کرائے کی لائبریری
سہیل جب آٹھویں جماعت پاس کرکے نویں جماعت میں گیا تو اس کے امی ابّا بہت خوش ہوئے۔ سہیل کے دوسرے رشتے دار تو بہت دور دور رہتے تھے مگر دو چچا اسی شہر میں تھے اور ایک ساتھ رہتے تھے۔ بڑے چچا شادی شدہ تھے۔ چھوٹے چچا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ سہیل کے ابّا نے جب موبائل فون پر اس کے پاس ہونے کی خوش خبری انھیں سنائی تو انہوں نے کہا کہ وہ اتوار کے روز مبارکباد دینے ان کے گھر آئیں گے۔
ان کی آمد کا سن کر سہیل کی امی بہت خوش ہوئیں اور ان کے استقبال کی تیاریوں میں لگ گئیں۔ اتوار کے روز انہوں نے پلاؤ، زردہ اور کباب بنائے تھے۔ ان عمدہ کھانوں کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ میٹھے میں انہوں نے پستے بادام کی کھیر بنائی تھی۔ وہ اس تیاری میں دوپہر ہی سے لگی ہوئی تھیں۔ سہیل نے مختلف کاموں میں اپنی امی کا ہاتھ بٹایا تھا جس کی وجہ سے انھیں بڑی آسانی ہوگئی تھی۔ سہیل کی یہ بہت اچھی عادت تھی کہ وہ گھر کے کاموں میں اپنی امی کا ہاتھ بٹاتا تھا۔
سب کاموں سے فارغ ہو کر سہیل نے نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے اور تیار ہو کر مہمانوں کا انتظار کرنے لگا۔ شام کے پانچ بجے تو وہ اپنی امی کے پاس گیا اور بولا۔ ’’آپ نے تو کمال کر دیا ہے۔ اتنے اچھے اچھے کھانے پکائے ہیں ۔ گرمیاں ہیں اگر ٹھنڈا پانی ہوتا تو مزہ آجاتا۔ آپ اجازت دیں تو میں امجد لوگوں کے گھر سے ٹھنڈا پانی لے آؤں۔ ان کے گھر بہت بڑا سا فرج ہے‘‘۔
اس کی امی بولیں۔ ’’نہیں بیٹا۔ میں کسی کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھتی۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی کوشش کرنا چاہیے کہ اگر ہمارے پاس کوئی چیز نہ ہو تو ہمیں دوسروں سے نہیں مانگنا چاہیے۔ اس سے عزت کم ہوتی ہے۔ میں نے صبح گھڑے میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا۔ اس میں پانی بہت ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ فرج تو ہم بھی خرید لیتے مگر جو بیسی ہم نے اس کے لیے ڈالی تھی اس کے پیسے کسی اور کام میں خرچ ہوگئے ہیں۔ اب تم ماشا الله نویں جماعت میں پہنچ گئے ہو۔ دو سال بال بعد الله نے چاہا تو میٹرک بھی کر لو گے۔ تمہاری اگلی پڑھائی کے اخراجات کے لیے میں پھر ایک بڑی بیسی ڈال دوں گی۔‘‘
ان کی بات سن کر سہیل خاموش ہوگیا۔ اسے احساس تھا کہ اس کے ابّا بہت محنت سے اپنی نوکری کر رہے تھے مگر ان کی ساری تنخواہ گھر کے اخراجات اور اس کی پڑھائی پر خرچ ہوجاتی تھی۔ اس کی امی نے بہت تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ سال کے سال گزر جاتے تھے مگر ان کے نئے کپڑے بننے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ خود اس کے ابّا کے پاس صرف تین چار اچھے کپڑوں کے جوڑے تھے جو وہ آفس پہن کر جاتے تھے۔ ان کے جوتے بھی بہت پرانے ہوگئے تھے مگر وہ ان ہی سے کام چلا رہے تھے۔ اس نے دل میں سوچ لیا کہ وہ خوب دل لگا کر پڑھے گا اور پڑھ لکھ کر جب کسی اچھی سی نوکری پر لگ جائے گا تو اپنے گھر کو آرام دہ چیزوں سے بھر دے گا اور اپنے ماں باپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دے گا۔
سات بجے مہمان آگئے۔ انہوں نے سہیل کے گلے میں ہار ڈالے، پانچ سو روپے اسے انعام میں دیے۔ اس کے علاوہ وہ مٹھائی بھی لائے تھے۔ سہیل نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کی کامیابی پر اس کی چچی بھی بہت خوش تھیں۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے بہت ساری دعائیں دیں۔
دونوں چچاؤں اور چچی کے آنے سے گھر میں خوب رونق ہوگئی تھی۔ اپنے بھائیوں کو دیکھ کر سہیل کے ابّا بہت خوش تھے۔ وہ انھیں لے کر بیٹھک میں آگئے اور ان سے باتیں کرنے لگے۔ سہیل کی چچی کھانا لگانے میں اس کی امی کی مدد کرنے لگیں۔
سہیل بھی بیٹھک میں تھا۔ اس کے چھوٹے چچا جن کا نام خالد تھا، انہوں نے بتایا کہ انھیں دبئی میں نوکری مل گئی ہے اور وہ ہفتہ دس دن میں دبئی چلے جائیں گے۔ انہوں نے جب ایک چھوٹی سی ریک میں سہیل کی کہانیوں کی کتابیں دیکھیں تو بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے سہیل کو بتایا کہ انھیں بھی بچپن میں کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے پاس بچوں کی سینکڑوں کتابیں ہیں۔ ان کتابوں کو انہوں نے بچپن میں اپنے جیب خرچ کے پیسے بچا بچا کر خریدا تھا۔
سینکڑوں کتابوں کا سن کر سہیل کے منہ میں پانی آگیا اور اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ صوفے پر کھسک کر خالد چچا کے مزید نزدیک آگیا اور اشتیاق بھری نگاہوں سے انھیں دیکھنے لگا۔
خالد چچا نے کتابوں سے متعلق اس کی دلچسپی دیکھی تو مسکرانے لگے اور بولے۔ ’’بھئی سہیل۔ میں تو اب دبئی چلا جاؤں گا۔ وہ کتابیں میں نے بہت مرتبہ پڑھی ہیں۔ جاتے ہوئے ان کتابوں کو میں تمہیں دے جاؤں گا۔ تمہیں بھی کتابوں کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق بہت مفید ہوتا ہے اور سب بچوں کو ہونا چاہیے۔ اپنی معلومات بڑھانے کے لیے ہمیں مطالعہ کی عادت اپنانا چاہیے۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ کتابیں پڑھ پڑھ کر ہمیں طرح طرح کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ان معلومات کی وجہ سے ہماری خود اعتمادی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ اس خود اعتمادی کی وجہ سے ہم ہر کسی سے ہر موضوع پر معلوماتی گفتگو کر سکتے ہیں۔ خود اعتمادی کامیابی کی کنجی ہوتی ہے اور یہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے نئی نئی راہیں کھولتی ہے۔‘‘
سہیل نے کہا۔ ’’خالد چچا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے پاس اتنی ساری کتابیں ہوجائیں گی۔ میں تو جانے کب سے کتابیں جمع کر رہا ہوں مگر اب تک میرے پاس صرف ستائیس کتابیں ہی جمع ہوئی ہیں۔ بچوں کی کتابیں مہنگی بھی تو بہت ہو گئی ہیں۔ میں تو کبھی ابّا جان کے ساتھ صدر جاتا ہوں تو وہاں فٹ پاتھ پر لگی دکانوں سے پرانی کتابیں لے آتا ہوں۔ وہ سستی مل جاتی ہیں۔‘‘
