Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجرم پکڑے گئے

مختار احمد

مجرم پکڑے گئے

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    مختار احمد

    ابھی کچھ عرصہ پہلے جب میرےابّا جان سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئے تو انھیں ادارے سے ایک معقول رقم ملی تھی جو ہر سرکاری ملازم کو اس کی ریٹائرمنٹ پر ملتی ہے۔ میں خوش تھا کہ اب ہمارے گھر ہر وہ چیز آجائے گی جس کے لیے میں اور میری امی زندگی بھر ترستے رہے تھے، مگر ہمارے گھر کچھ بھی نہیں آیا، ابّا جان نے سارے پیسے بینک میں ہی پڑے رہنے دئیے اور امی جان سے بولے۔ ان پیسوں کو ہمیں بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا ہوگا، یہ ہماری پوری زندگی کی کمائی ہے”۔

    انہوں نے کوشش تو بہت کی تھی کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے مجھے اپنے محکمے میں کسی چھوٹی موٹی پوسٹ پر لگوادیں مگر کامیابی نہیں ہوئی ۔ میں میٹرک کرنے کے بعد آگے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا۔ وہ اپنے محکمے میں نائب قاصد تھے اور ان کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی۔ اس تنخواہ میں گھر کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوتے تھے اس لیے میری آگے کی پڑھائی کا بوجھ اٹھانا ان کے بس سے باہر تھا۔ امی میری بہت سیدھی سادھی عورت تھیں۔ وہ میرے میٹرک کرنے پر ہی بہت خوش تھیں اور بڑے فخر سے دوسروں کو بتاتی تھیں کہ ان کے بیٹے نے دس جماعتیں پڑھ لی ہیں۔

    ابّا جان نے مجھ سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں بھی اب کچھ کام دھندہ کروں اور ان کا ہاتھ بٹاوٴں۔ میں بھی نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھا، مگر کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ میرے ابّا اپنے محکمے کے لوگوں سے نالاں تھے کیونکہ انہوں نے مجھے نوکری پر نہیں رکھا تھا۔ وہ مجھ پر بھی غصہ کرتے تھے کہ خالی تعلیم سے کیا ہوتا ہے، مجھے کوئی ہنر بھی سیکھ لینا چاہیے تھا۔ حالات کی وجہ سے غریب آدمی میں دو چیزیں خود بخود آجاتی ہیں۔ ایک تو وہ چڑچڑا ہوجاتا ہے اور دوسری یہ کہ ہر وقت غصے میں رہتا ہے۔

    ابّا جان ان دونوں خصوصیات سے مالا مال تھے۔ امی پر تو ان کا بس چلتا نہیں تھا، میں شکنجے میں آیا ہوا تھا۔ میں گھر میں ہوتا تو ان کی زیادہ تر کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ دنیا کی ہر اونچ نیچ مجھے سمجھا دیں۔ ان کے سمجھانے کا انداز بھی ایسا ہوتا تھا کہ سننے والا ضد میں آجائے اور عہد کر لے کہ ان کی کی کسی نصیحت پر عمل نہیں کرے گا۔ گھر میں اور تھا ہی کون، میں اور میری امی ۔ امی ایک حد تک تو ان کی سنتی تھیں اس کے بعد انھیں سنانے بیٹھ جاتی تھیں۔ امی کی اس حرکت سے وہ بہت گھبراتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان سے بحث نہ ہو۔ میں ان کا بہت ادب کرتا تھا اس لیے خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہتا تھا۔ آسان ہدف دیکھ کر وہ مجھے ہی تختہ مشق بنائے رکھتے تھے۔

    دنیا بھر نے ان کے ساتھ جتنی زیادتیاں کی تھیں جانے کیوں وہ ان کا ذمہ دار مجھے ہی سمجھتے تھے۔ وہ کسی کام میں مصروف ہوں یا فالتو بیٹھے ہوں، ان کی ڈانت ڈپٹ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ میں ان کی روز روز کی ڈانٹ سے تنگ آیا ہوا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ وہ گھر میں ہوں تو میں گھر سے باہر ہی رہوں۔ وہ گھر میں ہوتے تو میں اپنے دوستوں کے پاس چلا جاتا۔

