Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں

رؤف پاریکھ

میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں

رؤف پاریکھ

MORE BYرؤف پاریکھ

    میری عمر چھ ماہ ہے میرا نام ماں باپ نے اللہ جانے کیا رکھا ہے۔ شاید خود ان کو بھی یاد نہ ہو کیونکہ سب لوگ مجھے عجیب عجیب ناموں سے پکارتے ہیں۔ کوئی ببلو کہتا ہے، کوئی پپو اور کوئی گڈو تو کوئی لڈو۔ اللہ جانے ان بڑوں کو نام بگاڑنے میں کیا مزہ ملتا ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح پیار کا اظہار ہوتا ہے۔ عجیب و غریب ناموں سے پکارنے کے علاوہ یہ بڑے میرے سامنے الٹی سیدھی حرکتیں بھی کرتے ہیں۔ کبھی کوئی بزرگ گال پھلا کر اور بھویں اچکاکر مجھے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی کوئی صاحب کتے بلیوں کی آوازیں نکالتے ہیں۔ کچھ حضرات مجھے بہلانے کے لئے اچھل کود سے بھی باز نہیں آتے۔ ایک حضرت نے تو ایک دفعہ حد ہی کر دی۔ مجھے روتا ہوا پاکر وہ سر کے بال کھڑے ہوئے۔ مجھے ان کی اس اوٹ پٹانگ حرکت پر بےساختہ ہنسی آ گئی۔ ادھر وہ حضرت بہت خوش ہوئے کہ دیکھا میں نے روتے بچے کو چپ کرا دیا۔ وہ کئی روز تک اپنے دوستوں میں اس بات کا چرچا کرتے رہے۔ کچھ بڑے ہم چھوٹے بچوں کو جھوٹ موٹ توتلی زبان میں ’’پالا پالا بتا‘‘ یعنی پیارا پیارا بچہ کہہ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ چھوٹے بچوں کو اس پر ہنسی آتی ہو لیکن میں اس پر بہت حیران ہوتا ہوں کہ ایک سمجھ دار اور معقول آدمی کو جان بوجھ کر توتلا بننے کی کیا ضرورت ہے؟ لاحول ولا قوۃ۔

    میں تو دن رات ان بڑوں کے تماشے دیکھتا ہوں اور اپنا سر پیٹتا ہوں کہ اتنے بڑے ہوگئے مگر رہے وہی گھامڑ کے گھامڑ۔ ایسے لوگوں میں ہمارے بھائی جان خاص طور پر شامل ہیں۔ موصوف خیر سے پانچ سال کے ہیں۔ اونٹ جتنے لمبے ہو گئے ہیں مگرحرکتیں وہی بچوں والی ہیں۔ میری تو جان جل جاتی ہے کہ یا اللہ! ان کو کب تمیز آئےگی۔

    مثال کے طور پر کل کا ذکر ہے کہ یوں ہی لیٹے لیٹے میرا دل ذرا رونے کو چاہا۔ ہاں صاحب! آخر میں بھی انسان ہوں۔ میرا دل بھی رونے کو جی چاہتا ہے۔ لیٹے لیٹے تھک جاتا ہوں۔ پڑے پڑے بور ہو رہا تھا۔ ان لوگوں سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اخبار یا رسالہ ہی مجھے تھما دیں۔ دو گھڑی تصویریں دیکھوں گا تو جی بہلا رہےگا۔ لیکن خیر، ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ خوب یاد آیا، لیٹے لیٹے تھک گیا تو رونے کو جی چاہا۔ ہلکے سروں میں غونغاں شروع کی۔ میرا خیال تھا کہ گھر میں اتنے لوگ ہیں، کوئی نہ کوئی توجہ کرےگا، لیکن کسی نے دھیان نہ دیا۔ اب مجھے ذرا بےچینی ہونے لگی۔ میں نے اپنی آواز اونچی کر دی اور اس میں ہلکی ہلکی چیخیں شامل کر دیں۔ لیکن توبہ کیجئے جو کسی کے کان پرجوں تک رینگی ہو۔ گھر سےزیادہ تر لوگ اس طرح ٹی وی دیکھنے میں لگے ہوئے تھے جیسے وہی دنیا کا سب سے اہم کام ہو۔ ابو البتہ اخبار میں کھوئے ہوئے تھے اور بھائی جان قبلہ چشم بددور مرغیوں کی دم کھینچنے اور بکریوں کے کان اینٹھنے سے فارغ ہوں تو ننھے بھائی کی خبرلیں۔ آخر مجھے اپنی آواز ٹی وی کی آواز کے برابر کرنی پڑی۔

    چند لمحوں بعد میری آواز ٹی وی کی آواز سے بھی بلند ہو گئی اور اس میں ہولناک چیخیں بھی شامل ہوئیں۔ تب کہیں جاکر کسی کو ہوش آیا کہ شاید منا رو رہا ہے۔ پوچھیے، اس ’’شاید‘‘ پر مجھے کتنا غصہ آیا۔ یہاں چلاتے چلاتے گلے میں خراشیں پڑ گئیں اور وہاں ابھی تک شبہ ہی ہے کہ کوئی رو رہا ہے۔ کیا خوب، میں کوئی گانے کی مشق کر رہا تھا یا ریڈیو پر فرمائشی پروگرام نشر کر رہا تھا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے بےچاری امی کا۔ باورچی خانے سے دوڑی دوڑی آئیں اور مجھے فوراً بانہوں میں اٹھا کر چپ کرانے لگیں۔

    آپ تو جانتے ہیں کہ امی کی گود میں تھوڑا سا رو لیا جائے تو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ چمکارنے پچکارنے کے علاوہ دودھ یا بسکٹ ملنے کا بھی پورا پورا امکان رہتا ہے۔ جی ہاں، میں صحیح عرض کر رہا ہوں۔ شرمائیے نہیں، آپ خود بھی یہی کرتے رہے ہیں۔ اب بڑے ہوگئے ہیں تو کیا ہوا۔ تو جناب اللہ آپ کا بھلا کرے، میں نے ذرا دیر چپ رہ کر پھرتانیں اڑانی شروع کیں۔ ایں ایں ایں۔ ریں ریں ریں۔

    اس پر امی جان نے مجھے بھائی جان کے ہاتھوں میں تھمایا اور خود بسکٹ لینے چلی گئیں۔ جی آپ نے بالکل صحیح پہچانا۔ یہ ہمارے وہی بھائی جان ہیں جن کا ذکر ہو چکا ہے۔ یہ پانچ سال کے ہو چکے ہیں مگر ابھی تک چاند کو برفی کا ٹکڑا یا بتاشا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے گود میں اس طرح دبوچ لیا جیسے میں کوئی فٹ بال ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہر شریف آدمی اپنے آپ کو ایسی حالت میں پاکر شور مچاتا ہے۔ اس لیے میں نے بھی شور کرنا شروع کر دیا۔ اس پر وہ حضرت مجھے آپا کے پاس بٹھا کر خود ہوا ہو گئے۔ اب آپا کا جی ٹی وی میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ مجھے کیا دیکھتیں خاک۔ ٹی وی دیکھنے سے ہی فرصت نہ تھی۔ آپا نے مجھے سر پر آئی بلا سمجھ کر ٹالنا چاہا اور فرش پر بٹھا دیا۔ اتنا بھی خیال نہ کیا کہ میں ذرا سا بچہ ہوں، گر گیا تو چوٹ لگے گی، جب کہ میں ابھی پوری طرح بیٹھنا بھی نہیں سیکھا۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، یعنی میں دھڑام سے گر پڑا اور اتنی زور سے رونا شروع کیا کہ سب گھبرا گئے۔

    کہاں تو یہ لوگ مجھے دیکھتے ہی نہ تھے اور کہاں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میرے پاس جمع ہوگئے۔ کاش یہ میرے گرنے سے پہلے ایسا کرتے لیکن بڑے جو ٹھہرے۔ خیر صاحب، اب ان لوگوں کے درمیان مجھے چپ کرانے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ چاچا جی کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے چپ کرانے کے لئے کرکٹ کی گیند کی طرح ہوا میں اچھالنا اور کیچ کرنا شروع کر دیا، مگر ایک چھ ماہ کے بچے اور کرکٹ کی گیند میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر میں گرجاتا تو میرا سر اس طرح کھل جاتا ہے جیسے تربوز کی پھانکیں رکھی ہوں اور چوں کہ میں اپنے سر کو تربوز کی پھانکیں بنانا پسند نہیں کرتا اس لئے خطرہ بھانپ کر حلق پھاڑ پھاڑ کر رونے لگا۔ اب سب لوگ گھبرا گئے اور لگے اوندھی سیدھی حرکتیں کرنے۔ کوئی منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکال رہا ہے تو کوئی بندروں کی نقل اتار رہا ہے۔ کسی نے تالیاں بجانی شروع کر دیں اور کوئی اپنی بھدی آواز میں لوریاں گانے لگا۔ ایک چھوٹا بچہ جسے چوٹ لگی ہے اور جو ڈر گیا ہے اسے چپ کرانے کا بھلا یہ کون سا طریقہ ہے کہ سب مل کر شور مچانے لگے۔

    روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ ناک سے پانی بہنے لگا۔ آپا کو کچھ اور نہ سوجھا تو انہوں نے ہمدرد نونہال کا خاص نمبر اٹھا کر میری ناک کے آگے نچانا شروع کیا۔ مجھے اتنا غصہ آیا کہ مت پوچھئے۔ ویسے اگر میں آپا کا کوئی رسالہ اٹھا لوں تو وہ چلانے لگتی ہیں کہ ’’ہائیں ہائیں پھاڑ ڈالےگا۔‘‘ انسان دو گھڑی دل بہلانے کے لئے کوئی رسالہ بھی نہ دیکھئے؟ آپا رسالہ میرے ہاتھ سے چھین کر مجھے روتا ہوا چھوڑ کر جایا کرتی ہیں اور یہ وہی آپا تھیں کہ اب میں رو رہا تھا تو مجھے رسالہ تھمارہی تھیں۔ اللہ جانے ان بڑوں کی عقلوں کو کیا ہو جاتا ہے۔ یہ چھوٹوں کو رلائے بغیر کوئی چیز نہیں دیتے اور اگر کوئی چیز بچوں کو دینے کی نہیں ہے تو ہرگز نہیں دینی چاہئے۔ چاہے بچہ ہنسے یا روئے یا گائے۔

    امی جو میرے لئے بسکٹ لینے گئی تھیں شاید کسی کام میں الجھ گئی تھیں۔ فوراً بھاگی بھاگی آئیں اور وہی کیا جو کرنا چاہئے تھا۔ یعنی مجھے لپٹا لیا اور پیار کرنے لگیں۔ مرا سر سہلایا اور مجھے صحن میں لے گئیں۔ پرندے دکھانے لگیں اور میرے ہاتھ میں بسکٹ دے دیا۔ میں سب کچھ بھول کر پرندوں کو دیکھنے لگا اور اپنے پوپلے منہ میں بسکٹ رکھ کر چوسنے لگا۔

    ادھر وہ سب کے سب دوبارہ اپنے انہی کاموں میں اس طرح لگ گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ وہی لوگ تھے جو مجھے چپ کرانے کے لئے سو سو جتن کر رہے تھے اور اب ایسے بن گئے تھے جیسے مجھے جانتے ہی نہ تھے۔

    اب آپ ہی بتائیے کہ اسے کیا کہا جائے؟ یہ کیسے بڑے ہیں؟ یہ صرف روتے بچوں کا خیال کیوں رکھتے ہیں؟ کیا انہیں ہنستے مسکراتے کلکاریاں مارتے بچے پسند نہیں؟ آپ بھی تو کہیں ایسے بڑوں میں شامل نہیں ہیں؟ کہیں آپ میرے بھائی جان یا آپا جیسے تو نہیں؟ آپ کا کوئی چھوٹا بھائی یا چھوٹی بہن ہے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے