Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لکڑی کے چوکور ٹکڑے کی ڈرائنگ

صاحب علی

لکڑی کے چوکور ٹکڑے کی ڈرائنگ

صاحب علی

MORE BYصاحب علی

    گھنٹی دوبارہ بجی۔ تیسرا پریڈ شروع ہوا۔ ڈرائنگ ماسٹر کلاس میں داخل ہوئے۔ بچوں نے اپنی کتابیں بند کرکے بستوں میں رکھ۔ ڈرائنگ کی کاپیاں باہر نکالیں۔ ماسٹر نے پنسلیں تقسیم کیں۔ ربر رکھے۔ کچھ پنسلوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ چاقو لے کر بچے پنسل کی نوک بنانے لگے۔

    استاد نے میز پر ایک لکڑی کا ٹکڑا رکھا۔ وہ چوکور تھا۔

    ماسٹر نے گردن موڑ کر ایک دوبار اس ٹکڑے کو دیکھا۔

    ٹکڑے کو تھوڑا

    ٹڑڑھا کیا۔ انہیں اطمینان ہوا۔

    ’’ہوں! کرو شروعات! اس لکڑی کے ٹکڑے کی ڈرائنگ بنانی ہے آج! اس کی طرف اچھے سے دیکھو۔ ایک آنکھ بند کرو اور پنسل سے اس کا ناپ لو۔ باریک لائن کھینچو۔ کاٹ پیٹ نہ کرو۔ فٹ پٹی سے نہیں بنانا ہے، ہاتھ سے لائن کھینچنی ہے۔ کاٹ پیٹ نہ کرو۔ فٹ پٹی سے نہیں بنانا ہے، ہاتھ سے لائن کھینچنی ہے۔ چلو جلدی سے ختم کرو۔‘‘

    بچوں نے ایک آنکھ بند کر کے پنسل ناک کے سامنے رکھی۔ گردن گھما گھما کر وہ لکڑی کے ٹکڑے کا ناپ لینے لگے۔ ماسٹر کلاس کے کونے میں کھڑے رہے۔ لکڑی کے ٹکڑے کی جانب شان سے دیکھنے لگے۔ درمیان میں وہ بچوں کی طرف بھی دیکھ رہے تھے۔

    ’’ماسٹر صاحب میں پھول بناؤں؟‘‘ پیچھے کی بنچ سے ایک دبلا پتلا لڑکا کھڑا ہوا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

    ’’کون کہہ رہا پھول بناؤں؟ لکڑی کا ٹکڑا بنانے کے لیے کہا اور کہتا ہے پھول بناؤں۔ کون کہہ رہا ہے؟ بے وقوف کہیں کا۔ نیچے بیٹھ، لکڑی کا ٹکڑا بنا۔‘‘ ماسٹر غصیلی نظروں سے دیکھنے لگے۔

    لڑکا شرمندہ ہوکر نیچے بیٹھ گیا۔ اس نے ناک کے سامنے پنسل پکڑی اور لکڑی کے ٹکڑے کا ناپ لینے لگا۔ اس کا ہاتھ تھر تھر کانپ رہا تھا۔

    ’’ماسٹر صاحب، یہ لکڑی کا ٹکڑا نہیں بنا رہا ہے۔ اس نے اور ہی کچھ بنایا ہے۔‘‘ دوسری جانب بیٹھے ہوئے ایک لڑکے نے چغلی کی۔

    ’’کون لکڑی کا ٹکڑا نہیں بنا رہا ہے؟‘‘ ماسٹر نے دانت چباتے ہوئے پوچھا۔

    ’’ماسٹر صاحب یہ دتوسانے!‘‘ چغلی کرنے والے نے خطاکار کا نام بتادیا۔ گھبرائی ہوئی آنکھوں سے دتوسا نے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس نے جھٹ سے تصویر کاپی کے اندر چھپائی اور پنسل ناک کے سامنے رکھ کر ماسٹر کی طرف دیکھنے لگا۔ ماسٹر کی نظروں سے یہ سب چھپا نہیں رہ سکا۔ غصے سے آنکھیں نکالتے ہوئے وہ اس کی طرف دوڑے۔ انہوں نے کاپی اٹھائی اور اس کے اندر سے وہ تصویر نکالی۔

    ’’تو نے بنائی یہ تصویر؟‘‘ ماسٹر نے سخت لہجے میں پوچھا۔ دتو کچھ نہیں بولا۔وہ شرمندہ ہو کر نیچے دیکھ رہا تھا۔ اسی نے تصویر بنائی تھی۔ پوری صبح اس نے اسے بنانے میں صرف کر دی تھی۔

    تصویر کچھ یوں تھی۔ ’’ایک پیڑ پر طوطا بیٹھا ہوا تھا۔ نیچے سبز گھاس اگی ہوئی تھی۔ بیچ بیچ میں پھول کھلے ہوئے تھے۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ اس کی پشت پر پہاڑ کے پیچھے سے سورج نکل رہا تھا۔‘‘

    دتو نے کہیں دیکھے بنا یہ تصویر بنائی تھی۔ ایسی تصویر اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں بنائی تھی۔ اس سے پہلے تصویر بناکر اسے اتنی خوش کبھی نہیں ہوئی تھی۔ پہلے کے دو پیریڈ میں اس نے چوری چھپے اس تصویر کی جانب نہ جانے کتنی بار دیکھا تھا۔ آج اسے اس تصویر کے سوا کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔

    ’’گدھے! لکڑی کا ٹکڑا بنانے کے لئے کہا تو اسے چھوڑ کر دوسرا ہی کام کرنے بیٹھا تھا؟ کس نے کہا تجھ سے یہ تصویر بنانے کے لئے۔؟ خود کا ہی دماغ چلاتا ہے! ٹھہر پھاڑ ہی دیتا ہوں اسے۔ تب ہی تجھے آئندہ اس طرح کے کام نہیں سوجھیں گے۔‘‘ ماسٹر صاحب نے تصویر کے باریک باریک ٹکڑے کیے اور کنارے رکھی ہوئی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔ دتو نے آنکھیں بند کر لیں اس کا گلا رندھ گیا۔

    اسے اندر ہی اندر بہت دکھ ہوا۔ وہ دھم سے نیچے بیٹھ گیا اور ڈرائنگ کی کاپی میں کچھ لکیریں کھینچنے لگا۔ اب کو تصویر اچھی لگی، امی کو اچھی لگی۔ سبھی کو پسند آئی۔ ماسٹر صاحب کو کیوں پسند نہیں آئی؟ دتو کا سر بوجھل ہو گیا۔ اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔

    دتو نے جیسے تیسے لکڑی کا وہ ٹکڑا بنایا۔ ماسٹر نے اسے دس میں سے نونمبر دیے پھر بھی وہ نہیں ہنسا۔ اس نے اوپر بھی نہیں دیکھا۔ اس کا غمگین چہرہ نہیں کھل سکا۔ پریڈ ختم ہوا۔ ماسٹر صاحب نکل کر چلے گئے۔ دتو نے ردی کی ٹوکری سے کاغذ کے ٹکڑے جمع کیے اور ان ٹکڑوں کو جوڑنے بیٹھ گیا۔

    اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے