ ’’دادا؟‘‘
سوداگر نے کہا۔ ’’وہ بھی اسی دکان پر بیٹھتے تھے۔‘‘
کپتان نے کہا۔ ’’اچھا آپ کے باپ دادا مرے کس مکان میں تھے؟‘‘
سوداگر نے کہا۔ اسی مکان میں، جس میں ہم رہتے ہیں۔‘‘
کپتان نے کہا۔ کتنا تعجب ہے۔ جس دکان اور مکان میں آپ کے باپ دادا مرے آپ بھی اسی میں رہتے اور وہیں کاروبار کرتے ہیں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.