نام-دیو جی کا کنواں
جب تم سبھوں کا بابا سائیں کالج میں پڑھ رہا تھا، گرمی کی تعطیل میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ سیر کے لیے بیکانیر گیا، بس یونہی گھومنے پھرنے سیر پاٹے کے لیے۔ خوب سیر کی، بیکانیر کے نزدیک ’’کولاوجی’’ نام کا ایک گاؤں ہے، بابا سائیں کا ایک دوست گندھر اسی گاؤں کا رہنے والا تھا، اس نے بتایا اس کے گاؤں میں ایک بہت گہرا کنواں ہے اس کا پانی بہت میٹھا ہے اس کنوئیں کو ’’نام دیو کا کنواں‘‘ کہتے ہیں جو بیکانیر آتا ہے وہ ’نام دیو کا کنواں دیکھنے ضرور جاتا ہے۔
جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ اپنے ملک کے بہت ہی مشہور سنت اور شاعر نام دیو جی نے خود یہ کنواں گاؤں والوں کی مدد سے کھودا تھا، دن رات ایک کر کے کنواں بنایا تھا، بات یہ تھی بچو کہ بیکانیر کے پاس اس گاؤں میں پانی کا کال پڑا تھا لوگ پانی کے لیے ترس رہے تھے۔ معلوم ہوا زمین ایسی نہیں ہے کہ پانی نکالا جا سکے، لوگ پانی کی تلاش میں دور دور جاتے تھے، کچھ خاندان گاؤں چھوڑ کر بھی چلے گئے، اچانک نام دیوجی اس گاؤں میں آ گئے اور بیٹھ گئے ایک بڑے گھنے درخت کے نیچے۔ پورے گاؤں میں بس یہی ایک گھنا درخت تھا جس کے نیچے وہ بیٹھے تھے۔ سنت سادھو تھے، بیٹھے تو اس درخت کے نیچے لیکن اُنھیں چین کب تھا، وہ تو اپنے مالک کی یاد میں ہر وقت ناچتے گاتے ہی رہتے تھے، جب دیکھو آنکھیں بند کیے خدا کی یاد میں ناچ رہے ہیں، گاؤں والوں نے سوچا اپنی تکلیف بابا کو بتا دیں شاید ان کی دعا سے زمین سے پانی نکل آئے۔ گاؤں والے بابا کے پاس گئے تو دیکھا سنت نام دیو آنکھیں بند کیے مالک کا نام لے لے کر ناچ رہے ہیں، اُنھیں ناچنے سے فرصت کب تھی جو گاؤں والوں کی تکلیف سنتے، گاؤں والے اس انتظار میں تھے کہ ان کا ناچ ختم ہو تو وہ اپنی تکلیف بتائیں۔ اسی وقت ایسا ہوا کہ گاؤں کا ایک چھوٹا سا پیارا سا لڑکا شیام مستی میں سنت نام دیو جی کے ساتھ اسی طرح ناچنے لگا کہ جس طرح نام دیو جی ناچ رہے تھے وہی گیت گانے لگا جو نام دیو جی گا رہے تھے، گاؤں کے لوگوں کو ڈر لگا کہیں بابا ناراض نہ ہو جائیں، اُنھوں نے چھوٹے سے لڑکے شیام کو بار بار روکا لیکن شیام تھا کہ بس ناچتا ہی جا رہا تھا ناچتا ہی جا رہا تھا۔
جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ نام دیو جی ناچتے ناچتے اچانک رک گئے اور حیرت سے شیام کو دیکھنے لگے، انھیں سخت حیرت ہوئی کہ چھوٹا سا پیارا سا لڑکا اسی طرح ناچ رہا ہے کہ جس طرح وہ خود ناچ رہے ہیں، اسی طرح گا رہا ہے کہ جس طرح وہ خود گا رہے ہیں، دونوں جہاں کے مالک سے امن اور شانتی اور لوگوں کے درمیان پیار محبت کی بھیک اسی طرح مانگ رہا ہے کہ جس طرح وہ مانگ رہے ہیں۔ نام دیو جی کچھ دیر لڑکے کا ناچ دیکھتے رہے، اس کا گیت سنتے رہے، پھر آگے بڑھ کر شیام کو پیار کرنے لگے، شیام ناچتے ناچتے رک گیا اور بہت ادب سے نام دیو جی کو پرنام کیا۔ نام دیو جی شیام کو پاکر بہت خوش تھے، پوچھا ’’بیٹے تمھارا نام کیا ہے؟’’ شیام نے جواب دیا ’’ میرا نام شیام ہے۔’’ سنت نام دیوجی نے ایک بار آنکھیں اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’آج سے نام دیو تمھارا نام شیام دیو رکھتا ہے، تم اب شیام دیو کہے جاؤگے، بھگوان نے تمھیں پسند کر لیا ہے، تمھارا نام دور دور تک پھیلےگا‘‘۔ نام دیو جی نے شیام کا نام شیام دیو کر دیا اسے بہت دعائیں دیں اور لگے گانے، اپنے گیت میں کہا۔ ’’ہم سب کا مالک ایک ہے وہی سب میں سمایا ہوا ہے، ایک دوسرے سے صرف پریم کرو، ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ اسی وقت شیام نے نام دیو جی سے کہا ’’آپ ہم گاؤں والوں کی مدد کیجیے‘‘۔ نام دیو جی نے پوچھا ’’کیا مدد کروں میں بتاؤ، میرے کرنے کا ہوگا تو ضرور کروں گا‘‘ شیام نے کہا ’’ہم سب پانی کے لیے ترس رہے ہیں، کہیں پانی نہیں ہے۔ پانی کا کال پڑا ہوا ہے، آپ گاؤں کو ایک کنواں دے دیں، کہتے ہیں زمین کے نیچے پانی نہیں ملےگا، گاؤں والوں نے بہت کوشش کی کہیں پانی نہیں نکلا۔‘‘
نام دیوجی نے شیام کی باتیں سن کر کہا ’’بچے! محنت کرنے سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے، سچائی یہ ہے کہ پانی زمین سے بہت نیچے ہے، کنواں جب تک گہرا کھودا نہ جائےگا پانی نہیں نکلےگا۔ مالک اب تم لوگوں کو پیاسا رہنے نہیں دےگا۔ جہاں تم ناچ رہے ہونا اس کے نیچے سے پانی نکلےگا، یقین نہیں آتا تو آؤ ہم سب کنواں کھودنا شروع کر دیں‘‘۔ دیکھتے ہی دیکھتے نام دیو نے پھر ناچنا شروع کر دیا اور اپنے گیت سے مالک کو پکارنے لگے، بار بار گاتے رہے مالک مالک پانی دو، مالک مالک پانی دو، پھر گاؤں کے لوگ جمع ہو گئے اور نام دیو جی اس گھنے درخت کے نیچے کنواں کھودنے لگے۔ گاؤں والے بھی اس کام میں جٹ گئے اور کچھ ہی دنوں کے اندر اس گھنے درخت کے نیچے ایک گہرا کنواں تیار ہو گیا۔ کنویں کے پانی کو صاف کرنے کے لیے نام دیو جی خود کنویں کے اندر اترے اور لگے کنواں صاف کرنے، چند دنوں کے اندر کنواں صاف ہو گیا اور گاؤں والوں کو پانی ملنے لگا۔ نام دیو جی نے شیام کو خوب پیار کیا اور اس کے کان میں کچھ کہہ کر ناچتے گاتے گاؤں سے باہر چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ گاؤں والے اُنھیں اب تک بھولے نہیں ہیں۔ جب بھی اس کنویں کا میٹھا پانی پیتے ہیں نام دیو جی کو یاد کرتے ہیں۔ نام دیو جی، شیام اور کنویں کی کہانی آج بھی وہاں سنائی جاتی ہے، نام دیو جی کے جانے کے بعد شیام دیو روز صبح شام کنویں پر ناچتا تھا، پھر وہ بھی کہاں چلا گیا کوئی نہیں جانتا۔
بابا سائیں نے جب اس کنویں کا پانی پیا تو لگا وہ انتہائی عمدہ میٹھا پانی پی رہے ہیں۔
بچو، تم جب بھی اس گاؤں میں جانا اس کنویں کا پانی ضرور پینا۔ ایسا میٹھا پانی اس علاقے میں دور دور تک کسی بھی کنویں میں نہیں ملتا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.