شہزادی کی تین شرطیں
شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔ جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا کہ اس کی شادی کس سے کرے۔ اس نے اس بارے میں ملکہ سے بھی مشورہ کیا مگر وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اس لیے یہ معاملہ حل نہ ہوسکا۔
وہ دونوں پڑوسی ملکوں کے شہزادے تھے۔ ایک شہزادے کا نام شان دار تھا اور وہ نہایت نیک، عقلمند، بہادر اور بہت خوب صورت تھا۔ دوسرے شہزادے کا نام دلشاد تھا۔ وہ نہ تو نیک اور عقلمند تھا اور نہ ہی بہادر۔ اس نے چپکے چپکے دل میں سوچ لیا تھا کہ شہزادی نگینہ سے شادی کرنے کے بعد کوئی سازش کر کے بادشاہ کے تخت پر قبضہ کر لے گا۔
چونکہ شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتی ہے اس لیے ملکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں شہزادی نگینہ سے اس کی رائے معلوم کرے گی – وہ جس شہزادے کو بھی پسند کرلے گی، اس سے اس کی شادی کروادی جائے گی۔
جب اس نے دونوں شہزادوں کے بارے میں ساری معلومات بتا کر شہزادی نگینہ سے اس کی پسند پوچھی تو وہ بولی۔ “امی حضور۔ آپ نے میری تربیت کچھ اس طرح کی ہے کہ میں اپنے ماں باپ کے فیصلوں پر سر جھکانے والی لڑکی بن گئی ہوں۔ آپ جہاں بھی کہیں گی اور جس سے بھی کہیں گی میں شادی کرلوں گی”۔
ملکہ یہ بات سن کر خوش ہوگئی۔ اس نے شہزادی نگینہ کو گلے سے لگا کر پیار کیا اور بولی۔“جیتی رہو۔ تمہارے لیے دو شہزادوں کے رشتے آئے ہیں جن کے بارے میں ہم تفصیل تمہیں بتا ہی چکے ہیں۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کسے ہاں کریں اور کسے نہ۔ تم فیصلہ کر کے ہمیں بتا دو کہ کس شہزادے سے شادی کرنا پسند کرو گی”۔
“امی حضور۔ شادی کے لیے آپ کا جو فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہوگا”۔ شہزادی نگینہ نے دھیرے سے اپنی بات دوہرائی۔
“میں کہہ تو رہی ہوں کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا”۔ ملکہ نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
شہزادی نگینہ کچھ سوچ کر بولی۔ “تو پھر ٹھیک ہے۔ میں اس شہزادے سے شادی کروں گی جو میری تین شرطیں پوری کرے گا”۔
“وہ شرطیں کیا ہیں؟”۔ ملکہ نے حیرانی سے پوچھا۔
“میری پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے جس میں آدم خور مگرمچھ رہتا ہے۔ میری دوسری شرط یہ ہے کہ وہ چاولوں سے بھری ایک پوری دیگ کھائے۔ میری تیسری اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سوتا ہوا گھوڑا لائے اور اس پر سواری کر کے دکھائے”۔ شہزادی نگینہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ملکہ اسے حیرت سے گھورنے لگی اور پھر اٹھتے ہوئے بولی۔ “اس کا مطلب ہے کہ تم شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہو۔ کوئی بھی تمہاری یہ عجیب و غریب شرطیں پوری نہیں کر سکے گا۔ تمہیں پتہ ہے تالاب کا آدم خور مگرمچھ کتنا خوفناک اور بڑا ہے، کس میں ہمت ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے۔ پھر کون سا شہزادہ دیگ بھر کر چاول کھا سکے گا۔ شہزادے تو ویسے بھی نرم و نازک ہوتے ہیں، تھوڑا سا ہی کچھ کھا لیں تو ان کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ اور سوتے ہوئے گھوڑے پر بھلا کون سواری کرکے دکھائے گا۔ گھوڑا سوئے گا یا بھاگتا پھرے گا؟”
اس کی باتیں سن کر شہزادی مسکرانے لگی۔ اسے مسکراتا دیکھا تو ملکہ کو تھوڑا سا غصہ آگیا۔ اس لیے وہ خفگی سے اٹھ کر بادشاہ کے پاس آئی اور اس سے اس کی لاڈلی بیٹی کی شکایت کی۔
اس کی بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا۔ “ملکہ۔ آپ شائد بھول گئی ہیں۔ آپ نے بھی تو اپنی شادی کے لیے تین شرطیں رکھی تھیں۔ بہت سارے شہزادے ان شرطوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ مگر انھیں ہم نے پورا کر کے دکھایا تھا کہ نہیں؟”
ملکہ کو وہ پرانی باتیں یاد آگئی تھیں۔ انھیں سوچ کر وہ مسکرانے لگی اور بولی۔ “امی حضور میری شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کرنا چاہ رہی تھیں اور وہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ اسی لیے میں نے وہ شرطیں رکھی تھیں۔ پھر میری شرطیں تو ہمت اور جواں مردی والی تھیں۔ ایک آدم خور شیر کو خنجر سے مارنا تھا جس نے کئی انسانوں کو اپنا نوالہ بنا لیا تھا، معصوم لوگوں کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو گرفتار کرنا تھا ، جنہوں نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور پہاڑ کو کاٹ کر ایک نہر نکال کر کسانوں کی بنجر زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ آپ نے وہ تمام شرطیں پوری کی تھیں۔ آپ بہادر اور ہمت والے بھی تو بہت تھے”۔
“لیکن ملکہ۔ کبھی کبھی ہم یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی شرطوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتے تو پھر آپ سے تو ہماری شادی ہی نہ ہوتی”۔ بادشاہ نے فکرمند ہو کر کہا۔
“کیوں نہیں ہوتی”۔ ملکہ نے اٹھلا کر کہا۔ “میں اپنی شرطوں میں یہ تبدیلی کر دیتی کہ آپ انہیں شادی کے بعد بھی پورا کر سکتے ہیں”۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی۔ “ پہلے میری یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شہزادی کی شادی کس سے کریں۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ اپنی بے سروپا شرطوں سے باز آجائے”۔
“اس بارے میں آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہماری شہزادی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند بھی ہو۔ اگر کوئی ذرا سی بھی عقل لڑائے تو شہزادی کی شرطیں بہ آسانی پوری کرسکتا ہے۔ ہم دونوں شہزادوں کے سامنے شہزادی نگینہ کی شرطیں رکھ دیں گے۔ جس نے بھی انہیں پورا کردیا، اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی”۔
پھر بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ اس نے ایلچی بھیج کر دونوں شہزادوں کو ان کے ملک سے اپنے محل میں بلوا لیا۔ دونوں شہزادے اپنے اپنے مصاحبوں اور غلاموں کے ساتھ حاضر ہوگئے۔ بادشاہ نے سب کو شاہی مہمان خانے میں ٹہرایا اور ان کی خاطر مدارات کے لیے خاص انتظامات بھی کر وا دیے۔
جب شام کو بادشاہ ان شہزادوں سے ملا تو اسے شہزادہ شان دار بہت پسند آیا۔ وہ اس کی شکل و صورت اور وجاہت سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کا باپ بہت اچھے طریقے سے اپنے ملک پر حکومت کر رہا تھا جس کی وجہ سے رعایا بہت خوش حال تھی۔ ملکہ کو بھی وہ شہزادہ بہت پسند آیا۔
دوسرا شہزادہ جس کا نام دلشاد تھا دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ بادشاہ کو محسوس ہوا کہ وہ ایک خوش آمدی اور چاپلوس قسم کا نوجوان ہے۔ اس بات سے بادشاہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ نہایت چالاک اور عیار آدمی ہوگا۔
ملکہ کو تو شہزادہ شان دار اتنا اچھا لگا کہ وہ شہزادی نگینہ کے پاس گئی اور اس سے بولی۔ “بیٹی۔ تم اپنی شرطیں واپس لے لو اور شہزادہ شان دار سے شادی کرلو۔ ایسا شوہر تو قسمت سے ہی ملتا ہے۔ اگر پہلی شرط کے دوران ہی مگرمچھ اسے کھا گیا تو بہت برا ہوگا”۔
شہزادی نگینہ نے اٹل لہجے میں کہا۔ “اگر میں اپنی شرطیں واپس لیتی ہوں تو اس میں میری بے عزتی ہے۔ شہزادہ اگر میری شرطیں پوری کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے گھر جائے”۔ ملکہ مایوس ہو کر لوٹ گئی۔
دونوں شہزادوں کی ملاقات شہزادی نگینہ سے کروائی گئی۔ وہ انھیں محل سے کچھ دور جنگل کے نزدیک تالاب تک لائی اور ان سے کہا۔ “یہ ہے وہ تالاب جس میں ایک آدم خور خونخوار مگرمچھ رہتا ہے۔ کیا آپ دونوں اس تالاب میں تیر کر دکھائیں گے؟”۔
اس کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت ایک بہت بڑا مگرمچھ اپنا منہ کھولے تالاب کے کنارے پر آگیا۔
اسے دیکھ کر شہزادہ دلشاد خوفزدہ ہوگیا اور بولا۔ “جان ہے تو جہان ہے۔ میں تو اس تالاب میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔ شہزادی کی دوسری شرطیں بھی بہت سخت ہیں۔ دیگ بھر کر چاول تو کوئی دیو ہی کھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میں سوتا ہوا گھوڑا کہاں سے لاؤں گا اور اس پر سواری کیسے کروں گا۔ میں تو چلا۔ مجھے نہیں کرنی یہ شادی”۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد شہزادہ شان دار نے کہا۔ “شہزادی صاحبہ۔ کل میں آپ کو اس تالاب میں تیر کر دکھاؤں گا”۔
رات ہوئی تو اس کے ساتھ آئے ہوئے غلاموں نے تالاب میں ایک بڑا سا جال ڈال کر مگرمچھ کو پکڑ لیا اور دور ایک دریا میں چھوڑ آئے۔
اگلی صبح ملکہ، بادشاہ اور شہزادی نے دیکھا کہ شہزادہ مزے سے تالاب میں تیرتا پھر رہا ہے۔ شہزادی نے پوچھا۔ “اس مگرمچھ کا کیا ہوا۔ وہ کہاں ہے؟”۔
“اسے میں نے پکڑوا کر دریا میں چھڑوا دیا ہے۔ آپ کی پہلی شرط میں نے پوری کردی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات پر اعتراض نہیں کریں گی کہ میں نے مگرمچھ کو دریا میں کیوں چھڑوایا۔ آپ کی شرط صرف تالاب میں نہانے کی تھی، مگرمچھ سے لڑنا نہیں”۔ شہزادے نے تالاب سے باہر آتے ہوئے کہا۔
ملکہ نے یہ بات حیرانی سے سنی۔ بادشاہ ،مسکرا رہا تھا۔ شہزادی نے کہا۔ “بالکل ٹھیک شہزادے۔ آپ پہلی شرط جیت چکے ہیں۔ میری شرط ہی یہ تھی کہ آپ تالاب میں تیر کر دکھائیں۔ میں آپ کی ذہانت کی قائل ہوگئی ہوں”۔
دوپہر ہوئی تو شہزادی نگینہ نے کہا۔ “شہزادے۔ آپ مجھے دیگ بھر کر چاول کھا کر کب دکھائیں گے؟”
شہزادے نے کہا۔ “ابھی تھوڑی دیر بعد”۔ یہ کہہ کر شہزادے شان دار نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ اس کا ایک مصاحب دو غلاموں کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا محل کی جانب آرہا تھا۔ شہزادہ شان دار بادشاہ سے اجازت لے کر باہر نکلا اور اپنے مصاحب سے کوئی چیز لے کر جیب میں رکھی اور واپس آگیا۔
اتنی دیر میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا۔ وہ اپنے ساتھ چاولوں کی ایک بڑی سی دیگ بھی لے کر آئے تھے جسے انہوں نے دسترخوان کے بیچوں بیچ رکھ دیا۔
دیگ کو دیکھ کر بادشاہ کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آئے۔ “کیوں میاں صاحبزادے۔ آپ کھالیں گے دیگ بھر کر چاول؟” اس نے شہزادے سے پوچھا۔
“ایک دیگ تو کیا میں تو دو دیگیں بھی کھاسکتا ہوں”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار نے اپنی جیب سے ایک نہایت چھوٹی سی دھاتی دیگ نکالی جو اس کے ملازم بازار سے خاص طور سے بنوا کر لائے تھے۔ اس نے اسے چاولوں سے بھرا اور شہزادی نگینہ کے سامنے پوری دیگ چٹ کر گیا۔
“شہزادی صاحبہ۔ آپ کی دوسری شرط بھی پوری ہوگئی ہے۔ میں نے دیگ بھر کر چاول کھا لیے ہیں”۔ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوۓ شہزادی سے کہا۔
اس کی بات سن کر شہزادی نگینہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔
بادشاہ نے ملکہ سے کہا۔ “بیگم۔ اب اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں شروع کردو۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ شہزادے میاں تو سوتے ہوئے گھوڑے پر بھی سواری کر کے دکھا دیں گے”۔
شام کو بادشاہ، ملکہ اور شہزادی نگینہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ اچانک انہوں نے شہزادہ شان دار کو ایک گھوڑے کے ساتھ آتے دیکھا۔
وہ قریب آیا تو بادشاہ حیرت سے بولا۔ “شان دار بیٹے یہ گھوڑا لیے کہاں پھر رہے ہو؟”
شہزادہ شان دار نے بڑے فخر سے بتایا۔ “یہ گھوڑا نہایت قیمتی ہے۔ میں اسے منڈی سے خرید کر لا رہا ہوں۔ اس کے مالک نے مجھے بتایا تھا کہ یہ حاتم طائ کے گھوڑوں کی نسل سے ہے۔ اس کا تو میں نے ایک بڑا اچھا سا نام بھی رکھ لیا ہے”۔
گھوڑا واقعی بہت خوب صورت تھا۔ شہزادی نگینہ کو بھی بے حد پسند آیا۔ اس کا رنگ ہلکا کتھئی تھا اور اس کی گردن پر بڑی بڑی چمکدار ایال تھی۔ “شہزادے۔ کیا نام رکھا ہے آپ نے اس کا ؟” اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
“شہزادی صاحبہ۔ میں نے اس کا نام رکھا ہے “سوتا ہوا گھوڑا”۔ چونکہ یہ میرا گھوڑا ہے، میں جو بھی اس کا نام رکھوں، میری مرضی۔ اب میں آپ کو سوتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر دکھاؤں گا، تاکہ آپ کی تیسری شرط بھی پوری ہو سکے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار رکاب میں پاؤں ڈال کر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور ایڑ مار کر اسے دوڑاتا ہوا باغ کا ایک چکر لگا کر دوبارہ ان لوگوں کے پاس آگیا۔
یہ سب دیکھ کر ملکہ اور بادشاہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا تھا۔ شہزادی نگینہ بھی مسکرانے لگی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔ “ابّا حضور۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی ایک ایسے شہزادے سے ہو جو بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی ہو۔ ہم نے اپنی شرطیں اسی لیے رکھی تھیں کہ انہیں پورا کرنے والے کی ذہانت کا امتحان ہوسکے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایسا شہزادہ مل گیا ہے”۔
اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ نے سکھ کا سانس لیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی خوب دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.