’’مجھے بہت خوشی ہے کہ تمہیں کتابیں پڑھنے کا اتنا شوق ہے۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کل نہ بچوں کے زیادہ لکھنے والے ہیں اور نہ ہی زیادہ پڑھنے والے ہیں۔ ہمارے زمانے میں فیروز سنز، شیخ غلام علی اینڈ سنز اور مکتبہ القریش والے بچوں کی لگاتار کتابیں چھاپتے تھے۔ ان کے پاس لکھنے والوں کی ایک مستقل ٹیم ہوتی تھی۔ تم ان کتابوں کو پڑھو گے تو تمہیں بہت لطف آئے گا۔‘‘
ان کی بات سن کر ایک مرتبہ پھر سہیل کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ ’’چچا خالد۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں بچوں کی ایک لائبریری کھول لوں۔ ہمارے پورے علاقے بلکہ پورے شہر میں بچوں کی تو کیا بڑوں کی بھی کوئی لائبریری نہیں ہے۔ ہمارے علاقے کے بچے اسکولوں سے آکر شام تک گلی محلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ پارک وغیرہ تو رہے نہیں کہ ان میں جا کر کھلیں۔ بس وہ ادھر ادھر ہی گھومتے رہتے ہیں۔ اس آوارہ گردی کی وجہ سے وہ اچھی باتیں بھی نہیں سیکھتے ہیں۔ اکثر لڑکے میٹھی چھالیہ جس میں تمباکو بھی ہوتا ہے اسے کھاتے رہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے بری باتیں بھی سیکھتے رہتے ہیں۔‘‘
’’نا سمجھ لڑکے ہی گھر سے باہر رہنا پسند کرتے ہیں اور ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ویسے بھی بلا مقصد گھومنا پھرنا اچھے بچوں کا کام نہیں ہے۔ اس طرح وہ بہت سی بری باتیں بھی سیکھ جاتے ہیں اور ان کا دھیان بھی پڑھائی سے ہٹ جاتا ہے۔ یہ تم نے بہت اچھی بات کی ہے کہ تم ایک لائبریری کھولنا چاہتے ہو۔ تمہاری اس کوشش سے دوسرے بچوں میں بھی مطالعہ کا شوق پیدا ہو گا۔ ہمارے زمانے میں تو جگہ جگہ کرائے کی کتابوں کی لایبریریاں ہوتی تھیں۔ ہم مزے سے کتابیں لا لا کر پڑھتے تھے۔‘‘ خالد چچا نے کہا۔
مہمان تو چلے گئے مگر اس رات سہیل کو دیر تک نیند نہیں آئ۔ وہ ان کتابوں کے متعلق ہی سوچے جا رہا تھا جو خالد چچا نے اسے دینے کے لیے کہی تھیں۔ پھر وہ دن آ ہی گیا۔ دبئی جانے سے دو روز پہلے ایک سوزوکی میں چار لکڑی کے ریک اور ڈھیروں کتابیں ان کے گھر پہنچ گئی تھیں۔
اتنی کتابیں دیکھ کر اس کی امی سنّاٹے میں رہ گئیں۔ ’’سہیل بیٹے۔ ہم انہیں رکھیں گے کہاں؟ گھر میں صرف دو کمرے ہیں اور ان میں بھی سامان بھرا ہوا ہے۔‘‘
سہیل کے ابّا نے محسوس کرلیا تھا کہ کتابوں کی وجہ سے سہیل بہت خوش ہے۔ انہوں نے کہا۔ ’’بیگم۔ تم فکر کیوں کرتی ہو۔ ہمارے اس گھر میں آنے سے پہلے اس کی گیلری میں ایک کریانے کی دکان تھی جس میں اب ہم گھر کا کاٹھ کباڑ رکھتے ہیں۔ ہم وہ سامان نکال کر ٹین ڈبے والے کو دے دیں گے۔ سہیل کی کتابیں اس دکان میں آجائیں گی۔‘‘
اگلا ایک ہفتہ اس دکان کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا۔ اس کے ابّا نے اس میں رنگ بھی کروا دیا تھا اور ایک ٹیوب لائٹ کا بھی انتظام کردیا تھا۔ گھر میں ایک چھوٹی میز اور کرسی بھی تھی، انھیں لاکر وہاں رکھ دیا گیا۔ سہیل نے لکڑی کے تمام ریک دیواروں سے لگا کر ان میں بڑے قرینے سے تمام کتابیں لگا دیں۔ اس نے دو ہفتے لگا کر ایک موٹے سے رجسٹر میں تمام کہانیوں کے نام اور ان سے متعلق تفصیلات بھی درج کر لی تھیں۔ اس نے ایک دوسرا رجسٹر بھی بنا لیا تھا۔ یہ رجسٹر ان بچوں کے نام اور پتے لکھنے کے لیے تھا جو اس سے کتابیں کرائے پر لے کر گھر جاتے۔
جس روز لائبریری کا افتتاح ہونا تھا، اس روز اس نے قرآن خوانی کا اہتمام کیا اور اپنے تمام دوستوں کو اس تقریب میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ قرآن خوانی کے بعد دعا ہوئی اور سب بچوں میں شیرینی تقسیم کی گئی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد اس نے اس چھوٹی سی دکان کا شٹر کھول لیا۔ یہ شٹر گلی میں کھلتا تھا۔ یوں اس کی لائبریری کھل گئی اور وہ اپنی میز کرسی پر جم کر بیٹھ گیا۔ سب بچوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ انہوں نے نہ تو ایسی کوئی لائبریری دیکھی تھی نہ اس کے متعلق کچھ سنا تھا۔ یہ ضرور تھا کہ ہر بچے کی طرح ان کو بھی کہانیاں پڑھنے کا تو بہت شوق تھا مگر مہنگی ہونے کی وجہ سے وہ انہیں خرید نہیں سکتے تھے۔ اب جب انھیں پتہ چلا کہ صرف پانچ روپے دے کر وہ ایک کتاب چوبیس گھنٹے کے لیے کرائے پر حاصل کرکے گھر لے جا سکتے ہیں تو ان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ سہیل کی لائبریری پر بچوں کا رش لگ گیا۔ وہ موٹے سے رجسٹر میں کتابوں کے نام اور ان کی تفصیل دیکھ کر اپنی پسند کی کتاب لیتے۔ سہیل ان کا نام، گھر کا ایڈریس اور تاریخ لکھ کر کتاب ان کے حوالے کردیتا۔ اگلے چند روز میں ماؤتھ پبلسٹی کی وجہ سے آس پاس کے محلوں میں بھی اس لائبریری کی خبر ہوگئی تھی اور بچے جوق در جوق آنے لگے تھے۔ سہیل کو اس دوران سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملی تھی۔
محلے والوں نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ ان کی گلیوں میں اب بچوں کی وہ تعداد نظر نہیں آ رہی تھی، جو روز دیکھنے میں آتی تھی۔ محلے میں ادھر ادھر گھومنے والے اکثر بچے مزے سے گھر میں بیٹھے کہانی کی کتابوں میں کھوئے رہتے تھے۔ ان کی اس تعمیری مصروفیت پر ان کے والدین خوش ہوگئے تھے۔ کچھ بچوں کے ابّاوں نے تو خاص طور سے لائبریری پر آکر سہیل کو اس بات کی شاباش بھی دی تھی کہ اس نے لائبریری کھول کر ان کے بچوں کو پڑھنے لکھنے پر لگا دیا تھا جس کی وجہ سے ان کی آوارہ گردی کی عادت بھی ختم ہوگئی تھی۔
چند روز بھی نہیں گزرے تھے کہ بچوں کی لائبریری دور دور تک مشہور ہوگئی۔ سہیل نے یہ اندازہ لگایا کہ بچے اس کی تقریباً بیس سے پچیس کتابیں روزانہ لے کر جاتے تھے۔ مہینہ ختم ہوا تو اس کے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی۔ ایک روز وہ اپنے ابّا کے ساتھ اردو بازار گیا۔ وہ کتابوں اور رسالوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی۔ وہاں سے کتابوں کی خریداری پر ڈسکاؤنٹ بھی ملا کرتا تھا۔ سو روپے والی کتاب پچھتر یا اسی روپے میں مل جاتی تھی۔ سہیل نے وہاں گھوم پھر کر بچوں کے رسالے نونہال، تعلیم و تربیت، پھول، بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، آنکھ مچولی، انوکھی کہانیاں، جگنو اور بہت سی بچوں کی ناولیں خریدیں اور گھر آگیا۔ یہ رسالے اور کتابیں اس نے اپنی لائبریری میں رکھنے کے لیے لی تھیں۔
اب یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ وہ ہر ماہ اپنے ابّا کے ساتھ جا کر بچوں کے ماہ نامے اور ڈھیر ساری کہانیوں کی کتابیں خرید کر اپنی لائبریری کے ذخیرے میں جمع کرلیتا تھا۔ دن بدن اس کی لائبریری میں موجود کتابوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور دوسری طرف کرائے پر کتابیں لے جانے والے بچوں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوگیا تھا۔
سہیل نے اپنی پڑھائی لکھائی کے معمولات میں ذرا سا بھی فرق نہیں آنے دیا تھا۔ وہ روز اسکول جاتا۔ اسکول سے آکر ظہر کی نماز پڑھتا، کھانا کھاتا۔ گھر کے کاموں میں اپنی امی کا ہاتھ بٹاتا۔ انھیں کوئی سودا منگوانا ہوتا تو بھاگ کر بازار سے لے آتا اور ٹھیک تین بجے لائبریری کھول لیتا۔
عصر کی نماز کے وقت وہ بیس پچیس منٹ کے لیے لائبریری بند کرکے مسجد میں جا کر نماز ادا کرتا۔ اس دوران اس کی امی اس کے لیے چائے تیار کر لیتی تھیں۔ چائے کے ساتھ وہ کبھی آلو کے چپس یا پاپڑیاں تل لیتی تھیں۔ ان سے فارغ ہو کر وہ پھر لائبریری کھول کر بیٹھ جاتا اور مغرب تک وہیں رہتا۔ یوں بارش ہو یا سردی، اس کی لائبریری دوپہر تین بجے سے چھ ساڑھے چھ بجے تک پاپندی سے کھلتی تھی۔
رات کو جب وہ کھانے وغیرہ سے فارغ ہوجاتا تو پھر اپنا اسکول کا کام لے کر بیٹھ جاتا۔ اسکول کا کام ختم کر کے وہ اپنے پچھلے سبق دوہراتا اور ان کو یاد کرتا۔ پڑھتے پڑھتے رات کے بارہ بج جاتے تھے۔ اسے اتنی زیادہ محنت کرتا دیکھ کر اس کی امی فکر مند رہنے لگی تھیں۔
ایک روز انہوں نے اس کے ابّا سے کہا۔ ’’سہیل نے اپنے پیچھے یہ کیا مصیبت لگا لی ہے۔ اسے آرام کا ذرا بھی موقع نہیں ملتا۔ آپ اس سے کہیں کہ وہ یہ لائبریری وغیرہ بند کرے اور پہلے جیسی زندگی گزارے۔ مجھے تو ڈر ہے اس محنت سے وہ بیمار نہ پڑ جائے۔‘‘
’’میں تو اس کے اس کام سے بہت خوش ہوں۔ میرے دوست اور جاننے والے جب مجھ سے ملتے ہیں اور سہیل کے اس کام کی تعریف کرتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس لائبریری کی وجہ سے ان کے بچے ٹک کر ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کے بول چال اور رویوں میں بھی بہت فرق آگیا ہے۔ پہلے وہ اپنی ماؤں سے گستاخانہ انداز میں بھی بات کرلیا کرتے تھے، مگر کتابوں میں اچھی اچھی باتیں پڑھ کر ان کی یہ عادت بھی ختم ہو گئی ہے۔ وہ اب اسکول سے چھٹی کرنا بری بات سمجھتے ہیں اور اپنا ہر کام ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق کرتے ہیں۔ کتابیں پڑھ پڑھ کر انھیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اپنے بھائی بہنوں اور دوستوں کے ساتھ ان کا برتاؤ بھی بہت اچھا ہوگیا ہے اور وہ اب لڑتے جھگڑتے بھی نہیں ہیں۔ بیگم۔ اب تم ہی کہو میں اسے اس اچھے کام سے کیوں روکوں؟۔‘‘
ان کی باتیں سن کر سہیل کی امی متاثر تو ہوگئی تھیں مگر پھر بولیں۔’’میں تو یہ سوچتی ہوں کہ اس لائبریری کے چکر میں لگ کر اس کی پڑھائی نہ رہ جائے‘‘۔
’’سہیل ایک سمجھدار بچہ ہے۔ میں کبھی رات کو اٹھتا ہوں تو اس کے کمرے کی بتی جل رہی ہوتی ہے اور وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتا ہے۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ہمارا سہیل اتنا محنتی اور ذمہ دار ہے۔ کتنے بچے ایسے ہیں جو ان کتابوں کو پڑھ پڑھ کر بہت اچھے اور تمیزدار بچے بن گئے ہیں۔ ان میں کافی سمجھ بوجھ بھی آگئی ہے اور ان کا تعلیمی معیار بھی بہت بہتر ہوگیا ہے۔‘‘
سہیل کی امی لاجواب ہو کر خاموش ہوگئیں۔
پھر دو سال بڑی خاموشی سے گزر گئے۔ سہیل نے میٹرک کا امتحان بہت ہی اچھے نمبروں سے پاس کر لیا تھا۔ اس کی اس کامیابی سے اس کی امی تو خوشی سے نہال ہوئی جا رہی تھیں مگر اس کے ابّا فکرمند ہوگئے تھے۔ انھیں پتہ تھا کہ سہیل کو آگے پڑھنے کا بہت شوق ہے مگر ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ اس کو کالج میں داخلہ دلوا سکتے۔ ادھر ادھر سے پیسے لے کر اگر اس کا داخلہ کالج میں دلوا بھی دیتے تو پھر کورس کی کتابوں ، کاپیوں اور یونیفارم کے پیسے کہاں سے آتے۔ انہوں نے اس بات کا تذکرہ سہیل کی امی سے بھی کیا۔ وہ بیچاری بھی فکرمند ہوگئیں۔ مہنگائی اتنی ہو گئی تھی کہ تنخواہ میں سے کچھ بچتا ہی نہیں تھا اس لیے وہ بیسی بھی نہیں ڈال سکی تھیں۔ یہ سوچ کر ان کا دل بھر آیا کہ ان حالات میں سہیل اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکے گا۔
سہیل ان دونوں کی پریشانی بھانپ گیا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد وہ ان دونوں کے پاس بیٹھا اور بولا۔ ’’خالد چچا کتنے اچھے ہیں کہ انہوں نے اپنی ساری کہانیوں کی کتابیں مجھے دے دی تھیں جن کی وجہ سے میں بچوں کی لائبریری کھولنے کے قابل ہو سکا۔‘‘
اس کی بات سن کر اس کی امی نے سر جھکا لیا اور اس کے ابّا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ سہیل مسکرا کر بولا۔ ’’لائبریری کھل جانے سے دوسرے تمام بچوں کا بھی فائدہ ہوا اور میرا بھی۔ مجھے دو سال پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ کالج میں داخلے کے وقت ہمیں پیسوں کی پریشانی ہوگی۔ مجھے کتابوں کے کرائے کی مد میں جو پیسے ملتے تھے، میں ہر ماہ ان میں سے آدھے پیسوں کی تو کتابیں اور رسالے خرید لیتا تھا اور آدھے پیسے جمع کر لیتا تھا۔ ان دو سالوں میں میں نے تقریباً پچاس ہزار روپے جمع کر لیے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک بیگ اپنی امی کو تھما دیا۔ ’’امی اس بیگ میں میری دو سال کی محنت کی کمائی ہے۔‘‘