    میرے دوست بھی بھی نوکریوں کی تلاش میں تھے اور ابھی تک ان کی بھی تلاش جاری تھی۔ نوکری تھی کہ ملنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ایک روز دوپہر کو میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے امی کے چہرے پر خوشی کے تاثرات نظر آئے۔ انہوں نے مجھے کھانا دیا اور پاس بیٹھ کر بولیں۔ ”اب ہمارے برے دنوں کا خاتمہ ہونے والا ہے، تیرے ابّا کو دفتر سے جو رقم ملی تھی، اس سے وہ ایک ہوٹل خرید رہے ہیں۔ تیری بھی نوکری کا مسلہ حل ہوجائے گا، وہ کہہ رہے تھے کہ تجھے گلے پر بٹھائیں گے۔ تو حساب کتاب رکھنے کے علاوہ ملازموں کے کام پر بھی دھیان رکھے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم تیری نوکری کی دعائیں کرتے تھے، اب مالک نے ہمیں اس قابل کر دیا ہے کہ ہم دوسروں کو نوکری پر رکھیں”۔

    کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ فکر مندی سے بولیں ۔ “بیٹا بہت دیکھ بھال کر اپنا کام کرنا۔ تیرے ابّاجان گرم مزاج کے ہیں۔ کچھ الٹی سیدھی بات بھی کردیں تو خاموشی سے سن لینا۔ دیکھ میں بھی تو سالوں سے گزارہ کر رہی ہوں ان کے ساتھ”۔

    “امی جان اگر ابّا گرم مزاج کے ہیں تو پھر بٹھا لیں کسی اور کو ہوٹل کے گلے پر۔ دو دن میں ہی ہوٹل بند نہ ہوجائے تو میرا نام بدل دینا”۔ میں نے تلخ لہجے میں کہا۔

    مجھے غصے میں دیکھ کر امی خوشامد پر اتر آئیں۔ “دیکھ بیٹا میں نے تو اس لیے کہا تھا کہ میں تیرے ابّا کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ جلد سے جلد تو کچھ کمانے لگے تو تیرے ہاتھ پیلے کردوں”۔

    میں کچھ نہیں بولا۔ رات میرے ابّا دیر سے گھر آئے۔ میں بستر میں تھا مگر سویا نہیں تھا۔ انہوں نے آتے ہی پوچھا ۔ “امجد کہاں ہے؟”۔

    امی نے بتایا کہ وہ تو سو گیا ہے، حالانکہ میں سویا نہیں تھا، آنکھیں بند کیے پڑا تھا، مگر امی یہ ہی سمجھ رہی تھیں کہ میں سو گیا ہوں۔

    میرے ابّا نے کہا۔ “صبح اسے بتا دینا۔ نوابی کی زندگی کے دن ختم ہوگئے ہیں۔ کل سے اسے میرے ساتھ ہوٹل پر جانا پڑے گا۔ ہوٹل اب ہمارا ہوگیا ہے، میں نے پکّے کاغذات بنوا کر رقم کی ادائیگی بھی کردی ہے۔ چلتا ہوا ہوٹل ہے مگر ذرا دور ہے”۔

    صبح امی نے مجھے جلدی اٹھا دیا تھا۔ میں بجھے دل سے تیار ہو کر ابّا کے ساتھ نکل پڑا۔ انہوں نے ایک ٹیکسی روکی اور ہم تقریباً پچیس منٹ میں ہوٹل پہنچ گئے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہ کسی بارونق جگہ پر پکّی عمارت میں ہوگا، مگر یہ چھپر ہوٹل تھا۔ گاہکوں کے بیٹھنے کے لیے ایک بڑی سی جگہ تھی، بارش اور دھوپ سے بچاوٴ کے لیے بڑی بڑی ترپالوں کو لوہے کے پائپوں سے باندھ کر تان دیا گیا تھا۔ ان کی نیچے پلاسٹک کی میز کرسیاں تھیں۔ ایک کونے میں برابر برابر دو لکڑی کے کیبن تھے۔ ایک کیبن چھوٹی سی دکان تھی جس میں روز مرہ کے استعمال کی اشیا تھیں۔ دوسرا کیبن آٹا، چاول اور دالیں رکھنے کے لیے تھا۔

    میرے ابّا نے کہا۔ “اس دکان میں ویسے تو میں بیٹھا کروں گا اور تم دوسرے ملازموں کے ساتھ ہوٹل کے کام کرو گے۔ میری غیر حاضری میں دُکان تمہیں سنبھالنا پڑے گی۔ گاہکوں سے وصولی اور دوکان کی چیزوں کو بیچ کر جو پیسے ملیں گے، انھیں لکڑی کے بکسے میں رکھنا۔ دُکان میں داخلے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہوگی۔ ہمیں کسی پر بھی اعتبار نہیں کرنا ہے۔ یہ بات بھی سن لو کہ تمہیں ہوٹل پر چوبیس گھنٹے رہنا ہوگا۔ ابھی تو نہیں، کل اپنے کپڑے وغیرہ بھی یہیں لا کر رکھ لینا”۔

    میرے جسم سے تو جیسے جان نکل گئی۔ ابّا کی بات سن کر میں سمجھ گیا تھا کہ میرے سارے عیش ختم، مجھے باقی زندگی اسی ہوٹل میں بسر کرنا پڑے گی۔ ابّا جان سے میں بہت ڈرتا تھا، اس لیے خاموش رہا۔ ابّا کی نظریں میرے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ جب میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا تو وہ مطمئن ہوگئے۔

    اگلے دن میں اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں ایک لوہے کے صندوق میں بھر کر ہوٹل پہنچ گیا۔ امی جان میری روانگی پر آبدیدہ ہو گئی تھیں۔

    “امی آپ مجھے بہت یاد آیا کریں گی”۔ میں نے کہا تو وہ باقاعدہ رونے لگیں۔ ابّا جان ان رقت آمیز مناظر کو دیکھ دیکھ کر تلملا رہے تھے۔ “جاوٴ اندر جاوٴ”۔ انہوں نے امی سے کہا۔ “یہ پردیس تھوڑی جا رہا ہے جو تم نے رونا دھونا شروع کردیا ہے”۔

    امی اندر تو چلی گئیں مگر جاتے جاتے کہہ گئیں ۔ “میرا دل آپ کی طرح سخت تھوڑا ہی ہے۔ ہوٹل کھولنے سے بہتر تھا کہ آپ قصائی کی دوکان کھول لیتے”۔

    ہوٹل پہنچ کر ابّا نے مجھے کچھ باتیں بتائیں۔ ہوٹل کے تینوں ملازموں سے میرا تعارف کروایا۔ ان میں ایک سترہ اٹھارہ سال کا سانولے رنگ کا لڑکا بھی تھا۔ اس کا نام گامو تھا۔ وہ مجھے اچھا لگا کیونکہ اس کو اس ہوٹل پر کام کرتے ہوئے چھ سات سال ہوگئے تھے۔ وہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ گامو ہوشیار اور محنتی ہے، وہ مجھے ہوٹل چلانے کے گر بتاتا رہے گا اور مجھے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔

    میں اللہ کا نام لے کر دکان والے کیبن میں بیٹھ گیا۔ ابّا کو ہوٹل کے کاغذات کے سلسلے میں وکیل کے پاس جانا تھا وہ مجھے کچھ مزید نصیحتیں کر کے چلے گئے۔ ان کے رویے میں مجھے کچھ نرمی محسوس ہو رہی تھی۔ دوپہر تک سر کھجانے کی فرصت نہ ملی۔ قریب ہی میں بہت ساری فیکٹریاں تھیں۔ گیارہ بجے کے بعد ان فیکٹریوں کے مزدور وں کا جو تانتا بندھا ہے تو سہہ پہر تک میں بہت ہی مصروف رہا۔ قریب ہی کچی آبادیاں بھی تھیں۔ ان میں سے بھی عورتیں اور بچے تندور پر روٹیاں لگوانے آتے رہے۔ آس پاس کوئی جنرل اسٹور بھی نہیں تھا، اس لیے دکان کی مختلف چیزیں بھی بکتی رہیں۔

    شام کو جب رش کچھ کم ہوا تو میں نے گلے کی رقم کا جائزہ لیا۔ ابّا نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ بڑے نوٹوں کو میں الگ چھپا کر رکھوں۔ میں نے انھیں بھی چپکے سے نکال کر گنا۔ ساری رقم ملا کر تیس ہزار سے زیادہ تھی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔

    ابھی میں اس گنتی سے فارغ ہوا ہی تھا کہ وہاں پر ایک موٹر سائیکل آ کر رکی۔ اس پر دو افراد سوار تھے۔ ان کی شکل مجھے نظر نہیں آ سکی تھی کیوں کہ ایک نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا، دوسرے کی ناک تک مفلر لپٹا ہوا تھا۔ گامو میرے نزدیک کھڑا تھا ۔ ابھی اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ منہ پر مفلر لپیٹا شخص تیر کی تیزی سے میرے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک خوفناک پستول تھا۔

    “گلہ خالی کر۔ جلدی۔ جلدی کر”۔ اس نے ایک تھیلا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

    میرے جسم سے تو جیسے جان نکل گئی۔ گامو کے چہرے پر ذرا بھی خوف کے آثار نہیں تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ اس ڈاکو پر جھپٹ پڑے گا۔ اسی دوران میں نے موٹر سائیکل پر بیٹھے شخص کے ہاتھ میں بھی پستول دیکھ لیا تھا۔ میں نے گامو سے کہا۔ “گامو۔ کسی قسم کی کوئی حرکت مت کرنا ، سمجھے یہ میرا حکم ہے”۔

    میں سمجھ گیا تھا کہ ذرا سی مزاحمت پر یہ ڈاکو ہمیں گولیوں کا نشانہ بنا دیں گے۔ گامو میرے حکم سے مجبور ہو کر چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ میں نے ساری رقم اس تھیلے میں بھری، اس ڈاکو نے جھپٹ کر تھیلا میرے ہاتھ سے چھینا اور موٹر سائیکل کی طرف بھاگا۔ میں بھی دکان سے نکل کر باہر آگیا۔

    موٹر سائیکل وہاں سے نکل کر سڑک پر آئی۔ سڑک ٹوٹی پھوٹی تھی، جگہ جگہ چھوٹے بڑے گڑھے تھے اس لیے ان کو موٹر سائیکل کی رفتار کم کرنا پر گئی۔ موٹر سائیکل ایک بڑے گڑھے سے گزری تو زور سے اچھلی۔ پیچھے بیٹھا ہوا ڈاکو توازن برقرار نہ رکھ سکا، وہ گرا تو نہیں مگر اس کے منہ سے لپٹا مفلر ڈھلک کر اس کے گلے میں آگیا۔ مگر میں اس اس کی شکل دیکھنے سے قاصر تھا کیوں کہ اس کی پیٹھ میری جانب تھی۔ میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ تیزی سے دوڑ کر ان تک پہنچ جاوٴں اور دھکا دے کر ان کی موٹر سائیکل گرادوں اور شور مچا کر لوگوں کو اکھٹا کرلوں۔ مگر یہ ناممکن بات تھی، پیچھے بیٹھے ہوئے ڈاکو کے ہاتھ میں ابھی تک پستول دبا ہوا تھا۔

    اچانک میں نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے کھیلتے ہوئے بچوں میں سے ایک بچے نے موٹر سائیکل کے سامنے آکر کچھ کہا۔ انہوں نے بچے کی بات نہیں سنی اور کترا کر اس کی برابر میں سے نکل گئے۔ گامو میرے برابر کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس نے یہ بچے والا منظر نہیں دیکھا تھا۔ وہ مجھ سے بولا ۔ “آج دھندہ اچھا ہوا تھا۔ اب ہم مالک کو کیا جواب دیں گے”۔

    میرا دل خود پریشان تھا۔ گامو بقیہ دو ملازموں کو اس واقعہ کی تفصیل بتانے لگا۔ میں جلدی سے اس بچے کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا ۔ “لڑکے۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے لوگ کون تھے۔ تم ان سے کیا کہہ رہے تھے؟”

    لڑکا میری بات سن کر پہلے تو کچھ جھجکا، پھر بولا ۔ “پیچھے جو بیٹھے تھے وہ میرے رفعت ماموں تھے۔ میں ان سے کہہ رہا تھا کہ مجھے بھی موٹر سائیکل پر بٹھائیں مگر انہوں نے میری بات ہی نہیں سنی”۔

    بچے کی بات سن کر میرے جسم میں خوشی کی لہریں سی پھوٹنے لگیں۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو ہوٹل میں لا کر ایک کرسی پر بٹھایا۔ پھر دُکان میں جا کر ایک پلاسٹک کی تھیلی میں بہت ساری ٹافیاں اور بسکٹ بھر کر اس کو دیے۔ “یہ تمہارے اور تمہارے دوستوں کے لیے ہیں۔ تمہارے رفعت ماموں کہاں رہتے ہیں؟”

    بچہ اتنی ساری چیزیں دیکھ کر خوش ہوگیا تھا۔ کرسی سے اتر کر بولا۔ “اس کا تو مجھے نہیں پتہ کہ وہ کہاں رہتے ہیں، میں ان کے گھر امی کے ساتھ بس میں بیٹھ کر جاتا ہوں مگر وہ کل سے ہمارے گھر میں ہی ہیں۔ کچھ دنوں بعد واپس اپنے گھر چلے جائیں گے”۔

    “اور تمہارا گھر کہاں ہے”۔ میں نے جلدی سے پوچھا۔ وہ میرے سوالوں سے گھبرا گیا تھا، ویسے بھی اس کا دھیان تھیلی میں موجود کھانے پینے کی اشیا کی طرف لگا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے ہاتھ چھڑایا اور بھاگتے ہوئے بولا۔ “میں نہیں بتاوٴں گا”۔

    اتنی دیر میں گامو میرے نزدیک آیا۔ “او صاحب۔ آپ تو بچوں سے کھیلنے میں لگ گئے ہو، یہ سوچو کہ اپنے ابّا جان کو کیا جواب دو گے”۔

    میں نے کہا “گامو۔ خوش ہوجا۔ میں نے چور پکڑ لیا ہے۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ اگر ابّا آجائیں تو انھیں لے کر تھانے پہنچ جانا”۔ یہ کہہ کر میں اٹھ گیا۔ میری بات سن کر گامو کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔ میں سیدھا ان بچوں کے پاس گیا تھا۔ اس بچے نے اپنے دوسرے ساتھیوں کو چیزوں سے بھری تھیلی دکھائی اور ایک طرف کو بھاگ گیا۔

    میں تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔ آگے ایک میدان تھا۔ میدان ختم ہوتا تھا تو ایک گندہ نالہ تھا، اس پر ایک پلیا تھی۔ بچہ میدان میں سے ہوتا ہوا، پلیا پار کر کے سامنے بازار میں گھس گیا۔ بازار میں سے گزر کر وہ ایک گلی میں نکلا جس میں قطار در قطار مکانات بنے ہوئے تھے۔ میں مسلسل اس کے تعاقب میں تھا۔ تین گلیاں چھوڑ کر وہ چوتھی گلی کے پانچویں مکان میں چلا گیا۔ اس مکان پر نیلا رنگ نمایاں نظر آرہا تھا۔

    جب بچہ اندر چلا گیا تو میں نے احتیاطاً جیب سے قلم نکال کر اس کا نمبر بھی نوٹ کرلیا۔ اس کا نمبر تھا “سیکٹر۔ بی، مکان نمبر چار سو بیس، لیبر کالونی”۔

    میں ہوٹل واپس آیا تو یہ دیکھ کر میری جان نکل گئی کہ ابّا ہوٹل کی ایک کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے ہیں اور ان کے ایک ہاتھ میں جوتا ہے۔ ابّا نے ویسے تو زندگی میں میری مختلف چیزوں اور مختلف طریقوں سے پٹائی لگائی تھی، جوتے سے پٹنے کا شرف مجھے آج حاصل ہونے والا تھا۔ میں ان کے قریب گیا اور سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔

    انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا جوتا پاوٴں میں پہنا، کرسی سے کھڑے ہوئے اور مجھے گلے سے لگا کر بولے۔ “شاباش بیٹے شاباش۔ آج تم نے بہت عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔ ان بدمعاشوں سے مزاحمت کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ مجھے گامو نے سب بتا دیا ہے۔ آج تمہاری ذہانت کی وجہ سے دو جانیں بچ گئی ہیں، ایک گامو کی اور ایک تمہاری”۔

    ان کے پیارے بھرے الفاظ سن کر میرا دل بھر آیا۔ میں ان کے گلے سے لگ کر رونے لگا۔ انہوں نے مجھے تسلی دی اور بولے “شاید تم رقم کے نقصان پر رورہے ہو۔ اس کا غم تم مت کرو”۔

    میں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ “ابّا جان۔ آج آپ نے زندگی میں پہلی مرتبہ جو میری تعریف کی ہے اور اتنے پیار سے مجھ سے بات کی ہے، میرے آنسو اس بات پر نکلے ہیں”۔

    میری بات سن کر وہ بھی آبدیدہ ہوگئے۔ بولے ۔ “امجد۔ کوئی باپ بھی اپنی اولاد سے زبانی محبّت کا اظہار نہیں کرتا، مگر ہر باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے پیار پیار ہی بھرا ہوتا ہے۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔ میں نے تم پر کچھ زیادہ ہی سختیاں کر رکھی تھیں۔ مجھے معاف کردو”۔

    ان کی بات سن کر مجھے بہت ہی دکھ ہوا ۔ “ایسا نہ کہیے ابّا جان”۔ پھر مجھے کچھ یاد آیا۔ “آپ نے ابّا جان جوتا ہاتھ میں کیوں لے رکھا تھا، میں تو سمجھا تھا کہ میری دھنائی ہونے والی ہے”۔

    زندگی میں میری کسی بات پر ابّا جان پہلی مرتبہ مسکرائے اور مسکراتے ہوئے بولے۔ “پاوٴں میں خارش ہو رہی تھی، کھجانے کے لیے جوتا اتار لیا تھا”۔

    تھوڑی دیر بعد ابّا جان، گامو اور میں تھانے پہنچے۔ تھانے دار سے ابّا نے اپنا تعارف کروایا۔ وہ ایک بھلا آدمی تھا۔ اس نے بڑے دھیان سے ان کی بات سنی۔ محرر کو بلوا کر رپورٹ لکھوائی۔

    اس کے بعد میں نے کہا۔ “جناب یہ تو ڈکیتی کی واردات کی رپورٹ ہوگئی۔ اب میں آپ کو اس کے مجرم اور اس کا موجودہ ٹھکانے کا پتہ بھی بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے شروع سے آخر تک اسے پوری کہانی سنا دی۔

    جب میری کہانی ختم ہوئی تو تھانیدار نے اپنی کرسی سے اٹھ کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور بولا ۔ “بیٹا ان ڈاکووٴں نے میرے علاقے میں اودھم مچا رکھا تھا۔ بدقسمتی سے یہ پکڑ میں نہیں آ رہے تھے۔ مجھے میرے افسران بالا نے بھی بہت ڈانٹ پلائی تھی اور سرزنش کی تھی۔ اگر ہم نے ان مجرموں کو گرفتار کر لیا تو میری بگڑی ہوئی ساکھ پھر سے بن جائے گی۔ میں زندگی بھر تمہارا احسان نہیں بھولوں گا”۔

    اس کی باتیں سن کر ابّا جان کی تو خوشی سے بانچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ گامو بھی مجھے تعریفی نظروں سے دیکھ رہا تھا مگر اتنے بڑے تھانیدار کو ایسی باتیں کرتا دیکھ کر میں سخت شرمندگی محسوس کررہا تھا۔ میں نے کہا ۔ “سر آپ اس طرح کی باتیں کرکے مجھے شرمندہ نہ کریں۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میں قانون کی مدد کرے۔ اسی طرح تو ہمارے معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہوگا”۔

    میری بات سن کر تھانیدار بہت خوش ہوا۔ پھر اس نے چند سپاہیوں کو اپنے ساتھ لیا اور میرے بتائے ہوتے پتے پر مجرموں کو پکڑنے کے لیے چلا گیا۔

    اگلے روز شام کو تھانیدار پولیس موبائل میں تین سپاہیوں کے ساتھ ہمارے ہوٹل پر آیا۔ اس نے ابّا جان سے ہاتھ بعد میں ملایا ، اس سے پہلے مجھے گلے لگایا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ہمیں بتایا کہ دونوں مجرم پکڑے گئے ہیں۔ ایک کا نام رفعت اور دوسرے کا نام کاظم تھا۔ دونوں عرصہ دراز سے ان وارداتوں میں مصروف تھے۔ رفعت کوئی واردات کرکے اپنے علاقے سے بھاگا ہوا تھا۔ وہاں کی پولیس اس کی تلاش میں اس لیے اس نے اپنی بہن کے گھر میں پناہ لے رکھی تھی۔ کاظم اسی علاقے کا رہائشی تھا اور دونوں میں دوستی تھی۔ یہ دونوں مل کر وارداتیں کرتے تھے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے دوران تفتیش کیا تھا۔ ہمارے پیسے بھی ان کے پاس سے مل گئے تھے جو سرکاری تحویل میں تھے۔ تھانیدار نے یہ کہہ کر تسلی بھی دی کہ یہ پیسے عدالتی کارروائی کے بعد ہمیں واپس مل جائیں گے۔

    پھر اس نے اپنی جیب سے پانچ ہزار روپے نکال کر مجھے بطور انعام دیے اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ “بیٹے۔ تم بہت ذہین اور بہادر ہو۔ تمہاری وجہ سے ہم ان مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس خبر کو سن کر میرے افسران بہت خوش ہیں اور مجھے شاباش دے رہے ہیں”۔

    ابّا جان بھی وہیں موجود تھے۔ تھانیدار کی باتیں سن کر ان کی آنکھیں فخر سے چمک رہی تھیں۔ میں نے گھنٹی کا بٹن دبا کر گامو کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بلند آواز میں بولا “گامو۔ تھانیدار صاحب کے لیے اور سپاہیوں کے لیے اچھی سی دودھ پتی کی چائے”۔

    گامو مسکرا کر چائے بنانے لگا۔ رات کو ابّا جان نے مجھے ہوٹل پر نہیں چھوڑا، اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔ گھر آنے سے پہلے انہوں نےپڑوس میں فون کرکے امی کو بلایا اور میرے کارنامے کا تذکرہ ان سے کیا۔ تھانیدار صاحب نے مجھے جو انعام دیا تھا اس کے بارے میں بھی انہوں نے امی کو بتا دیا تھا۔ ہم گھر پہنچے تو امی مجھ دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھیں۔

    “امجد کی ماں۔ کبھی ہمیں بھی دیکھ کر اس طرح کی خوشی کا اظہار کر دیا کرو”۔ ابّا جان نے شوخی سے مسکراتے ہوئے کہا۔

    امی جان ان کی بات سن کر ہنسیں، مجھے گلے سے لگایا اور بولیں۔ “کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔ مگر پہلے آپ امجد جیسے کام بھی تو کر کے دکھائیں”۔

    ان کی بات سن کر ابّا جان نے ایک زور کا قہقہہ لگایا ۔ میں نے برسوں بعد ان کو اتنا خوش دیکھا تھا۔ میں دل میں سوچنے لگا کہ ماں باپ بھی کتنے سادہ ہوتے ہیں۔ اولاد اگر اچھا کام کرے تو ان کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی ہے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے