نیکی کا صلہ
نادیہ کی نانی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی اس لیے اس کی امی کو ان کے پاس جانا پڑگیا تھا – وہ ایک قریبی شہر میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے بیٹے کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتا تو اس کی بیوی ان کی خدمت کرتی۔ بیٹا تو کام پر چلا جاتا تھا اور وہ گھر میں اکیلی ہوتی تھیں۔ بیماری میں ان کے پاس کسی کا ہونا بہت ضروری تھا۔ اسی لیے نادیہ کی امی ان کے پاس چلی آئ تھیں تاکہ ان کی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال ہوسکے۔ امی کے ساتھ نادیہ بھی آجاتی مگر اس کو اسکول سے چھٹی لینا پڑتی اور اس کی پڑھائی کا حرج ہوتا۔
امی کے جانے کے بعد ان کے ابّا کے سر پر ایک دم سے پورے گھر کی ذمہ داری آ پڑی تھی۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر بچوں کے ناشتے کا انتظام کرتے، اسکول جانے کے لیے ان کی تیاریوں کا جائزہ لیتے اور ان کے جانے کے بعد گھر کو تالا لگا کر اپنے دفتر چلے جاتے۔ تینوں بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے اور ان کی واپسی بھی اسکول کی وین میں ایک ساتھ ہوتی تھی۔ ان کے ابّا جان نے گھر کی ایک چابی انھیں بھی دے دی تھی اور انھیں اچھی طرح تاکید کر دی تھی کہ گھر آکر وہ کنڈی لگا کر اندر ہی رہیں۔
سلیم اور علیم کو اندازہ ہوگیا تھا کہ امی کے چلے جانے کی وجہ سے نادیہ اداس رہتی ہے۔ وہ شام کو اس کی امی سے موبائل پر بات بھی کروا دیتے تھے اور وہ ہر روز اسے تسلی دیتی تھیں کہ وہ جلد ہی گھر آجائیں گی۔ سلیم اور علیم دونوں بھائی اسے تنگ بھی نہیں کرتے تھے جیسا کہ امی کی موجودگی میں کرتے تھے بلکہ ہر وقت اس کی دلجوئی میں لگے رہتے تھے۔
ایک روز جب تینوں بچے اپنے ابّا جان کے ساتھ کچھ چیزیں خریدنے بازار گئے تو انہوں نے وہاں ایک آدمی دیکھا جس کے پاس چھوٹے بڑے کئی پنجرے تھے اور ان میں طرح طرح کےپرندے بند تھے۔ ان ہی پنجروں میں انہوں نے بھورے، سفید اور سرخ رنگ کی ایک خوبصورت بلبل بھی دیکھی جس کے سر پر ایک تاج تھا اور اس کی خوبصورت سی دم بھی تھی۔ علیم اور سلیم نے سوچا کہ یہ بلبل خرید کر گھر لے جائیں گے تاکہ نادیہ خوش ہوجائے اور امی کی واپسی تک اس کا دل بہلا رہے۔
ان کے ابّا جان کو علیم اور سلیم کی خواہش کا علم ہوا تو انہوں نے پرندے بیچنے والے سے بات کی اور بلبل کی قیمت معلوم کی۔
پرندے بیچنے والا باتونی آدمی لگ رہا تھا۔ وہ بولا۔’’ صاحب۔ یہ تمام پرندے میں نے جال لگا کر پہاڑوں کے نزدیک کے جنگل سے پکڑے ہیں۔ ان کو پکڑنے کے بعد مجھے ان کی بہت دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ شام کا وقت ہے، آپ سے کیا زیادہ پیسے لوں۔ ویسے تو یہ بلبل پندرہ سو روپوں میں بھی سستی ہے – ایک نظر ذرا اس کے تاج پر تو ڈالیے۔ اسے میں نے آج ہی پکڑا ہے اس لیے یہ سہمی ہوئی ہے، رات ہوگی تو یہ چہچہائے گی اور اس کی خوبصورت اور سریلی آواز سن کر آپ کا دل خوش ہوجائے گا۔ میں اس بلبل کے آپ سے صرف ایک ہزار روپے لونگا۔ اس کے ساتھ یہ خوبصورت پنجرہ مفت میں دے دوں گا۔ ‘‘
ان کے ابّا جان نے بلبل خرید لی اور گھر چلے آئے۔ سلیم اور علیم تو بلبل لے کر بہت خوش تھے۔ مگر نادیہ کچھ چپ چپ سی تھی۔ اپنی خوشی میں دونوں نے اس کی خاموشی کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ گھر آکر انہوں نے بلبل کا پنجرہ برآمدے میں رکھ دیا۔ بلبل پنجرے کے اندر ایک ہی جگہ چپ چاپ بیٹھی تھی۔
’’شائد اسے بھوک لگ رہی ہے‘‘۔ سلیم بولا۔
’’میں اس کے لیے سیب ، کیلا اور انگور لے کر آتی ہوں۔ بلبلیں ان کا نرم گودا بڑے شوق سے کھاتی ہیں‘‘ نادیہ نے کہا۔ تھوڑی دیر میں وہ یہ چیزیں ایک چھوٹی سی کٹوری میں ڈال کر لے آئ۔ اس کے ساتھ دوسری پیالی میں پانی بھی تھا۔ سلیم نے پنجرے کا تھوڑا سا دروازہ کھول کر انھیں اندر رکھ دیا مگر بلبل نے آنکھ اٹھا کر بھی انھیں نہیں دیکھا اور اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اب تو بچوں کو بڑی تشویش ہوئی۔
’’شائد اس کا پہلے ہی سے پیٹ بھرا ہوا ہے‘‘۔ علیم نے کہا۔ ’’چلو اب چل کر کھانے کی تیاری میں ابّا جان کا ہاتھ بٹاتے ہیں‘‘۔
اس کی بات سن کر سلیم اور نادیہ بلبل کو وہیں چھوڑ کر اس کے ساتھ چل پڑے تاکہ کچن میں اپنے ابّا جان کی مدد کریں۔ تھوڑی دیر میں کھانا تیار ہوگیا۔ تینوں بچوں نے مل کر دسترخوان لگادیا۔
جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو وہ تینوں پھر پنجرے کے پاس آئے۔ انھیں یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ بلبل نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ ان لوگوں کے سونے کا وقت ہونے لگا تھا۔ حالانکہ کل اتوار کی چھٹی تھی مگر انھیں نو بجے تک سوجانے کی عادت تھی۔ جلدی سونے کی وجہ سے وہ صبح بڑی آسانی سے جاگ جاتے تھے۔ وہ لوگ اپنے اپنے بستروں پر آ کر لیٹ گئے اور سونے کی کوشش کرنے لگے۔ اچانک نادیہ بولی۔ ’’میرے خیال میں بلبل اس وجہ سے پریشان ہے کہ اسے اپنے بچے یاد آ رہے ہونگے‘‘۔
اس کی بات سچ معلوم دیتی تھی۔ اس کے دونوں بھائی بھی اس بات پر افسوس کرنے لگے۔
نادیہ نے پھر کہا۔ ’’آپ یہ دیکھیں کہ ہماری امی گھر میں نہیں ہیں تو نہ ہمارا کوئی کام ٹھیک سے ہو رہا ہے اور نہ ہمیں کسی چیز میں مزہ آرہا ہے۔ ہم انھیں کتنا یاد کرتے ہیں۔ ان سے موبائل پر بات ہوتی ہے تو وہ بھی یہ ہی کہتی ہیں کہ ہم سب بھی انھیں بہت یاد آتے ہیں۔ ایسے ہی اس بلبل کے بچے بھی ہونگے۔ وہ بھی اپنی ماں کو یاد کر رہے ہوں گے۔ یہ موسم بلبلوں کے انڈے دینے کا اور پھر ان میں سے بچے نکلنے کا ہوتا ہے۔ بچے انڈوں میں سے نکل آتے ہیں تو ان کی ماں اور باپ ان کی خبر گیری کرتے ہیں۔ وہ دونوں انھیں چھوٹے موٹے پتنگے اور دوسرے کیڑے مکوڑے اور پھلوں کا گودہ وغیرہ لا کر کھلاتے ہیں۔ ہم نے اس بلبل کو اپنی خوشی کے لیے خرید تو لیا ہے مگر اس کے بچوں کے متعلق کچھ نہیں سوچا۔ بچوں کے ساتھ ساتھ اس کا نر بلبل بھی کتنا پریشان ہوگا کہ اس کی بلبل کہاں چلی گئی‘‘۔
’’یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا”۔ سلیم گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ “انجانے میں ہم سے بڑی بھول ہوئی ہے۔ پرندوں اور جانوروں کو قید کرکے رکھنا بہت بری بات ہے۔ یہ آزاد رہیں تو خوش رہتے ہیں۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان کی یہ آزادی چھینیں‘‘۔
’’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ علیم نے پوچھا۔
’’کل اتوار ہے۔ ہم ابّا جان کے ساتھ جنگل چلتے ہیں۔ وہاں ہم کوشش کریں گے کہ اس بلبل کا گھونسلہ مل جائے۔ اگر مل گیا تو اسے گھونسلے میں چھوڑ دیں گے۔ ورنہ وہیں اڑا دیں گے۔ وہ خود ہی اپنا گھونسلہ ڈھونڈ لے گی‘‘۔ سلیم نے کہا۔ علیم اور نادیہ نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور سوگئے۔
اگلے روز ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر انہوں نے اپنے ابّا جان سے اس بارے میں بات کی۔ انھیں یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ سلیم، علیم اور نادیہ بے زبانوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے نہایت شفقت سے کہا۔ “تم لوگوں کی بات سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ یہ پرندے وغیرہ ہماری زمین کا حسن ہیں۔ ان کی پیاری پیاری بولیاں سن کر دل کتنا خوش ہوتا ہے۔ یہ فضا میں اڑتے ہوئے کتنے خوشنما معلوم دیتے ہیں۔ ان کی بھی اپنی ایک زندگی ہوتی ہے۔ اس زندگی میں یہ اپنے ساتھیوں اور بچوں کے ساتھ رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انہیں قید کر کے ان کی یہ خوشیاں کبھی چھیننا نہیں چاہییں۔ الله تعالیٰ نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے انہیں آزاد ہی رہنا چاہیے‘‘۔
یہ کہہ کر انہوں نے گاڑی نکالی اور بچوں کو بٹھا کر پہاڑوں کے قریب والے جنگل میں لے کرآئے۔ جنگل بہت بڑا تھا اور اس میں طرح طرح کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے۔ ان میں بہت سارے پھلدار درخت بھی تھے جن میں قسم قسم کے پھل بھی لگے ہوئے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس بلبل کا گھونسلہ کیسے تلاش کریں۔
اچانک ان کی نظر اسی شکاری پر پڑی جس سے انہوں نے یہ بلبل خریدی تھی۔ وہ زمین پر اپنا جال لگا کر اس میں کسی پرندے کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آئے۔ ان کے ابّا جان نے اسے سلام کیا اور بولے۔ ’’بھائی ذرا ہماری مدد تو کرو۔ تمہاری بہت مہربانی ہوگی کہ اگر تم اس جگہ کی نشاندہی کردو جہاں سے تم نے یہ بلبل پکڑی تھی۔ بچے بہت پریشان ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس بلبل کے بچے اپنی ماں کو یاد کر رہے ہونگے اور اس انتظار میں ہوں گے کہ وہ ان کے لیے کچھ کھانے کے لیے لائے گی‘‘۔
’’آپ اسے آزاد کردیں گے تو آپ کے ایک ہزار روپے ضائع ہوجائیں گے۔ وہ ہی ہزار روپے جن سے آپ نے کل اسے خریدا تھا‘‘۔ پرندوں کے شکاری نے حیرت سے کہا۔
’’ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔ ان کے ابّا جان نے کہا۔ ’’یہ بھی تو دیکھو کہ اگر یہ بلبل اپنے گھونسلے میں اپنے بچوں کے پاس پہنچ گئی تو کتنا اچھا ہوگا۔ وہ معصوم بھوکے پیاسے مرنے سے تو بچ جائیں گے‘‘۔
’’میرا خیال ہے اس بلبل کا گھونسلہ اس آم کے پیڑ پر ہے۔ کل میں نے اس درخت کے پاس جال لگایا تھا اور اس بلبل کو میں نے اسی درخت پر بیٹھے دیکھا تھا‘‘۔ پرندوں کے شکاری نے کہا۔
وہ سب اس درخت تک آئے اور غور سے اس کی شاخوں کا جائزہ لینے لگے۔ نادیہ بھی درخت کے ارد گرد گھوم کر بلبل کا گھونسلہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور پھر اسے گھونسلہ نظر آ ہی گیا۔ وہ ایک نہایت نفاست سے بنایا ہوا گھونسلہ تھا۔ ایسے گھونسلے بلبلیں ہی بناتی ہیں۔ وہ پیالے کی شکل کا تھا اور اس میں سے لمحہ بھر کو دو تین بلبل کے بچوں کے سر بھی نظر آئے تھے۔ وہ گھونسلے میں بھوک سے تنگ آ کر اچھل کود کر رہے تھے۔ اس نے اپنے ابّا جان کی توجہ اس طرف دلائی۔ اس کے دونوں بھائی بھی وہاں پہنچ گئے۔ ان کے ابّا جان نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پنجرے کا دروازہ کھولا۔ وہ ہی بلبل جو کل سے ایک کونے میں اداس اور سہمی ہوئی بیٹھی تھی، کھلا دروازہ دیکھ کر پھرتی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور باہر کی جانب اڑ گئی۔ اس نے فضا میں ایک دو چکر لگائے اور پھر اپنے گھونسلے میں جا پہنچی۔ نادیہ اور اس کے بھائی مسکرانے لگے۔
’’اب تو تم لوگ خوش ہو؟‘‘ ان کے ابّا نے پوچھا۔
’’جی ابّا جان۔ ہم بہت خوش ہیں‘‘۔ نادیہ نے کہا۔
وہ شکاری بھی ان کے نزدیک کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ بولا۔ ’’میں ایک ان پڑھ اور جاہل آدمی ہوں مگر میں نے آج ان بچوں سے ایک سبق سیکھا ہے۔ پرندے اور جانور بھی انسانوں کی طرح گھر بار والے ہوتے ہیں اور ان کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے فائدے کے لیے نہ تو ان کا شکار کرنا چاہیے اور نہ ہی انہیں قید کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہماری طرح اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کے لیے دانہ دنکا لا کر انھیں کھلاتے ہیں۔ میں آج کے بعد انہیں پکڑنے کا کام نہیں کروں گا۔ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے میں کوئی اور کام کر لوں گا مگر اب جال لگا کر انہیں قید نہیں کروں گا‘‘۔
یہ کہہ کر شکاری اپنا جال سمیٹ کر وہاں سے چلا گیا۔ شکاری کے اس فیصلے پر انھیں بہت خوشی ہوئی۔ کچھ دیر بعد یہ سب بھی اپنے گھر جانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ وہ لوگ اپنی گلی میں پہنچے تو نادیہ کی خوشی سے ایک چیخ نکل گئی۔ ان کے گھر کے آگے ایک ٹیکسی کھڑی تھی اور اس میں سے اس کی امی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اتر رہی تھیں۔ وہ گاڑی رکتے ہی جلدی سے دروازہ کھول کر نیچے اتری اور بھاگ کر اپنی امی سے لپٹ گئی۔
پھر وہ سب گھر میں آئے۔ ان کی امی نے انھیں بتایا کہ ان کی نانی اماں کی طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی ہے اس لیے وہ واپس آگئی ہیں۔ امی کے آجانے سے سب لوگ خوش ہوگئے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا تھا اس لیے ان کی امی کھانے کی تیاری میں لگ گئیں۔ نادیہ ان کے ساتھ ساتھ تھی اور سوچ رہی تھی کہ اس کی امی کا یوں اچانک آجانا اس نیکی کا صلہ تھا جو انہوں نے بلبل اور اس کے بچوں کے ساتھ کی تھی۔ یہ سوچ کر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.