خالہ کی پریشانیاں
’’ارے یہ کمبخت کوا کب سے دیوار پر بیٹھا کائیں پہ کائیں کرے جا رہا ہے۔ تجھے نظر نہیں آ رہا تھا اسے۔ کان کھا گیا یہ تو، کہاں مر گئی رخسانہ پھر کتابوں میں سر کھپائے بیٹھی ہے، کسی کونے میں، ایک تو اس لڑکی کو چین نہیں آتا۔‘‘
’’کیا ہوا پھوپھو جان؟‘‘ رخسانہ کمرے سے کتاب ہاتھ میں لیے نکلی۔ ’’میں کہتی ہوں مار اس کوے کو ایک جوتی رکھ کے۔‘‘ خالہ سکینہ نے ’’رکھ کے‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ کیوں پھو پھو اس بےزبان پر ظلم کر رہی ہیں؟‘‘
’’ارے ظلم تو یہ کر رہا ہے۔ مہمانوں کی آمد کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے۔ مہنگائی کا اسے پتہ نہیں کہ آج کل تو کھانے کے لالے پڑے ہیں اور یہ منحوس مہمانوں کا اعلان کر رہا ہے۔‘‘ خالہ بھی اپنے نام کی ایک تھیں۔
’’اچھا!‘‘ پھو پھو آپ کو کوؤں کی زبان آتی ہے۔‘‘ رخسانہ نے حیرت سے پوچھا۔ ’’تجھے پتہ نہیں کہ جب گھر میں کوا چیخے تو مہمان آتے ہیں؟‘‘ خالہ نے اس سے بھی زیادہ حیرت کا مظاہرہ کیا۔
’’اوہو پھو پھو! یہ سب بکواس ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو تو ہم پرست کہتے ہیں اور اگر اتفاق سے مہمان آ بھی جائے تو کیا ہوا؟ مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اور رہی کھانے پینے اور مہنگائی کی بات تو مہمان اپنا رزق خود لاتا ہے۔ تو پھر آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں۔‘‘
’’کاہے کو ٹینشن نہ لوں، آج تک کون سا مہمان ہے جو خود اپنا کھانا لایا ہے۔ ساتھ جسے دیکھو خالی ہاتھ ہی چلا آتا ہے۔‘‘ خالہ کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔
’’اف او پھو پھو! میں آپ کو کیسے سمجھاؤں۔ اللہ تعالی اپنی قدرت سے رزق میں اضافہ کر دیتا ہے اور مہمان کی آمد پر تو انسان کو خوش ہونا چاہئے کیوں کہ اس سے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ کیا ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئے۔ ویسے پھو پھو کوئی مہمان نہیں آ رہا۔ بےفکر ہو جائیں۔‘‘ رخسانہ اپنی پھو پھو کو تسلی دے کر کمرے کی طرف چلی گئی اور خالہ اسے جاتا دیکھتی رہ گئیں۔
رخسانہ اپنی پھوپھو کے ساتھ رہتی تھی جو خود بھی اکیلی تھی۔ سلائیاں کر کے گزارہ ہوتا تھا۔ رخسانہ پہلے یتیم تھی کچھ سالوں بعد مسکین بھی ہو گئی تو سکینہ خالہ نے اپنی بھتیجی کو اپنے پاس رکھ لیا اور وہ اپنے اس فیصلے پر بہت خوش بھی تھیں۔ صبح خالہ سبزی لینے بازار گئیں۔ سخت گرمی میں پہلے ہی دماغ خراب ہو رہا تھا۔ اوپر سے فقیروں نے ناک میں دم کر دیا تھا۔ ’’حق اللہ حق، حق، حق۔‘‘ کافی دیر سے سکینہ خالہ نوٹ کر رہی تھیں۔ ایک فقیران کے پیچھے حق حق کے نعرے لگا رہا تھا۔ خالہ تو بھڑک اٹھیں۔ ’’ارے کس چیز کا حق بجلی کے بل سے تم لوگ واقف نہیں۔ مکان کے کرائے کا تمہیں نہیں پتہ۔ آٹے دال کی قیمت کا تم لوگوں کو اندازہ نہیں اور کہتے ہو حق۔ میں کہتی ہوں کس چیز کا حق مانگتے ہو۔ ارے میری بات تو سنو کدھر بھاگ رہے ہو، ہٹے کٹے ہو کمایا کرو۔‘‘ خالہ پکارتی رہ گئیں اور فقیر یہ جا وہ جا۔
خالہ ابھی دو قدم آگے بڑھی ہی تھیں کہ کالی بلی نے ان کا راستہ کاٹ لیا۔ پھر تو خالہ کے اس راستے سے گزرنے کا نام ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خالہ بے چاری پندرہ منٹ کا راستہ چھوڑکر ایک گھنٹے والے راستے پر چل پڑیں۔ لیٹ گھر پہنچنے پر جب رخسانہ نے وجہ پوچھی تو خالہ نے بلی کو کھری کھری سنا ڈالیں۔ وجہ معلوم ہونے پر رخسانہ بہت ہنسی اور پھو پھو کو سمجھانے لگی: ’’بلی تو ہر گلی ٹکڑ سے گزرتی ہے تو ہر کسی پر مصیبتیں تو نہیں آتی ناں؟‘‘
’’بیٹا! تو ان باتوں کو نہیں سمجھتی، یہ ہم عورتوں کی باتیں ہوتی ہیں۔‘‘ خالہ نے انگلی نچا نچاکر سمجھانے کی کوشش کی۔ رخسانہ بیچاری ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئی۔’’بیٹا! تو نے پہلے بھی کہا تھا کہ سب بکواس ہوتا ہے لیکن وہ دیکھا نہیں تھا۔ کوا جب کاں کاں کر کے گیا۔ شام کو پھر سلطانہ باجی آئی نہیں تھی کیا؟‘‘ خالہ نے سامنے والی پڑوسی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’تو وہ کون سا مہمان ہیں، روز تو آ جاتی ہیں۔ ٹماٹر، ادرک ، آلو، مرچیں مانگنے ایسا لگتا ہے ہم نے سبزیوں کی دکان کھول رکھی ہے۔‘‘ وہ بھی خالہ کی بھتیجی ہی تھیں۔ کچھ تو اثر پڑنا تھا۔
’’اری چپ کر کچھ زیادہ ہی بولنے لگتی ہے تو آج کل۔‘‘ خالہ نے ڈپٹا اور سبزی اٹھا کر کچن کی طرف چل دی۔
’’دھڑ دھڑ دھڑ۔۔۔ کون ہے صبر کر لو آ رہی ہوں۔‘‘ کسی نے بےصبری سے دروازہ پیٹا تو رخسانہ پیروں میں جوتے اڑس کر بھاگی۔
’’بولو کیا ہوا راشی؟‘‘ رخسانہ نے دروازے پر کھڑے بچے سے پوچھا۔
’’رخسانہ باجی! چچا منشی کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہے۔ امی کہہ رہی تھیں اگر جانا ہے تو ساتھ چلنے ہیں۔‘‘ بچہ خبر دے کر رفو چکر ہو گیا اور خالہ جو کہ باورچی خانے سے نکلتی ہوئی اس کی بات سن چکی تھیں، شروع ہو گئیں۔
’’میں نے کہا تھا ناں۔۔۔ اس منحسوس بلی نے کچھ نہ کچھ گڑ بڑ کرنی ہے۔ کیسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی مجھے دیکھ لیا ناں تو نے۔ مجھے جھوٹا کہتی ہے۔‘‘ ’’تو خالہ یہ منشی کی بیوی کون سا تیری سگی ہے۔ دعا سلام ہی تو ہے آپ کی۔‘‘ رخسانہ نے چادر دیتے ہوئے کہا: ’’اور آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ میں دوسرے راستے سے آ گئی۔ پھر؟‘‘
’’اچھا چل وقت نہ ضائع کر۔ خالہ سکینہ چادر پہنتے ہی نکل پڑیں۔‘‘
’’دیکھ رخسانہ کدھر ہے تو؟ یہ دیکھ میری جوتی پر جوتی چڑھی ہوئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں جب ایسا ہو تو بندہ کہیں جاتا ہے۔ اب یہ جھوٹ تو نہیں ہے ناں۔۔۔ میں آج شمشاد کی برسی میں جاؤں گی۔‘‘ خالہ نے تیز آواز میں اعلان کیا۔
’’اچھا بھئی! پھو پھو جاؤ میرا کیا۔‘‘ رخسانہ نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
’’تونے منہ کیوں پھلا لیا۔ لے آؤں گی تیرے لیے ایک پلیٹ بریانی۔ اب منہ ٹھیک کر۔ وہ بیچاری کیا کہتی ہے۔‘‘ سر پیٹ کر رہ گئی۔
’’میری الٹی آنکھ پھڑک رہی ہے، مجھے تو کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔‘‘ خالہ برسی سے واپسی آتے ہی فریاد کرنے لگی۔
’’اف پھو پھو! آپ اتنی تو ہم پرست کیوں ہیں؟ رخسانہ تو روز روز کے ڈراموں سے چڑکر رہ گئی تھی۔’’ پھو پھو آپ خود سوچیں لوگ جو اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ پائچا الٹا ہو جائے تو لوگ کہیں جاتے ہیں، بلی راستہ کاٹے تو کوئی آفت آتی ہے اور آپ نے جیسا کہا کہ آنکھ پھڑکے تو کوئی مصیبت آتی ہے وغیرہ۔ ایسا جو کہتا ہے آپ جاکر ان سے پوچھیں کہ یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے یا کس پیغمبر یا نبی نے فرمایا ہے؟ ہمارے لیے تو قرآن و حدیث ہی مستند ذرائع ہیں اگر ان میں نہ ہو تو ہمیں ایسی بے پرکی باتوں پر قطعاً دھیان نہیں دینا چاہئے۔‘‘ اس نے تو پھو پھو کو اپنی طرف سے سمجھانے کی بھر پور کوششیں کی اور واقعی پھو پھو سمجھ گئیں۔ خوب سوچ سمجھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ آئندہ کبھی تو ہم پرستی نہ کروں گی۔
اگلے دن رخسانہ سو کر اٹھی تو اس کا پائنچہ مڑا ہوا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ خالہ نے تو ہم پرستی کو سلام کہہ دیا ہے مگر الٹا پائنچہ خالہ کو پرانی ڈگر پر نہ لے آئے، سکینہ نے اسے صحیح کرنا چاہا مگر ایک خیال کے تحت اسے الٹا ہی چھوڑ دیا۔ خالہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں، ان کی نظر سیدھی اس کے پائنچے کی جانب گئی۔۔’’اب یہ پائنچہ۔۔؟‘’ خالہ کہتے کہتے رک گئی۔ رخسانہ نے خالہ کی طرف دیکھا تو دونوں ہنس پڑیں۔ خالہ سمجھ گئی کہ مہمان نے اگر آنا ہو تو اس کے لیے کوؤوں کا کائیں کائیں کرنا اور پائنچے کا الٹا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.