اس کی امی نے حیرت سے بیگ کی زپ کھولی۔ اندر چھوٹے بڑے نوٹ بھرے ہوئے تھے۔ سہیل کے ابّا بھی بے یقینی سے ان نوٹوں کو دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ بولے۔ ’’سہیل بیٹا۔ میں اور تمہاری ماں تو یہ سمجھتے تھے کہ لائبریری سے ملنے والی رقم سے تم ہر ماہ کتابیں خرید لیتے ہوگے اور باقی پیسے اسکول میں خرچ کردیتے ہوگے۔‘‘
ان کی بات سن کر سہیل سنجیدہ ہوگیا اور بولا۔ ’’آپ اتنی محنت سے اور اتنے دنوں سے نوکری کر رہے ہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں بھی آپ نے میری تعلیم جاری رکھی۔ مجھے کچّی پہلی سے دسویں جماعت تک پڑھایا۔ اس کے علاوہ میری سب ضرورتیں تو آپ لوگ پوری کردیتے تھے پھر مجھے اسکول میں کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ لائبریری سے ملنے والے پیسوں کو میں بڑی احتیاط سے سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا۔ اب ان پیسوں سے نہ صرف میرا کالج میں ایڈمشن ہو جائے گا اور کورس وغیرہ آجائے گا، بلکہ امی اور آپ کے بہت سے کپڑے اور جوتے بھی آجائیں گے۔ اور ابّا جان اب آپ کو میری تعلیم کے اخراجات کی طرف سے بھی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میری لائبریری بہت اچھی چلنے لگی ہے۔ دور دور کے علاقوں سے بچے اور بڑے آکر کتابیں اور رسالے لے جاتے ہیں۔ مجھے اس بات پر بہت خوشی اور فخر ہے کہ میں بہت زیادہ تو نہیں مگر تھوڑا سا ہی سہی، اپنے ماں باپ کے کام تو آیا۔‘‘
اس کی بات سن کر اس کی امی نے اس کو اپنے گلے سے لگا لیا اور اسے پیار کیا۔ ان کی محبت دیکھ کر سہیل کی آنکھیں بھر آئ تھیں۔ کچھ دیر بعد سہیل اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اس کے ابّا بے حد خوش تھے۔ انہوں نے مسکرا کر سہیل کی امی کو دیکھا اور بولے۔ ’’واقعی کتابیں انسان کو شعور دیتی ہیں۔ سہیل نے شروع ہی سے کتابوں سے دوستی رکھی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس میں عقل اور سمجھداری آگئی ہے۔ اس نے اپنے ماں باپ کی مشکلات کا بہت پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا اور اپنی محنت اور لیاقت سے ان مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب بھی ہوگیا ہے۔ میں اس سے بہت خوش ہوں۔‘‘
سہیل کی امی نے نوٹوں کے بیگ کو اپنے دوپٹے میں چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’میرے بچے نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ الله اسے ہمیشہ خوش رکھے۔ اب میری یہ پریشانی بھی دور ہوگئی ہے کہ اس کے آئندہ تعلیمی اخراجات کا کیا ہوگا۔ اس نے بغیر ہمارے کہے یہ سب کچھ کیا ہے۔ میں تو دعا کرتی ہوں کہ ہر بچہ ایسا ہی اپنے ماں باپ کا خیال کرنے والا اور ذمہ دار بن جائے۔ ایسے بچوں سے ان کے ماں باپ کتنا خوش ہوتے ہیں اور ان کے لیے ان کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔’’ یہ کہتے کہتے ان کی آواز بھّرا گئی تھی۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولیں۔ الله کا شکر ہے کہ اس نے ہماری ایک بہت بڑی پریشانی دور کر دی ہے۔‘‘
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.