محسن
سردیوں کے دن تھے۔ آسمان پر شام سے ہی بادل چھائے ہوۓ تھے۔ تیز ہواؤں کے جھکڑ چل رہے تھے، ہوا کا زور کم ہوتا تو چند بوندیں بھی پڑ جاتی تھیں۔ آسمان پر چھائے ہوۓ کالے بادل شدید بارش کی پیشگوئی کر رہے تھے۔ موسم کی اس تبدیلی نے سردی کی شدّت میں اضافہ کردیا تھا۔
قاسم کی ماں نے گھر کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بچوں کو شام کو ہی کھانا کھلا کر بستروں میں دبکا دیا تھا۔ اس کا شوہر جو گاؤں کا واحد پوسٹ مین تھا ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔ اس کو گاؤں والوں کی ڈاک لینے کے لیے ہفتے میں دو مرتبہ شہر جانا پڑتا تھا، وہ آج بھی دو پہر کے بعد اپنا تھیلا اٹھا کر شہر گیا تھا مگر اس کی واپسی ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ نہ جانے کیوں آج خلاف معمول اسے دیر ہو گئی تھی۔ قاسم کی ماں باورچی خانے میں آگ کے پاس بیٹھی بے دلی سے اپنے کام میں مصروف تھی۔ اس کو اپنے شوہر کی طرف سے پریشانی ہو گئی تھی۔ مگر بچے ہر فکر سے بے نیاز لحافوں میں گھسے قاسم سے ایک مزیدار کہانی سن رہے تھے۔
قاسم سترہ اٹھارہ سال کا لڑکا تھا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، اس لیے شروع ہی سے اس میں ذمہ داری کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس سال اس نے دسویں کا امتحان دیا تھا اور نتیجہ کا منتظر تھا۔ ان لوگوں کا گاؤں ابھی زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے وہاں پر ابھی تک کوئی ہائی اسکول قائم نہیں ہوا تھا۔ بجلی تو وہاں آ گئی تھی مگر علم کی روشنی حاصل کرنے کے لیے قاسم کو شہر جانا پڑتا تھا، جو ان کے گاؤں سے تقریباً دس بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ فاصلہ اس کو اپنے باپ کی چرخ چوں قسم کی سائیکل پر طے کرنا پڑتا تھا۔
قاسم اس وقت اپنے بہن بھائیوں کو جو کہانی سنا رہا تھا وہ ایک غریب لڑکی کی رحمدلی کے متعلق تھی۔ وہ لڑکی ایک روز اپنے گھر میں اکیلی تھی۔ باہر بہت تیز بارش ہو رہی تھی کہ بارش سے بچنے کے لیے ایک بونا وہاں آگیا اور اس نے زور سے دروازے پر دستک دی۔ قاسم یہاں تک کہانی سنا کر ذرا دیر کے لیے رکا تو عین اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کے چھوٹے بہن بھائی جو بڑی محویت سے کہانی سن رہے تھے، ڈر کے مارے لحافوں میں گھس گئے۔ کہانی کا بونا ان کی نظروں میں گھوم گیا تھا۔
قاسم کی ماں نے جلدی سے دروازہ کھولا تو اس کا شوہر دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ اپنی سائیکل لے کر اندر داخل ہوا۔
قاسم کی چھوٹی بہن نے ڈرتے ڈرتے لحاف سے منہ نکالا اور قاسم سے بولی۔ ’’دروازے پر کون تھا قاسم بھائی؟‘‘۔
قاسم کو جواب دینے کی نوبت نہیں آئی۔ اس کا باپ ڈاک کا تھیلا اٹھاے اندر پہنچ چکا تھا۔ باپ کو دیکھ کر بچے خوشی کے مارے اچھل پڑے اور بستر سے نکل کر اس سے لپٹ گئے۔ ان کا باپ ان کے لیے ڈھیر ساری مونگ پھلیاں لایا تھا۔ بچے خوش ہوگئے۔
’’ابّا جان اتنی دیر کیوں ہوگئی تھی آپ کو؟‘‘۔ قاسم نے پوچھا۔
’’میرے چند دوست مل گئے تھے بیٹے، ان کے ساتھ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا‘‘۔ پھر قاسم کے باپ نے اپنی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور بولا۔ ’’یہ تار احمد صاحب کا ہے۔ جانے اس میں کیا لکھا ہے۔ چائے پینے کے بعد میں یہ تار انھیں دے آؤں گا‘‘۔
’’یہ تار تو میں بھی انھیں دے کر آسکتا ہوں‘‘۔ قاسم نے بستر سے نیچے اترتے ہوے کہا۔’’آپ اتنی دور سے آرہے ہیں، کھانا کھا کر آرام کیجئے‘‘۔
قاسم نے جلدی سے اپنا کوٹ پہنا اور کمرے سے نکل کر صحن میں آیا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی تھی۔ اس لیے اس کی ماں نے اس کو چھتری بھی دیدی تھی۔
احمد علی صاحب گاؤں کے آخری سرے پر رہتے تھے۔ ان کا قیام ایک بے حد خوبصورت اور آرام دہ بنگلے میں تھا۔ یہ بنگلہ ایک زرعی بینک کی ملکیت تھا۔ یہاں پر وہ آفیسرز قیام کرتے تھے جن کو بینک والے کسانوں کی رہبری کے لیے بھیجتے تھے۔ یہ آفیسرز ان کو قرضے کے بارے میں معلومات بہم پہنچاتے تھے اور انھیں ضروری کاروائیوں کے بعد بینک سے قرضہ دلواتے تھے۔ اس رقم سے کسان بیج اور کھاد وغیرہ خریدا کرتے تھے۔
احمد علی ایک ہنس مکھ اور نیک دل آدمی تھے۔ ان کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی۔ گاؤں میں ان کا تبادلہ ہوا تو اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آئے۔ ان کی بیوی گاؤں آ کر بے حد خوش تھی۔ وہ سارا دن گاؤں کی عورتوں کے ساتھ گزارتی تھی۔ شہر کی عورتوں کے مقابلے میں گاؤں کی عورتوں کی معصومیت اور سادگی اسے بہت پسند آئی تھی۔
احمد علی کا رویہ قاسم کے ساتھ کافی مشفقانہ تھا۔ وہ اس بات سے بہت خوش ہوتے تھے کہ قاسم کو پڑھنے لکھنے کے شوق ہے۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ میٹرک کرنے کے بعد قاسم کو اپنے بینک کی کسی برانچ میں میں ملازمت دلوا دیں گے تاکہ ان لوگوں کے معاشی حالات بھی سدھر جائیں اور آگے پڑھنے کی راہ بھی ہموار ہوجائے۔ امتحان کے دوران انہوں نے قاسم کو پڑھانے میں کافی مدد اور محنت کی تھی اور انھیں امید تھی کہ وہ اچھی پوزیشن لائے گا۔
قاسم سائیکل پر سوار ہو کر گھر سے نکلا۔ اس نے سر پر چھتری تان لی تھی۔ ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہینڈل پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں چھتری تھی اس لیے سائیکل چلانے میں اسے کافی دشواری ہو رہی تھی۔
دس منٹ کا راستہ بیس منت میں طے کر کے بالاخر وہ احمد علی کے بنگلے پر پہنچ گیا۔ بنگلے کا بڑا سا لان چار بلبوں کی روشنی میں جگمگا رہا تھا۔ بارش کی موٹی موٹی بوندیں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ اس نے اطلا عی گھنٹی کا بٹن دبا کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور ٹیلی گرام ٹٹولنے لگا۔ دوسری دفعہ گھنٹی بجانے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ برامدے کا دروازہ کھلا مگر اس میں جو صورت نظر آئی وہ اجنبی تھی۔ اس لحیم شحیم آدمی کو جس کے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں تھیں، جسم پر اور کوٹ تھا، قاسم نے اس سے پہلے کبھی احمد علی کے گھر یا ان کے ساتھ نہیں دیکھا تھا۔ قاسم کے چہرے پر ذرا دیر کے لیے الجھن کے آثار پیدا ہوۓ مگر دوسرے ہی لمحے یہ آثار ختم ہوگئے کیونکہ اس کو اس آدمی کے پیچھے احمد علی اور ان کی بیوی کا چہرہ نظر آ گیا تھا۔ بنگلے کے ارد گرد جو دیوار کھنچی ہوئے تھی وہ چار فٹ اونچی اور اسی مناسبت سے گیٹ بھی تقریباً چار فٹ اونچا تھا، اس لیے وہ لوگ قاسم کو اور قاسم ان کو بہ آسانی دیکھ سکتا تھا۔
’’صاحب‘‘۔ قاسم نے چھتری اونچی کر کے بلند آواز میں کہا۔ ’’آپ کا ٹیلیگرام آیا ہے‘‘۔
اس لحیم شحیم آدمی نے مڑ کر احمد علی سے کچھ کہا، پھر تیز تیز قدموں سے برآمدے کی سیڑھیاں اتر کر گیٹ کی طرف آگیا۔
’’بڑے فرض شناس معلوم ہوتے ہو؟‘‘ اس آدمی نے قریب آ کر بھاری آواز میں کہا۔ ’’ٹیلی گرام صبح بھی آ سکتا تھا‘‘۔
’’میرے ابّا جان نے کہا تھا کہ چونکہ تار خاص خاص موقعوں پر آتے ہیں، اس لیے یہ ابھی احمد علی صاحب کو ملنا چاہیے۔ اس لیے وہ خود یہ تار دینے آ رہے تھے مگر ان کی تکلیف کے پیش نظر یہ تار دینے میں چلا آیا‘‘۔
’’اچھا اچھا‘‘۔ اس آدمی نے تار والا لفافہ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ ’’تو تمہارے ابّا پوسٹ مین ہیں؟‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔ قاسم نے قلم اور ایک رسید نکال کر اس کی طرف بڑھائی اور اسے بھی چھتری کے نیچے لیتے ہوۓ بولا۔ ’’اس پر دستخط کر دیجئے‘‘۔
وہ آدمی ایک لمحے کو جھجکا، اس نے گھوم کر احمد علی اور اس کی بیوی پر ایک نظرڈالی اور پھر کاغذ پر دستخط کر دئیے۔
’’آپ کو میں نے یہاں پہلی مرتبہ دیکھا ہے‘‘۔ قاسم نے قلم اور رسید لے کر اپنے کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوۓ کہا۔
’’ہاں میں آج ہی یہاں آیا ہوں۔ وہ میرے بہت گہرے دوست ہیں‘‘۔ اس نے احمد علی کی طرف اشارہ کر کے کہا اور واپس مڑ گیا۔ وہ تینوں گھر کے اندر چلے گئے۔ دروازہ بند کر لیا گیا تھا۔ قاسم نے بھی سائیکل موڑ لی۔ وہ اس آدمی کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اسے اس شخص کی باتوں میں جھوٹ کی آمیزش معلوم ہو رہی تھی۔ اول تو اس کی شکل و صورت بھی شریفوں جیسی نہیں تھی۔ دوسرے اس کا بار بار گھوم گھوم کر احمد علی اور ان کی بیوی کو دیکھنا خاصہ مشکوک تھا۔
قاسم نے ایک درخت کے نیچے سائیکل روک لی۔ گھر جانے کو اس کا جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے، وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اگر وہ دوبارہ گھنٹی بجا کر احمد علی کو بلانے کی کوشش کرتا ہے تو بہانہ کیا بنائے گا۔ اس کا دل بہرحال یہ کہہ رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ سب اس کا وہم نہ ہو۔
پھر اس کے دماغ میں اچانک یہ تدبیر آئی کہ وہ چھپ کر ان کے گھر میں داخل ہو۔ اس نے اپنی سائیکل درخت کے تنے سے ٹکا کر کھڑی کی اور احمد علی کے بنگلے کی طرف دوڑ لگادی۔ یہ ترکیب بے حد عمدہ تھی۔ اگر احمد علی اور ان کی بیوی کو کوئی خطرہ ہوا، جیسا کہ حالات سے قاسم نے اندازہ لگایا تھا، تو وہ ان کی مدد کرسکتا تھا۔
لان کی دیوار پھاند کر وہ بنگلے کے اندر آیا اور پھر اس کھڑکی کی طرف بڑھا، جس سے کمرے کی روشنی باہر آرہی تھی مگر وہ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ کسی نے اندر سے پردہ برابر کردیا۔ اب قاسم کوشش کے باوجود اندر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اب کیا کرے۔ اچانک اس کا دھیان روشندانوں کی طرف گیا۔ وہ بڑی کوششوں کے بعد اوپر چھت پر چڑھا، بارش کے پانی نے اس کو شرابور کر دیا تھا۔ اگر اس کا دھیان اس پراسرار معاملے میں نہ الجھا ہوتا تو یقیناً سردی کے مارے اس کےدانٹ بجنےلگتے۔
اوپر دو روشندان تھے، ان پر شفاف شیشہ لگا ہوا تھا، ایک دو فٹ چوڑے چھجے نے روشن دانوں کو بارش کے پانی سے بچا رکھا تھا ورنہ ان کے شیشے دھندلے ہوچکے ہوتے۔
چھجے کی وجہ سے اسے روشندان تک پہنچنے میں کافی دقّت ہوئی، اس نے اندر نگاہ ڈالی اور پھر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اندر کا منظر ہی اتنا خوفزدہ کر دینے والا تھا۔ جس آدمی نے خود کو احمد علی کا دوست کہا تھا، وہ اس وقت آتشدان کے قریب کرسی ڈالے آرام سے بیٹھا تھا۔ مگر اس کے ہاتھ میں ایک خوفناک ریوالور دبا ہوا تھا۔ جس کا رخ احمد علی اور ان کی بیوی کی جانب تھا۔ وہ دونوں ایک صوفے پر سکڑے سمٹے بیٹھے اس آدمی کی باتیں سن سن کر سر ہلا رہے تھے، اور دونوں بہت ہی خوفزدہ نظر آرہے تھے۔ قاسم اس آدمی کے لب ہلتے دیکھ رہا تھا۔ مگر بارش کے شور اور بند روشندان کی وجہ سے اس کے پلے کچھ بھی نہیں پڑ رہا تھا۔
اس خوفناک منظر نے تھوڑی دیر کے لیے تو قاسم کو پریشان کردیا۔ مگر پھر وہ سنبھل گیا۔ اس کو یہ احساس تھا کے احمد علی اور ان کی بیوی کو اس خطرے سے نجات دلانا اس کی ذمہ داری ہے۔
اگر وہ گاؤں سے مدد لے کرآتا تو شور شرابے سے ڈر کر مشتعل ہو کر وہ آدمی ان دونوں کو گولی مار سکتا تھا۔ اس لیے جو کچھ کرنا تھا قاسم کو اکیلے ہی کرنا تھا۔ وہ روشندان اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ بہ آسانی اس میں سے گزر کر اندر کمرے میں جا سکتا۔ قاسم نے روشن دان کو دبایا وہ بند تھا۔ اس نے دعا مانگی کہ دوسرا روشندان کھلا ہو۔ اب یہ اس کی دعا کا اثر تھا یا اتفاق کی بات کہ روشندان کھلا ہوا تھا۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ روشندان کھلا ہوا ہے، یہ سوال پھر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا کہ اب کیا کرے؟
اس آدمی کی پشت قاسم کی طرف تھی۔ اگر قاسم بڑی احتیاط سے اور خاموشی سے کمرے میں اتر جاتا تو وہ کسی چیز کی ضرب لگا کر اس آدمی کو بے قابو کرسکتا تھا جو پتہ نہیں کون تھا اور احمد علی سے کیا چاہتا تھا۔ قاسم نے چھت سے اتر کر لان میں لگی کپڑے ٹانگنے کی رسی کھولی اور اس کی مضبوطی کا اندازہ لگانے کے بعد وہ کوئی ایسی چیز تلاش کرنے لگا جسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکے۔ تلاش کے دوران اسے لوہے کا تقریباً دو فٹ لمبا پائپ بھی مل گیا۔ دونوں چیزیں لے کر وہ دوبارہ چھت پر چڑھا۔ روشندان کے قریب ہی چھت سے باہر لگے ہوۓ سریے سے اس نے رسی باندھ دی۔ وہ کمرے میں جانے کے لیے تیار تھا مگر ایک بات اس کی پریشانی کا باعث بنی ہوئی تھی۔ اگر اس کو اترتے دیکھ کر احمد علی اور اس کی بیوی نے کسی قسم کی بے چینی اور گھبراہٹ کا مظاہرہ کردیا تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔
یہ مسئلہ حل کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایک مرتبہ پھر اس کو پریشانی نے آ گھیرا۔ بارش میں دم بدم تیزی آتی جا رہی تھی۔ اب تو بادل بھی زور زور سے گرجنے لگے تھے۔ قاسم سوچنے لگا کہ اس کے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے کہ اسے دیر کیوں ہو گئی ہے۔ یہ بات اس کیلئے مزید پریشانی کا با عث بن رہی تھی کہ اس کے ابّا اس کی تلاش میں نہ آجائیں۔ اور پھر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ نیچے کمرے میں گہری خاموشی تھی، کمرے میں موجود تینوں افراد خاموش تھے کہ گھنٹی کی تیز آواز نے انھیں چونکا دیا۔
’’تم آدمی ٹھیک نہیں ہو‘‘۔ ریوالور والے نے احمد علی سے کہا۔ ’’تمھارے ملنے جلنے والوں کو رات میں بھی چین نہیں ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ کھڑکی کی طرف بڑھا، پردہ سرکایا اور کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے لگا، پھر اس نے زور سے پوچھا۔ ’’کون ہے؟‘‘۔
جواب میں کیا کہا گیا وہ قاسم نہیں سن سکا تھا مگر ریوالور والے کے جواب نے اسے یہ سمجھا دیا تھا کہ باہر اس کا باپ موجود ہے، اس نے چلا کر کہا تھا ’’وہ لڑکا تار لے کر آیا تھا مگر کافی دیر پہلے جا چکا ہے‘‘۔
اچانک قاسم کو اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا، دشمن بےخبر تھا اور وو موقع سے فائدہ نہیں اٹھا رہا تھا۔ اس نے پھرتی سے روشندان کو مزید کھولا اور رسی پکڑ کر اندر جھول گیا۔ اس کے کپڑے پانی میں بھیگے ہوے تھے، سر کے بال گیلے ہو کر پیشانی پر چپک گے تھے، اور چہرے پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ وہ اتنا اچانک کمرے میں آیا کہ احمد علی حیران اور اس کی بیوی خوفزدہ ہوگئی۔ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی تھی۔ ریوالور والا چیخ سن کر مڑا مگر اس عرصے میں قاسم اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے اجنبی کو کوئی موقع دئیے بغیر لوہے کا پائپ اس کے سر پر دے مارا۔ وار اتنا بھرپور تھا ک وہ ہٹا کٹا آدمی تیورا کر پیچھے کی جانب گر پڑا، ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر اسی کے برابرمیں گر گیا تھا۔ قاسم نے جلدی سے ریوالور پر قبضہ کر لیا۔
’’قاسم تم؟‘‘۔ احمد علی پرمسرّت آواز میں چیخے۔
’’جی‘‘۔ قاسم نے چھینکتے ہوے کہا۔ ’’لیجئے آپ یہ ریوالور تھامئے۔ میں اس کی مشکیں کس دوں‘‘۔
’’قاسم مجھے یقین نہیں آ رہا ہے‘‘۔ احمد علی کی بیوی نے خوشی سے لرزتے ہوے لہجے میں کہا۔ ’’مگر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ ہم پر کیا بیت رہی ہے؟‘‘۔
’’ارے بھئ وہ چھت پر موجود تھا اور سب کچھ دیکھ رہا ہوگا‘‘۔ احمد علی نے کہا۔
’’مگر یہ بھی تو پوچھئے کہ چھت پر کیوں موجود تھا؟‘‘۔ ان کی بیوی نے کہا۔
قاسم نے ان کی طرف مڑ کر کہا۔ ’’اس کی وجہ یہ تھی کہ جب میں ٹیلی گرام دینے آیا تھا تو اس شخص نے مجھے بتایا تھا کہ آپ اس کے دوستوں میں سے ہیں۔ بات سوچنے کی تھی کہ کوئی شخص بھی اپنے دوستوں اور مہمانوں کو موسلا دھار بارش میں تار لینے کے لیے نہیں بھیج سکتا، یہ تو بڑی بد اخلاقی کی بات ہے۔ اس بات نے مجھے پرسرار حالات کا احساس دلایا اور میں صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اوپر چڑھ گیا۔ مگر یہ ہے کون؟” ۔ قاسم اس کو باندھ کر سیدھا ہوتے ہوے بولا۔
’’یہ ایک مفرور قیدی ہے۔ کئی روز سے پولیس سے چھپتا پھر رہا تھا۔ پولیس اس کے پیچھے تھی۔ اس کو جل دے کر یہ اس گاؤں میں گھس آیا۔ پناہ لینے کے لیے اس کو ہمارا گھر پسند آ گیا تھا‘‘۔ احمد علی نے کہا۔ ’’شام سے یہ ہمارے سر پر مسلط ہے، جیل سے فرار ہوتے ہوے اس نے ایک پہرے دار کو بھی قتل کردیا تھا۔ ہمیں بھی یہ دھمکی دے رہا تھا کہ اگر ہم نے اس سے تعاون نہیں کیا تو ہم کو بھی موت کے گھاٹ اتاردے گا، چونکہ یہ شہر کی جیل سے بھاگا تھا اس لیے اس گاؤں کو محفوظ خیال کر کے چند روز یہاں گزارنا چاہتا تھا۔ ویسے قاسم تم بہت زہین لڑکے ہو۔ اگر تم اپنی ذہانت سے کام لے کر حالات کا اندازہ نہ لگاتے تو جانے ہمارا کیا حشر ہوتا‘‘۔
قاسم اپنی تعریف سن کر شرمانے لگا۔ احمد علی کی بیوی کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ قاسم کے کپڑے بھیگے ہوے ہیں۔ اس نے اس کو احمد علی کے کپڑے لا کر دئیے۔
ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن کر قاسم کو مزید شرم آئی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے نیچے لٹکتی ہوئی آستینوں کو جھلا کر بولا۔ ’’کوئی بچہ دیکھ لے تو بھوت سمجھ کر ڈر جائے‘‘۔
ہمیں تو اس بھوت نے بری طرح ڈرا دیا تھا۔ احمد علی کی بیوی جھرجھری لے کر بولی۔
اتنی دیر میں احمد علی شہر کے پولیس اسٹیشن فون کر کے ان کو صورت حال سے آ گا ہ کر چکے تھے۔ فون بند کر کے انہوں نے کہا۔ ’’وہ لوگ بہت خوش ہوے ہیں، انہوں نے بتایا تھا کہ اس مفرور مجرم کی گرفتاری پر حکومت نے دس ہزار روپے کا انعام بھی رکھا ہے‘‘۔
قاسم مسکرانے لگا۔ پھر بولا۔ ’’اس کامیابی کا سہرا میرے ابّا جان کے سر بندھتا ہے۔ نہ وہ گھنٹی بجا کر اس مجرم کو اپنی طرف متوجہ کرتے نہ مجھے کمرے میں آنے کا موقع ملتا‘‘۔ ابّاکا ذکر کر کے قاسم کو کچھ یاد آ گیا۔ اس نے کہا۔ ’’میں گھر پر بتا آؤں کہ میں یہاں ہوں۔ گھر والے تو کافی پریشان ہوگئے ہوں گے‘‘۔
قاسم چلا گیا۔ احمد علی اور ان کی بیوی اپنے محسن کو جاتا دیکھتے رہے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.