محاوروں کی دنیا
محاوروں کی دنیا عجیب وغریب ہے، ہمارے شاعروں کی طرح جنھیں کہنا کچھ ہوتا ہے اور کہتے کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجئے‘، اس سوال میں وہ طلبا بری طرح فیل ہوتے ہیں جو ’عید کے چاند کو‘ واقعی عید کا چاند سمجھتے ہیں۔ جب انھیں اس محاورے کا صحیح مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو کبھی کبھار یا ایک مدت بعد دکھائی دے تو بیچارے حیران ہو کر اپنا سر اتنی دیر تک کھجاتے ہیں، کہ عید کا چاند دکھائی دے جائے۔
جو لوگ محاوروں میں الفاظ ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں، محاوروں کے استعمال میں اکثر ٹھوکر کھاتے ہیں۔ وہ نیم کے پیڑ اور حکیم صاحب کو اپنی جان کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ’باغ باغ ہونا‘ ہو تو گارڈن کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔ فلش کا استعمال کر کے اپنے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ کوئی سو جائے تو کہتے ہیں ’’اس کی آنکھ بند ہو گئی۔‘‘
خاص طور پر سیر کے لئے جاتے ہیں تاکہ واپسی پر کھانا کھانے کے بعد انھیں یقین ہو جائے کہ انھوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا ہے۔ پھول کے پودے لگا کر خوش ہوتے ہیں کہ ہم گل کھلا رہے ہیں۔ کل ایک صاحب جو دیواروں پر پیلا رنگ لگا رہے تھے، اپنے رنگین ہاتھوں کو دیکھ کر خوش ہو نے لگے کہ لیجئے جناب! آج ہمارے بھی ہاتھ پیلے ہو گئے۔
اسی قسم کا ایک اور محاورہ ہے، ’سر آنکھوں پر‘، اس کے معنی ہیں دل و جان سے یا بڑی خوشی سے۔ اسی طرح ‘سر آنکھوں پر بٹھانا‘، یہ محاورہ کسی کی آؤ بھگت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس محاورہ میں نہ سر سے سروکار ہے نہ آنکھوں سے۔ اگر کوئی شخص یہ خوش خبری سنائے کہ وہ مہمان بن کر آپ کے گھر آرہا ہے تو بظاہر یہ کہنے کا رواج ہے۔ ’’ضرور تشریف لائے، آپ کی آمد سرآنکھوں پر‘‘ یہ اور بات کہ آپ کا دل اندر ہی اندر درج ذیل تراکیب کا ورد کر رہا ہوگا۔ برے پھنے ، ہوگیا ستّیا ناس، گئے کام سے، آگئی شامت، بن گیا گھر والوں کا کچوم، اب تو ہو گئے دیوالیہ، یہ مصیبت میرے ہی گلے پڑنی تھی، جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو وغیرہ وغیرہ۔ پھر آپ کا ذہن اس بن بلائے مہمان سے بچنے کی تراکیب سوچنے لگے گا۔
کل ہی کی بات لیجئے، ہمارے دوست نقیب مجتبی نے جب یہ خبر ہمیں سنائی کہ ’’کوئی صاحب آپ سے ملنے کے لئے آرہے ہیں تو ہم نے کہا، ’’خوش آمدید، ان کا آنا سر آنکھوں پر۔‘‘ یہ سن کر انھوں نے یہ فقرہ چست کیا، ’’مگر وہ بیٹھیں گے کسی ایک ہی پر۔‘‘
اب ہم انھیں کیسے سمجھا ئیں کہ وہ صاحب ہمارے کرایہ دار ہیں ہمارے گھر کی بالائی منزل پر (یعنی ہمارے سر پر ) کرائے سے رہتے ہیں۔ اور ہم ہر ماہ کرایہ کے انتظار میں ان کی راہوں میں آنکھیں بچھائے رہتے ہیں۔ ’سر آنکھوں پر‘، کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والے صاحب یا تو سر ہو کر رہیں گے یا آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے۔
کسی کو آنکھوں پر بٹھانے یا اس کے راستے میں آنکھیں بچھانے کا خیال خالص شاعرانہ ہے۔ دیگر محاوروں کی طرح اسے بھی عملی شکل دینے کی کوشش کی گئی تو سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا ۔ محاورے تو بس زبان کا چٹخارہ ہیں، مزہ لینے کے لئے۔ یہ صابن کے جھاگ سے بنے بلبوں کی طرح ہیں اک ذرا چھوا اور غایب۔ عام طور پر دسترخوان پر یہ شعر لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اے بادِ صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آنے والے ہیں
کلیاں نہ بچھانا راہوں میں ہم پلکیں بچھانے والے ہیں
کسی کو دیکھ کر مارے حیرت کے آنکھیں کتنی ہی کیوں نہ پھیل جائیں وہ اس قدر وسیع نہیں ہوسکتیں کہ ان پر کوئی تشریف فرما ہو سکے۔ ’سر آنکھوں پر‘ اس محاورہ کو عملی نقطہ نظر سے دیکھیں تو خالق حقیقی نے یہ کام پہلے ہی کر رکھا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ سر کا مرتبہ آنکھوں سے بلند ہے۔ آنکھیں دھو کہ کھا سکتی ہیں مگر عقل جس کا ٹھکانہ سر ہے، اس دھوکہ کو بھانپ لیتی ہے اور اپنے بچاؤ کا راستہ نکال لیتی ہے۔
سر کی جگہ اگر آنکھیں ہوا کرتیں تو ہم دن میں آسمان بادل پرندے اور دهنگ دیکھا کرتے، رات میں ستارے گنتے۔ زندگی ایک سفر ہے اور انسان ٹھہرا مسافر ۔ اسی لئے خدا نے آنکھیں ہمارے سر پر اس انداز سے فٹ کی ہیں کہ ہم منزلوں پر نظر جمائیں ، راستے کی اونچ نیچ پر نظر رکھیں اور چلتے رہیں۔ آنکھیں سر کے پیچھے اس لئے نہیں لگا ئیں کہ جو گزر گیا اس کا ماتم فضول ہے۔ ہر وقت اپنے ماضی میں کھوئے رہنا کوئی اچھی بات نہیں ۔ گاہے بگاہے پیچھے مڑ کر دیکھ لینا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لئے گردن میں مڑنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے۔ ’ سر تسلیم خم کر دینا‘ یعنی اپنے پورے وجود کو جھکا دینا ہے۔ سر جو پورے جسم کا کنٹرول روم ہے جھک جائے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہمارے سر کو جو بلند مرتبہ عطا کیا گیا ہے اس کے پیش نظر اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ جھکے تو بس اپنے بنانے والے کے آگے۔ ہر کس و ناکس کے آگے ماتھا ٹیکنے والے یوں بھی سب کی نظروں سے گر جاتے ہیں، اسی لئے آن بان سے جینے والے خدا کے سوا کسی کے آگے سر جھکانے کے بجائے اسے کٹانا پسند کرتے ہیں۔ سر واقعی ہے ہی ایسی چیز!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.