Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پینسل کی چوری

مختار احمد

پینسل کی چوری

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    فواد ایک مصور تھا۔ اس کا حلیہ بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ اکثر مصوروں کا ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم جسم، گورا رنگ، شانوں تک لمبے لمبے بال، جسم پر ململ کا کرتا اور پاجامہ اور منہ میں پان۔ اس نے ایک پر رونق علاقے میں اپنا ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو کھول رکھا تھا۔ یہاں بیٹھ کر وہ تصویریں بنایا کرتا تھا۔ یہ اسٹوڈیو اس کا آفس بھی تھا اور اسی میں اس کی بنائی ہوئی تصویریں بھی رکھی ہوتی تھیں۔ لوگ یہاں آکر انھیں خرید کر لے جاتے تھے۔

    ویسے تو وہ ہر قسم کی تصویریں بناتا تھا مگر اس کے بنائے ہوئے پینسل اسکیچز کا جواب نہیں ہوتا تھا۔ بہت سے لوگ اس کے پاس اپنے اسکیچز بنوانے آتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ شہر سے نکلنے والے رسالوں اور کہانیوں کی کتابوں کے لیے تصویریں بھی بنا تا تھا۔ اس کا کام بہت اچھا چل رہا تھا اور گزر بسر بہتر انداز میں ہو رہی تھی۔

    ایک روز اس کے بچپن کا دوست خالد اس کے پاس آیا۔ وہ کافی عرصے بعد ملے تھے۔ اسے دیکھ کر فواد نے اپنا کام روک دیا اور سلام دعا کے بعد اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔

    جب وہ چھوٹے تھے تو ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور میٹرک تک دونوں نے ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اب خالد کسی اور جگہ رہتا تھا۔ اس کی بھی مصروفیات تھیں اس لیے دونوں میں کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی تھی۔

    وہ دونوں کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف رہے۔ خالد شائد جلدی میں تھا اس لیے اس نے چائے کو بھی منع کردیا اور اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’ دراصل میں تمہارے پاس اپنے ایک کام سے آیا تھا۔ میرے بیٹے حامد کو مصوری کا شوق ہے۔ وہ اس وقت نویں جماعت میں پڑھتا ہے اور اس کا شمار اچھے طالب علموں میں ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس کو اپنی شاگردی میں لے لو۔ وہ تمہارے ساتھ رہا تو بہت کچھ سیکھ جائے گا ‘‘۔

    فواد نے کہا۔ ’’بہتر ہوتا تم اپنے بیٹے کو ساتھ ہی لے آتے۔ مجھے خوشی ہوگی کہ اسے کچھ سکھا سکوں۔ آج کل کمپیوٹروں کی وجہ سے ہمارے کام پر بہت اثر پڑا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت کی تصویریں وغیرہ ڈاؤن لوڈ کرکے انھیں رسالوں اور کتابوں میں چھاپنے لگے ہیں۔ لیکن پھر بھی اوریجنل کام کرنے والوں کی مانگ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ تم جب چاہو اپنے بیٹے حامد کو یہاں میرے پاس بھیج سکتے ہو۔‘‘

    خالد اس کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہوگیا۔ اگلے روز وہ دوپہر کو آیا۔ اس کے ساتھ حامد بھی تھا۔ وہ ایک اچھی شکل صورت کا چودہ پندرہ سال کا گوراچٹا اور شرمیلا سا لڑکا تھا۔ اس نے فواد کو سلام کیا اور ایک طرف ادب سے کھڑا ہوگیا۔

    فواد نے کہا۔ ’’بھئی حامد بیٹے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ تمہیں تصویریں بنانے کا شوق ہے۔ لو یہ کاغذ پینسل۔ کچھ بنا کر تو دکھاؤ ‘‘۔

    حامد ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور پینسل سے کاغذ پر لکیریں کھینچنے لگا۔ اس کے ابّا اور فواد باتوں میں لگ گئے۔ چائے والا خالی برتن لینے آیا تو فواد نے اسے چائے اور بسکٹ لانے کا کہہ کر حامد پر ایک نظر ڈالی۔ وہ بڑے انہماک سے تصویر بنانے میں لگا ہوا تھا۔

    تقریباً دس منٹ بعد اس نے اپنی بنائی ہوئی تصویر مکمل کرلی۔ وہ اٹھ کر فواد کے قریب آیا اور ہاتھ میں تھاما ہوا کاغذ اسے دے دیا۔ فواد نے ایک نظر اس کی بنائی ہوئی تصویر پر ڈالی اور پھر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ یہ اس کی اور خالد کی تصویر تھی جو ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔ تصویر نہایت صفائی سے بنائی گئی تھی۔

    فواد اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور حامد کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولا۔ ’’تمھارے ہاتھ میں تو بہت پختگی اور نفاست ہے۔ تم ایک روز ملک کے بہت بڑے مصور بنو گے ‘‘۔

    پھر اس نے خالد کی طرف رخ کر کے کہا۔ ’’ہمارے یہاں کیسا کیسا ٹیلنٹ موجود ہے۔ اگر ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں مناسب تربیت دی جائے تو یہ لوگ دنیا بھر میں پاکستان کا نام خوب روشن کریں‘‘۔

    اپنی تعریف سن کر حامد کے کان شرم سے سرخ ہوگئے۔ اس کے ابّا مسکرا رہے تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں حامد نے اپنے استاد کی نظروں میں ایک مقام بنا لیا تھا۔ وہ روز اسکول سے فارغ ہو کر فواد کے اسٹوڈیو میں آجاتا۔ وہ ایک بہت اچھا اور محنتی لڑکا تھا۔

    فواد اپنے کام میں ہی اتنا مصروف رہتا تھا کہ اسے اپنے اسٹوڈیو کی صفائی ستھرائی کا وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ وہاں پر بڑی بے ترتیبی نظر آتی تھی۔ بڑے بڑے کینوس زمین پر دیواروں سے لگے رکھے تھے۔ ان پر گرد اور مٹی کی تہیں جم گئی تھیں۔ دیواروں پر لگی تصویروں کی بھی صفائی نہیں ہوئی تھی۔

    حامد نے یہ سب کچھ دیکھا تو وقت نکال کر ان کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا۔ دیواروں پر لٹکی تصویروں کو صاف کیا، زمین پر رکھی ہوئی تصویروں کو قرینے سے الماریوں میں رکھا۔ اس کے علاوہ اس نے وہاں کی صفائی بھی کی۔ یوں چند روز میں ہی فواد کا اسٹوڈیو صاف ستھرا اور خوب صورت نظر آنے لگا۔

    فواد یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس نے حامد کو سو روپے انعام میں دیے۔ حامد نے پہلے تو منع کیا کہ وہ یہ روپے نہیں لے گا مگر جب فواد نے سختی سے کہا تو اسے وہ روپے لینا پڑ گئے۔

    ان کاموں سے فارغ ہو کر حامد نے کام سیکھنے پر توجہ مرکوز کردی۔ اسے بہت جلد طرح طرح کے رنگوں کے برانڈز، برشوں کے سائز، کینویسوں کی کوالٹی اور ایسی ہی بہت سی چیزیں پتہ چل گئی تھیں۔ جب فواد اپنے کام میں مصروف ہوتا تو حامد اس کے پاس بیٹھ کر اسے غور سے دیکھتا رہتا تھا۔

    اسے مختلف رنگوں کو ملا کر نئے نئے رنگ بنانا بھی آگئے تھے۔ فواد کی طرح وہ بھی پینسل ورک کے کام میں ماہر ہوگیا تھا۔ مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فواد اس سے بچوں کے رسالوں کی تصویریں بنوانے لگا۔ ان تصویروں کے جو پیسے ملتے تھے، فواد انھیں حامد کو ہی دے دیا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اسے اپنی طرف سے ایک ہزار روپے بھی دیتا تھا۔

    حامد کے آجانے سے فواد کو بہت آسانی ہوگئی تھی۔ حامد بہت ذہین اور محنتی لڑکا تھا۔ اس نے فواد کے کہے بغیر ایک ڈائری میں ان آرڈرز کا اندراج کرنا شروع کردیا جو تصویریں بنوانے کے لیے مختلف لوگوں اور پارٹیوں کی طرف سے ملتے تھے۔ وہ اس بات کا بھی دھیان رکھتا تھا کہ ملے ہوئے آرڈرز کی وقت پر تکمیل ہوجائے۔ اس بارے میں وہ فواد کو آگاہ رکھتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کو ان کا کام وقت پر ملنے لگا جس سے فواد کی ساکھ مزید بہتر ہو گئی۔

    فواد کو احساس ہوگیا تھا کہ حامد ایک نہایت محنتی اور ذمہ دار لڑکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عمدہ اور بہترین تصویریں بھی بناتا تھا۔ اس کی صلاحیتوں نے حامد کے لیے اس کے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا کردیا تھا۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ مصوری کے تمام رموز اور گر اسے سکھا دے اس لیے وہ اس پر خاص توجہ دینے لگا تھا۔

    فواد کو جب پتہ چلا کہ حامد اسکول سے چھٹی کے بعد سیدھا اس کے اسٹوڈیو آجاتا ہے تو اس نے اس سے پوچھا کہ وہ دوپہر کے کھانے کا کیا کرتا ہے۔ حامد نے جواب دیا کہ وہ دوپہر کا کھانا نہیں کھاتا۔ اگر وہ کھانا کھانے گھر جائے تو اسے یہاں آنے میں دیر ہوجائے گی۔

    اس کی بات سن کر فواد کو بہت افسوس ہوا۔ اب وہ دوپہر کو ٹھیک ڈھائی بجے حامد کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آتا۔ فواد کی بیوی شازیہ ان کے لیے کھانا تیار رکھتی تھی۔ دونوں کھانا کھاتے اور واپس اسٹوڈیو چلے آتے۔ حامد کو اس کے گھر کھانا کھاتے ہوئے بڑی شرم آتی تھی مگر فواد کے ڈر سے وہ چپ چاپ تھوڑا بہت کھا لیتا تھا۔

    شازیہ کو حامد بہت اچھا لگا تھا۔ اس کا بھی ایک بھائی تھا اور حامد کی ہی عمر کا تھا۔ جب فواد نے حامد کی بنائی ہوئی تصویریں جو مختلف رسالوں اور کہانیوں کی کتابوں میں شائع ھوئی تھیں شازیہ کو دکھائیں تو اس نے مارے حیرت کے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ اسے اس بات پر حیرانی تھی کہ اتنی سی عمر میں حامد اتنی اچھی تصویریں بناتا ہے۔

    اس کی اس مہارت پر شازیہ کے دل میں اس کی مزید قدر و منزلت پیدا ہوگئی تھی۔ وہ اکثر فواد سے کہا کرتی تھی کہ وہ حامد کا بہت خیال رکھے اور بہت دل لگا کر اسے تصویریں بنانا سکھائے۔ شازیہ کو پتہ تھا کہ حامد ایک شرمیلا لڑکا ہے۔ اس نے باتوں ہی باتوں میں اس سے پوچھ لیا تھا کہ اسے کون کون سے کھانے پسند ہیں۔ وہ اکثر وہ ہی کھانے بناتی تھی جو حامد کو پسند تھے۔

    ایک روز فواد کا ایک دوست لندن سے آیا۔ وہ اس کے لیے ایک نہایت خوب صورت پینسل اور اس کے مختلف سائز کے سکّے لایا تھا۔ یہ پینسل عام پینسلوں کی طرح ہی تھی مگر اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ خالص سونے کی بنی ہوئی تھی اور اس کے نچلے حصے میں نہایت چھوٹے چھوٹے ہیرے لگے ہوئے تھے۔ اس کا نچلا حصہ کھول کر اس میں سکّہ ڈالا جاتا تھا۔ اس کے اوپری حصے میں بال پوائنٹ پین جیسا پش بٹن تھا جس کے دبانے سے اس کا سکّہ نیچے کھسکتا تھا۔

    یہ پینسل بلا شبہ بہت قیمتی تھی اور فواد کو بہت پسند آئی۔ حامد بھی وہیں موجود تھا۔ یہ عجیب و غریب قیمتی پینسل دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے چمکنے لگی تھیں۔ وہ بار بار اسے دیکھے جا رہا تھا۔ فواد اس کی حیرت دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ حامد کو یہ پینسل بہت پسند آئی تھی۔

    کچھ دیر تک بیٹھنے کے بعد فواد کا دوست چلا گیا۔ فواد کو کسی بچّی کا پینسل اسکیچ بنانا تھا۔ وہ اسے اسی سونے کی پینسل سے بنانے لگا جو اس کا دوست اس کو دے کر گیا تھا۔ اس پینسل سے کام کر کے فواد کو بہت اچھا لگا۔

    اگلے روز جب حامد آیا تو وہ کچھ چپ چپ سا تھا۔ وہ آتے ہی اپنے کام میں لگ گیا۔ اسے بچوں کی کہانی کی ایک کتاب کے لئے تصویریں بنانا تھیں۔ وہ انھیں بنانے میں مصروف ہوگیا۔ فواد کے پاس ایک کسٹمر آگیا تو وہ اپنا کام روک کر اس سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔ حامد کو کسی چیز کی ضرورت تھی، وہ اپنی میز سے اٹھا اور اسے فواد کی ٹیبل پر تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا کام ختم ہوگیا تھا۔ وہ فواد کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور بولا۔ ’’جناب۔ مجھے آج جلدی جانا ہے۔ اجازت ہو تو میں چلا جاؤں ‘‘۔

    ’’ہاں۔ ہاں۔ چلے جاؤ ‘‘۔ فواد نے مسکرا کر کہا۔ ’’آج کل شہر میں ایرانی سرکس آیا ہوا ہے۔ کہیں وہیں جانے کا ارادہ تو نہیں ہے۔ لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلے ہم گھر جا کر کھانا کھالیں، پھر تم چلے جانا ‘‘۔

    حامد نے بڑے ادب سے کہا۔ ’’میں کھانا کھانے گیا تو مجھے دیر ہو جائے گی ‘‘۔ اس کی بات سن کر فواد نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔

    حامد کے جانے کے کچھ دیر بعد فواد کے پاس آیا ہوا کسٹمر بھی رخصت ہوگیا۔ فواد نے کپ میں بچی ہوئی چائے کا آخری گھونٹ لیا اور وہ پیڈ اٹھالیا جس پر لگے کاغذ پر وہ ایک تصویر بنا رہا تھا۔ اس نے اپنی سونے والی پینسل لینے کے لیے اندازے سے میز کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پینسل اس کے ہاتھ میں نہیں آئی تو اس نے میز پر پھیلے ہوئے کاغذوں کو ہٹا کر اسے ڈھونڈا مگر وہ نہ ملی۔ فواد کو تھوڑی سی تشویش ہوئی ۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ احتیاط سے دوبارہ میز پر دیکھا۔ پھر درازیں کھول کر اسے تلاش کیا مگر وہ نہیں ملی۔

    کسٹمر کے آنے سے پہلے وہ اسی پینسل سے کام کر رہا تھا۔ اس کے نہ ملنے کے سبب فواد پریشان ہو گیا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے پھر میز چھان ماری، نیچے فرش پر بھی دیکھا مگر وہ وہاں بھی نہیں ملی۔ وہ میز پر نظریں جمائے کچھ سوچنے لگا۔ اسے یاد آیا کہ کل جب اس کے دوست نے وہ پینسل اس کے حوالے کی تھی تو حامد بار بار اس پینسل کو دیکھے جا رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے حامد اس کی میز پر کچھ تلاش بھی کر رہا تھا۔ پھر اچانک اس نے جلدی گھر جانے کی جازت مانگی۔ ’’تو کیا وہ سونے کی پینسل حامد نے چرا لی ہے؟ ‘‘ ۔ اس نے سوچا۔ مگر اسے اس بات پر یقین نہیں آیا۔ حامد ایک بہت اچھا لڑکا تھا۔ وہ ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اپنے اس خیال پر اسے شرمندگی محسوس ہونے لگی۔

    وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور ایک مرتبہ پھر پورے اسٹوڈیو کا کونہ کونہ چھان مارا مگر پینسل نہ ملی۔ اس کا دل تو نہیں مان رہا تھا کہ پینسل حامد نے چرائی ہوگی مگر پھر وہ کہاں گئی؟ اس نے سوچا کہ کل جب حامد آئے گا تو وہ اس سے اس سلسلے میں پوچھے گا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اگر وہ مکر گیا کہ پینسل اس نے نہیں لی ہے تو پھر وہ کیا کرے گا۔ وہ ایک عجیب صورت حال سے دو چار ہوگیا تھا۔

    وہ پریشانی کے عالم میں اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر گزری تو اس کا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ پینسل حامد نے ہی چرائی ہے۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ اب حامد کا اپنے اسٹوڈیو میں آنا بند کردے گا۔ اس کی اس حرکت پر اسے بہت افسوس ہو رہا تھا۔ اس پریشانی میں اس سے کام بھی نہ ہوسکا اور وہ خلاف معمول جلد اٹھ کر گھر چلا آیا۔

    گھر پہنچا تو اس کی بیوی شازیہ اس کے چہرے پر موجود پریشانی دیکھ کر سمجھ گئی کہ کوئی بات ہو گئی ہے۔ اس نے کھانے کا پوچھا تو فواد نے منع کردیا۔ وہ اس کے لیے پانی لائی اور پھر چائے بنانے چلی گئی۔

    شازیہ جلد ہی چائے بنا کر لے آئی تھی۔ اس نے چائے کا کپ فواد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’خدا خیر کرے۔ آپ کچھ پریشان سے نظر آرہے ہیں ‘‘۔

    فواد نے جواب میں اسے پوری کہانی سنا دی۔ اس کی کہانی سن کر شازیہ بے ساختہ ہنس پڑی اور بولی۔ ’’حامد ایسا لڑکا نہیں ہے۔ وہ بہت ہی اچھا اور نیک ہے۔ اس جیسے لڑکے آج کل کے زمانے میں بہت ڈھونڈنے کے بعد ہی ملتے ہیں۔ آپ کو اس کی طرف سے غلط فہمی ہوگئی ہے ‘‘۔

    فواد خفگی سے بولا۔ ’’تمہیں احساس ہی نہیں ہے کہ میں کتنا پریشان ہوں۔ تم بغیر سوچے سمجھے حامد کی طرف داری کر رہی ہو۔ میں تو حیران ہوں کہ تمہیں ہنسی کس بات پر آئی تھی ‘‘۔

    شازیہ مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’اب جو بات میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں اسے سن کر آپ بھی ہنسیں گے۔ آپ کی ہیرے جواہرات کی پینسل کسی نے نہیں چرائی۔ وہ تو آپ کے کان پر لگی ہوئی ہے ‘‘۔

    فواد کا ہاتھ بے اختیار اپنے کان کی طرف گیا۔ سونے کی پینسل اس کے ہاتھ میں آگئی۔ اب اسے یاد آیا کہ جب اس کے اسٹوڈیو میں کسٹمر آیا تھا تو اس نے بے خیالی میں پینسل اپنے کان پر لگا لی تھی۔

    شازیہ کا کہنا ٹھیک تھا۔ اس کی بات سن کر فواد بھی ہنس پڑا تھا مگر اس ہنسی میں ندامت بھری ہوئی تھی۔ اس نے شرمندہ لہجے میں کہا۔ ’’ بغیر دیکھے کسی پر الزام نہیں لگانا چاہیے۔ یہ بہت بری بات ہوتی ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ میں نے حامد جیسے نیک اور اچھے لڑکے پر خواہ مخواہ شک کیا۔ اب وہ کل اسٹوڈیو میں آئے گا تو میں اسے یہ پینسل اپنی طرف سے تحفے میں دے دوں گا ‘‘۔

    شازیہ مسکرا کر بولی۔ ’’ماشااللہ آپ تو اتنے بڑے آرٹسٹ ہیں۔ اس طرح کی چمکتی دمکتی پینسلوں سے کام کرنا آپ کے شایان شان ہے بھی نہیں۔ حامد تو بچہ ہے۔ یہ چٹک مٹک والی پینسل اس کے ہاتھ میں ہی اچھی لگے گی۔‘‘

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے