Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیک دل پڑوسن

مختار احمد

نیک دل پڑوسن

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    جمیلہ بھی بستی کے دوسرے غریب لوگوں کی طرح ایک تین کمرے والے کوارٹر میں رہتی تھی۔ جب اس کا شوہر زندہ تھا تو اس نے یہ کوارٹر خریدا تھا۔مدت ہوئی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور اب ایک بیٹی کے سوا اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا۔

    جب اس کا شوہر زندہ تھا تو ان کے حالات بہت اچھے تھے۔وہ راج گیری کا کام کرتا تھا اور بعد میں اس نے ٹھیکوں پر گھروں کی تعمیر شروع کر دی تھی۔اس کام سے اسے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ جمیلہ اور اس کی بیٹی پروین کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔مگر شوہر کی بے وقت موت نے اس کے لیے مشکلات پیدا کردیں۔کچھ عرصہ تو جمع شدہ پونجی سے کام چلتا رہا مگر جب سب ختم ہوگیا تو اس نے سوچا کہ اسے اب کوئی کام کرنا چاہیے۔

    ان کی بستی سے آگے ایک آبادی تھی۔اس آبادی میں بڑی بڑی کوٹھیاں اور بنگلے بنے ہوئے تھے۔یہاں پر کھاتے پیتے افراد رہتے تھے۔ان میں سے اکثر کے گھروں میں اس بستی کی عورتیں اور لڑکیاں کام کرنے جاتی تھیں۔ان کی خدمات کے عوض انہیں تھوڑی بہت تنخوا، بچا ہوا کھانا اور پرانے کپڑے وغیرہ مل جاتے تھے جس سے ان کی بری بھلی گزر بسر ہوجاتی تھی۔کافی ڈھونڈنے کے بعد اس کو بھی ایک کوٹھی میں صبح سے شام تک کام کرنے کی نوکری مل گئی۔

    اس کی مالکن ایک ہمدرد اور نیک دل خاتون تھی۔اس کا سلوک جمیلہ سے بہت اچھا تھا اور وہ اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔اس نے جمیلہ کو کبھی باسی کھانا نہیں دیا تھا۔جمیلہ اس کے گھر میں دل لگا کر کام کرتی تھی۔مالکن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔وہ تینوں بچے جمیلہ سے بہت محبّت کرتے تھے اور اس سے بہت عزت سے پیش آتے تھے۔جمیلہ بھی بچوں کے تمام کاموں کا دھیان رکھتی تھی اور ان کو نہایت اچھے طریقے انجام دیتی۔جمیلہ یہاں پر برسوں سے کام کررہی تھی اور اس کی مالکن کو اس کے گھر کے تمام حالات پتہ تھے۔

    جمیلہ کی بیٹی بڑی ہوئی تو اس نے اس کی شادی کردی۔چند گاؤں چھوڑ کر بیٹی کا سسرال تھا۔اس کے سسرال والے اچھے لوگ تھے اور انہوں نے جمیلہ کی بیٹی کو عزت اور محبّت سے رکھا ہوا تھا۔جمیلہ کی بیٹی بھی سمجھدار تھی۔اس نے اپنی دن رات کی خدمت سے سسرال والوں کو خوش رکھا ہوا تھا۔ایک تو وہ تھی بھی بہت خوبصورت اور پھر وہ ہر وقت گھر کے کاموں میں لگی رہتی تھی اس لیے اس کا شوہر بھی ہر دم اس کے گن گاتا تھا۔

    بیٹی کی شادی کے بعد اگرچہ جمیلہ بالکل ہی اکیلی ہوگئی تھی مگر وہ پھر بھی خوش تھی اور خدا کا شکر ادا کرتی تھی کہ اس کی بیٹی کو اچھا سسرال ملا ہے اور وہ وہاں بہت خوش ہے۔

    اس کی بیٹی کی شادی میں اس کی مالکن نے بھی بہت مدد کی تھی جس کی وجہ سے اس کا جہیز بھی اچھا بن گیا تھا۔جمیلہ اپنی مالکن کو جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں دیتی تھی۔غریبوں کے پاس دعائیں ہی ہوتی ہیں۔نصیب والے ہوتے ہیں جو غریبوں کی دعائیں لیتے ہیں۔

    جمیلہ کی مالکن دوسرے غریبوں کی مدد بھی کرتی تھی۔ان کو کھانا کھلاتی تھی۔پرانے کپڑے اور جوتے دے کر پلاسٹک کے برتن نہیں لیتی تھی بلکہ ان چیزوں کو ضرورت مندوں میں بانٹ دیتی تھی۔سردیاں شروع ہونے سے پہلے وہ پرانے کمبل اور سویٹر وغیرہ بھی بستی کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دیتی تھی۔اسے جانے کس کی دعا لگی کہ اس کا حج کا بلاوہ آگیا اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس مبارک سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی۔

    مالکن کے شوہر کی ایک بہن جس کا نام خالدہ تھا کسی قریبی شہر میں رہتی تھی۔حج پر جانے سے پہلے گھر کی دیکھ بھال کے لیے اس کے شوہر نے اپنی بہن کو اپنے پاس بلالیا اور اس سے کہا کہ جب تک وہ حج کرکے واپس نہ آجائیں وہ گھر میں رہے تاکہ چوری چکاری کا ڈر نہ رہے۔

    خالدہ ایک عجیب مزاج کی اور سخت طبیعت کی مالک تھی۔ادھر جمیلہ کی مالکن گھر سے گئی، ادھر اس نے جمیلہ کو نوکری سے نکال دیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی خادمہ کو اپنے ساتھ لائی تھی۔جمیلہ نے جب اس پر احتجاج کیا تو خالدہ نے چیخ چیخ کر محلے والوں کو اکٹھا کر لیا اور اس کی بہت بے عزتی کی۔اس نے کہا ۔میری مرضی جس کو چاہوں رکھوں اور جس کو چاہوں نکالوں۔

    جمیلہ نے آخری کوشش کے طور پر اس سے درخواست کی کہ وہ اس کی مالکن کو فون کر کے اس بات کی اطلاع کردے تو وہ مزید غصے میں آگئی اور اپنے ساتھ آئ ہوئی خادمہ سے کہہ کر اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔جمیلہ نے جب یہ کہا کہ مہینہ پورا ہونے والا ہے وہ اس کو تنخواہ تو دے دے۔اس پر اس نے کہا کہ جب اس کی مالکن حج سے واپس آئے گی، وہ ہی تنخواہ بھی دے گی۔

    یہ منظر اور تماشہ دیکھ کر تمام محلے والے توبہ توبہ کر رہے تھے۔خالدہ کی غرور بھری باتیں اور جمیلہ جیسی غریب نوکرانی سے اس کا ہتک آمیز رویہ کسی کو پسند نہیں آیا تھا۔مالکن کے تینوں بچوں نے بھی اس بات پر احتجاج کیا مگر خالدہ نے انھیں ڈانٹ کر گھر میں بھیج دیا۔انھیں جمیلہ بوا کے اس طرح نکالے جانے پر بہت رنج تھا، مگر وہ بچے تھے کیا کرسکتے تھے، روتے دھوتے اندر چلے گئے۔اس بے عزتی اور نوکری سے جواب مل جانے کی وجہ سے جمیلہ بہت پریشان ہوگئی تھی۔

    وہ گھر پہنچی تو اس کی پڑوسن اس کے پاس آگئی۔جمیلہ نے جو کچھ اس پر بیتی تھی اس کو سنا دی۔پڑوسن ایک نیک دل عورت تھی۔کچھ عرصہ پہلے اس کے بھی بہت برے حالات تھے۔اس کا میاں محنت مزدوری کر کے گھر چلاتا تھا۔اسے کبھی مزدوری مل جاتی اور کبھی نہ ملتی۔بڑی پریشانی میں زندگی بسر ہو رہی تھی کہ اچانک ایک تیل کی کمپنی والے اسے اپنے ساتھ باہر لے گئے۔وہ ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا۔اس نے وہاں اپنے کام کی وجہ سے اپنے سپر وائزروں کی نظروں میں ایک مقام بنا لیا تھا۔اس کی تنخواہ اچھی تھی جس کی وجہ سے ان کے دن پھر گئے۔اس کے دو بچے تھے جو اسکول میں پڑھنے جاتے تھے۔

    جملہ کی کہانی سن کر پڑوسن کو بہت افسوس ہوا۔تھوڑی دیر بعد وہ بولی۔’’میں تمہیں یہ بتانے کے لیے آئ تھی کہ تمہاری بیٹی کے گاؤں سے ایک آدمی آیا تھا اور یہ پیغام دے کر گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ جمعے کو تمہارے گھر تم سے ملنے آئے گی‘‘۔

    ان برے حالات میں یہ خوشی کی خبر جمیلہ پر بجلی بن کر گری تھی۔اس کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ بیٹی اور داماد کی ٹھیک طرح سے مہمان داری کرسکتی۔اگر خالدہ اس کو تنخواہ کے پیسے دے دیتی تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں تھی، وہ بیٹی اور داماد کی اچھی طرح مہمان داری کرسکتی تھی۔مگر اب تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

    اس کی پریشانی بھانپ کر اس کی پڑوسن نے کہا۔’’بہن فکر مت کرو۔تمہاری بیٹی اور داماد کا معاملہ ہے۔مجھ سے کچھ پیسے لے کر کام چلاؤ۔جب سہولت ہو واپس کردینا‘‘۔

    جمیلہ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر ضرورت ہوگی تو وہ ضرور اس سے کہہ دے گی۔

    اس کی پڑوسن سمجھ گئی کہ وہ ادھار لیتے ہوئے جھجک رہی ہے۔وہ ہنس کر بولی۔’’ٹھیک ہے۔اب کل سے تو تم کام پر جاؤ گی نہیں تو کیوں نہ تم میرا ایک کام کردو۔میرا شوہر عید کی چھٹیوں پر گھر آنے والا ہے۔میں چاہتی ہوں کہ گھر میں رنگ روغن کروالوں۔یہ ہی کام میں کسی دوسرے سے کرواؤں گی تو کیوں نہ تم ہی کردو، تمہیں بھی کچھ پیسے مل جائیں گے اور میرا کام بھی اچھا ہوجائے گا‘‘۔

    یہ تجویز اچھی تھی اس لیے جمیلہ راضی ہوگئی۔وہ اس بات پر بھی خوش تھی کہ بیٹی کے آنے پر وہ اس مزدوری سے ملنے والوں پیسوں سے اس کی ٹھیک ٹھاک خاطر مدارات کر سکے گی اور کچھ نقد پیسے بھی اسے دے دے گی۔

    اگلے روز سے کام شروع ہوگیا۔پڑوسن کے دونوں بچے اسکول چلے گئے تھے اس لیے وہ گھر کو تالا لگا کر جمیلہ کے ساتھ بازار گئی۔وہاں سے رنگ، برش اور دوسری ضروری چیزیں خریدیں اور سامان سے لدی پھندی دونوں گھر واپس آگئیں۔

    کام تو بہت محنت کا تھا مگر جمیلہ کو تو محنت کی برسوں سے عادت تھی۔پھر سال میں ایک مرتبہ وہ اپنے پورے گھر میں خود ہی رنگ کرتی تھی۔اس نے بہت دل لگا کر کام کیا اور چار دنوں میں پڑوسن کا گھر جگ مگ کرنے لگا۔وہ بہت خوش ہوئی، اس نے جمیلہ کو پانچ ہزار روپے اور ایک قیمتی کپڑے کا جوڑا دیا اور بولی ۔’’بہن تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔یہ پیسے تمہاری مزدوری کے اور یہ جوڑا تم اپنے داماد کو تحفے میں دینا۔اسے میرے میاں باہر سے لائے تھے‘‘۔

    جمیلہ نے کہا۔’’بہن مزدوری کے پیسے بہت زیادہ دئیے ہیں کچھ کم کرلو‘‘۔

    اس کی پڑوسن مسکرا کر بولی ۔’’کام بہت زیادہ تھا، تین کمرے تھے، ان کی چھتیں تھیں، پھر صحن تھا اور باہر کی دیواریں تھیں۔تم نے اتنے اچھے طریقے سے کام کیا ہے کہ جو بھی دیکھ رہا ہے تعریف کر رہا ہے۔اگر پیسے کچھ زیادہ بھی ہیں تو کوئی بات نہیں۔جب تک تمہارا کام نہیں لگ جاتا اس وقت تک ان پیسوں سے کام چلاؤ۔تمہارے کام کرنے کا مجھے یہ بھی فائدہ ہوا ہے کہ مزدور اگر کام کرتے تو میں گھر کے دوسرے کام نہیں کر سکتی تھی۔گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہے، ان مزدوروں کا کیا بھروسہ، دن میں مزدوروں کے بھیس میں گھر کا جائزہ لے جائیں اور رات کو چوری کرنے آجائیں۔اس کے علاوہ ان کی موجودگی میں مجھے گھر کے ایک کونے میں ہی بیٹھا رہنا پڑتا۔پھر وہ لوگ تنگ بھی بہت کرتے ہیں۔جو کام تم نے چار دن میں کیا ہے، وہ اس میں آٹھ دن لگاتے‘‘۔

    اتنے سارے پیسے اور کپڑوں کا جوڑا پا کر جمیلہ بہت خوش تھی۔اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کی ایک بہت بڑی پریشانی حل ہوگئی تھی۔

    اس کے بیٹی اور داماد آکر چلے بھی گئے۔جمیلہ نے ان کی شاندار دعوت کی تھی اس سے وہ بہت خوش تھے۔جب جمیلہ نے قیمتی کپڑوں کا جوڑا داماد کو دیا تو اس کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔بیٹی کو اس نے پانچ سو روپے بھی دئیے تھے۔

    بقرعید میں چند روز باقی تھے۔جمیلہ نے سوچا کہ وہ عید کے بعد کام ڈھونڈنے نکلے گی۔گزر بسر کے لیے ابھی اس کے پاس کافی پیسے بچے ہوےٴ تھے۔

    یہ عید کے چند روز بعد کا ذکر ہے کہ اس کے دروازے پر ایک گاڑی آکر رکی۔دروازے پر دستک کی آواز سن کر اس نے دروازہ کھولا تو باہر اس کی پرانی مالکن کھڑی تھی۔جمیلہ کو دیکھ کر اس نے اسے گلے سے لگالیا اور بولی۔’’جمیلہ بہن۔میں اس برے سلوک کی معافی مانگنے آئ ہوں جو خالدہ نے تمہارے ساتھ کیا تھا۔محلے والوں اور بچوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے‘‘۔

    جمیلہ کو ایک دم سے تمام باتیں یاد آگئیں۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ بولی۔’’بیگم صاحبہ۔آپ کو حج کرنا مبارک ہو۔آئیں اندر آجائیں‘‘۔

    اس کی مالکن اندر آکر چارپائی پر بیٹھ گئی اور بولی۔’’ایک بات کا تمہیں شاید علم نہیں۔خالدہ نے جس نوکرانی کی وجہ سے تمہیں نکالا تھا، اس کا میاں چوروں کے ایک گروہ سے ملا ہوا تھا۔ایک رات ان لوگوں نے خالدہ کو زخمی اور بے بس کرکے ہمارا سارا سامان لوٹ لیا۔میرے شوہر تو بہت ہی پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے خالدہ کو کیوں گھر کی دیکھ بھال کے لیے بلایا تھا۔ہم نے اس چوری کی رپورٹ تھانے میں کروا دی ہے۔دیکھو کیا ہوتا ہے‘‘۔

    یہ خبر سن کر جمیلہ کو بہت دکھ ہوا۔اس کی مالکن پھر بولی۔’’جمیلہ۔میں چاہتی ہوں کہ تم پھر سے ہمارے گھر کام کرنے آجاؤ۔مجھے امید ہے کہ تم مجھے مایوس نہیں کرو گی۔بچے بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔میں تمہارے پاس آ رہی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ جمیلہ بوا کو اپنے ساتھ ضرور لے کر آئیے گا‘‘۔

    جمیلہ خود بھی بچوں سے بہت مانوس تھی اور ان کو یاد کرتی تھی۔مالکن کے تینوں بچے اس سے بہت محبّت کرتے تھے اور اس کے بغیر نہیں رہتے تھے۔

    وہ بولی۔’’مالکن۔آپ کی ہر بات میرے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔میں ضرور دوبارہ آپ کے گھر کام کروں گی۔میں بھی بچوں کو بہت یاد کرتی ہوں‘‘۔

    مالکن بولی۔’’خالدہ بھی اپنے رویے پر بہت شرمندہ ہے۔وہ ابھی ہسپتال میں زیر علاج ہے۔اس کی نوکرانی نے ڈکیتی کے دوران لوہے کا پائپ اس کے سر پر مار کر اسے بے ہوش کردیا تھا۔وہ کہہ رہی تھی کہ اسے تم سے برا سلوک کرنے کی سزا ملی ہے۔وہ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ تم سے معافی مانگے گی‘‘۔

    جمیلہ دل کی ایک اچھی عورت تھی۔اس نے خالدہ کے زخمی ہونے کا سنا تو اسے بہت افسوس ہوا۔تھوڑی دیر مزید بیٹھنے کے بعد اس کی مالکن واپس چلی گئی۔جاتے جاتے وہ تاکید کر گئی تھی کہ جمیلہ کل سے کام پر ضرور آجائے۔

    اس کے جانے کے بعد جمیلہ کافی دیر تک ان تمام حالات پر غور کرتی رہی۔خالدہ نے اس کے ساتھ جو برا سلوک کیا تھا، وہ بہت ہی قابل افسوس تھا مگر اس کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوےٴ وہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک تھے۔جمیلہ اس بات پر بے حد خوش تھی کہ اس کو باعزت طریقے سے اس کی مالکن نے دوبارہ کام پر رکھ لیا ہے۔یہ خوش خبری وہ اپنی پڑوسن کو سنانے کے لیے بے چین تھی۔

    جب وہ پڑوسن کے پاس گئی اور تمام باتیں اسے بتائیں تو وہ بھی انہیں سن کر بہت خوش ہوئی۔

    جمیلہ نے کہا۔’’بہن۔تم نے مشکل وقت میں جو میرا ساتھ دیا تھا، اسے میں کبھی بھی نہیں بھولوں گی۔اگر میں داماد کی خاطر داری نہ کرتی تو میری بہت بے عزتی ہو جاتی‘‘۔

    پڑوسن ہنس کر بولی۔’’میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا، وہ تو تمہاری محنت کا ثمر تھا۔میرے میاں نے تمہارے کئے ہوےٴ رنگ کی بہت تعریف کی تھی۔اب تو تم پھر کام سے لگ گئی ہو، میں سوچ رہی ہوں کہ اگلے سال کس سے رنگ کرواؤں گی؟‘‘۔

    ’’اگلے سال بھی میں ہی رنگ کروں گی۔مالکن سے چار پانچ روز کی چھٹی لے آؤں گی۔لیکن یہ میں ابھی سے بتا دیتی ہوں کہ اب اس کام کی مزدوری زیادہ نہیں لوں گی‘‘۔جمیلہ نے بڑے خلوص سے کہا۔یہ سن کر پڑوسن مسکرانے لگی۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے