شہزادے کی ضد
یہ بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جس کی عمر چھ سال تھی اور نام تھا شامی۔ شہزادہ شامی اپنے باپ سے بہت محبّت کرتا تھا، مگر دوسرے بچوں کی طرح اس کی بھی باپ سے محبّت صرف دن دن کی ہوا کرتی تھی۔ رات کو وہ اپنی ماں ملکہ حسن بانو کے پیچھے لگ جاتا۔ وہ اسے کھانا کھلاتی، شب خوابی کا لباس پہناتی، پھر اپنے پاس لٹا کر چڑیا چڑے کی کہانی سناتی۔ کہانی سنتے سنتے ہی وہ سوجایا کرتا تھا۔
ایک روز بادشاہ کو کسی کام سے دوسرے ملک جانا پڑ گیا۔ جب وہ سفر پر روانہ ہونے لگا تو شہزادہ شامی ضد کرنے لگا کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گا۔ بادشاہ کو اپنے شہزادے سے بہت محبّت تھی۔ اس کی ضد دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا۔
بادشاہ کی پریشانی دیکھ کر ملکہ حسن بانو نے ہنس کر کہا ۔ “آپ پریشان نہ ہوں۔ میں شہزادے کو بہلا لوں گی۔ ہمارا شہزادہ ضد تھوڑا ہی کرتا ہے۔ ضد تو گندے بچے کرتے ہیں”۔
“امی حضور۔ ہم ضد نہیں کررہے۔ ہم تو صرف ابّا حضور کے ساتھ جانے کو کہہ رہے ہیں”۔ شہزادہ شامی نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوۓ کہا۔
“ٹھیک ہے۔ لیکن شہزادے اگر آپ چلے گئے تو پھر آپ کی پڑھائی لکھائی کا کیا ہوگا۔ آپ کے اتالیق پوچھیں گے نہیں کہ شہزادے صاحب کہاں چلے گئے؟”۔ ملکہ نے کہا۔
“تو پھر آپ ایسا کریں کہ ہمارے اتالیق کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ ہم وہاں پڑھ لکھ بھی لیا کریں گے، اس طرح ہماری تعلیم کا بھی نقصان نہیں ہوگا”۔ شہزادے نے خوش ہو کر کہا۔
“لیکن شہزادے یہ بھی تو دیکھیے، آپ کے ابّا حضور بھی چلے جائیں گے، آپ بھی ان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ میں یہاں اکیلی رہ کر کیا کروں گی۔ پھر جشن بہاراں کا میلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ اس دفعہ ہمارے ملک میں خدا کے فضل سے فصلیں بہت اچھی ہوئی ہیں۔ اس خوشی میں پورے ملک کے کسان اس میلے میں شرکت کے لیے آئیں گے۔ طرح طرح کے کھیل تماشے ہونگے، جانوروں کی نمائش ہوگی، بڑے بڑے جھولے لگے ہونگے، نٹ مزے مزے کا کرتب دکھا رہے ہونگے، گھوڑوں اور اونٹوں کا ناچ ہوگا جو ڈھول تاشوں کی آواز پر رقص کررہے ہونگے۔ یہ سب چیزیں دیکھنے میں کتنا مزہ آئے گا”۔
شہزادہ شامی کی آنکھوں میں دلچسپی کی چمک پیدا ہوئی۔ اس نے پہلی دفعہ سنا تھا کہ گھوڑے اور اونٹ بھی رقص کرتے ہیں۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ “ابّا حضور۔ آپ سفر پر روانہ ہوں۔ ہم آپ کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ امی حضور محل میں اکیلی ہونگی، رات کو اگر کوئی بھوت یا چڑیل آگئی تو کیا ہوگا۔ ہم ان کے پاس ہی رہیں گے”۔
شہزادے شامی کا یہ معصوم سا بہانہ سن کر بادشاہ کو ہنسی آگئی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میلے کے متعلق باتیں سن کر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ اس نے کہا ۔ “بیٹے۔ جب تم میلہ دیکھنے جاؤ تو اپنی امی حضور کے ساتھ ساتھ ہی رہنا۔ وہاں بہت زیادہ بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے، کہیں کھو مت جانا”۔ یہ کہہ کر بادشاہ اپنے وزیر اور سپاہیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوگیا۔
چند روز بعد ملکہ شہزادے کو اپنے ساتھ میلہ دکھانے لے گئی۔ یہ میلہ مسلسل ایک ماہ تک لگتا تھا۔ وہ اور شہزادہ ایک بگھی میں سوار تھے اور بہت سے سپاہی ان کے ہمراہ تھے۔ میلہ ایک بہت بڑے میدان میں لگا تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ وہاں نظر آرہے تھے۔ جگہ جگہ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے کے لیے خوانچہ فروش ادھر سے ادھر گھومتے پھر رہے تھے۔ رنگ برنگے گھاگرے پہنی عورتیں لکڑی اور مٹی کے کھلونے بیچ رہی تھیں۔
میلے میں یہ چہل پہل دیکھ کر شہزادہ شامی کو بہت مزہ آرہا تھا۔ اس نے چپکے سے ملکہ کے کان میں کہا۔ “اچھا ہوا ہم ابّا حضور کے ساتھ نہیں گئے”۔ اس کی بات سن کر ملکہ مسکرانے لگی۔
ایک جگہ شہزادے نے بہت سے لوگوں کو بڑے بڑے ڈھول بجاتے دیکھا۔ یہ منظر اس کو اتنا پسند آیا کہ اس نے کھڑکی میں سے سر نکال کر بگھی بان سے کہا کہ وہ بگھی روک دے۔ پھر وہ دلچسپی سے ڈھول بجانے والوں کو دیکھنے لگا۔ ان ڈھولوں کو انہوں نے گلے سے لٹکا رکھا تھا اور لکڑی کی موٹی موٹی چھڑیوں سے زور زور سے بجا رہے تھے۔ ڈھول بجانے والوں نے زرد رنگ کے لباس پہن رکھے تھے اور سر پر سرخ رنگ کی پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں۔
شہزادے نے اپنی زندگی میں ڈھول پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے بگھی چلانے والے سے پوچھا ۔ “یہ کیا چیز ہے اور اس میں سے اتنی تیز آواز کیوں آ رہی ہے” ۔
شہزادے کی بات سن کر وہ مسکرانے لگا اور بولا ۔ “شہزادے صاحب اس کا نام ڈھول ہے اور لوگ اسے خوشیوں کے موقعوں پر بجاتے ہیں۔ انہیں شیشم کی لکڑی اور بھینس کی کھال سے بنایا جاتا ہے اور انہیں بانس کی چھڑی سے بجایا جاتا ہے”۔
یہ تمام معلومات شہزادہ شامی کے لیے بالکل نئی تھیں، اس نے انہیں بڑی حیرت اور دلچسپی سے سنا۔ کافی دیر گھومنے پھرنے کے بعد وہ لوگ محل لوٹے۔ شہزادہ شامی کی آنکھیں کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ رات کو جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو اس نے ملکہ سے
کہا ۔ “امی حضور۔ ہمیں ایک بڑا سا ڈھول چاہیے۔ ہم اسے بجائیں گے ویسے ہی جیسے وہ لوگ بجا رہے تھے”۔
ملکہ نے کہا ۔ “شہزادے جانی۔ ہم آپ کو ڈھول نہیں دلائیں گے۔ آپ ایک شہزادے ہیں۔ شہزادے ڈھول نہیں بجا تے۔ یہ بھی تو سوچیئے کہ لوگ کیا کہیں گے، ایک شہزادہ ڈھول بجا رہا ہے”۔
“ہم لوگوں کو منع کردیں گے کہ وہ ایسا نہ سوچیں۔ بس صبح آپ ہمیں ایک ڈھول منگوا کر دے دیجیے گا” ۔ شہزادے نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور تھوڑی دیر بعد سو گیا۔
صبح ملکہ تو اس بات کو بھول بھی چکی تھی مگر شہزادے نے اٹھتے کے ساتھ ہی اس کے بارے میں پوچھا۔ ملکہ اس کی ضد سے تنگ آگئی تھی، اس نے اسے ڈانٹ دیا۔ ڈانٹ سن کر شہزادہ رونے لگا۔
ملکہ نے کہا ۔ “کل آپ کےابّا حضور تشریف لے آئیں گے۔ ہم ان سے آپ کی شکایت کریں گے۔ آپ کیسے بچے ہیں کہ اپنے شوق کی خاطر ماں باپ کی عزت کا ذرا سا بھی خیال نہیں ہے”۔
ملکہ کے سخت جملے سن کر شہزادہ خاموش تو ہوگیا مگر دوپہر تک اسے تیز بخار نے آ لیا۔ اس پر نیم بیہوشی طاری ہو گئی تھی، ادر وہ غنودگی میں بھی بڑبڑا رہا تھا ۔ “مجھے ڈھول چاہیے۔ مجھے ڈھول چاہیے۔ میں ڈھول بجاؤں گا”۔
اس کی حالت دیکھ کر ملکہ گھبرا گئی اور محل کے طبیبوں کو طلب کر لیا۔ انہوں نے شہزادے کا معائینہ کیا۔ اس کو دوائیں دیں۔ ان میں سے ایک طبیب نے ملکہ سے کہا کہ شہزادے صاحب ضد میں آئے ہوۓ ہیں اور انہوں نے کسی بات کو ذہن پر سوار کر لیا ہے، ایسے حالات میں دوائیں اثر نہیں کرتیں۔ شہزادے کا بخار اسی وقت اترے گا جب ان کی ضد پوری کردی جائے گی”۔
یہ کہہ کر طبیب تو چلے گئے مگر ملکہ پریشان ہوگئی۔ ساری رات اس پریشانی میں گزر گئی۔ شہزادے کا بخار اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ صبح ہی صبح کنیزوں اور غلاموں کا شور و غوغا مچا ۔ “بادشاہ سلامت تشریف لے آئے ہیں۔ مبارک ہو۔ سلامت ہو”۔
ملکہ دوڑ کر کھڑکی کے نزدیک گئی۔ بادشاہ محل کے صدر دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا۔ وہ سیدھا ملکہ کے پاس آیا۔ اس نے ملکہ کا پریشان چہرہ دیکھا تو خود بھی پریشان ہوگیا۔ “ملکہ عالیہ۔ کیا بات ہے آپ کچھ پریشان سی نظر آتی ہیں؟”۔
ملکہ نے جلدی جلدی اسے شہزادے کی ضد کے بارے میں بتایا اور بولی۔ “ہماری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم کیا کریں۔ نہ کبھی سنا نہ کبھی دیکھا کہ ایک شہزادہ ڈھول بجا رہا ہے۔ شہزادے نے تو عجیب ضد لگا لی ہے”۔
بادشاہ اس کی بات سن کر مسکرایا اور شہزادے کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولا۔ “اب ہم آگئے ہیں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ تعجب ہے ملکہ آپ اتنی سی بات سے پریشان ہوگئی ہیں۔ شہزادہ بچہ ہے، بچے تو ضد کرتے ہی ہیں۔ آپ نے کبھی ہمیں ضد کرتے ہوۓ دیکھا ہے۔ ہم بھی بچپن میں بہت ضدی تھے مگر بڑے ہو کر ٹھیک ہوگئے ہیں۔ بڑے ہو کر سب ٹھیک ہوجاتے ہیں”۔
شہزادے کو تیز بخار تھا اور وہ نیم بے ہوش سا تھا۔ بادشاہ نے اسے گود میں اٹھایا اور آواز دی۔ بادشاہ کی آواز سن کر شہزادے نے آنکھیں کھول دیں۔ باپ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے بادشاہ کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ بادشاہ نے اسے بستر پر بٹھایا اور پھر تالی بجائی۔
کمرے کے دروازے پر موجود دربان اندر آیا۔ “ہمارے سامان میں ایک خوبصورت چمڑے کا صندوق ہے، اسے پیش کیا جائے”۔ بادشاہ نے دربان سے کہا۔
دربان نے جھک کر کہا ۔ “ابھی حاضر کیا جاتا ہے حضور بادشاہ سلامت”۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک غلام وہ ہی صندوق لے کر حاضر ہوگیا اور دیوار کے ساتھ رکھی لکڑی کی میز پر رکھ کر رخصت ہوگیا۔
“شہزادے۔ ہمیں افسوس ہے کہ آپ بیمار ہوگئے ہیں۔ مگر ہم آپ کے لیے جو چیزیں لے کر آئے ہیں، انھیں دیکھ کر آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے”۔ بادشاہ نے مسکرا کر کہا۔
بادشاہ کی بات سن کر شہزادہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی تھیں۔ ملکہ اسے خوش دیکھ کر خود بھی خوش ہوگئی اور کہنے لگی۔ “دیکھیے شہزادے۔ آپ کے ابّا حضور آپ کے لیے اچھی اچھی چیزیں لائے ہیں۔ چلیے اب ہم سے وعدہ کیجیے کہ اس کے بعد ڈھول کی ضد نہیں کریں گے”۔
ڈھول کا نام سن کر شہزادے کو پھر سب کچھ یاد آگیا۔ وعدہ تو وہ کیا کرتا، اس نے کُٹّی والی انگلی ملکہ کو دکھائی اور دوسری طرف گھوم کر گھٹنوں میں منہ دے کر بیٹھ گیا۔ اس کی اس حرکت پر ملکہ چڑ گئی، جل کر بولی۔ “ٹھیک ہے۔ “ آپ کے ابّا حضور تشریف لے آئے ہیں۔ خود ہی نمٹ لیں گے”۔
بادشاہ مسکراتے ہوۓ اٹھا۔ شہزادے کو احساس ہوگیا کا بادشاہ بستر سے اٹھ گیا ہے۔ اس نے گھٹنوں میں سر دیے دیے ایک بازو تھوڑا سا اٹھا کر اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ بادشاہ میز پر رکھے صندوق کی جانب جا رہا تھا۔ شہزادہ دل میں سوچنے لگا جانے ابّا حضور میرے لیے کیا لائے ہیں۔
اچانک تھوڑی دیر بعد اس کے کانوں میں آواز گونجی “ڈھم ڈھما ڈھم ڈھم”۔ اس نے چونک کر پیچھے گھوم کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہے بادشاہ کے ہاتھوں میں ایک بڑا سا ڈھول ہے اور اس میں ایک پٹی بھی موجود ہے تاکہ اسے گلے میں لٹکا لیا جائے۔
شہزادہ جلدی سے بستر سے چھلانگ مار کر نیچے اترا اور بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ مارے خوشی کے اس کا برا حال تھا۔ ملکہ حیرت کے مارے گنگ ہو کر رہ گئی تھی۔ بادشاہ اس کی حیرانی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ “پیاری ملکہ۔ ابھی تو آپ مزید حیران ہونگی۔ اس صندوق میں ایسی ایسی چیزیں موجود ہیں”۔
شہزادے نے خوشی سے تالیاں بجاتے ہوۓ کہا۔ “ابا حضور آپ کتنے اچھے ہیں”۔
شہزادے کو جتنی جلدی بخار چڑھا تھا، ڈھول کو دیکھ کر اتنی ہی جلدی اتر بھی گیا تھا۔
بادشاہ نے ملکہ سے کہا “ہم جب اپنے دوست کے ملک میں پہنچے تو وہاں بھی جشن بہاراں منایا جا رہا تھا۔ ان کا بھی بیٹا ہمارے شہزادے جتنا ہے۔ اپنے بیٹے کو انہوں نے ایک کسان کا سوانگ بھروا یا جس کی فصل بہت اچھی ہوتی ہے اور وہ اس خوشی کا اظہار ڈھول بجا کر کرتا ہے۔ یہ تماشا ہم نے اپنے دوست بادشاہ اور ان کی ملکہ کے ساتھ دیکھا تھا اور ہمیں اتنا پسند آیا کہ ہم نے بھی فیصلہ کرلیا کہ اپنے شہزادے کو کسان بنا کر اس میلے میں خود بھی شرکت کریں گے۔ ہمارے اس فیصلے سے ہمارے دوست بادشاہ بھی بہت خوش تھے۔ انہوں نے یہ ڈھول اور شہزادے کے رنگ برنگے کپڑے ہمیں تحفے میں دیے ہیں۔ انہوں نے ہمیں ایک بڑے کام کی بات بھی بتائی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر سال جشن بہاراں کے موقع پر اپنی رعایا میں ان ہی کی طرح کا کوئی بھیس بدل کر ان کی خوشیوں میں شرکت کرتے ہیں، کبھی مزدور بن گئے، کبھی تاجر، کبھی پھل بیچنے والا، کبھی دھوبی، کبھی حجام اور کبھی گلی محلوں میں جھاڑو لگانے والا خاکروب۔ ہماری ان باتوں سے وہ لوگ بہت خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بادشاہ ان کی خوشیوں میں بھرپور طریقے سے شرکت کرتا ہے اور کوئی سا بھی روپ دھار کر اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا”۔
ملکہ حیرانی سے بادشاہ کی باتیں سن رہی تھی۔ بادشاہ خاموش ہوا تو وہ بولی۔ “ہم تو ناحق شہزادے کی فرمائش سن کر پریشان ہو گئے تھے کہ جب وہ ڈھول بجائے گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہماری وجہ سے ہمارا شہزادہ بیمار پڑ گیا تھا۔ واقعی اپنی رعایا کے ساتھ گھل مل جانا کوئی بری بات نہیں ہے”۔
پھر بادشاہ نے شہزادے کو وہ کپڑے دکھائے جو اس کے دوست بادشاہ نے اس کے لیے دئیے تھے۔ ان کپڑوں میں سفید پاجامہ، پیلے رنگ کا کرتا، گلابی رنگ کی واسکٹ اور ہلکے نیلے رنگ کی پگڑی تھی۔ پاؤں میں پہننے کے لیے سنہری کامداری کھّسے تھے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر شہزادہ تو بہت ہی خوش ہوا۔ بادشاہ نے اسی وقت اپنے وزیر کو بلا کر اسے ہدایت کی کہ وہ کل میلے میں ایک پنڈال کا انتظام کروادے کیوں کہ وہ ملکہ اور شہزادے کے ساتھ میلے میں شرکت کرے گا۔
اگلے روز سب میلے میں پہنچے۔ شہزادہ کسان کے روپ میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ بادشاہ نے اسے بگھی کے اندر ہی چھپایا ہوا تھا۔ میلے میں پہنچ کر جب سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو وزیر نے اعلان کیا کہ اب ان کے سامنے ایک ایسے کسان کو پیش کیا جائے گا جس کی فصلیں بہت اچھی ہوئی ہیں اور وہ خوشی سے نہال ہے۔
اس اعلان کا بعد شہزادہ شامی بگھی میں سے نکلا۔ لوگوں نے جب اپنے شہزادے کو کسان کے روپ میں دیکھا تو وہ خوشی سے بے حال ہوگئے۔ لوگوں نے شہزادے کو خوش آمدید کہنے کے لیے تالیاں بجائیں۔ جن کو سیٹی بجانا آتی تھی انہوں سیٹیاں بجائیں۔ باقی لوگ مختلف نعرے لگا رہے تھے۔ اسی دوران وہاں سے کچھ لوگ ڈھول بجاتے ہوۓ نکل رہے تھے، انہوں نے جب شہزادے کو کسان بنا دیکھا تو وہ وہیں رک گئے۔ وہ زور زور سے ڈھول بجا رہے تھے۔ شہزادہ بھی ان کے پاس پہنچ گیا اور خود بھی ڈھول بجانے لگا۔
یہ تماشہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ شہزادے کو خوش دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ بھی بہت خوش تھے۔ میلے میں شرکت کرنے والوں کی بھی خوشیاں دوبالا ہوگئی تھیں۔ دوپہر ہوئی تو بادشاہ نے واپسی کی ٹھانی۔ ابھی وہ لوگ وہاں سے روانہ نہیں ہوۓ تھے کہ شہزادے نے ایک نوجوان کو دیکھا، اس کے پاس گھوڑے کا ایک بہت چھوٹا سے خوبصورت بچہ تھا۔ شہزادہ اس گھوڑے کے بچے کو دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا۔ وہ تھا ہی اتنا خوبصورت۔
وہ نوجوان شہزادے کے پاس آیا اور بولا ۔ “شہزادے صاحب۔ میرے پاس کتنا خوبصورت گھوڑے کا بچہ ہے۔ اگر آپ اپنا ڈھول مجھے دے دیں تو میں اس کے بدلے میں یہ گھوڑے کا بچہ آپ کو دے دوں گا”۔
سچی بات یہ تھی کہ شہزادہ ڈھول بجا بجا کر تھک گیا تھا، اس کو گلے میں لٹکائے لٹکائے اس کی گردن میں بھی درد ہوگیا تھا۔ اس کی آواز اتنی تیز تھی کہ اس کے کان ابھی تک سائیں سائیں کر رہے تھے۔ اسے ڈھول میں یکدم کئی برائیاں نظر آنے لگیں اور چمکدار آنکھوں والا گھوڑے کا بچہ اچھا لگنے لگا۔
اس نے ملکہ سے کہا ۔ “امی حضور۔ اگر اجازت ہو تو ہم اپنا ڈھول دے کر گھوڑے کا یہ پیارا سا بچہ لے لیں؟”۔
ملکہ نے فوراً اجازت دے دی۔ شہزادے نے ڈھول دے کر گھوڑے کا بچہ لیا اور خوشی خوشی محل آگیا۔ محل پہنچ کر وہ اس کو لے کر باغ میں پہنچا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔ گھوڑے کا بچہ بھی اتنی سی دیر میں اس سے مانوس ہوگیا تھا۔ شہزادہ شامی دوڑ کر اس سے دور جاتا اور اشارے سے اسے بلاتا تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچ جاتا۔
بادشاہ اور ملکہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ نے ملکہ سے کہا ۔ “دیکھا ہم نے تھوڑی سمجھداری سے کام لیا تو شہزادے کی توجہ اس ڈھول کی طرف سے ہٹ گئی۔ اس نوجوان کو ہم نے ہی گھوڑے کا بچہ لے کر بھیجا تھا”۔
ملکہ مسکراتے ہوۓ بولی ۔ “شہزادے کے اس شوق سے میں تو پریشان ہو گئی تھی ۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ کی عقلمندی کام آگئی”۔
بادشاہ نے کہا “ملکہ۔ اتنی عمر کے بچے عجیب عجیب ضدیں کرتے ہیں۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں صبر و تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔ ایسے معاملات میں غصہ کرنا اور بچوں پر سختی کرنا مناسب نہیں۔ دیکھا نہیں اس ذرا سی بات کی وجہ سے شہزادے نے اپنے ذہن پر کتنا اثر لے لیا تھا اور بیمار پڑ گیا تھا۔ بات حالانکہ معمولی تھی”۔
ملکہ شرمساری سے بولی “غلطی میری تھی۔ اگر میں نرمی سے کام لیتی تو شہزادہ ضد میں آ کر بیمار بھی نہیں ہوتا۔ بچوں کی ضدیں اگر بے ضرر ہوں تو انھیں ماننے میں کوئی حرج نہیں”۔
اسی وقت ان کے کانوں میں شہزادے کے ہنسنے کی آواز آئ۔ انہوں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، شہزادہ اس کونے سے اس کونے تک گھوڑے کے بچے سے دوڑ کا مقابلہ کر رہا تھا ۔ گھوڑے کا بچہ حالانکہ تیز بھاگ رہا تھا مگر شہزادہ شامی کے بھاگنے کی رفتار زیادہ تھی اور وہ جیت گیا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ بھی مسکرانے لگے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.