Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پل دوپل کا شہزادہ

قیصر زاہدی

پل دوپل کا شہزادہ

قیصر زاہدی

MORE BYقیصر زاہدی

    اختر ایک دن جنگل میں کھیل رہا تھا تواسے ایک گڑیا پڑی ہوئی ملی۔ اس نے سوچا کیوں نہ گڑیا لے جاکر اپنی چھوٹی بہن نجمہ کودے دے۔ وہ گڑیا دیکھ کربہت خوش ہوگی۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ گڑیا اٹھالی اور اسے لے جاکراپنی چھوٹی بہن نجمہ کو دے دیا۔

    نجمہ گڑیا دیکھ کر خوش تو ہوئی مگر زیادہ خوش نہیں ہوئی کیونکہ وہ گڑیا کافی میلی اور گرد سے اٹی ہوئی تھی۔ نجمہ نے سوچا کہ اگروہ گڑیا کو نہلا دے تو صاف ہو جائےگی۔ یہ سوچ کر نہلانے لگی۔ مگر جیسے ہی اس نے گڑیا کے سر پر پانی ڈالا۔ گڑیا یکایک ایک خوبصورت لڑکی میں تبدیل ہو گئی۔ نجمہ پہلے توک چھ ڈری مگر پھر ہمت کرکے اس نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس لڑکی نے کہاکہ میرا نام شہزادی نیلم ہے۔ میں ملک فارس کے بادشاہ کی لڑکی ہوں۔ مگر تم لوگ کون ہو؟ اورمیں یہاں کیسے آ گئی۔

    نجمہ نے سے پوری کہانی سنائی کہ میرے بھائی جان گلی میں کھیل رہے تھے تو انہیں ایک گڑیا ملی وہ اسے اٹھاکر لائے۔ میں نے دیکھا کہ گڑیا کافی خوبصورت ہے مگر بہت میلی ہے۔ اس لئے میں نہلانے لگی۔ لیکن میں نے جیسے ہی اس پر پانی ڈالا گڑیا غائب ہو گئی اور اس کی جگہ تم کھڑی ہو گئیں۔

    تب شہزادی نے نجمہ کو اپنا حال سنایا۔ اس نے کہا کہ میں ایک دن اپنے باغ میں تتلی پکڑ رہی تھی کہ میرے پاس ایک آدمی آ پہنچا۔ اس کے بال اور داڑھی کافی بڑے بڑے تھے۔ اسے دیکھ کر میں خوف زدہ ہو گئی۔ اس نے کہا کہ شہزادی نیلم! تمہارے با بادشاہ ہیں۔ ان کے پاس ہیرے جواہرات، سونا چاندی، ہاتھی، گھوڑے، فوج اور بہت کچھ ہے۔ مگر پھر بھی میں تمہارے والد سے زیادہ طاقتور ہوں کیونکہ میں ایک جادوگر ہوں۔ میں جادو کے اس زور سے تمہارے اس محل کو ایک جھونپڑی میں تبدیل کر سکتا ہوں۔ پھر وہ قہقہہ لگانے لگا اور بولا میں تمہیں شہزادی سے ایک گڑیا بنا دیتا ہوں اورتم اس وقت تک گڑیا ہوگی۔ جب تک کہ کوئی تمہارے سر پر پانی نہ ڈالےگا۔ پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔

    اپنی داستان سنا کر وہ رونے لگی ور منت سماجت کرنے لگی کہ مجھے جلدی میرے محل میں پہنچا دو میرے ابا حضور اور امی جان مجھے تلاش کر رہے ہوں گے۔ اختر قریب ہی کھڑا حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا اس نے کہا کہ شہزادی نیلم آج رات تم یہاں ٹھہر جاؤ۔ کل صبح میں تمہارے محل پہنچا دوں گا۔

    آخر ایک رات وہاں رہنے کے لئے شہزادی نیلم تیار ہو گئی۔ اختر نے جلدی جلدی ملک فارس جانے کی تیاری شروع کر دی۔ صبح ہوتے ہی وہ شہزادی نیلم کے ساتھ ملک فارس روانہ ہو گیا۔

    جب وہ ملک فارس پہنچا تو سنا کہ بادشاہ نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ جو بھی شخص شہزادی نیلم کاپتہ بتائےگا یا کھو ج لائےگا۔ بادشاہ اسے اپنی سلطنت کا آدھا حصہ دے دےگا۔ یا اس کی شادی شہزادی نیلم سے کر دی جائےگی۔

    جب بادشاہ کو شہزادی نیلم کے آنے کی خبرہوئی تو وہ نہایت خوش ہوا اور پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔جب سپہ سالاروں نے شہزادی نیلم اور اختر کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا تو بادشاہ نے اختر کو اپنے قریب بٹھایا اور کہا کہ ’’تم نے میری بیٹی کومجھ تک پہنچایا ہے اس لئے میں تم سے بہت خوش ہوں اور آج سے تم اس محل کے خاص مہمان ہو۔ میں نےاعلان کر رکھا تھا کہ جو شخص بھی شہزادی نیلم کو کھوج لائے گا اسے اپنی سلطنت کا آدھا حصہ دے دوں گا یا اس کی شادی شہزادی نیلم سے کر دی جائےگی۔ تم شہزادی کو لائے ہو اس لئے تمہاری شادی شہزادی نیلم سے کر دی جائےگی اوراب جب تک تمہارے لئے الگ محل نہیں بن جاتا ہے تم اسی محل میں رہوگے۔‘‘

    اختر نے کہا کہ بادشاہ سلامت لیکن میری امی اور میری چھوٹی بہن نجمہ میرے لئے بہت پریشان ہوں گی اور گھبرائیں گی۔ بادشاہ نے کہاکہ تم ان کی فکر مت کرو۔ میں ابھی سپاہیوں کو تمہارے ملک روانہ کرتا ہوں۔ وہ انہیں یہاں لے آئیں گے اوراسی وقت چند سپاہی اختر سے اس کے شہر اور گھر کا پتہ معلوم کرکے اس کے ملک روانہ ہو گئے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد سپاہی اختر کی امی اور اس کی بہن نجمہ کو لے کر پہنچ گئے۔ اختر اپنی امی اور نجمہ سے مل کر بہت خوش ہوا۔ شہزادی نیلم بھی نجمہ سے مل کربہت خوش ہوئی۔

    اس وقت تک اختر کے لئے الگ ایک محل بھی تیار ہو گیا تھا۔ بادشاہ نے کہاکہ آج سے تم لوگ اس محل میں رہوگے۔ مگر شہزادی نیلم نے کہا کہ ابا حضور میں اس محل میں اکیلی رہتی ہوں۔ ہمارا کوئی بھی بھائی بہن نہیں ہے۔ اکیلے کھیلنے میں میرا دل نہیں لگتا ہے۔ اس لئے نجمہ کو یہیں رہنے دیجئے میں اس کے ساتھ کھیلا کروں گی نجمہ بھی شہزادی کے ساتھ اس کے محل میں رہنے کے لئے تیار ہو گئی۔ اختر اور اس کی امی دوسرے محل میں رہنے لگیں۔ وہ محل بھی بادشاہ کے محل سے زیادہ دور نہیں تھا۔ جب بھی نجمہ کی طبیعت گھبراتی وہ اپنی امی سے ملنے چلی جایا کرتی۔ بادشاہ نے سپہ سالاروں کو یہ بھی حکم دے دیا کہ وہ اختر کی تعلیم و تربیت کا انتطام کر دے۔

    جس طرح شہزادوں کو تعلیم دی جاتی ہے اسی طرح اختر کو بھی تعلیم دی جانے لگی اور اسے پڑھنے لکھنے کے علاوہ شہ سواری، نیزہ بازی، غرض کہ تمام فن جنگ سکھائے جانے لگے۔جب اختر جوان ہو گیا اوراس کی تعلیم و تربیت پوری ہو گئی تو سپہ سالاروں نے اسے پھر بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ اب وہ جوان ہو گیا ہے۔ اس کو اپنا قول یاد آیا۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے شادی کی تیاری کی جائے۔

    دونوں طرف محل میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔اب وہ اختر نہ کہا جاتا تھا بلکہ شہزادہ اختر پکارا جاتا تھا۔ نجمہ بھی اپنی امی کے پاس چلی آئی۔ شہزادہ اختر کو نہلا دھلاکر دولہا بنایا گیا۔ خوب بینڈ باجے اور روشنی کے ساتھ برات روانہ ہوئی۔ برات کے آگے آگے لوگ طرح طرح کی آتش بازیاں چھوڑ رہے تھے۔ جس سے کبھی کبھی خوب روشنی اور چمک پیدا ہو جاتی اور کبھی کبھی زوروں کی آواز ہوتی۔

    ایک بار پٹاخے کی آواز سن کر وہ گھوڑا بھڑک گیا جس پر اختر سوار تھا۔ گھوڑے بےتحاشہ بھاگنے لگا۔ جس سے اختر کو بہت ڈر لگنے لگا۔ اتنے میں اس کی نیند ٹوٹ گئی۔

    اس نے دیکھا کہ وہ تو اپنے بستر پر سویا ہوا تھا۔ آسمان میں بدلی چھائی ہوئی ہے اور کافی چمک اور کڑک کے ساتھ بار ش ہو رہی ہے۔ نہ محل ہے اور نہ شہزادی نیلم ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے