Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مچھلیوں کی ملکہ

ایم۔ گمنام

مچھلیوں کی ملکہ

ایم۔ گمنام

MORE BYایم۔ گمنام

    یہ ایک مچھیرے کی کہانی ہے۔ وہ غریب تھا۔ اس کا نام شامو تھا۔ وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ اس کے بچے ابھی بہت چھوٹے تھے اور اس کے کام میں اس کا ہاتھ نہیں بٹا سکتے تھے۔ وہ صبح سویرے اپنا جال لیے گھر سے نکل جاتا اور دریا پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے پہنچ جاتا۔ اس کے پاس جو جال تھا، وہ بہت چھوٹا تھا اور اس میں زیادہ مچھلیاں نہیں آتی تھیں، اس لیے اس کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ وہ بہت دنوں سے اس کوشش میں تھا کہ اس کے پاس کسی طرح تھوڑے سے پیسے جمع ہوجائیں اور وہ ایک بڑا جال تیار کر لے لیکن جب بھی اس کے پاس کچھ پیسے جمع ہوتے، اس کا کوئی بچہ بیمار ہوجاتا اور وہ پیسے اس کے علاج پر خرچ ہوجاتے۔ اس طرح وہ اب تک بڑا جال بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔

    ایک دن وہ صبح سویرے اپنا جال لے کر دریا پر پہنچا۔ آج اس نے دریا کے ایک ایسے کنارے پر جال ڈالا، جس پر پہلے کبھی نہیں ڈالا تھا۔

    آج بھی وہ اس سوچ میں گم تھا کہ کسی طرح ایک بڑا جال بنائے کہ اچانک اس کے جال میں حرکت ہوئی۔ وہ چونک اٹھا۔ کوئی چیز اس کے جال کو اندر کھینچ رہی تھی۔ وہ سمجھا، یہ ضرور کوئی بہت بڑی مچھلی ہے۔ اس نے جال کو بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور کھینچنے لگا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جال میں صرف ایک مچھلی تھی۔ اس کا رنگ سنہری تھا۔ وہ بہت بڑی نہیں تھی لیکن طاقتور ضرور تھی کیونکہ شامو نے اسے بڑی مشکل سے کھینچا تھا۔ مچھلی بہت خوبصورت تھی۔ اس نے سوچا، اس مچھلی کو پانی میں ڈال کر لے جانا چاہئے، کوئی دولتمند اسے پالنے کے لئے اچھے داموں خرید لے گا اور ہوسکتا ہے اس بہانے میں ایک بڑا جال بنانے کے قابل ہوجاؤں۔ یہ سوچ کر اس نے مچھلی کی طرف ہاتھ بڑھایا، اچانک ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

    ‘‘خبردار، مجھے نہ چھونا، ورنہ جل جاؤگے۔‘‘

    شامو نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ اس نے سمجھا، اس کے ضرور کان بجے ہیں، ایک بار پھر اس نے مچھلی کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ پھر وہی آواز آئی۔

    ‘‘خبردار، مجھے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ جل جاؤگے۔‘‘

    اس مرتبہ اس نے دیکھا کہ مچھلی کا منہ باتیں کرنے کے انداز میں ہلا تھا۔

    ‘‘ارے، تو کیا یہ مچھلی بول رہی ہے۔ ارے باپ رے‘‘ یہ خیال آتے ہی وہ ڈر گیا۔ اس نے سوچا، یہ مچھلی ضرور کوئی جن بھوت ہے جو مچھلی کے روپ میں ہے۔ اس نے ہمت کر کے کہا:

    ‘‘تم کون ہو؟ میں نے آج تک کسی مچھلی کو باتیں کرتے نہیں سنا۔‘‘

    ‘‘میں مچھلیوں کی ملکہ ہوں۔ اس لیے میں تم سے باتیں کرسکتی ہوں اور تم میری باتیں سمجھ بھی سکتے ہو۔‘‘

    ‘‘مچھلیوں کی ملکہ۔‘‘ شامو نے حیران ہو کر کہا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

    ‘‘ہاں، اگر تم مجھے ہاتھ لگاؤگے تو جل کر راکھ ہوجاؤگے اور اگر مجھے چھوڑ دوگے تو بہت نفع میں رہوگے۔‘‘ مچھلیوں کی ملکہ بولی۔

    ‘‘بھلا تمہیں چھوڑ کر مجھے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘

    اگر تم مجھے چھوڑ دو تو میں تمہیں ایک ایسی چیز دوںگی کہ تم بہت امیر کبیر بن جاؤگے اور پھر تمہیں مچھلیاں پکڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘

    ‘‘اچھا تو پھر مجھے وہ چیز دے دو، میں تمہیں چھوڑے دیتا ہوں۔‘‘

    ‘‘وعدہ کرتے ہو؟‘‘ ملکہ نے پوچھا۔

    ‘‘ہاں بالکل، جوں ہی تم مجھے وہ چیز دوگی، میں تمہیں چھوڑ دوںگا۔‘‘

    ‘‘اچھا، یہ دیکھو۔ میں اپنے منہ سے ایک موتی نکال کر ریت پر گرا رہی ہوں، تم اسے اٹھا لو۔ اس موتی کی کرامت یہ ہے کہ اسے کسی بھی قسم کے بیمار کے جسم سے چھودو تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے بھلا چنگا ہوجائے گا اور اگر کسی پر آسیب کا سایا ہو تو سایا اس پر سے اس موتی کے چھوتے ہی اتر جائے گا۔‘‘

    شامو یہ سن کر بہت خوش ہوا کیونکہ اگر واقعی موتی اس خاصیت کا مالک تھا تو وہ بہت جلد بہت مال دار ہوسکتا تھا۔

    اس نے ریت پر دیکھا وہاں بیر کے برابر ایک سفید موتی پڑا تھا۔ اس نے جھٹ اس موتی کواٹھا لیا اور مچھلی کو وعدے کے مطابق جال سے آزاد کر دیا۔

    وہ خالی ہاتھ گھر واپس آیا تو اس کی بیوی نے حیران ہو کر کہا:

    ‘‘کیا بات ہے۔ آج تم خالی ہاتھ آگئے۔‘‘

    ‘‘میں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے، اب میں بیماروں کا علاج کیا کروں گا، میں حکیم بن گیا ہوں۔‘‘

    ‘‘حکیم بن گئے ہو، تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے۔‘‘

    ‘‘بس دیکھتی جاؤ۔‘‘

    اسی دن سے شامو نے بیماروں کا علاج کرنا شروع کردیا۔ اس نے اپنے گھر کے دروازے پر یہ لکھوا کر لگا دیا کہ یہاں ہر بیماری کا علاج ہوتا ہے۔

    لوگ اس بورڈ کو پڑھ پڑھ کر بہت ہنسے اور کہنے لگے، لو اب مچھیرے حکیم بن بیٹھے۔ کئی دن تک اس کے پاس کوئی مریض نہ آیا۔ گھر میں کھانے پینے کو کچھ نہ بچا۔ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ اس کی بیوی نے طعنے دے دے کر اس کا ناک میں دم کر دیا۔ آخر شامو نے سوچا، اس طرح تو کام نہیں بنے گا۔ وہ ایک ڈاکٹر کی دکان کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور کسی مریض کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ جلد ہی ایک شخص اپنی بیٹی کو لے کر دکان کی طرف آتا نظر آیا۔ لڑکی کے ہاتھ پیر مڑے ہوئے تھے۔ شامو جلدی سے آگے بڑھا اور اس آدمی سے بولا:

    ‘‘کیا تم اس بچی کا علاج کرانے کے لئے آئے ہو؟‘‘

    ‘‘ہاں، کیوں کیا بات ہے۔‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔

    ‘‘میں اسے منٹوں میں ٹھیک کرسکتا ہوں۔‘‘ شامو نے جلدی سے کہا۔

    ‘‘تم ٹھیک کروگے، اس کا علاج تو شہر کا بڑے سے بڑا حکیم اور بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی نہیں کرسکا اور پھر تم تو مچھیرے ہو، میں تمہیں جانتا ہوں۔‘‘

    ‘‘میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ بس اس بچی کے جسم پر ہاتھ پھیروں گا اور تمہاری بچی ٹھیک ہوجائے گی۔ یہ لو۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ اس بچی کے جسم پر پھیر دیا۔ اس کے ہاتھ میں سفید موتی تھا جو اسے مچھلیوں کی ملکہ نے دیا تھا لیکن اس نے موتی کو چھپا رکھا تھا۔ اس آدمی کو موتی نظر نہیں آیا۔ بس وہ اتنا دیکھ سکا کہ شامو نے اس کی بچی کے جسم پر ہاتھ پھیرا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس بچی کے ہاتھ اور پیر بالکل سیدھے ہوگئے۔ وہ آدمی حیران رہ گیا۔ شامو مڑا اور اپنے گھر آگیا۔

    جلد ہی یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ دوسرے دن اس کے گھر کے سامنے بہت سے مریض جمع ہوچکے تھے۔ شامو نے ان سے منہ مانگے پیسے وصول کیے اور بیمار جسموں پر موتی پھیرتا رہا لیکن اس نے یہ ضرور خیال رکھا کہ غریبوں سے کچھ نہ مانگا۔

    ہوتے ہوتے یہ خبر بادشاہ تک پہنچی کہ ایک شخص بیمار جسم پر ہاتھ پھیرتا ہے اور بیمار تندرست ہوجاتا ہے۔ بادشاہ کی بیٹی پر بہت عرصے سے کسی جن کا سایا تھا۔ اس نے فوراً اپنے آدمی شامو کے پاس بھیجنے اور اسے محل میں بلوایا۔ شامو نے محل میں جاکر شہزادی کے جسم سے بھی موتی چھو دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہزادی ہوش میں آگئی اور خوش خوش باتیں کرنے لگی۔ بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسے انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔

    شامو جب تک زندہ رہا لوگوں کا علاج کرتا رہا۔ اس نے غریبوں سے کبھی کوئی پیسہ نہ لیا۔ مرتے وقت اس نے اپنے بیٹوں کو بھی یہ نصیحت کی کہ ‘‘غریبوں سے کبھی کوئی پیسہ نہ لینا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے