Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لکڑ ہارے کا بیٹا

مختار احمد

لکڑ ہارے کا بیٹا

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    ایک روز کا ذکر ہے شہزادی گل صنوبر محل کے باغ میں جھولاجھول رہی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ ملکہ اور بادشاہ بھی وہیں تھے اور ایک تخت پربیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔

    شہزادی کو باغ میں جھولا جھولنا بہت اچھا لگتا تھا وہ اپنی کنیزوں کے ساتھ روز شام کو یہاں آتی تھی۔ آج اس کے ساتھ ملکہ اور بادشاہ بھی آگئے تھے۔ شہزادی حسب معمول جھولا جھول رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر ایک نہایت خوب صورت پرندے پر پڑی۔ اس کا رنگ سنہری تھا اور سر پر ایک چھوٹا سا تاج بھی تھا۔ وہ درخت پر بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

    اس کی خوب صورتی دیکھ کرشہزادی گل صنوبر دنگ رہ گئی اور جھولے سے اتر کر اس درخت کے نزدیک آگئی جس پر وہ خوب صورت پرندہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پرندے سے کہا۔ ’’تم کتنے خوب صورت پرندے ہو۔ آؤ میرے پاس آؤ۔میں تمہیں کھٹی میٹھی رس بھری کھلاؤں گی‘‘۔

    اس کی بات سن کر پرندے نے کہا۔ ’’میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ تم جیسی اچھی اور خوش اخلاق لڑکی کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر باتیں کروں اور کھٹی میٹھی رس بھریاں کھاؤں۔ مگر میں تو نگر نگر کی سیر کرنے کے لیے نکلا ہوں اس لیے چلتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے پر پھڑپھڑآئے اور اڑ گیا۔

    شہزادی صنوبر کو بہت حیرت ہوئی کہ وہ خوب صورت پرندہ انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا۔ وہ بھاگ کر بادشاہ کے پاس آئی اوربولی۔ ’’ابّا حضور۔ مجھے وہ بولنے والا پرندہ چاہیے۔ ابھی۔ اسی وقت‘‘۔

    پہلے تو بادشاہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ شہزادی صنوبر کیا کہہ رہی ہے مگر جب کنیزوں نے بتایا کہ درخت پر ایک سنہری پرندہ آکر بیٹھا تھا اور انسانی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا تو بادشاہ نے کہا۔”بیٹی۔ میں نے کہانیوں میں تو سنا ہے کہ پرستان میں کچھ ایسے پرندے بھی ہوتے ہیں جو انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ وہ پرندہ پرستان سے ہی آیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے وہ کل پھر آئے‘‘۔

    اگلے روز شہزادی صنوبر انتظار ہی کرتی رہی مگر وہ پرندہ دوبارہ وہاں نہیں آیا۔ اس کی فکر میں شہزادی نے پورے دن نہ کچھ کھایااور نہ کچھ پیا۔ جب رات ہوئی تو وہ بالکل ہی نا امید ہوگئی اور ملکہ کے گلے لگ کر رونے لگی۔ ملکہ نے اسے مختلف طریقوں سے بہلانے کی کوشش کی مگر اس عجیب و غریب پرندے کے خیال کوشہزادی صنوبر کے دل سے نہ نکال سکی۔

    اپنی چہیتی بیٹی کی اداسی دیکھ کر بادشاہ بھی پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے بہت سارے کھلونے منگوا کر شہزادی گل صنوبر کو دیے مگراس نے ان کھلونوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ جب دوتین روز اسی طرح گزر گئے تو ملکہ اور بادشاہ کی تشویس میں اضافہ ہوگیا۔ شہزادی گل صنوبر ان چند دنوں میں نہایت کمزورہوگئی تھی۔ انھیں یہ ڈر تھا کہ وہ کہیں بیمار نہ پڑ جائے۔ بادشاہ کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ وہ شہزادی کے ساتھ پرستان جا کر اس پرندے کو تلاش کرکے اپنے ساتھ لائے تاکہ اسے پا کر وہ خوش ہوجائے۔

    یہ بات اس نے جب ملکہ کو بتائی تووہ بولی۔ ’’اگر آپ اس سفر پر روانہ ہوئے تو حکومت کون چلائے گا۔اس پرندے کو تلاش کرتے کرتے نہ جانے کتنے دن لگ جائیں۔ اس دوران رعایا کی خبر گیری کون کرے گا۔ آپ ایسا کریں کہ یہ اعلان کروا دیں کہ جو بھی پرستان سے اس عجیب و غریب پرندے کو لے کر آئے گا اسے بہت سی اشرفیاں انعام میں دی جائیں گی‘‘۔

    بادشاہ کو ملکہ کی یہ تجویز پسند آئی اور اس نے یہ اعلان کروادیا۔انعام کا سن کر بہت سے لوگ قسمت آزمانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ پرستان بہت دور تھا اور اس کا راستہ بھی پر خطر تھا۔ راستے میں بہت سے پہاڑ تھے، دریا تھے، جنگل تھے اور جنگلوں میں خونخوار درندے تھے۔

    بہت سے لوگ اونچے اونچے پہاڑوں پر نہ چڑھ سکے، بعض دریا کو عبور نہ کر سکے۔ کچھ لوگ جنگل میں درندوں کو دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے۔ غرض یہ کہ کوئی بھی پرستان سے اس پرندے کو نہ لے کر آ سکا۔

    ایک روز دو نوجوان بادشاہ سے ملنے محل آئے اور بادشاہ سے پرستان جانے کی اجازت طلب کی تاکہ وہاں سے اس پرندے کو ڈھونڈکر لا سکیں۔ بادشاہ نے انھیں اجازت دے دی اور تاکید کی کہ وہ اس پرندے کو لے کر جلد سے جلد آنے کی کوشش کریں کیوں کہ شہزادی گل صنوبر کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔

    دونوں نوجوان اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر اس پر خطر سفرپر روانہ ہوگئے۔ ان میں سے ایک کا نام شہر یار تھا اور وہ ایک لکڑہارے کا بیٹا تھا۔ دوسرے نوجوان کا نام سلیم تھا اور اس کا باپ ریشمی کپڑوں کا تاجر تھا۔ سلیم چونکہ ایک دولت مند تاجر کا بیٹا تھااس لیے اس میں بہت غرور تھا۔ اس نے شہر یار سے کہا۔ ’’ تم جا کر اپنے باپ کے ساتھ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور انھیں گدھے پر لادکر شہر میں بیچو۔ تم ان چکروں میں کہاں پڑ گئے ہو؟‘‘۔

    شہر یار نے اس کی بات کا برا نہیں منایا۔ مسکرا کر بولا۔ ’’لکڑیاں تومیرے ابّا کاٹ لیں گے تم اس کی فکر چھوڑو۔ ہمارے بادشاہ سلامت اور ان کی ملکہ بہت اچھی ہیں۔ وہ دونوں اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے اچھے سلوک کی وجہ سے ہمارے ملک میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔ اپنے بادشاہ سلامت کی وجہ سے ہم لوگ بہت خوش حال ہیں۔ اب ان پر وقت پڑا ہے تو ہمارابھی فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں۔ مجھے انعام کا لالچ نہیں، میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ وہ پرندہ جلد سے جلد لا کر بادشاہ سلامت کے حوالے کردوں تاکہ ان کی بیٹی خوش ہوجائے اور ہمارے بادشاہ اورملکہ کی فکر دور ہو‘‘۔

    وہ باتیں کرتے کرتے کافی دور نکل آئے تھے۔ اس وقت وہ ایک میدان میں تھے جس میں کہیں کہیں بڑے درخت بھی نظر آ رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے انہوں نے ایک بوڑھی عورت اور اس کے شوہر کو دیکھا۔ شہر یار اور سلیم کو آتا دیکھ کر بوڑھا شخص کھڑا ہوگیا اورانھیں رکنے کا اشارہ کیا۔

    ’’ا و بوڑھے شخص۔ تیرا دماغ خراب ہے جو ہمارا راستہ روک رہاہے؟‘‘۔ سلیم نے نہایت نہایت غصے سے کہا اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے جھک کر ایک ہاتھ سے دھکّا دے کر بوڑھے کو ایک طرف ہٹا دیااور گھوڑا بھگاتا ہوا آگے نکل گیا۔

    بے چارہ بوڑھا زمین پر گر پڑا۔ اسے گرتا دیکھ کر اس کی بیوی چیخ چیخ کر دہائیاں دینے لگی اور اسے زمین سے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ دیکھ کر شہر یار جلدی سے گھوڑے سے نیچے اترا،بوڑھے کو زمین پر سے اٹھایا اور بولا۔ ’’محترم بزرگ۔ آپ کو چوٹ تو نہیں آئ؟‘‘۔

    بوڑھا کراہتا ہوا کھڑا ہوگیا اور بولا۔ ’’برا ہو اس بد بخت کا۔ مجھے پہلے سے پتہ ہوتا کہ وہ ایسا ہے تو میں کبھی اسے اپنی مدد کے لیے نہیں روکتا‘‘۔

    ’’اسے چھوڑئیے۔ مجھے بتایے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں‘‘۔ شہریار نے نہایت نرمی سے کہا۔

    ’’بیٹا ہم صبح سے گھر جانے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بہن کے گھر سے آ رہا ہوں۔ ہمارا گاؤں یہاں سے چندکوس کے فاصلے پر ہے۔ ہم بوڑھے ہیں۔ چل چل کر بری طرح تھک گئے ہیں۔ بھوک سے برا حال ہے۔ گھر پہنچیں تو کھانا کھائیں اورآرام کریں۔ تمھارے پاس گھوڑا موجود ہے۔ تمہاری مہربانی ہوگی اگرہمیں گاؤں تک پہنچا دو‘‘۔

    بوڑھے کی بات سن کر شہر یار نے اپنا کھانا نکال کر ان دونوں کودیا۔ یہ کھانا اس کی ماں نے اس کے ساتھ کردیا تھا تاکہ سفر کے دوران اسے بھوک لگے تو وہ اسے کھا لے۔ جب وہ دونوں کھاناکھا چکے تو شہر یار نے دونوں کو گھوڑے پر سوار کرایا اور خودگھوڑے کی باگ پکڑ کر تیز تیز قدموں سے ان کے گاؤں کی سمت روانہ ہوگیا۔ دونوں میاں بیوی اسے دعائیں دے رہے تھے۔

    شام ہوتے ہوتے وہ ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔ اسی گاؤں میں ان بوڑھے میاں بیوی کا گھر تھا۔ گھر پہنچ کر بوڑھے اور اس کی بیوی نے بڑے اصرار سے شہر یار کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اگلے روز تک ان کے گھر میں ہی ٹہرے کیوں کہ رات سر پر تھی اور رات کوسفر یوں بھی مناسب نہیں ہوتا۔شہر یار نے ان کی بات مان لی۔

    رات کھانے کے بعد بوڑھے نے کہا۔ ’’اب نوجوان تم بتاؤ۔ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو‘‘۔

    جواب میں شہر یار نے اسے پوری کہانی سنا دی اور بتایا کہ وہ بولنے والے پرندے کی تلاش میں پرستان جا رہا ہے تاکہ اُسے لے جا کر شہزادی گل صنوبر کے حوالے کر سکے۔

    اس کی بات سن کر بوڑھا سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔”پرستان میں کچھ ایسے نایاب پرندے بھی ہوتے ہیں جو انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہیں مگر انھیں وہاں جا کر تلاش کرنا پڑے گا۔پرستان جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستے پر خطرات بہت ہیں اور اس کا راستہ بھی بہت طویل ہے۔ دوسرا راستہ قریب کا راستہ ہے۔ اگر گھوڑا تیز رفتار ہو تو ایک گھنٹہ میں وہاں پہنچا جا سکتاہے۔ اس راستے پر کوئی خطرہ بھی نہیں ہے‘‘۔

    اگلے روز شہر یار صبح سویرے بیدار ہو گیا۔ بوڑھے نے اُسے پرستان کا راستہ اچھی طرح سمجھا دیا تھا۔وہ روانہ ہونے لگا تو بوڑھے نے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں لگے درختوں سے بہت سارے امرود توڑ کر ایک تھیلے میں رکھ کر اسے دئیے اور بولا۔”پرستان کے پرندے امرود بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ پھل پرستان میں نہیں ہوتا ہے اسی لیے ان کی تلاش میں وہ انسانوں کی دنیا میں آ جاتے ہیں۔ تم یہ امرود اپنے پاس رکھو۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی خوشبو وہاں کے پرندوں کو تمہاری طرف متوجہ کردے گی۔ ہوسکتاہے ان میں کوئی ایسا پرندہ بھی ہو جو انسانوں کی طرح باتیں کرتا ہو‘‘۔

    شہر یار نے امرود لے کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گھوڑے پر سوارہو کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔جس راستے پر اس کا گھوڑا دوڑ رہا تھا وہ بہت صاف ستھرا اورہموار تھا۔ ایک لمبی پگڈنڈی تھی جس کے دونوں ا طراف میں ہری ہری گھاس تھی۔ کہیں کہیں پھولوں کے پودے بھی نظر آجاتے تھے۔اس راستے پر سفر کرتے ہوئے وہ بہت جلد پرستان پہنچ گیا۔

    وہ پرستان میں داخل ہوا تو چاروں طرف بہت چہل پہل نظر آرہی تھی۔حسین و جمیل پریاں خوب صورت اور رنگ برنگی لباس پہنے ادھرسے ادھر اڑتی پھر رہی تھیں۔ پریزاد بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے اور مختلف اشیا کی خریداری میں مصروف تھے۔

    شہر یار نے ایک میدان کے چاروں طرف بہت سارے پری زادوں کا جھمگٹادیکھا۔ وہ قریب گیا تو پتہ چلا کہ وہاں دو دیووں کی کشتی ہو رہی ہے اور یہ سب ان دیووں کی کشتی دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ اس کابھی دل چاہا کہ دیووں کی کشتی دیکھے مگر اس نے وقت ضائع کرنامناسب نہ سمجھا اور بولتے پرندے کی تلاش میں چل پڑا۔ اس کی نظریں درختوں پر لگی ہوئی تھیں تاکہ اسے پرندے نظرآجائیں۔

    چلتے چلتے وہ ایک باغ میں پہنچا۔ وہاں پر بہت سارے چھوٹے بڑے نہایت خوب صورت پرندے فضا میں اڑتے پھر رہے تھے۔ وہ سب اپنی سریلی آوازوں میں چہچہا رہے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو انسانی زبان میں باتیں کر رہا ہو۔ شہریار کو مایوسی تو ہوئی مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے گھاس پربیٹھ کر کچھ امرود کی قاشیں اپنے سامنے ایک کپڑا بچھا کر رکھ دیں۔ امرودوں کی خوشبو سے جتنے بھی پرندے تھے وہ وہاں آگئے اوراپنی ننھی ننھی چونچوں سے انھیں کھانے لگے۔

    ’’اور بھئی پرندوں کیا حال ہے؟‘‘ اس نے کہا۔ مگر کسی نے بھی اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ شہر یار سمجھ گیا کہ ان پرندوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو انسانوں کی طرح بولتا ہو۔ امرود کی قاشیں ختم ہوگئیں تو وہ سب خوشی سے چہچہاتے ہوئے اڑ گئے۔

    اچانک ایک سنہرے پروں والا پرندہ فضا سے اڑتا ہوا آیا اور شہر یارکے سامنے بیٹھ کر بولا۔ ’’افسوس مجھے آنے میں دیر ہوگئی ہے۔سارے امرود تو ختم ہوگئے ہیں‘‘۔

    شہر یار اس سنہری پرندے کو انسانی زبان میں بولتا دیکھ کر خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ اس نے ایک بڑا سے پیلا پیلا، نرم گدریلا امرودنکال کر اس پرندے کے سامنے رکھا اور بڑے پیار سے بولا۔ ’’پیارے پرندے۔ فکر نہ کرو۔ میرے پاس اور بھی امرود موجود ہیں‘‘۔ یہ سن کر پرندہ پھدکتا ہوئے اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور مزے سے اس کا دیا ہوا امرود کھانے لگا۔

    ’’کیا تم میرے ساتھ انسانوں کی دنیا میں چلنا پسند کرو گے؟‘‘۔ آخر شہریار نے اپنے مطلب کی بات کہہ ہی دی۔

    ’’کیوں نہیں‘‘۔ پرندے نے جلدی سے کہا۔ ’’مجھے وہاں رہنا بہت اچھالگتا ہے۔ وہاں امروددوں کے بھی بہت سے باغ ہیں۔ مجھے امرودکھانا بہت پسند ہے۔ اگر میں تمھارے ساتھ چلوں تو تم مجھے پنجرے میں تو نہیں رکھو گے۔ مجھے پنجرے میں بند ہو کر رہنا بالکل اچھا نہیں لگتا‘‘۔

    ’’میں تمہاری تلاش میں بہت دور کا سفر طے کرکے آرہا ہوں۔ ہمارے بادشاہ کی بیٹی تمہیں یاد کرکر کے ہلکان ہوگئی ہے۔ اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے۔ میں تمہیں لے جا کر اسی شہزادی کے حوالے کردوں گا۔ وہاں محل میں تم بہت آرام سے رہو گے۔ میں اسے بتا دوں گا کہ وہ تمہیں پنجرے میں بند نہ کرے‘‘۔ شہر یار نے کہا۔

    ’’میں کچھ روز پہلے شہزادی سے مل چکا ہوں۔ میں شہر شہرگھومنے پھرنے نکلا تھا اور اتفاق سے محل کے باغ میں میری شہزادی سے ملاقات ہوگئی تھی۔ وہ ایک بہت اچھی اور خوش اخلاق لڑکی ہے۔ میں بخوشی اس کے پاس رہنے کو تیار ہوں‘‘۔ پرندے نے کہا اور اڑ کر شہر یار کے ہاتھ پر بیٹھ گیا۔

    شہر یار کا مقصد پورا ہوگیا تھا لہٰذا وہ واپسی کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ پرندہ کافی اونچائی پر اس کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا۔ابھی وہ اپنے ملک کی حدود میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس نے سلیم کودور سے آتے ہوئے دیکھا۔ اس کی حالت انتہائی خراب تھی۔ اس کاجسم دھول مٹی سے اٹا ہوا تھا اور کپڑے بھی بہت بوسیدہ ہوگئے تھے۔ اس کا گھوڑا بھی نہایت کمزور ہوگیا تھا۔ شہر یار سمجھ گیاکہ پرستان جانے کے لیے سلیم اس پر خطر راستے پر نکل گیا ہوگاجس کے بارے میں بوڑھے نے اسے بتایا تھا۔

    سلیم نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس کے قریب آیا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملے۔ شہر یار کے پوچھنے پر سلیم نے بتایا۔ ’’مجھ سے بڑی غلطی ہوئی جو میں انعام کے لالچ میں اس سفر پر نکل کھڑا ہوا۔پرستان کے راستے میں بڑے خطرات تھے۔ میں بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگا ہوں‘‘۔

    شہر یار نے اسے اپنی کہانی سنائی اور بتایا کہ اس نے ان بوڑھے میاں بیوی کو اپنے گھوڑے پر بٹھا کر ان کے گاؤں پہنچایا تھا۔بوڑھے نے خوش ہو کر اس کی مدد کی جس کی وجہ سے وہ بولنے والا پرندہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے‘‘۔

    ’’وہ پرندہ تو تمھارے پاس نظر نہیں آرہا۔ کہاں ہے وہ؟‘‘ سلیم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

    شہر یار نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اوپر اشارہ کیا۔ سلیم نے دیکھا کہ ایک خوب صورت سنہری پرندہ ان کے سروں پر منڈلا رہاہے۔ انھیں باتیں کرتا دیکھ کر پرندے نے چلا کر کہا۔ ’’شہر یار۔جلدی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ رات ہوجائے‘‘۔شہر یار نے سلیم کو خدا حافظ کہا اور اپنے گھوڑے کو چلنے کااشارہ کیا۔

    سلیم نے اسے جاتا دیکھا تو بولا۔ ’’اگر میں ان بوڑھے میاں بیوی کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتا تو مجھے بھی بولتا پرندہ مل جاتا۔ شہزادی کے پاس ایسے دو پرندے ہوجاتے۔ میں نے اپنی بداخلاقی کی وجہ سے انعام حاصل کرنے کا موقع ضائع کردیا ہے۔مجھے اپنے برے سلوک اور غرور کی سزا مل گئی ہے‘‘۔ یہ کہہ کروہ بھی اپنی راہ ہولیا۔

    شہر یار محل پہنچا تو سنہری پرندے کو دیکھ کر شہزادی گل صنوبرخوش ہوگئی۔ پرندہ بھی بہت جلد اس سے مانوس ہوگیا تھا۔ شہزادی جہاں بھی جاتی وہ اس کے پیچھے پیچھے ہوتا۔ شہر یار کے کہنے پرشہزادی گل صنوبر نے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ پرندے کو پنجرے میں نہیں رکھے گی۔

    شہزادی گل صنوبر کو خوش دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ بادشاہ نے شہر یار کی ہمت اور بہادری کی بہت تعریف کی۔ رات ہو گئی تھی اس لیے بادشاہ نے شہر یار کو گھر نہیں جانے دیا اور اسے شاہی مہمان خانے میں ٹھہرانے کا حکم دیا۔

    اگلے روز حسب وعدہ بادشاہ نے شہر یار کو بہت ساری اشرفیاں انعام میں دیں۔ شہر یار نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور اشرفیوں کاتھیلا اپنے گھوڑے پر رکھ کر محل سے رخصت ہونے لگا۔ شہزادی گل صنوبر اپنے سنہری پرندے کے ساتھ اسے خدا حافظ کہنے آئی۔

    شہر یار محل سے نکلا تو اس کا رخ اپنے گھر کی جانب نہیں تھا۔ وہ بڑی تیزی سے اپنا گھوڑا دوڑاتا ہوا اس بوڑھے کے گاؤں کی جانب جا رہا تھا جس کی مدد کی وجہ سے وہ بولنے والا پرندہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ وہ ان کے گاؤں میں پہنچا تو بے چارہ بوڑھا بیمار پڑا تھا اور اس کی بیوی اس کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھی۔ بیماری کی وجہ سے بوڑھا اپنے کام پر بھی نہیں جا سکا تھا۔ایسے میں شہر یار کی اس روز کی دی ہوئی رقم ان کے بہت کام آئی تھی۔

    شہر یار کو دیکھ کر دونوں میاں بیوی خوش ہوگئے۔ شہر یار نے اپنی کامیابی کی خبر انھیں سنائی۔ پھر اس نے بادشاہ کے دیے ہوئے انعام میں سے آدھی اشرفیاں بوڑھے کے حوالے کیں اور بولا۔ ’’آدھے انعام کے آپ بھی حق دار ہیں۔ اگر آپ میری مدد نہ کرتے تو مجھے وہ پرندہ کبھی بھی نہ ملتا‘‘۔

    اتنی بہت سی اشرفیاں پا کر وہ دونوں خوش ہوگئے اور شہر یار کودعائیں دینے لگے۔

    اس کے بعد شہر یار اپنے گھر آیا۔ اس نے پوری کہانی اپنے ماں باپ کو سنائی اور بادشاہ سے ملا ہوا آدھا انعام ان کے حوالے کیا۔ اس کے ماں باپ تو خوشی سے پھولا نہیں سما رہے تھے۔ وہ اس بات پر بھی بہت خوش تھے کہ ان کے بیٹے نے اپنے محسن کو فراموش نہیں کیا تھا اور انعام کا آدھا حصہ اسے بھی دیا تھا۔

    انعام میں ملی ہوئی اشرفیوں سے شہر یار نے اپنا کاروبار کر لیا۔ اس کے باپ نے بھی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرنا چھوڑ دیں اور کاروبار میں اپنے بیٹے کا ہاتھ بٹانے لگا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ان کا کاروبار خوب چمک اٹھا۔ یوں ایک لکڑ ہارے کا بیٹا کمزورانسانوں سے محبت اور ان کی مدد کرنے کے صلے میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک خوش حال زندگی گزارنے لگا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے