Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پراسرار دستانے

مختار احمد

پراسرار دستانے

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ عظیم کے والد بغرض ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔یہ گاؤں، دیہاتوں اور ایک بڑے دریا سے ملحق بہت ہی خوبصورت اور پرسکون شہر تھا۔

    عظیم کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس کے اسکول اور محلے کے تو کئی دوست تھے مگرخالہ زاد اور ممانی زاد بہن بھائیوں کی تو بات ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے آنے کی خبر سے وہ بہت خوش ہوا تھا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ پرسوں اس کی چودھویں سالگرہ بھی ہے، سب لوگ ہونگے اور خوب مزہ آئےگا۔

    چونکہ ٹرین لیٹ ہو گئی تھی اس لیے وہ سب رات کو دیر سے گھر پہنچے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اور باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ صبح کسی نے اسکول تو جانا نہیں تھا، اس لیے سونے کی کسی کو فکر بھی نہیں تھی۔ عظیم کی امی کو صبح جلدی اٹھنا تھا کیوں کہ اس کے ابو کو آفس جانا تھا اور انھیں ناشتہ تیار کر کے دینا تھا، اس لیے وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ وہ گئیں تو یہ محفل بھی برخاست ہو گئی۔ آنے والے مہمان کافی تھکے ہوئے تھے، گھوڑے بیچ کر سو گئے۔

    عظیم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور پروگرام بنا رہا تھا کہ خالہ اور ممانی کے بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارےگا۔ نیند تو خیر اس کو آگئی تھی مگر وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ تھکن کی وجہ سے مہمان مزے سے سو رہے تھے۔ عظیم نے ہاتھ منہ دھویا، امی کے ساتھ نماز پڑھی۔ امی تو کچن میں مصروف ہو گئیں اس نے سوچا کہ باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا خوری کر لے۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور کافی اندھیرا تھا۔

    وہ گھر سے قریب ایک پارک میں پہنچ گیا۔ اونچے اونچے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندوں کا شورسنائی دینے لگا تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی، گرم سویٹر پہننے کے باوجود اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر سے چلتے ہوئے اس کی امی نے اسے مفلر بھی تھما دیا تھا جسے اس نے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔

    پارک سنسان پڑا تھا لیکن جب اس نے غور سے دیکھا تو پارک میں نصب آخر والی بینچ پر اسے کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آیا کہ یہ کوئی بچے پکڑنے والا آدمی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس کے پاوٴں من من بھر کے ہو گئے، اس سے اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں گیا۔ وہ مفلر جو اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اچانک اس کے گلے سے نکلا اور اڑتا ہوا اس شخص کی جانب چل دیا جو دور بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’امی۔‘‘ عظیم کے منہ سے بےاختیار خوف بھری ایک چیخ نکلی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کی جان نکل گئی ہے۔ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ اتنے اندھیرے میں گھر سے نکل کر یہاں آنے کی کیا ضرور ت ہے۔ اس واقعے نے اسے اس قدر خوفزدہ کر دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔

    اس کے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ نے اس کی رگ و پے میں خوف کی سنسناہٹ دوڑا دی۔ وہ شخص اٹھ کر اسی کی طرف آنے لگا تھا۔ عظیم کاڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس سے چیخا بھی نہیں جا رہا تھا، ایسا معلوم دیتا تھا جیسے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

    ’’ماں کے لاڈلے۔ یہ لو پکڑو اپنا مفلر۔‘‘ قریب آنے والے اس شخص نے کہا۔ اب عظیم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔

    ’’بھائی تم کون ہو؟‘‘۔ عظیم نے تھوک نگل کر پوچھا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے تو بھائی بھائی کر رہے ہو‘‘۔ وہ لڑکا بڑی خوشدلی سے ہنسا، مگر پھر فوراً ہی اداس ہو گیا: ’’میں بہت بدنصیب ہوں۔ میرے لیے اب عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا ایک خواب ہی ہے۔‘‘

    اس کے دکھ بھرے لہجے سے عظیم متاثر ہو گیا۔ کچھ پوچھنے کے لیے اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا ان کے قریب سے اڑتی ہوئی گزری، اس پراسرار لڑکے نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنی مٹھی کھولی، چڑیا آگے جاتے جاتے بجلی کی تیزی سے پلٹی اور اس لڑکے کی مٹھی میں آ گئی۔

    یہ دیکھ کر عظیم کے جسم پر کپکی طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور پیٹ میں جیسے کوئی چیز زور زور سے گھومنے لگی۔ اس سے کھڑا رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور خوف بھری نظروں سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑی چڑیا کو فضا میں اچھال کر اسے اڑا دیا دیا اور خود بھی عظیم کے پاس بیٹھ گیا۔

    عظیم اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا:’’میں امی کے پاس جاؤں گا۔‘‘

    لڑکا ہنس پڑا۔ ’’ہو تو تم میرے ہی جتنے مگر دودھ پیتے بچے بن رہے ہو۔ مجھ سے ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ دیکھو میں نے تمہارا مفلر بھی واپس کر دیا تھا، اگر میں چاہتا تو اس کو لے کر بھاگ بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم بہت عجیب سے ہو‘‘۔ عظیم نے تھوک نگل کر کہا۔ ’’تم کوئی جادوگر ہو، تم نے لڑکے کا روپ دھار رکھا ہے۔‘‘

    ’’اگر میں جادوگر ہوتا تو کسی شہزادی کو اپنے محل میں قید کر کے اس کی خوشامد کر رہا ہوتا کہ وہ مجھ سے شادی کر لے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ لڑکا ہنسا پھر اداسی سے بولا۔ ’’میرے سب دوست مجھ سے دور ہو گئے ہیں۔سب لوگ مجھ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔میں اکیلا ہی گھومتا پھرتا ہوں، سب یہ ہی سمجھتے ہیں کہ میں کوئی جادوگر ہوں، حالانکہ میں ہوں نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہو، جادوگر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘۔ عظیم نے کہا۔

    ’’میرا نام انعام ہے‘‘۔ اس لڑکے نے کہا۔ ’’کیا تم میری کہانی سننا پسند کروگے۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائےگا۔‘‘

    انعام کی بات سن کر عظیم کا دل بھر آیا۔ ’’ہاں ہاں، میں ضرور تمہاری کہانی سنوں گا، اچھا ہے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مجھے تو تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو بس تمہاری حرکتیں ٹھیک نہیں لگتیں۔‘‘

    اس کی بات سن کر انعام خوش ہو گیا اور اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ بد قسمتی سے اسکول میں میری دوستی چند آوارہ لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے اسکول سے بھاگنا سکھا دیا تھا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں بجائے اسکول جانے کے، دریا کی جانب چلدیا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریاپر جاکر سیر کروں گا اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑوں گا۔ میں دریا پر پہنچا تو مجھے وہاں ایک بوڑھا شخص ملا۔ اس کی شکل عجیب سی اور خوفناک تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔’’ مچھلیاں پکڑنے آئے ہو لڑکے؟۔ اس نے پوچھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ دریا کی طرف کیا اور پل بھر میں اس کی ہتھیلی پر تین چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آکر تڑپنے لگیں۔ اس نے قریب پڑی پلاسٹک کی ایک تھیلی اٹھا کر اس میں پانی بھرا اور مچھلیوں کو اس میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں تمہاری طرح خوفزدہ نہیں ہوا تھا۔ میں ایک بہادر لڑکا ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تھوڑا بےوقوف ہوں۔ میں نے بوڑھے سے پوچھا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا، لیکن اگر تم چاہو تو میں یہ طاقت تمہیں دے سکتا ہوں۔ مجھے تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو۔‘‘

    اس کی چاپلوسی کی باتیں سن کر میں خوش ہو گیا اور حامی بھر لی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی وہ شخص دستانے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے دستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو بولا۔ ’’ان دستانوں کو تم حیرت سے دیکھ رہے ہو۔ جب یہ طاقت تمہیں مل جائےگی توتمہیں بھی ان کی ضرورت پڑےگی۔‘‘ میں نے اس کی بات پر غور نہیں کیا، اسی سوچ میں مگن رہا کہ جب میں بھی ایسا کرنے لگوں گا تو اپنے دوستوں کو تماشا دکھا کر مرعوب کیا کروں گا۔ وہ کتنا حیران ہونگے جب میں دور پڑی چیزوں کوایک جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے پاس منگوا لیا کروں گا۔ اس نے مجھے قریب بلایا اور بولا۔ ’’آنکھیں بند کرو اور جو الفاظ میں کہوں تم انھیں دوہراتے جاوٴ۔‘‘

    میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں اس طاقت کو اپنی مرضی سے لینا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے وہ الفاظ بھی دوہرا دیے۔ اس نے کہا۔ ’’اب آنکھیں کھو ل دو۔ تمہیں یہ عجیب و غریب طاقت مل گئی ہے۔‘‘

    میں نے آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرے دونوں ہاتھ کلائیوں تک بالکل سیاہ رنگ کے ہو گئے تھے۔ اس شخص نے اپنی مکروہ آواز میں کہا۔ ’’تم چاہو تو اس طاقت کو آزما سکتے ہو‘‘۔ میں نے دور زمین پر پڑی ایک شیشے کی بوتل کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا، وہ زمین سے بلند ہوئی اور میرے ہاتھ میں آ گئی۔ اس طاقت کو حاصل کرکے مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میرے ہاتھوں کا رنگ تبدیل ہو گیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ اب میں اپنی امی ابا اور دوستوں کا کیسے سامنے کروں گا، ان سے اپنے کالے ہاتھوں کے بارے میں کیا کہوں گا۔ اس بوڑھے نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اتار کر میرے حوالے کیے اور خود ایک جانب روانہ ہو گیا۔ اس بات کو تین روز گزر گئے ہیں۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میں ان دستانوں کو پہنے پہنے تنگ آ گیا ہوں۔ ان کی وجہ سے میں کوئی کام ٹھیک طریقے سے بھی نہیں کر سکتا۔ وہ شیطان بوڑھا بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو میں نے تماشے تو بہت دکھائے مگر مرعوب ہونے کے بجاے وہ مجھ سے خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے ہیں اور بات چیت کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ اور تو اور کل میرے ابا بھی میری امی سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ اس کو ایدھی سینٹر چھوڑ کر آ جائیں گے، یہ ہمارا والا انعام نہیں ہے کوئی اور ہے۔ پرسوں کی بات ہے انہوں نے باہر جانا تھا، مجھ سے بولے کہ میرے جوتے اٹھا دو۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ان کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آ گئے۔ ابّا گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور بولے۔ ’’ان جوتوں کو اب میں کبھی نہیں پہنوں گا، ان میں جادو لگ گیا ہے۔‘‘

    اس کی یہ کہانی سن کر عظیم کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’اس دنیا میں عجیب عجیب لوگ موجود ہیں جیسے وہ بوڑھا۔ اس نے بچہ سمجھ کر اپنی مصیبت تمہارے گلے ڈال دی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ماں باپ ہمیں اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ اجنبیوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان سے کسی قسم کی کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لوگ ہمیں مصیبتوں میں پھنسا دیتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

    انعام نے افسردگی سے کہا۔ ’’میری امی بھی مجھے بہت سمجھاتی تھیں کہ کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی بات چیت نہ کروں۔ وہ کوئی کھانے کی چیز دے تو وہ بھی نہیں کھاؤں، ان چیزوں میں بے ہوشی کی دوا ہوتی ہے اور اسے کھلا کر وہ لوگ بچوں کو اغوا کر لیتے ہیں اور اتنی سی چیز کھلا کر ان کے ماں باپ سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔‘‘

    اب چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔ عظیم نے ایک مرتبہ پھر انعام کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور بولا۔ ’’انعام بھائی۔کیا تم مجھے دریا پر اس جگہ تک لے جا سکتے ہو جہاں وہ خبیث بوڑھا تمہیں ملا تھا؟‘‘۔

    ’’وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، آو‘‘۔ انعام نے کہا اور دونوں چل پڑے۔ عظیم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کو انعام پر بہت ترس آ رہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ انعام کو اس مصیبت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کالے ہو گئے تھے۔ وہ دعا کر رہا تھا کہ وہ بوڑھا ان کو دوبارہ مل جائے اور پھر اس کی دعا قبول ہو ہی گئی۔ وہ بوڑھا انھیں نظر آ گیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا اس کے پانی سے گاجروں کو دھو دھو کر کھا رہا تھا۔ عظیم نے انعام کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔ اس کی بات سن کر انعام کا چہرہ جوش و مسرت سے تمتمانے لگا۔

    اس بوڑھے نے انعام کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نظر آنے لگی، وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میاں خوب مزے آ رہے ہیں۔اب تو تمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا ہوگا۔ بیٹھے بیٹھے ہی سب چیزیں تمہیں مل جاتی ہونگی۔‘‘

    انعام نے کہا۔ ’’اپنی یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو۔ اس کی وجہ سے میرے دونوں ہاتھ بالکل سیاہ ہو گئے ہیں۔ لوگ مجھ سے ڈرنے لگے ہیں۔ میری امی تو مجھ سے اتنی خوفزدہ ہو گئی ہیں کہ انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ دھمکی بھی نہیں دیتیں کہ آلینے دے تیرے باپ کو تیری شکایت کروں گی۔ میں کسی کا سامنا بھی نہیں کر سکتا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو دونوں ہاتھ گرم ہو جاتے ہیں۔میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ان ہی تکلیفوں کی وجہ سے تو میں نے یہ طاقت تمہیں دی تھی۔ میں خود ان باتوں سے تنگ آ گیا تھا‘‘۔ اس آدمی نے لاپرواہی سے کہا۔ ’’میں اب اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ تم یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر زیادہ تنگ کروگے تو میں تمہیں دریا میں دھکا دیدوں گا اور تمہارے ساتھ اس کو بھی جسے تم حمایتی بنا کر لائے ہو۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے‘‘۔ انعام نے دستانے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور بلند آواز میں بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ طاقت نہیں چاہیے۔‘‘

    اس کی بات کو سن کر بوڑھے نے ایک چیخ ماری اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عظیم اور انعام نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ انعام کے ہاتھوں کا کالا رنگ دھویں میں تبدیل ہوکر بوڑھے کی طرف پرواز کرنے لگا اور اس کے غریب پہنچ کر اس کے جسم میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دونوں ہاتھ کالے نظر آنے لگے۔

    ’’لو۔ یہ پکڑو اپنے دستانے‘‘۔ انعام نے دستانوں کو پوری طاقت سے بوڑھے کی طرف پھینک دیا۔ اتنی دیر میں دریا کی ایک تیز لہر آئی اور اس بوڑھے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ انعام کے دونوں ہاتھ پھر پہلے کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے۔ اس نے عظیم کو گلے سے لگا لیا ’’میرے دوست۔ اگر تم وہ الفاظ مجھے نہ بتاتے جو میں نے اس بوڑھے شیطان سے کہے تھے تو مجھے کبھی بھی اس مصیبت سے نجات نہ ملتی۔‘‘

    اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ عظیم گھر پہنچا تو سارے مہمان ناشتے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’عظیم بیٹے۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ ہم ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    عظیم نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد خواتین تو باتوں میں مصروف ہو گئیں۔ عظیم بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہاں اس نے انہیں یہ عجیب و غریب کہانی سنائی۔ تمام بچے یہ کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    عظیم نے کہا۔ ’’آج سے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم نہ تو اسکول جاتے ہوئے اور نہ ہی اسکول سے آتے ہوئے کسی اجنبی سے کوئی بات نہیں کریں گے تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔‘‘

    سب بچوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ وہ سب عظیم کی عقلمندی سے بھی بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے انعام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے