مانو کہاں گئی؟
محل کے شاہی باورچی کا بیٹا شیر افگن بھاگتا بھاگتا گھر میں داخل ہوا اور ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’ابا ابا۔ باورچی خانے میں بہت ساری بلیاں بیٹھی ہیں، جلدی چلو۔ کہیں وہ سارا دودھ نہ پی جائیں‘‘۔
باورچی بیٹھا بیوی سے باتیں کر رہا تھا، بیٹے کی اطلاع پر گھبراکر کھڑا ہوگیا۔ ’’بادشاہ سلامت کو پتہ چل گیا کہ باورچی خانے میں بلیاں بھی آنے لگی ہیں تو میری مصیبت آ جائےگی، وہ کہیں گے کہ میں صفائی کا خیال نہیں رکھتا۔ اچھا ہوا بیٹا تم نے مجھے بتا دیا۔ میں بلیوں کو بھگا کر آتا ہوں پھر تمہیں ایک دمڑی انعام میں دوں گا۔ ‘‘
بیٹا یہ سن کر خوش ہو گیا اور شاہی باورچی ہاتھ میں بیوی کی جوتی لے کر باورچی خانے کی جانب دوڑا۔ وہاں بلیاں تو موجود تھیں مگر ان کا دھیان دودھ کی دیگچی کی طرف نہیں تھا۔ وہ کھڑکی میں بیٹھی باغ میں دیکھ رہی تھیں جہاں شہزادی الماس کی بلی مانو اپنی گھنگرو والی گیند سے کھیل رہی تھی۔ بلیوں نے شاہی باورچی کے قدموں کی آہٹ سنی تو سب نے مڑ کر دیکھا اور اسے دیکھ کر باغ میں کود کر غائب ہو گئیں۔
شاہی باورچی نے بیوی کی جوتی ایک طرف پھینکی اور بڑبڑاتا ہوا اپنے کام میں لگ گیا۔ یہ شام کی بات ہے۔ رات ہوئی تو بادشاہ نے ملکہ اور شہزادی الماس کے ساتھ کھانا کھایا۔ بادشاہ نے آج دربار میں بہت سارا وقت گزارہ تھا اس لیے تھک گیا تھا۔ وہ سونے کے لیے چلا گیا۔ ملکہ کی ماں اپنی بیٹی سے ملنے آئی ہوئی تھی اور دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھیں۔ شہزادی الماس نے اپنی بلی مانو کے لیے ایک کنیز سے دودھ منگوایا اور بلی کو آوازیں دینے لگی ’’مانو۔ مانو۔‘‘
اس نے بلی کو کئی آوازیں دیں مگر وہ نہیں آئی۔ شہزادی الماس کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس سے پہلے تو وہ ایک آواز پر ہی آ جاتی تھی۔ اس نے اپنی کنیزوں کو طلب کیا اور انھیں بلی کو تلاش کرکے لانے کا کہا اور خود کمرے میں ٹہلنے لگی۔ اس کے چہرے پر فکرمندی کے اثرات نمایاں تھے۔ وہ اپنی بلی سے بہت محبت کرتی تھی۔
چھ ماہ پہلے جب بادشاہ ملک ایران کے دورے پر گیا تھا تو واپس آتے ہوئے اس نے شہزادی الماس کے لیے بہت سارے تحفے لیے۔ ایران کے بادشاہ کو اندازہ تھا کہ اس کے دوست بادشاہ کو اپنی بیٹی سے کس قدر محبت ہے۔ جب بادشاہ واپسی کے سفر پر روانہ ہونے لگا تو ایران کے بادشاہ نے ایک چھوٹا سا اور نہایت خوبصورت بلی کا بچہ اس کے حوالے کیا۔ ’’ہماری طرف سے یہ تحفہ صاحبزادی کو دے دیجئےگا، وہ بہت خوش ہوں گی۔‘‘
ہوا بھی ایسا ہی۔ بلی کے بچے کو دیکھ کر شہزادی الماس بہت خوش ہوئی۔ بادشاہ کی لائی ہوئی دوسری چیزوں کی طرف اس نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اسی وقت لکڑی کے ماہر کاریگروں کو بلوا کر اس کے لیے ایک آرام دہ گھر بنوایا گیا۔ اس گھر میں بچھانے کے لیے ریشم کا گدا اور تکیہ تیار ہوا۔ دو چاندی کی پلیٹیں بنوائی گئیں، ایک دودھ پینے کے لیے اور دوسری پانی پینے کے لیے۔ شہزادی نے بلی گلے میں ایک سونے کی زنجیر بھی پہنا دی تھی۔ اس سونے کی زنجیر میں ننھے ننھے ہیرے بھی جڑے ہوئے تھے۔ ایسے ٹھاٹ باٹ میں رہتے ہوئے چھ ماہ بیت گئے۔
شہزادی الماس کو بلی کے بغیر ایک پل بھی چین نہیں آتا تھا۔ اس وقت بھی وہ سخت پریشان تھی اور دعا کر رہی تھی کہ اس کی بلی جلد سے جلد آ جائے۔ کافی دیر بعد تمام کنیزیں جو بلی کو ڈھونڈنے گئی تھیں منہ ٹکا کر واپس آ گئیں۔
’’شہزادی صاحبہ۔ افسوسناک خبر ہے۔ بلی کو ہر جگہ تلاش کر لیا ہے مگر وہ نہیں ملی۔‘‘ ان کی بات سن کر شہزادی الماس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
یہ خبر محل میں چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ ملکہ نے جو یہ خبر سنی اور شہزادی الماس کو روتا ہوا دیکھا تو محل کے سارے غلاموں اور اور کنیزوں کو طلب کر کے حکم دیا کہ ہر حال میں بلی کو تلاش کرکے حاضر کیا جائے۔ رات گئے تک یہ تلاش جاری رہی مگر بےسود، بلی نہیں ملی۔ اگلے روز پھر اس کی تلاش شروع ہوئی مگر نتیجہ وہ ہی ڈھاک کے تین پات، بلی کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔
ملکہ اور بادشاہ کو بلی سے تو کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر انھیں شہزادی کی اداسی کا خیال تھا۔ جب کافی دن گزر گئے اور بلی نہ ملی تو بادشاہ نے اعلان کروا دیا کہ جو کوئی بھی شہزادی کی گمشدہ بلی تلاش کر کے لائےگا، پانچ سو اشرفیاں انعام میں پائےگا۔
شہزادی نے بادشاہ سے کہا۔ ’’ابا حضور۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ انعام کی اشرفیاں زیادہ کر دیں، ہو سکتا ہے زیادہ انعام کی وجہ سے کوئی اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی جائے۔‘‘
بادشاہ نے انعام کی اشرفیوں کی تعداد ایک ہزار کر دی۔ دن گزرے، ہفتے گزرے اور مہینے گزرے۔ کوئی بھی بلی کو ڈھونڈ کر نہیں لا سکا۔ شہزادی الماس بھی اب مایوس ہو گئی تھی۔ وہ بھی رو دھوکر خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔ ایک روز شام کے وقت شہزادی باغ میں جھولا جھول رہی تھی کہ باورچی کا بیٹا شیر افگن وہاں آ گیا۔
’’شہزادی صاحبہ۔ آپ کی بلی ملی کہ نہیں”۔ اس نے دور ہی سے چلا کر پوچھا۔‘‘
شہزادی الماس نے اداسی سے کہا۔ ’’نہیں ملی‘‘۔
باورچی کا بیٹا قریب آ گیا۔ ’’مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ جنگل میں چلی گئی ہے۔ جنگل میں بہت سی بلی رہتی ہیں، اس دن جنگل سے آئی ہوئی بلیوں کو میں نے محل میں بھی دیکھا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کی بلی کو اپنے ساتھ ہی لے گئی ہوں اور وہ ان ہی کے ساتھ رہنے لگی ہو۔‘‘
باورچی کے بیٹے کی بات سن کر شہزادی جھولے سے اتر گئی۔ ’’تم نے ہمیں بہت اچھی بات بتائی ہے۔ ہم کل جنگل جاکر اپنی بلی کو تلاش کریں گے۔‘‘
اگلے روز دربار کی ہفتہ وار تعطیل تھی۔ شہزادی الماس بادشاہ کے پاس پہنچ گئی اور اس سے جنگل جانے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے کہا۔ ’’دوپہر کے کھانے کے بعد چلی جانا۔ ہمیں آج تو کوئی کام ہے نہیں، دربار کی چھٹی ہے اس لیے ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔‘‘
شہزادی الماس یہ سن کر خوش ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد جب اتالیق شہزادی الماس کو پڑھانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ خلاف معمول شہزادی خوش نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا۔ ’’شہزادی صاحبہ ہم آپ کو بہت دنوں بعد اتنا خوش دیکھ رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟۔‘‘
شہزادی الماس نے مسکراکر بڑے ادب سے کہا۔ ’’استاد محترم۔ آج ہم اپنی بلی کو جنگل میں تلاش کرنے جا رہے ہیں۔ شیر افگن نے بتایا تھا کہ وہاں بہت سی دوسری بلی بھی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمیں پھر سے ہماری پیاری بلی مل جائےگی۔‘‘
’’خدا کرے ایسا ہی ہو۔‘‘ اتالیق نے کہا پھر بولے۔ ’’لیکن شہزادی صاحبہ ایک بات میں ضرور کہوں گا۔ پرندے اور جانور آزاد ہی اچھے لگتے ہیں۔ ان کو قید کرنا مناسب نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کو پالنے والے ان کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کے کھانے، پینے اور آرام کا خیال رکھتے ہیں مگر جو خوشی یہ اپنے جیسے پرندوں اور جانوروں میں رہ کر محسوس کرتے ہیں، اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔‘‘
شہزادی الماس بولی۔ ’’استاد محترم۔ آپ نے ہمیں بڑی اچھی بات بتائی ہے۔ ان باتوں سے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ پرندوں اور جانوروں کو قید میں رکھنا اچھی بات نہیں ہے۔ ہم اپنی خوشی کے لیے ان کو پنجروں میں قید تو کرلیتے ہیں مگر شائد یہ بھی ایک طرح کا ظلم ہی ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر اتالیق بہت خوش ہوئے، شہزادی الماس کو بہت سی دعائیں دیں اور بولے۔ ’’ہاں شہزادی صاحبہ۔ ہم سب کو چاہیے کا ان کے ساتھ محبّت کا سلوک کریں۔ ان کے دانے پانی اور کھانے پینے کا بندوبست کریں، نہ تو ان کا شکار کریں اور نہ ہی کسی اور طریقے سے ان کو ایذا پہنچائیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کو آزاد ہی رہنے دیں۔‘‘
’’آپ نے ہمیں بہت اچھی بات بتا دی ہے۔‘‘ شہزادی الماس نے مؤدب لہجے میں کہا۔ ’’اگر آپ کی اجازت ہو تو آج ہم اپنی بلی کی تلاش میں جنگل چلے جائیں۔ ہم اسے صرف ایک نظر دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ہمیں بہت یاد آتی ہے۔‘‘
اتالیق نے شفقت سے کہا۔ ’’اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
بادشاہ کے حکم پر ساری تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں۔ بادشاہ، وزیر اور شہزادی الماس محافظوں کے ایک دستے کے ساتھ جنگل کی جانب روانہ ہوئے۔ جنگل پہنچے تو ایک مناسب جگہ دیکھ کر پڑاؤ ڈالا گیا۔ شہزادی الماس ادھر ادھر گھومنے لگی۔ وہ درختوں کے پیچھے، ان کے اوپر، جھاڑیوں میں نظریں دوڑاتی پھر رہی تھی۔ وہ باورچی کے بیٹے شیر افگن کو اپنے ساتھ لائی تھی تاکہ وہ بلی کی تلاش میں اس کی مدد کر سکے۔
شیر افگن بھاگ بھاگ کر ہر جگہ دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک شہزادی الماس کے کانوں میں اس کی آواز آئی۔ ’’شہزادی صاحبہ۔ یہاں آئیے۔ دیکھیے یہ کیا ہے۔‘‘
شہزادی الماس دوڑ کر اس کے پاس گئی، اس نے دیکھا شیر افگن جھاڑیوں کے ایک جھنڈ کے پاس کھڑا ہے، وہ قریب پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ سامنے ایک چھوٹا سا میدان ہے جس میں ہری ہری گھاس اگی ہوئی ہے۔ اس میدان کو چاروں طرف سے جھاڑیوں نے گھیر رکھا تھا اور یہ دیکھ کر شہزادی کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی کہ وہاں پر کئی بلی ادھر ادھر پھر رہی تھیں۔ پہلے شیر افگن اور اس کے پیچھے شہزادی الماس جھاڑیوں میں سے ہوتے ہوئے میدان میں پہنچے۔ ان کو دیکھ کر تمام بلی جھاڑیوں میں چھپ گئیں۔
’’مانو۔ مانو۔‘‘ شہزادی الماس نے اپنی بلی کو آوازیں دیں۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بیروں کی جھاڑیوں کے پیچھے سے شہزادی الماس کی بلی مانو باہر نکلی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ اسے دیکھ کر شہزادی کے منہ سے خوشی کی چیخ نکل گئی۔ مانو نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس کے نزدیک آ گئی، شہزادی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ خرخر کرتی ہوئی اس کی گود میں چڑھ گئی۔
مارے خوشی کے شہزادی کا برا حال ہو گیا تھا۔ وہ اس کے جسم پر محبّت سے ہاتھ پھیرنے لگی۔ اچانک شہزادی کے کانوں میں مہین مہین آوازیں آئیں ’’میاؤں۔ میاؤں۔‘‘ اس نے دیکھا جھاڑیوں میں سے چار بلی کے گول گوتھنے رنگ برنگے بچے شہزادی کی بلی کو دیکھ کر اپنی باریک آواز میں چلا رہے تھے۔ ان کی آوازیں سن کر مانو کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس نے گھوم کر اپنے بچوں کو دیکھا اور شہزادی کی گود سے کود کر نیچے اتری اور بچوں کے پاس پہنچ کر ان کو پیار سے چاٹنے لگی۔
یہ منظر دیکھ کر شہزادی کو ہنسی آ گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر سب کو مل گئی تھی کہ شہزادی کی بلی مل گئی ہے۔ بادشاہ کو اطمینان ہو گیا کہ اب شہزادی خوش ہو جائےگی۔ شام ہونے کو تھی۔ بادشاہ نے پڑاؤ اٹھانے کا حکم دیا اور شہزادی سے کہا۔ ’’اپنی مانو کو ساتھ لے لو اب ہم روانہ ہونے والے ہیں۔‘‘
شہزادی نے جواب دیا۔ ’’ابا حضور۔ اب مانو یہیں اسی جنگل میں دوسری بلیوں کے ساتھ ہی رہےگی۔ ہمارے استاد محترم نے ہمیں بتایا ہے کہ جانوروں اور پرندوں کو قید کر کے رکھنا اچھی بات نہیں، یہ سب اپنے ساتھیوں میں رہ کر ہی زیادہ خوش رہتے ہیں۔ ہمیں ان کے کھانے پینے اور دانے دنکے کا خیال رکھنا چاہیے اور انہیں کوئی تکلیف بھی نہیں پہنچانا چاہیے۔‘‘
یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور پھر سب محل واپس آ گئے۔ کچھ دنوں کے بعد شہزادی الماس نے بادشاہ سے کہہ کر جنگل کے اسی میدان میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے آرام دہ گھر بنوا دئیے۔ اس نے مانو بلی کا گھر سب گھروں سے بڑا بنوایا تھا اور اس پر ایک چھوٹا سے بورڈ بھی لگوا دیا جس پر لکھا ہوا تھا ’’بلیوں کی شہزادی مانو کا گھر۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.