Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خوشامد پسند بادشاہ

مختار احمد

خوشامد پسند بادشاہ

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    یوں تو بادشاہ سلامت بہت اچھے اور نیک تھے مگر ان کا وزیر ان کی ایک بات سے بہت پریشان تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا۔ بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بہت محبّت کرتے تھے اور انہوں نے ان کی بھلائی کے کاموں کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول رکھے تھے۔ ملک میں چاروں طرف سکون اور اطمینان نظر آتا تھا۔ سب لوگ انتہائی خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ مگر وزیر کو جس بات کی پریشانی تھی وہ یہ تھی کہ بادشاہ سلامت دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے تھے اور تعریف کرنے والے پر انعامات کی بارش کردیتے۔ ان کے دربار کے چند چرب زبان اور خوشامدی لوگوں نے بادشاہ سلامت کی یہ کمزوری بھانپ لی تھی، اور اس کمزوری کا اکثر و بیشتر فائدہ اٹھاتے رہتے تھے، بادشاہ سلامت کی جھوٹی جھوٹی تعریفیں کرتے اور انعامات لے کر گھر کو چلتے بنتے۔

    بادشاہ سلامت جب دربار میں تشریف لاتے اور لوگوں کے مسلے مسائل سنتے تو ان کی کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ جلد سے جلد ان معاملات کو نمٹا دیں، تاکہ اس کے بعد شعر و شاعری اور قصیدہ گوئی کا دور چلے اور درباری ان کی تعریفوں کے پل باندھیں۔ ان تعریفوں سے بادشاہ سلامت کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ بادشاہ سلامت کی شان میں قصیدے پڑھنے والے نیک نیتی سے بادشاہ سلامت کی تعریف نہیں کرتے تھے۔ ان کا مقصد تو محض قیمتی انعامات کا حصول ہی ہوتا تھا۔

    وفادار وزیر نے ایک روز اپنی یہ پریشانی ملکہ کے سامنے رکھی۔ ملکہ خود بادشاہ سلامت کی اس بات سے تنگ تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ جھوٹی تعریفوں پر اگر وہ اسی طرح ہیرے جواہرات اور اشرفیاں لٹاتے رہے تو ایک روز سارا خزانہ خالی ہو جائے گا۔

    وزیر کی بات سن کر اس نے کہا۔ “اس سلسلے میں تو مجھے آپ پر ہی بھروسہ ہے۔ آپ بادشاہ سلامت کے وفادار ساتھیوں میں سے ہیں۔ آپ کی عقلمندی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مجھے امید ہے آپ ضرور کوئی نہ کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے”۔

    “ملکہ عالیہ۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس مسلے کا کوئی حل نکل آئے۔ اس کے لیے مجھے سب سے پہلے یہ پتہ چلانا ہوگا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بادشاہ سلامت خوشامد پسند ہوگئے ہیں اور انھیں کیوں اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے”۔ وزیر نے کہا۔

    “جب میری ان سے شادی ہوئی تھی تو وہ تب بھی ایسے ہی تھے۔ بات بات پر اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کے ہار اتار کر لوگوں کو انعام میں دے دیا کرتے تھے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آگیا تھا کہ ہاروں کو بنوانے کے لیے بہت سارے کاریگروں کو بھرتی کرنا پڑ گیا تھا۔ مجھے تو اس بات سے بہت ڈر لگتا ہے کہ ہم الله کو کیا منہ دکھائیں گے۔ خزانے کا پیسہ عوام کی امانت ہوتا ہے۔ اس طرح تو ہم امانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں”۔

    “میں نے سوچا ہے کہ میں بادشاہ سلامت کی والدہ صاحبہ سے ملوں اور ان کو کریدوں کہ بادشاہ سلامت کی شخصیت کی اس خامی کا سبب کیا ہے”۔ وزیر نے کہا اور عین اسی وقت بادشاہ سلامت کی ماں کمرے میں داخل ہوئی۔

    وہ کافی بوڑھی ہو گئی تھی اور لاٹھی ٹیک ٹیک کر چلتی تھی۔ اس نے ملکہ اور وزیر کو دیکھا تو بولی۔ “بیٹی میں یہ پوچھنے آئ ہوں کہ رات کے کھانے میں کیا پکے گا، تاکہ شاہی باورچی کو آگاہ کردوں مگر ایسا معلوم دیتا ہے کہ تم دونوں مملکت کے کسی اہم مسلے پر گفتگو کر رہے ہو۔ میں چلتی ہوں۔ بعد میں آجاؤں گی”۔

    “امی حضور ہم آپ کا ہی تذکرہ کررہے تھے۔ ایک بہت اہم مسلہ درپیش آ گیا ہے۔ آپ سے کچھ معلومات لینا تھیں”۔ ملکہ نے کہا۔

    “پہلے مسلہ تو پتہ چلے۔ اس کے بعد ہی میں معلومات دے سکوں گی”۔ بادشاہ سلامت کی والدہ نے کہا۔

    “پہلے آپ آرام سے بیٹھ جائیں۔ پھر ہم آپ کو تفصیل بتائیں گے”۔ ملکہ نے اسے کمرے میں رکھی کرسی پیش کرتے ہوئے کہا۔

    جب بادشاہ سلامت کی ماں آرام سے بیٹھ گئی تو وزیر نے بڑی تفصیل سے اس کو بادشاہ سلامت کی اس خوشامد پسندی کی عادت کے بارے میں بتایا۔ جب اس کی بات ختم ہوئی تو بادشاہ سلامت کی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بڑے تاسف سے بولی۔ “اپنے بیٹے کی اس عادت کے ذمہ دار میں اور اس کے ابا حضور تھے”۔

    یہ بات سن کر ملکہ اور وزیر دونوں چونک پڑے۔ “امی حضور۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں”۔ ملکہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا۔

    ابھی بادشاہ سلامت کی ماں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ کھانستا ہوا اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا ۔ “اس بڑھاپے نے ہمیں طرح طرح کی بیماریاں لگا دی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ہماری سماعت بہت بہتر ہوگئی ہے، دور ہی سے ہم سب باتیں سن لیتے ہیں، ہم نے تم سب کی باتیں بھی سن لی ہیں۔ ہماری بیگم بالکل ٹھیک فرما رہی ہیں۔ اپنے بیٹے کو خوشامد پسند بنانے میں ہم دونوں کا ہی ہاتھ ہے”۔

    بادشاہ سلامت کی ماں کو ملکہ نے کرسی پیش کی تھی۔ اب بادشاہ سلامت کا باپ آیا تو اسے کرسی پیش کرنے کی باری وزیر کی تھی۔ وہ ایک کرسی اٹھا کر اس کے قریب لایا اور بولا ۔ “تشریف رکھیے”۔

    وہ بیٹھ گیا تو ملکہ بڑی فکرمندی سے بولی۔ “جس انداز میں وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت لٹا رہے ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ بہت جلد خزانہ خالی ہو جائے گا۔ ہمیں وزیر صاحب سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ بہت جلد اس کا حل ڈھونڈ لیں گے”۔

    وزیر آگے بڑھا، کھنکھار کر گلا صاف کیا پھر ہاتھ باندھ کر بولا۔ “آپ بادشاہ سلامت کے والدین ہیں۔ دونوں کا یہ ہی کہنا ہے کہ ان کی اس خامی کے پیچھے آپ کا ہی ہاتھ ہے۔ پتہ تو چلے کہ کیسے؟ اگر یہ بات پتہ چل گئی تو بادشاہ سلامت کا علاج کرنا مشکل بات نہ ہوگی”۔

    بادشاہ سلامت کے باپ نے کہا ۔ “یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ تم دونوں بھی بیٹھ جاؤ۔ کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے”۔

    جب ملکہ اور وزیر بیٹھ گئے تو اس نے کہنا شروع کیا ۔ “یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم نوجوان تھے اور ہماری نئی نئی تاجپوشی ہوئی تھی اور ہم نئے نئے بادشاہ بنے تھے۔ ہمارے ابا حضور بوڑھے ہوگئے تھے اس وجہ سے انہوں نے بادشاہت کا تاج ہمارے سر پر سجا دیا تھا۔ تھوڑے عرصے بعد ہماری شادی ایک انتہائی حسین و جمیل شہزادی سے ہو گئی۔ ان کا رنگ اتنا صاف تھا کہ جب پانی پیتی تھیں تو پانی گردن سے گزرتا ہوا نظر آتا تھا”۔

    اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت کے باپ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ اس نے شرما کر سر جھکا لیا۔

    بادشاہ سلامت کے باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ “ان کے حسن و جمال کا تفصیلی تذکرہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ہر وقت اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہا کرتی تھیں۔ ہم بھی کچھ کم نہیں تھے۔ ہمیں سیر سپاٹے اور شکار کا شوق تھا، ہم اپنے مشغلوں میں گم رہا کرتے تھے۔ تھوڑے عرصے بعد الله نے ہمیں اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا۔ ہمارا شہزادہ نہایت خوبصورت تھا۔ اس کی پیدائش پر ہم دونوں ہی بہت خوش تھے، مگر نہ انہوں نے ہر وقت بننے سنورنے والی عادت چھوڑی اور نہ ہم نے اپنی سیر سپاٹے اور شکار کی۔ ہمارا شہزادہ کنیزوں اور غلاموں کے ہاتھوں میں پرورش پاتا رہا۔ وہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس کا دل چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ بیٹھے، اپنی اچھی اچھی باتیں ہمیں بتائے اور ہم اس کو شاباش دیں اور اس کی تعریف کریں۔ مگر ہم دونوں نادان بنے اپنی اپنی پسند کی مصروفیات میں گم تھے۔ ہمیں اپنی بے بیوقوفی کی وجہ سے اپنے چھوٹے سے شہزادے کے احساسات کا خیال ہی نہیں رہا۔ اس محرومی کا فائدہ ان کنیزوں نے اور غلاموں نے اٹھایا جن کے ذمے اس کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ وہ اس کی ہر بات کی بہت تعریف کرتے تھے، اس سے وہ خوش ہو کر اپنے کھلونے، مٹھایاں اور بسکٹ وغیرہ اور دوسری چیزیں انھیں دے دیتا۔ وہ اس کی کمزوری بھانپ گئے۔ وہ اس کی جھوٹی تعریفیں کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے۔ رفتہ رفتہ ہمارے شہزادے کی یہ عادت پختہ ہوتی چلی گئی اور اس کا نتیجہ ہم سب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کہانی میں ان ماں باپ کے لیے ایک سبق چھپا ہے جو اپنے بچوں سے دور دور رہتے ہیں اور ان کی کسی بات کی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں”۔ یہ کہہ کر بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوگیا۔

    وزیر کچھ دیر خاموشی سے سوچتا رہا پھر بولا ۔ “میں پوری کوشش کروں گا کہ ان کی اس عادت کو ختم کروادوں۔ یہاں پر میں یہ بات بھی کہوں گا کہ جو ماں باپ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے، ان کی باتیں نہیں سنتے، ان کی اچھی باتوں پر انھیں شاباش نہیں دیتے، وہ اپنے بچوں کو احساس محرومی کا شکار بنا دیتے ہیں۔ دنیا میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ پڑے ہیں۔ برے لوگ اس چیز کا فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اس طرح کے بچوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں”۔

    بادشاہ سلامت کی ماں اور باپ نے سر جھکالئیے۔ اسی وقت ملکہ کا ننھا شہزادہ باغ میں سے کھیل کر واپس آیا۔ اس کے ہاتھ میں کسی جھاڑی کا ایک تنکا تھا اور اس نے امرود کے ایک پتے کو درمیان سے اس تنکے میں پرو رکھا تھا۔

    شہزادے نے کمرے میں داخل ہو کر پہلے تو سب کو ادب سے سلام کیا پھر بولا ۔ “امی حضور۔ دیکھیے ہم نے امرود کے پتے کا پنکھا بنایا ہے۔ یہ گھومتا بھی ہے”۔ یہ کہہ کر اس نے پتے پر پھونک ماری تو پتا تیزی سے گھومنے لگا۔

    ملکہ یہ دیکھ کر نہال ہوگئی، آگے بڑھ کر شہزادے کو پیار کیا اور بولی ۔ “ہمارے شہزادے نے کتنا اچھا پنکھا بنایا ہے۔ ہمیں بھی اس سے کھیلنے دیجیے”۔

    شہزادے نے پتے پر ایک اور پھونک ماری اور بولا ۔ “آپ تو بڑی ہیں امی حضور۔ یہ تو بچوں کے کھیلنے کے لیے ہے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ وہاں سے بھاگ گیا۔

    بادشاہ سلامت کی ماں نے کہا ۔ “اگر یہ ہی سلوک ہم اپنے بیٹے سے بھی کرتے، اس کی باتیں سنا کرتے، اس کی تعریف کرتے تو وہ ایسا نہ بنتا جیسا بن گیا ہے”۔

    تھوڑی دیر بعد جب وزیر وہاں سے رخصت ہونے لگا تو اس نے ملکہ کو چند باتیں بتائیں اور درخواست کی وہ ان پر عمل کرے۔ ملکہ نے اس کی باتوں کو گرہ میں باندھ لیا۔

    رات کو جب بادشاہ سلامت اس کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے اور ننھا شہزادہ ان کے سامنے کھیل رہا تھا تو ملکہ نے بڑے پیار سے کہا ۔ “الله کا شکر ہے۔ میں بھی کس قدر خوش قسمت ہوں کا مجھے آپ جیسا شریف اور نیک شوہر نصیب ہوا ہے۔ جو شکل و صورت میں بھی یکتا ہے اور اپنے کردار میں بھی۔ اپنی رعایا کی محبّت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے”۔

    بادشاہ سلامت نے یہ سنا تو خوشی سے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ انہوں نے اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کا ہار اتار کر ملکہ کو پیش کیا “اس بات کا اظہار کرنے پر ہم اسے آپ کی نذر کرتے ہیں”۔

    ملکہ مسکرا کر بولی۔ “جہاں پناہ ہم اس انعام کو لینے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم نے آپ کی تعریف اپنے دل کی گہرائیوں سے کی ہے۔ ہمارے خلوص اور محبّت کی قیمت اس معمولی ہار سے ادا نہیں ہوسکتی”۔

    بادشاہ سلامت یہ بات سن کر حیران ہوگئے اور بولے۔ “جب دوسرے لوگ ہماری تعریف کے گن گاتے ہیں اور ہم انھیں انعام دیتے ہیں تو وہ فوراً لے لیتے ہیں۔ ملکہ آپ تو عجیب ہیں”۔

    “اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کی تعریف دکھاوے کی ہے۔ وہ یہ باتیں صرف آپ کو خوش کرکے انعام کے لالچ میں کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خلوص نہیں، لالچ بھرا ہوتا ہے۔ آپ تو میرے سر تاج ہیں۔ آپ کے بارے میں میں جو بھی کہوں گی وہ سچ ہوگا”۔

    ملکہ کی بات سن کر بادشاہ سلامت کچھ سوچنے لگے ۔ ملکہ نے جب لوہا گرم دیکھا تو ایک اور چوٹ ماری۔ “ہمارے دادا حضور ہمارے سب بہن بھائیوں کو ایک نصیحت کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے علاوہ اگر تمہارے منہ پر کوئی تمہاری تعریف کرے تو سمجھ لینا اس میں اس کی کوئی غرض پوشیدہ ہے”۔

    بادشاہ سلامت کی آنکھیں دوبارہ کسی سوچ میں ڈوب گئیں۔ انھیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی۔ اگلے روز دربار شروع ہونے سے پہلے وزیر بادشاہ سلامت سے ملنے آیا۔ وہ انھیں ایک کونے میں لے گیا اور ان کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔

    اس کی باتیں سن کر بادشاہ سلامت کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی تھی۔ وزیر خاموش ہوا تو انہوں نے کہا ۔ “عقلمند وزیر۔ تمہاری بات میں وزن معلوم دیتا ہے۔ ہمیں تمہاری تجویز سے اتفاق ہے”۔

    دربار شروع ہوا۔ سامنے تمام امرا، رؤسا اور دوسرے بڑے بڑے لوگ کرسیوں پر براجمان تھے۔ ان میں سے ہر کوئی اپنے ذہن میں وہ باتیں دوہرا رہا تھا، جو اسے بادشاہ سلامت کی شان میں کہنا تھیں۔ انہوں نے اپنے لباسوں میں کپڑے کے تھیلے چھپا رکھے تھے جن میں وہ انعام بھر بھر کر لے جاتے تھے۔ یہ انعام وہ بادشاہ سلامت کی جھوٹی تعریفیں کرکے بٹورتے تھے۔ دربار کی کاروائی دیکھنے کے لیے آج ملکہ بھی بادشاہ سلامت کے برابر میں بیٹھی تھی۔ وزیر نے اس سے خاص طور سے درخواست کی تھی کہ وہ آج دربار میں ضرور آکر بیٹھے، بڑا مزہ آئے گا۔

    دربار کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے وزیر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ اس نے سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہا ۔ “معزز اراکین دربار۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت کس قدر رعایا پرور ہیں۔ سونے کے وقت کو نکال کر وہ ہر وقت ان کی فلاح و بہبود کے لیے سوچتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی پریشان رہتے ہیں کہ مزید کون کون سے کام کریں جس سے ان کی رعایا کو فائدہ پہنچے”۔

    وزیر کی اتنی بات ہی سن کر دربار میں واہ واہ کا شور مچ گیا۔ دو تین پرجوش درباری تو کرسیوں سے بھی اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ “ہمارے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ الله نے ہمیں ان کے زیر سایہ رہنے کی سعادت بخشی ہے”۔

    اس کی اس بات پر دربار میں ایک شور سا مچ گیا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ملکہ یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے بہت سے خوشامدی اس نے ایک جگہ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔

    وزیر نے کہا ۔ “اب آگے سنیے۔ یہ بات بہت خوشی کی ہے کہ دربار میں موجود سب لوگ دولت مند اور خوشحال ہیں۔ بادشاہ سلامت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو بھی ان کی شان میں قصیدہ پڑھے گا، نظم یا غزل سنائے گا، یا نثر میں ان کی تعریف کرے گا، اس کے ساتھ اسے سو اشرفیاں بھی دینا پڑیں گی ۔ ان اشرفیوں کو شاہی خزانے میں شامل کر کے ان سے غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کی جائے گی۔ غریب اور بے سہارا لڑکیوں کی شادیاں کروائی جائیں گی، بے گھر لوگوں کو سر چھپانے کا ٹھکانا دیا جائے گا۔ اس طریقے سے جہاں ہم اپنے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کو خراج تحسین پیش کر سکیں گے، وہیں ڈھیر ساری نیکیاں بھی کما لیں گے۔ یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام”۔

    وزیر کی بات ختم ہوئی تو شاہی دربار میں سناٹا چھا گیا۔ اتنی خاموشی تھی کہ اگر وہاں ایک سوئی بھی گر جاتی تو سب اس کی آواز سن لیتے۔

    وزیر نے کہا۔ “ہاں تو آج پہلے اپنا کلام کون سنائے گا؟”۔

    دربار میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کسی نے جنبش تک نہ کی۔ تھوڑی دیر بعد ایک درباری اٹھا اور بولا۔ “میں نے بادشاہ سلامت کی شان میں بہت اچھا قصیدہ لکھا تھا مگر بدقسمتی سے اسے گھر بھول آیا ہوں”۔

    دوسرے نے کہا ۔ “رات بچوں نے ہی پیچھا نہیں چھوڑا۔ کچھ لکھنے کا وقت ہی نہیں ملا”۔

    غرض سب لوگوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر سنا دیا۔ جب سب اپنی اپنی کہہ کر خاموش ہوگئے تو بادشاہ سلامت نے گرج کر کہا ۔ “ہم تم سب کی چالاکیاں سمجھ گئے ہیں۔ تم سب لوگ ہمارے دربار سے نکل جاؤ۔ ہمیں ایسے مطلبی اور خود غرض درباریوں کی ضرورت نہیں ہے”۔

    بادشاہ سلامت کو بے وقوف بنا کر فائدہ اٹھانے والے تمام درباری بہت شرمندہ ہوئے اور دربار سے اٹھ کر چلے گئے۔

    اس روز کے بعد سے بادشاہ سلامت نے اپنی اس عادت سے چھٹکارہ پا لیا اور حکومت کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ وہ روز دربار لگاتے تھے اور لوگوں کی شکایتیں سن کر ان کا ازالہ کرتے تھے۔

    ان کی اس تبدیلی سے ملکہ اور وزیر بہت خوش تھے، اس لیے کہ بادشاہ سلامت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ان کو مطلب پرست خوشامدیوں سے بھی نجات مل گئی تھی۔ ملکہ کے دل میں وزیر کی عزت بھی بڑھ گئی تھی۔ وہ اس کی احسان مند تھی کیوں کہ اس کی عقلمندی کی وجہ سے بادشاہ سلامت راہ راست پر آگئے تھے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے