ایک دفعہ قحط کے زمانے میں کسی قصبے کا رئیس ہر روز صبح کو سو دو سو روٹیاں پکوا کر سامنے رکھ لیا کرتا۔ گاؤں کے بچے جمع ہو جاتے اور اپنے ہاتھ سے ایک ایک روٹی اٹھا کر چل دیتے۔ ان میں سے اکثر لڑکے اتنی جلدی کرتے کہ کسی کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیتے اور کسی کے مونڈھے پر سوار ہو کر آگے بڑھ جاتے مگر ایک چھوٹی لڑکی خاموش کھڑی رہتی۔ جب سب لڑکے روٹی لے چکتے تو اس بےچاری کے حصے میں وہ روٹی آتی، جو سب سے چھوٹی ہوتی۔
امیر دو دن لڑکی کی اس شرم و حیا کو دیکھتا رہا۔ تیسرے دن بھی وہی کچھ ہوا لڑکے بڑی روٹیاں لے گئے اور چھوٹی روٹی اس شرمیلی لڑکی کے لیے رہ گئی۔
مگر اس روز جب لڑکی نے روٹی گھر لے جا کر ماں کے حوالے کی اور اور اس نے لڑکی کو آدھی روٹی دینے کے لیے اس کا ٹکڑا توڑا تو اس میں سے دو روپے نکل آئے۔
لڑکی کی ماں نے دیکھتے ہی دونوں کے دونوں روپے لڑکی کو دے کر رئیس کے پاس بھیج دیا کہ ’’غلطی سے آٹے میں گر کر مل گئے ہوں گے۔ آپ اپنے روپے لے لیجئے۔‘‘
رئیس لڑکی کے صبر پر تو پہلے ہی خوش ہو رہا تھا۔ اب اس کی ماں کی دیانت داری سے اور بھی خوش ہو کر بولا۔ ’’بیٹی! یہ دو روپے کل میں نے تمہارے صبر سے خوش ہو کر خود چھوٹی روٹی میں رکھوا دیے تھے۔ تم ان کے کپڑے بنوا لینا اور یہ تین روپے لے جاؤ۔ یہ اپنی ماں کو دے دینا کہ یہ اس کی دیانتداری کا انعام ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.