نیک سلوک
کلثوم آپی کالج سے پڑھ کر گھر آئیں تو ان کی دس سالہ بہن ببلی کافی پرجوش دکھائی دیتی تھی۔ ایسا معلوم دیتا تھا کہ جیسے کوئی انہونی بات ہوگئی ہے اور اس بات کو وہ کلثوم آپی کو بتانے کے لیے بے چین ہے۔ وہ کپڑے بدل کر جب ڈرائنگ روم میں آئیں تو ببلی نے انھیں بتایا۔ ’’کلثوم آپی۔ کلثوم آپی۔ کل سے ہمارے گھر میں نسرین بوا کی بیٹی شکیلہ کام کرنے کے لیے آیا کرے گی‘‘۔
یہ خبر کلثوم آپی کے لیے بالکل نئی تھی۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’نسرین بوا کو کیا ہوا ہے۔ وہ کیوں نہیں آئیں گی؟‘‘
ببلی بولی۔’’ وہ بہت سخت بیمار ہوگئی ہیں اس لیے کام پر نہیں آئیں گی۔ جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوجاتیں، ان کی جگہ ان کی بیٹی کام پر آیا کرے گی‘‘۔
نسرین بواکی بیماری کا سن کر کلثوم آپی کو بہت افسوس ہوا۔ وہ اپنی امی کے پاس آئیں اور ان سے اس بارے میں پوچھا۔
ان کی امی نے کہا۔ ’’کل رات نسرین بواکو شدید بخار چڑھ گیا تھا۔ یہ آج صبح مجھے ان کی بہن نے آکر بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ چند روز تک کام پر نہیں آئیں گی۔ نسرین بوا نے خاص طور سے یہ بھی کہلوایا تھا کہ کام کرنے کے لیے وہ اپنی بیٹی کو بھیج دیں گی۔ میں نے تو منع کروادیا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی تاکید کردی ہے کہ کسی ڈاکٹر کو ضرور دکھا دیں۔ میں نے انھیں کچھ پیسے بھی بھجوادیئے تھے‘‘۔
یہ باتیں سن کر کلثوم آپی اداس ہوگئیں۔ نسرین بوابے چاری بیمار تھیں اور اس بیماری میں بھی وہ ان لوگوں کا اتنا خیال کر رہی تھیں۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شکیلہ تھا۔ وہ کسی سرکاری اسکول میں پڑھنے بھی جاتی تھی۔ اگر وہ ان کے گھر کام کرنے آجاتی تو پھر اسے اسکول سے چھٹی بھی کرنا پڑتی اور پھر نسرین بواکی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ شوہر غریب تو مزدوری کرنے چلا جاتا تھا۔ انھیں ان کے علاج کی طرف سے بھی فکرمندی تھی۔ اپنے کمرے میں آکر انہوں نے ان باتوں کا تذکرہ ببلی سے بھی کیا۔
ان کی باتیں سن کر ببلی بھی سوچ میں پڑ گئی اور بولی۔ ’’کلثوم آپی غریبوں کی بھی کتنی مصیبت ہوتی ہے۔ جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو سب گھر والے ہمارے آگے پیچھے پھرتے رہتے ہیں۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹروں کو دکھاتے ہیں۔ مہنگی مہنگی دوائیں اور طرح طرح کے کھانے اور پھل ہمارے لیے آتے ہیں۔ جب تک ہم ٹھیک نہ ہوجائیں، بستر سے پاؤں ہی نیچے نہیں اتارتے۔ نسرین بوابے چاری غریب ہیں۔ وہ کیسے کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنا علاج کروائیں گی‘‘۔
کلثوم آپی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔ ’’اسی لیے تو کہتے ہیں کہ سب لوگوں کو پڑھ لکھ کر ، کوئی ہنر سیکھ کر اور خوب محنت اور ایمانداری سے کام کر کے اپنی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ غربت کا خاتمہ ہوجائے اور وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ عزت اور سکون سے زندگی بسر کرسکیں۔ گھروں گھروں کام کرنے والی عورتیں بیچاری بہت غریب اور مجبور ہوتی ہیں۔ بہرحال ببلی تم فکر نہ کرو۔ اس سلسلے میں ہم کچھ کریں گے۔ نسرین بوانے ہماری کتنی خدمت کی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان کے لیے کچھ کریں۔ اس سلسلے میں میں امی سے بات کروں گی‘‘۔
شام کو کلثوم آپی نے امی سے کہا۔ ’’می۔ میں اور ببلی نسرین بواکو دیکھنے ان کے گھر جانا چاہتے ہیں‘‘۔
ان کی امی نے کہا۔’’میں بھی یہ ہی سوچ رہی تھی۔ تمہارے پاپا آجائیں تو پھر ان کے ساتھ چلیں گے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد ان کے پاپا اشرف صاحب آفس سے گھر آئے تو کلثوم آپی نے انھیں سلام کیا اور چائے بنانے کے لئے چلی گئیں۔ وہ گھر آتے ہی چائے پینا پسند کرتے تھے۔ اس دوران ان کی امی نے اشرف صاحب کو نسرین بوا کی بیماری کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ بچوں کے ساتھ ان کو دیکھنے جانا چاہتی ہیں۔
نسرین بوا کی بیماری کا سن کر انہوں نے بھی افسوس کا اظہار کیا اور بولے۔ ’’تم نے اچھا سوچا ہے۔ ہم انھیں دیکھ کر آئیں گے۔ میں اپنے دوست ڈاکٹر فرحت کو بھی فون کرکے نسرین بواکا ایڈریس دے کر اس سے کہتا ہوں کہ وہ تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچ کر ان کا معائینہ کرے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ فون ملانے لگے۔ اتنی دیر میں چائے آگئی۔ تھوڑی دیر میں سب نے چائے پی لی اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر سے نکل پڑے۔ گھر میں چونکہ کوئی نہیں تھا اس لیے اس کو تالا لگا دیا گیا۔
راستے میں ایک مارکیٹ آئی تو کلثوم آپی نے گاڑی رکوا کر نسرین بواکے لیے ڈھیر سارے پھل، دلیے اور بسکٹوں کے پیکٹ خریدے۔ نسرین بوا کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ لوگ تھوڑی دیر میں ہی ان کے گھر پہنچ گئے۔
نسرین بوا کا گھر ٹوٹا پھوٹا تھا۔ اس پر رنگ کیے ہوئے بھی عرصہ ہوگیا تھا۔ ان کا دروازہ بھی خستہ حالت میں تھا اور اس پر ٹاٹ کا ایک پردہ پڑا ہوا تھا۔ ببلی نے دروازے پر دستک دی تو شکیلہ نے دروازہ کھولا۔ وہ دس بارہ سال کی ایک دبلی پتلی سی لڑکی تھی۔ وہ انھیں پہچانتی تھی۔ انھیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی اور انھیں لے کر اندر آئی۔ کلثوم آپی نے ساتھ لایا ہوا سامان اس کو دے دیا۔
اندر آ کر انہوں نے دیکھا نسرین بوا ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں اور ان کا شوہر ان کے ماتھے پر گیلے کپڑے کی پٹیاں رکھ رہا تھا۔ انھیں تیز بخار تھا۔ نسرین بوا نے ان لوگوں کو دیکھا تو حیران رہ گئیں۔ انہوں نے بستر پر اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو کلثوم آپی کی امی نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں اٹھنے سے منع کردیا اور خود بھی ان کے پاس بیٹھ گئیں اور حال احوال پوچھنے لگیں۔
ان کا شوہر جلدی سے دوسرے کمرے میں گیا اور وہاں سے ان کے بیٹھنے کے لیے مونڈھے اٹھا کر لے آیا۔ وہ سب ان پر بیٹھ گئے۔ نسرین بوا یہ سوچ کر گھبرا گئی تھیں کہ ان لوگوں نے خواہ مخواہ ان کے گھر آنے کی زحمت کی تھی۔ وہ بار بار کلثوم آپی کی امی کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔
کلثوم آپی کی امی نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’بوا میں تو آپ سے بہت ناراض ہوں۔ آپ نے اپنی بہن سے یہ کیوں کہلوایا تھا کہ آپ شکیلہ بیٹی کو کام کرنے کے لیے ہمارے گھر بھیج دیں گی‘‘۔
’’میں نے سوچا تھا کہ میں جانے کب ٹھیک ہونگی۔ آپ لوگوں کو کام کی تکلیف ہوجائے گی۔ میں تو اس کے اسکول میں چھٹی کی درخواست بھی بھجوا رہی تھی تاکہ وہ بے فکری سے آپ کے گھر کام کرے‘‘۔
کلثوم آپی نے کہا۔’’نسرین بوا۔ آپ کی یہ بات سن کر ہمیں بہت ہی افسوس ہوا ہے۔ ہمارے آرام کی خاطر آپ اسے پڑھائی سے بھی روک رہی ہیں۔ اب آپ یہ بات اچھی طرح سن لیں کہ جب تک آپ بالکل ٹھیک نہیں ہوجاتیں آپ کو کام پر آنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور شکیلہ کو اسکول سے چھٹی کروانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی پڑھائی کا حرج ہوگا۔ اسکول سے آکر وہ آپ کی دیکھ بھال بھی کرلیا کرے گی‘‘۔
ان کی باتیں سن کر نسرین بوا نے ممنونیت سے انھیں دیکھا اور نقاہت سے آنکھیں بند کر لیں۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ نسرین بوا کے شوہر نے جا کر دیکھا تو ایک وجیہہ شخص ہاتھ میں بریف کیس لیے کھڑا تھا۔ یہ ڈاکٹر فرحت تھے جو اشرف صاحب کے دوست تھے اور ان ہی کے کہنے پر آئے تھے۔ نسرین بوا کا شوہر انھیں اپنے ساتھ لے کر اندر آیا۔ انہوں نے نسرین بوا کا معائینہ کیا۔ پھر دواؤں کا نسخہ لکھ کر اشرف صاحب کو تھما دیا۔
اشرف صاحب نے ایک نظر نسخے پر ڈالی اور پھر جیب سے پیسے نکال کر نسرین بوا کے شوہر کو دیے اور کہا کہ وہ کسی قریبی میڈیکل اسٹور سے دوائیں لے آئے۔
نسرین بوا کے گھر کے سامنے دو گاڑیاں دیکھ کر پورے محلے میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ کئی عورتیں اس بارے میں معلوم کرنے کے لیے نسرین بوا کے گھر میں چلی آئیں۔ انھیں جب پتہ چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر میں نسرین بوا کام کرتی ہیں اور یہ سب ان کی تیمار داری کے لیے آئے ہیں تو انھیں بڑی حیرت ہوئی۔
انھیں تو یہ پتہ تھا کہ اکثر امیر لوگ اور ان کے بچے گھروں میں کام کرنے والے ملازموں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اورنہ ہی انھیں منہ لگاتے ہیں۔ ان ہی میں سے بعض سخت دل لوگ تو اپنے گھروں میں کام کرنے والی چھوٹی بچیوں اور بچوں پر ظلم کی انتہا کردیتے ہیں، انھیں اچھا کھانا بھی نہیں دیتے اور کوئی برتن وغیرہ ٹوٹ جانے پر یا کسی دوسری غلطی پر اتنا تشدد کرتے ہیں کہ ان کی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ان کو استریوں سے جلانا ، ان پر گرم پانی پھینک دینا اور پائپ سے مارنا تو عام سی بات تھی اور اکثر یہ منظر ٹی وی پر بھی نظر آتے تھے۔
محلے کی عورتیں کلثوم آپی کے گھر والوں کے اچھے اخلاق اور محبّت بھرے رویے سے بہت متاثر تھیں۔ وہ ان سب کو ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہوں۔
تھوڑی دیر بعد بوا نسرین کا شوہر دوائیاں لے آیا۔ ڈاکٹر فرحت نے اسے بتا دیا کہ یہ دوائیاں کیسے اور کتنی کتنی دیر بعد دینی ہیں۔ ڈاکٹر فرحت جب یہ ہدایات دے کر خاموش ہوئے تو نسرین بوا کا شوہر ہاتھ جوڑ کر لرزتی ہوئی آواز میں اشرف صاحب سے بولا۔’’مالک۔ آپ نے جو کچھ کیا ہے، ہم اس قابل تو نہیں تھے۔ الله آپ لوگوں کو خوش رکھے‘‘۔
اشرف صاحب نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’بھئی۔ ہمیں گناہ گار نہ کرو۔ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ نسرین بوا ہمارے گھر کے ایک فرد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی بیماری سے ہم سب لوگ ہی بہت پریشان ہوگئے ہیں۔ ان کو آرام کی ضرورت ہے۔ ان کا بہت خیال رکھنا۔ انشا الله یہ جلد ٹھیک ہوجائیں گی۔ ڈاکٹر صاحب انہیں کل پھر دیکھنے آئیں گے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد وہ لوگ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ کلثوم آپی کی امی نے اپنے پرس میں سے تین ہزار روپے نکال کر نسرین بوا کو دیے اور بولیں۔ ’’بوا ان پیسوں کے پھل کھانا اور دودھ پینا‘‘۔
نسرین بواکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ محلے کی عورتوں میں سے ایک نے کہا۔ ’’نسرین تو کتنی خوش قسمت ہے کہ جہاں تو کام کرتی ہے، وہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔ تجھ سے کتنی محبّت کرتے ہیں اور تیرا کتنا خیال کرتے ہیں۔ کاش سب لوگ ایسے ہی ہوجائیں‘‘۔
کلثوم آپی کی امی نے کہا۔ ’’بہن۔ نسرین بوانے ہماری بہت خدمت کی ہے۔ اب یہ بیمار ہوگئی ہیں تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی دیکھ بھال کریں‘‘۔
’’لیکن بیگم صاحبہ۔ دوسرے بہت سے لوگ تو ایسا نہیں کرتے۔ وہ تو اپنے نوکروں کی بہت بے عزتی کرتے ہیں۔ ذرا ذرا سی غلطی پر انھیں سزائیں دیتے ہیں اور بہت تشدد کرتے ہیں۔ یہ غریب لوگ کسی سے کچھ کہتے بھی نہیں اور رو پیٹ کر خاموش ہو جاتے ہیں‘‘۔
اس عورت کی بات پر کلثوم آپی بولیں۔ ’’جو بھی ایسا کرتا ہے بہت غلط کرتا ہے اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ سب انسان برابر ہیں۔ الله نے کسی کو امیر بنا یا ہے اور کسی کو غریب۔ جن لوگوں کو الله نے دولت دی ہے اور ان کے حالت اچھے کیے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے دل میں خوف خدا رکھیں اور اپنے سے کمتر لوگوں پر نہ تو کوئی زیادتی کریں اور نہ ان کی دل آزاری۔ اس سے الله تعالیٰ بہت ناراض ہوتا ہے۔ پھر اس ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کے دل سے جو بددعا نکلتی ہے اس سے بھی ڈرنا چاہیے۔ میں نے ایک حدیث شریف بھی پڑھ رکھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ الله بھی اپنے ان ہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں‘‘۔
ادھر ڈاکٹر فرحت اشرف صاحب سے دھیمی آواز میں کہہ رہے تھے۔’’یار اشرف۔ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے اس نیک سلوک سے تو میں بھی حیران رہ گیا ہوں۔ میری بیوی خود اپنی ملازمہ سے زیادہ اچھا سلوک نہیں کرتی ہے۔ آج گھر جا کر یہ واقعہ اسے بتاؤں گا کہ تم لوگوں کا ملازموں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔ شائد وہ بھی راہ راست پر آجائے‘‘۔ اشرف صاحب نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ لوگ وہاں سے جانے کے لیے نسرین بواکے گھر سے نکلے۔ جاتے جاتے ببلی نے شکیلہ سے کہا۔’’شکیلہ۔ تم کسی دن اپنی امی کے ساتھ ہمارے گھر آؤ گی تو میں تمہیں بہت ساری کہانی کی کتابیں اور کھلونے دوں گی اور ہم اکھٹے کھیلیں گے بھی‘‘۔
شکیلہ یہ سن کر خوش ہوگئی۔ جب وہ لوگ روانہ ہوگئے تو وہ دیر تک ہاتھ ہلا کر ان کو خدا حافظ کہتی رہی۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.