سلطان محمود اپنے نوکروں میں سے ایاز پر بڑا مہربان تھا۔ اس لیے تمام نوکر اسی فکر میں رہتے تھے کہ اس کی کوئی شکایت کر کے سلطان کا دل کھٹا کردیں۔
آخر بہت تلاش کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ایاز جس پلنگ پر سویا کرتا ہے۔ اس کے سرہانے چاندی کا ایک صندوق رکھا ہے، جس کی زنجیر اس نے اپنے پلنگ کے پائے سے باندھ رکھی ہے اور ہر روز اٹھتے وقت اسے کھول کر ضرور دیکھ لیتا ہے۔‘‘
اس سے لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ضرور اس صندوق میں بڑے بڑے بیش قیمت جواہرات ہوں گے۔‘‘
ایک دن موقع پا کر انہوں نے سلطان سے عرض کی۔ ’’حضور! ایاز کے پاس جواہرات کا ایک ایسا صندوق ہے، جس کی زنجیر اس کے پلنگ کے پائے سے بندھی رہتی ہے اور وہ ہر روز صبح جب تک انہیں دیکھ نہ لے، باہر نہیں نکلتا۔ حضور بھی دیکھیں گے تو پسند فرمائیں گے۔‘‘
سلطان نے ایاز کو بلا کر صندوق کا حال پوچھا تو اس نے اسی وقت دربار میں صندوق منگا کر کنجی بادشاہ کے حوالے کر دی کہ ’’حضور اپنے ہاتھ سے کھول کر دیکھ لیں۔‘‘
سلطان نے شوق سے صندوق تو کھول لیا مگر دیکھتا کیا ہے کہ اس میں صرف دو ایک پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے رکھے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر اس نے حیرانی سے پوچھا۔ ایاز! یہ کیا بات ہے؟‘‘
ایاز نے کہا۔ بادشاہ سلامت! یہ اور کپڑے ہیں۔ جنہیں میں حضور کے ہاں پہنچنے سے پہلے پہنا کرتا تھا اور ہر روز اس لیے دیکھ لیتا ہوں کہ امیری کی بو میں اپنی پہلی حالت نہ بھول جاؤں اور اس دولت پر جو اب حضور کے طفیل میسر ہے، مغرور نہ ہو جاؤں۔‘‘
ایاز کے اس جواب سے سلطان نہایت خوش ہوا اور چغلی کھانے والے شرمندہ ہو کر رہ گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.