Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہزادے کا اغوا

مختار احمد

شہزادے کا اغوا

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے نظم و نسق اور نیک دلی کی وجہ سے اس کی رعایا بہت چین اور سکون سے اپنی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس ملک کے لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے جس سے ملک بھی خوب ترقی کر رہا تھا اور لوگ بھی آسودہ حال تھے۔ ان کا بادشاہ نہ صرف یہ کہ بہت سمجھدار اور بہادر تھا بلکہ وہ ایک امن پسند حکمران بھی تھا اور اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔

    بادشاہ کا ایک چھوٹا سا شہزادہ بھی تھا جس کی عمر یہ ہی کوئی دو ڈھائی سال کی تھی۔ شہزادہ بہت ہنس مکھ اور کھلنڈرا تھا اور دن بھر محل میں گھٹنوں گھٹنوں چل کر خوش ہوتا تھا۔ بادشاہ نے اس کے لیے پورے محل میں دبیز اور قیمتی قالین بچھوا دئیے تھے تاکہ وہ آرام سے ان پر چلے پھرے اور مٹی وغیرہ سے محفوظ رہ سکے۔

    اسی بادشاہ کے پڑوس میں ایک اور ملک بھی تھا۔ اس کا موجودہ بادشاہ کسی زمانے میں اسی ملک کا وزیر تھا، مگر پھر اس نے سازش کرکے اس ملک کے بادشاہ کو قید کر دیا اور خود تخت پر قبضہ کر کے بادشاہ بن گیا۔ وہ تو اس کو قتل کردینا چاہتا تھا مگر ایک بات کی وجہ سے مجبور ہوگیا تھا۔ اس بادشاہ کے پاس ملک کے خزانوں کی چابیاں تھیں۔ ان چابیوں کو وہ ایک خفیہ جگہ چھپا کر رکھتا۔ وزیر نے بادشاہ پر بہت سختیاں کیں تاکہ وہ خزانوں کی چابیاں اس کے حوالے کردے مگر بادشاہ سمجھ گیا تھا کہ اگر اس نے چابیاں اس نمک حرام وزیر کے حوالے کردیں تو وہ اسے مروا دے گا اس لیے وہ چپ چاپ ہر اذیت سہہ لیتا تھا۔

    وزیر ایک لالچی آدمی تھا اور اسے دولت جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی لالچ کی وجہ سے اس نے اپنی آس پاس کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر فوج کی مدد سے چڑھائی کردی اور ان پر قبضہ کر کے ان کی ساری دولت ہتھیالی۔

    ان کامیابیوں کی وجہ سے اسے یہ غرور ہوگیا تھا کہ وہ جس ملک پر بھی چاہے حملہ کر کے اس پر قبضہ کرسکتا ہے۔ ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اس کا پڑوسی ملک بہت خوشحال ہے، نہ صرف اس کے خزانوں میں بہت مال و دولت ہے، بلکہ رعایا بھی بہت امیر ہے۔ یہ سوچ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور ایک روز اس نے اچانک رات کی تاریکی میں اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کردیا۔

    یہ اس کی غلط فہمی ہی تھی کہ وہ آسانی سے پڑوسی ملک پر قبضہ کرلے گا۔ اس کا بادشاہ نہایت زیرک اور سمجھدار تھا۔ اس کی نظر حکومت کے ہر شعبے پر ہوتی تھی۔ اس نے فوج کو بھی پوری طرح تیار کر کے رکھا ہوا تھا۔ اس حملے کے جواب میں اس کی فوج نے بڑی جوانمردی سے اس مکار بادشاہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نہ صرف اسے شکست دی بلکہ اس کے ملک کے ایک بہت بڑے حصے پر قبضہ بھی کرلیا۔

    اس جیت کی خوشی میں ہر طرف جشن کا سا ایک سماں تھا۔ بادشاہ نے جنگ کے نتیجے میں جیتے ہوئے علاقوں میں اپنے گورنر مقرر کیے اور محل واپسی کی تیاریاں شروع کردیں۔ اسے اپنے ننھا شہزادہ بہت یاد آ رہا تھا جس کو دیکھے ہوئے بہت دن ہو گئے تھے۔

    اس شکست نے اس مکار بادشاہ کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ پڑوسی ملک پر قبضہ کرتا، اس نے اپنے ملک کا بھی ایک بڑا حصہ گنوا دیا تھا۔ وہ اپنی اس عبرتناک شکست کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھا اور پھر اس کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ آگیا۔

    اس نے دیکھا کہ پڑوسی ملک کے لوگ فتح کا جشن منانے میں مصروف ہیں۔ اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے چند خاص آدمی بھیج کر بادشاہ کے ننھے شہزادے کو محل سے اغوا کروا لیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ شہزادے کے بدلے وہ اس بادشاہ سے اپنا علاقہ بھی واپس لے لے گا اور اس کے ساتھ بے شمار دولت بھی۔

    ادھر جب بادشاہ میدان جنگ سے واپس اپنے محل میں آیا تو وہاں پر ایک کہرام بپا تھا۔ شہزادے کی گمشدگی نے سب کو پریشان کردیا تھا۔ شہزادے کی کنیزیں چیخ و پکار کررہی تھیں۔ ملکہ نے رو رو کر برا حال کرلیا تھا۔ محل کے محافظ الگ پریشان تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی نے شہزادے کو اغوا کرلیا تھا اور اب انھیں بادشاہ کے عتاب کا ڈر تھا۔

    بادشاہ کو جب شہزادے کی گمشدگی کے متعلق پتہ چلا تو خود اس کا غم سے برا حال ہوگیا۔ فتح کی ساری خوشی ہوا ہوگئی اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس کے کچھ ہوش ٹھکانے آئے تو اس نے اپنے وزیروں اور شہر کوتوال کو طلب کیا اور انھیں اپنے محل کے پائیں باغ میں لا کر ان سے واقعہ کی تفصیل پوچھی۔

    سب نے ہی یہ کہا کہ فتح کا جشن مناتے ہوئے ان کی توجہ کچھ دیر کے لیے شہزادے کی جانب سے ہٹی تھی کہ وہ غائب ہوگیا۔ سب کا ہی یہ خیال تھا کہ اس کی گمشدگی میں محل کے کسی ملازم کا ہاتھ ہے۔

    بادشاہ نے کہا۔ ’’اس نمک حرام کا تو ہم پتہ چلا ہی لیں گے لیکن اس سے پہلے شہزادے کے بارے میں معلوم کرنا زیادہ ضروری ہے‘‘۔

    ابھی بادشاہ کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ ایک سنسناتا ہوا تیر سامنے کے درخت میں آ کر گڑ گیا۔

    کوتوال نے جلدی سے آگے بڑھ کر تیر کو درخت سے نکالا۔ تیر میں ایک ریشمی تھیلی بندھی تھی اور اس میں ایک خط رکھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے کوتوال کے ہاتھ سے خط لے کر اسے اونچی آواز میں پڑھا۔

    ’’تمہارا شہزادہ ہمارے قبضے میں ہے۔ اس کی زندگی عزیز ہے تو فوراً جنگ کے دوران ہمارے جتنے علاقے پر بھی قبضہ کیا ہے اسے واپس کردو۔ اس کے ساتھ پانچ لاکھ خالص سونے کی اشرفیاں بھی تاوان کے طور پر دو۔ ان دونوں شرائط کو پورا کرنے کی صورت میں شہزادے کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر ہماری یہ شرائط منظور ہیں تو اپنے کسی آدمی کے ذریعے خط بھیج کر ہمیں فوراً مطلع کرو‘‘۔ اس خط پر اسی مکار بادشاہ کی مہر لگی ہوئی تھی۔

    خط پڑھ کر بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ ’’ہم اس مکار بادشاہ کو ضرور مزہ چکھائیں گے۔ فوج کو تیاری کا حکم دیا جائے‘‘۔

    اس کا وزیر خاص اس کی یہ بات سن کر آگے بڑھا اور بولا۔ ’’حضور بادشاہ سلامت! یہ وقت جوش کا نہیں ہوش کا ہے۔ ہمیں عقلمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ شہزادے کو گزند پہنچنے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے‘‘۔

    بادشاہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ اب مشوره دو کہ ہم کیا کریں‘‘۔

    وزیر نے دھیرے سے کہا۔ ’’ہمیں بہت محتاط رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس مکار بادشاہ نے اس محل کے کسی ملازم کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ہمیں پہلے تو اس کا پتہ لگانا چاہیے۔ اس سے جو معلومات ہمیں ملیں گی، ان کی روشنی میں ہم اپنا اگلا قدم اٹھائیں گے‘‘۔

    بادشاہ کو وزیر کی یہ تدبیر پسند آگئی۔ وہ واپس محل آیا۔ ملکہ کو تسلی دی اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرے۔ محل کے اس بد طینت ملازم کا پتہ لگانے کے لیے اس نے کوتوال کو ہدایات دے دی تھیں اور اس نے محل میں اپنے جاسوس پھیلا دئیے تھے۔

    کوتوال کا ایک اٹھارہ سال کا بیٹا بھی تھا۔ اس کا نام دلاور تھا۔ اسے بھی اس واقعہ کی سن گن مل گئی تھی۔ اس کو احساس تھا کہ شہزادے کی گمشدگی سے بادشاہ اور ملکہ سخت پریشان ہیں۔ اس نے دل میں ٹھانی کہ وہ ان کی مدد کرے گا۔ اس سلسلے میں اس نے اپنے باپ کوتوال سے بات کی اور اس سے اجازت طلب کی کہ وہ محل کی ان کنیزوں اور غلاموں سے ملنا چاہتا ہے جو شہزادے کی نگہداشت پر مقرر تھے۔

    کوتوال کو اپنے بیٹے سے بہت سی امیدیں تھیں کیوں کہ وہ پہلے بھی اس طرح کے کاموں میں اس کی مدد کر چکا تھا۔ اس نے اس کو بخوشی اجازت دے دی۔

    دلاور محل آیا اور کنیزوں اور غلاموں کے نگران سے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کو پیش کرے جن کے ذمے شہزادے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ یہ کل چھ لوگ تھے۔ چار کنیزیں اور دو غلام۔ پانچ تو ان میں سے دلاور کے سامنے پیش کردئیے گئے مگر ایک کنیز جس کا نام گل آرا تھا وہ غائب تھی۔

    ایک کنیز نے دلاور کو بتایا کہ شہزادہ دل آرا ہی سے سب سے زیادہ مانوس تھا۔ وہ ہی اس کا خیال رکھتی تھی اور شہزادہ کھانا بھی اسی کے ہاتھوں سے کھاتا تھا۔

    کنیزوں اور غلاموں کے نگران نے دلاور سے کہا۔ ’’میں ابھی اپنے آدمی دل آرا کے گھر بھیجتا ہوں۔ وہ اسے ساتھ لے کر آجائیں گے‘‘۔

    مگر دل آرا گھر پر نہیں ملی۔ اس کے شوہر نے بتایا کہ وہ صبح گھر سے محل جانے کے لیے نکلی تھی اور اب تک واپس گھر نہیں آئ ہے۔

    اس کی گمشدگی نے سب کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ شہزادے کی گمشدگی میں اسی کا ہاتھ ہے۔ دلاور سوچ میں گم تھا۔ اب اسے اس بات کا پتہ چلانا تھا کہ دل آرا کہاں چلی گئی ہے۔ اس نے شام تک اس سلسلے میں بہت بھاگ دوڑ کی مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ وہ سخت مایوس ہوگیا تھا۔ کچھ دیر بعد شاہی محل سے ایک ہرکارہ آیا اور کوتوال سے کہا کہ اسے بادشاہ سلامت نے طلب فرمایا ہے۔

    کوتوال نے دلاور کو بھی ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ دلاور نے سب سے پہلے آج پورے دن کو روداد بادشاہ کے گوش گزار کی۔

    بادشاہ نے کہا۔ ’’ملکہ کی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ ننھے شہزادے کی جدائی میں انہوں نے رو رو کر برا حال کرلیا ہے۔ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم تمام علاقہ واپس کرکے اور پانچ لاکھ اشرفیاں ادا کر کے اپنے شہزادے کو اس مکار بادشاہ سے آزاد کروا لیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک خط بھی لکھ کر اس پر اپنی شاہی مہر ثبت کردی ہے۔ اب تم کسی ایسے با اعتماد آدمی کا بندوبست کرو جو اسے وہاں تک پہنچا کر ہمارا شہزادہ ہمیں واپس لادے‘‘۔

    کوتوال نے کہا۔ ’’بادشاہ سلامت۔ یہ کام بہت اہم ہے۔ اجازت ہو تو میں دلاور کو یہ کام سونپ دوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس کو بہتر طریقے سر انجام دے گا‘‘۔

    ’’ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اگر اس کام کے پیچھے دل آرا کا ہاتھ ہوا تو ہم اسے سخت سزا دیں گے۔ غداروں کے لیے ہمارے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے‘‘۔ بادشاہ نے غصے سے کہا اور اٹھ گیا۔

    رات ہونے والی تھی۔ مگر چونکہ معاملہ بہت اہم تھا اس لیے دلاور بادشاہ کا خط لے کر سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ وہ اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا تیزی سے فاصلہ طے کر رہا تھا۔ ندی نالے اور پہاڑوں کو عبور کرتا ہوا وہ آدھی رات کے وقت پڑوسی ملک کی حدود میں داخل ہوگیا۔

    مسلسل سفر کی وجہ سے اس کا گھوڑا تھکا تھکا سا نظر آنے لگا تھا۔ ایک جگہ اسے جنگل نظر آیا، وہاں پر ایک ندی بھی تھی۔ اس نے مناسب سمجھا کہ یہاں بیٹھ کر کچھ دیر خود بھی سستا لے اور گھوڑے کو بھی آرام کرنے دے۔ یہ سوچ کر وہ گھوڑا روک کر اس پر سے اتر گیا اور اسے پانی پینے اور گھاس چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ دلاور کو بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اس نے تھیلے میں سے کچھ پھل نکالے اور انھیں کھاتے ہوئے جنگل میں آگے کی طرف نکل گیا۔

    ابھی وہ کچھ دور ہی چلا تھا کہ اسے آگے روشنی سی نظر آئ۔ اس کے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ لوگ ڈاکو ہیں۔ وہ جھاڑیوں کی اوٹ لے کر کچھ اور آگے بڑھا۔ اس نے دیکھا وہاں آگ کے الاؤ روشن ہیں اور اس ملک کے مکار بادشاہ کے کچھ سپاہی آپس میں باتوں میں مصروف ہیں۔

    ایک سپاہی کہہ رہا تھا۔ ’’جلدی کرو۔ ہمارے پہرے دینے کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ ہم نے اگر مزید دیر کی تو وہاں پر پہرا دینے والے ساتھی ناراض ہونگے‘‘۔

    اس کی بات سن کر سب جلدی جلدی اٹھنے کی تیاری کرنے لگے اور تھوڑی دیر بعد وہ سب وہاں سے روانہ ہوگئے۔ دلاور حیران تھا کہ وہ شاہی سپاہی کس جگہ پہرے دینے کی بات کر رہے تھے۔ اسے معاملہ کچھ پراسرار لگا۔ وہ جلدی سے اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور پھر ایک مناسب فاصلہ دے کر خود بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔

    قریب ہی ایک دیہات تھا۔ آبادی سے ذرا ہٹ کر وہاں ایک بڑی سی حویلی تھی۔ اس حویلی کے چاروں طرف تلواروں سے لیس شاہی سپاہی پہرا دے رہے تھے۔ دلاور نے خود کو اور گھوڑے کو قد آدم جھاڑیوں کے درمیان چھپا لیا تھا اور کان لگا کر ان کی گفتگو سننے لگا۔

    ’’تم لوگوں نے آنے میں بہت دیر کردی ہے‘‘۔ پہرہ دینے والے ایک سپاہی نے منہ بگاڑ کر کہا۔

    ’’ہم لوگ کھانا کھانے لگے تھے۔ اس لیے دیر ہوگئی۔ جانے ہماری یہاں سے کب جان چھوٹے گی‘‘۔ نئے آنے والے سپاہیوں میں سے ایک نے کہا۔

    ’’ہمارے جاسوس نے بتایا ہے کہ پڑوسی ملک کا بادشاہ ہمارے بادشاہ کی شرائط ماننے پر راضی ہوگیا ہے۔ شہزادے کو جلد ہی واپس کردیا جائے گا۔ شہزادہ روتا بہت ہے۔ اگر وہ کنیز ساتھ نہ آتی تو سمجھو مصیبت ہی آجاتی۔ چھوٹے بچے اگر رونے لگیں تو انھیں چپ کروانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے‘‘۔

    دلاور نے جو ان کی یہ گفتگو سنی تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ شہزادے کو اس حویلی میں قید کیا گیا ہے۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے نکلا۔ اس نے دور ایک پہاڑی کے ٹیلے پر ایک بڑے پتھر سے گھوڑے کی راس باندھی اور دوبارہ حویلی کی طرف چل دیا۔

    حویلی کے آس پاس بہت ساری جھاڑیاں تھیں۔ رات ہونے کی وجہ سے تاریکی بھی بہت تھی اوپر سے آسمان کو بھی کالے کالے بادلوں نے گھیر رکھا تھا جس سے تاریکی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، اس لیے اسے دیکھ لیے جانے کا خدشہ بھی نہیں تھا۔ وہ ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے بیٹھ کر حویلی کا جائزہ لینے لگا۔ اسے کسی ایسے راستے کی تلاش تھی جس کے ذریعے وہ اندر داخل ہو سکے۔ اسے کوئی ایسا راستہ تو نظر نہیں آیا مگر حویلی میں داخل ہونے والے بڑے دروازے کے نیچے اتنی خلا ضرور نظر آئ کہ ایک آدمی زمین پر لیٹ کر اور لڑھک کر اندر داخل ہو سکتا تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ اس دروازے پر ایک سپاہی ہاتھ میں چمکدار تلوار لیے پہرا دے رہا تھا۔ دلاور سوچ میں پڑ گیا۔

    پھر اس کی یہ مشکل بھی حل ہوگئی۔ یکا یک بادل زور سے گڑگڑائے اور موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں۔ تھوڑی ہی دیر میں بارش تیز ہوگئی۔ بارش کے پانی سے بچنے کے لیے تمام سپاہی حویلی کے برابر میں ایک گھنے درخت کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ دلاور کے لیے اب راستہ صاف تھا۔ وہ تیزی سے زمین پر رینگتا ہوا آگے بڑھا۔ اس کے سارے کپڑے کیچڑ میں لت پت ہوگئے تھے۔ بڑے دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اس کی نچلی خلا میں سے لڑھک کر اندر داخل ہوا اور پھر کھڑا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

    اسے وہاں پر کوئی سپاہی نظر نہیں آیا۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور دبے قدموں بھاگتا ہوا حویلی کے اندر جانے والے دروازے پر پہنچ گیا۔ اس کی کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی اور اس میں کوئی تالا نہیں تھا۔ اس نے آہستگی سے کنڈی کھولی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔

    اندر دیواروں پر مشعلیں روشن تھیں۔ اسے کئی کمرے نظر آئے۔ ایک کمرے سے اسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ وہ لپک کر اس کمرے کے نزدیک گیا۔ اس کی کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی۔ بارش کی مسلسل موٹی بوندیں گرنے کے شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی مگر اس کے باوجود اس نے بڑی آہستگی اور احتیاط سے کنڈی کھولی اور اندر داخل ہوگیا۔

    اندر دل آرا اور شہزادہ دونوں موجود تھے۔ دل آرا اسے دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آئ۔ دلاور نے فوراً اپنا خنجر نکال کر اسے اپنی گرفت میں لیا اور کمرے سے باہر لا کر بڑے غصے سے بولا ۔ ’’نمک حرام۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘۔

    دل آرا اسے پہچانتی تھی کہ وہ کوتوال کا بیٹا ہے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بولی۔ ’’میں بے قصور ہوں۔ اس غدار غلام جعفر نے اس مکار بادشاہ کے آدمیوں کو بتا دیا تھا کہ شہزادہ مجھ سے بہت مانوس ہے۔ اس لیے وہ مجھے بھی پکڑ کر لے آئے تاکہ شہزادہ زیادہ روئے دھوئے نہ اور میری موجودگی میں بہلا رہے‘‘۔

    اب دلاور کی سمجھ میں سب باتیں آگئیں۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔ باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے۔ شہزادہ بھیگے گا تو رونے لگے گا اور سپاہی ہوشیار ہو جائیں گے‘‘۔

    دل آرا اداسی سے بولی ۔ ’’شہزادے کو ہوش ہی کہاں ہے۔ اسے تیز بخار چڑھ گیا ہے اور وہ بے ہوشی کے عالم میں ہے‘‘۔

    ’’لیکن یہاں سے نکلنا بھی ایک مسلہ ہے۔ تمہیں حویلی کے بڑے دروازے کے نیچے سے نکلنا پڑے گا۔ ہمیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ بارش کی وجہ سے تمام سپاہی ایک درخت کے نیچے کھڑے ہیں۔ اگر بارش رک گئی تو ہمارے لیے ایک اور پریشانی پیدا ہوجائے گی۔ سپاہی درخت کے نیچے سے ہٹ کر پھر پہرا دینے لگیں گے‘‘۔

    دل آرا کچھ سوچ کر بولی۔ ’’آج شام کو شہزادہ اپنی امی کو یاد کر کے بہت رو رہا تھا تو سپاہیوں نے مجھے اجازت دے دی تھی کہ میں اسے باہر ٹہلا لوں۔ میں اسے لے کر باہر نکلی تو میں نے حویلی کے عقب میں ایک چھوٹا سا دروازہ دیکھا تھا۔ اس میں تالا نہیں لگا تھا۔ میں تو چاہ رہی تھی کہ شہزادے کے ساتھ اس دروازے سے نکل کر بھاگ جاؤں مگر باہر پہرا دیتے ہوئے سپاہیوں کے خوف سے رک گئی‘‘۔

    یہ سن کر دلاور نے جلدی سے شہزادے کو اپنی گود میں اٹھایا۔ بخار کی وجہ سے اس کا جسم بے حد گرم ہورہا تھا۔ دل آرا اسے اپنے ساتھ اس چھوٹے دروازے تک لائی اور پھر وہ تینوں بڑی آسانی سے حویلی سے باہر آگئے۔

    دلاور نے شہزادے کو دل آرا کے حوالے کیا اور دوڑ کر اپنا گھوڑا وہاں لے آیا۔ بارش میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ دل آرا نے شہزادے کو اپنی اوڑھنی سے ڈھانپ لیا تھا جس سے وہ بھیگنے سے محفوظ ہوگیا تھا۔

    وہ تینوں گھوڑے پر سوار ہوئے اور پھر دلاور نے اسے تیز رفتاری سے بھگانا شروع کر دیا۔ اس کا وفادار گھوڑا بھی سمجھ گیا تھا کہ اس کا مالک کسی مصیبت میں گرفتار ہے اس لیے وہ سرپٹ دوڑ رہا تھا۔

    صبح سے پہلے پہلے دلاور اپنے گھر پہنچ گیا ۔ کوتوال نے انھیں اور شہزادے کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس نے دلاور کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

    دلاور نے کہا۔ ’’ابا جان۔ اس بات کو ابھی ہمیں بہت خفیہ رکھنا ہے کہ شہزادے صاحب مل گئے ہیں۔ سب سے پہلے آپ اس نمک حرام غلام جعفر کو گرفتار کروائیں۔ اس کے بعد ہم شہزادے کو لے کر بادشاہ سلامت کے پاس چلیں گے‘‘۔

    کوتوال نے اسی وقت غلام جعفر کو گرفتار کروادیا اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر جیل میں بند کردیا۔ پھر وہ دلاور اور دل آرا کے ساتھ شہزادے کو لے کر محل پہنچا۔ بادشاہ اور ملکہ رات بھر بالکل نہیں سوئے تھے۔ انھیں رہ رہ کر اپنا ننھا شہزادہ یاد آرہا تھا۔

    شہزادے کو دیکھ کر دونوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ملکہ نے تو شہزادے کو سینے سے لگا کر جو رونا شروع کیا تو شہزادے کی بھی آنکھیں کھل گئیں۔ ماں کو دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بخار کی شدت سے دوبارہ بے ہوش ہوگیا۔

    بادشاہ نے فوراً شاہی طبیبوں کو بلایا اور انھیں شہزادے کی دیکھ بھال کی ہدایت کی۔ پھر وہ کوتوال کو لے کر اپنے دربار میں آیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے سپاہی بھیج کر فوج کے سپہ سالار کو طلب کیا ۔ سپہ سالار آگیا تو بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسی وقت اپنی فوج لے کر اس مکار بادشاہ کے ملک کی طرف پیش قدمی کرے اور اسے ہر حال میں گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کرے۔

    سپہ سالار اسی وقت اپنی فوج کو لے کر اس مہم پر روانہ ہوگیا۔

    اب بادشاہ دلاور کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کو گلے سے لگایا اور رندھی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’تمہارا یہ احسان ہم پر ایک قرضہ ہے۔ ہم ہمیشہ تمھارے مقروض رہیں گے‘‘۔ ملکہ بھی دلاور کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

    دلاور نے ہاتھ باندھ کر بادشاہ سے کہا۔ ’’جہاں پناہ۔ یہ سن کر مجھے بے حد شرمندگی ہو رہی ہے۔ یہ میرا فرض تھا۔ میں بھی اس ملک کا ایک ادنی' سا سپاہی ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا‘‘۔

    پھر اس نے اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ ’’ان لوگوں نے محل کے ایک غلام جعفر کو دولت کے بل پر خرید لیا تھا۔ اب وہ غلام جیل میں ہے۔ اس نے شہزادے کے اغوا میں ان کی مدد کی تھی۔ دل آرا کو وہ اپنے ساتھ اس لیے لے گئے تھے کہ اس غدار غلام نے انھیں یہ بتا دیا تھا کہ شہزادے صاحب اس کنیز سے بہت مانوس ہیں اور اس کے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں۔ اس لیے وہ دل آرا کو بھی زبردستی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ شہزادے صاحب انھیں زیادہ تنگ نہ کریں‘‘۔

    ’’ایک بات سمجھ میں نہیں آئ۔ مکار بادشاہ نے شہزادے کو اپنے محل میں کیوں نہیں رکھا۔ اتنی دور ایک دیہات کی حویلی میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘۔ بادشاہ نے الجھ کر پوچھا۔

    ’’اس بادشاہ کو یہ ڈر ہو گا کہ اگر شہزادے کو اپنے محل میں رکھا تو آپ فوج کشی کرکے اسے آزاد کروا لیں گے۔ شہزادے صاحب کو حویلی میں رکھنے کی وجہ اس کا یہ ہی خوف ہو سکتا ہے‘‘۔ دلاور نے کہا۔

    دو روز بعد بادشاہ کا بہادر سپہ سالار اس مکار بادشاہ کو گرفتار کر کے لے آیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

    اس کی حالت دیکھ کر بادشاہ نے کہا۔ ’’بہت شرم کی بات ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے بچوں کو ڈھال بنایا جائے۔ تم ایک وزیر تھے۔ تم نے اپنے بادشاہ سے غداری کر کے اسے قید کردیا۔ ہم اس بے قصور بادشاہ کورہائی دلا کر دوبارہ سے بادشاہ بنائیں گے اور جنگ میں حاصل کیا ہوا سارا علاقہ بھی اسے واپس کردیں گے۔ ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ تمہیں اس کے حوالے کردیں گے۔ وہ تمہارے ساتھ جو سلوک بھی کرے اس کی مرضی‘‘۔

    اس بے ایمان اور مکار وزیر نے جب بادشاہ کی یہ بات سنی تو غش کھا کر گرپڑا اور سپاہی اسے اٹھا کر لے گئے۔

    بادشاہ نے دلاور کو بہت سا انعام و اکرام دیا اور آئندہ محل کی حفاظت کے لیے اس کو نگران مقرر کردیا۔ دلاور کے ماں باپ اس کی عقلمندی اور بہادری سے بہت خوش تھے جس کے نتیجے میں وہ ایک بڑے منصب پر فائز ہوگیا تھا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے