احتشام کے ابو کو آفس کے لیے گھر سے نکلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ اس کی امی کچن میں برتن دھو رہی تھیں۔ کچن کی ایک کھڑکی لان کے پچھلی طرف بھی کھلتی تھی۔ وہاں ان کی پانی کی زیر زمین ٹنکی بھی تھی اور جہاں جہاں کچی زمین تھی وہاں پودے لگے ہوئے تھے۔
انہوں نے دیکھا کہ احتشام اپنے دادا ابو کے ساتھ کپڑے کا ایک سائبان بنانے میں مصروف ہے۔ انہوں نے دو دیواروں کے بیچ رسیاں باندھ کر اس پر چادر تان دی تھی جس کی وجہ سے زمین کے ایک بڑے حصے پر سایہ ہوگیا تھا۔ اس سائے میں احتشام نے پرندوں کے دانے اور پانی کے مٹی کے کونڈے رکھے۔ کونڈے رکھ کر وہ کھڑا ہوا تو اس کی نظر اپنی امی پر پڑی۔
“امی گرمیاں بہت ہیں۔ چڑیاؤں بے چاریوں کا پانی گرم ہوجاتا تھا۔ ہم نے سایہ کر دیا ہے، اب پانی گرم نہیں ہوا کرے گا”۔ اس نے بتایا۔
“یہ تو بہت اچھی بات ہوگئی ہے”۔ اس کی امی نے مسکرا کر کہا۔ “چڑیوں کو اب ٹھنڈا پانی ملا کرے گا اور وہ مزے سے اس کو پیا کریں گی۔ گرمی تو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی”۔
“یہ ترکیب دادا ابو نے بتائی تھی”۔ احتشام نے کہا اور کونڈوں میں پانی ڈالنے لگا۔
“اگر کام ختم ہو گیا ہو تو دادا ابو کو لے کر اندر آجاؤ۔ میں نے ناشتہ بنا لیا ہے”۔ انہوں نے کہا۔
کام ختم ہوگیا تھا۔ دونوں دادا پوتے گھر میں آگئے۔ حالانکہ صبح صبح کا وقت تھا مگر اس کے باوجود گرمی نے زور پکڑ لیا تھا۔ دونوں پسینے پسینے ہو رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھ منہ دھوئے اور ناشتے کی ٹیبل پر آکر بیٹھ گئے۔
گرمی شدید سے شدید ہوتی جا رہی تھی۔ آسمان پر بادلوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ گرمی کی وجہ سے بازاروں میں سنّاٹا رہتا تھا۔ لوگ اشد ضرورت میں ہی باہر نکلتے تھے۔ ادھر پرندوں اور جانوروں کی بھی بری حالت ہوگئی تھی۔ پرندے اپنی چونچ کھولے پانی کی تلاش میں رہتے۔ جانور کسی سایہ دار جگہ کو ڈھونڈتے نظر آتے۔
احتشام کے اسکولوں میں چھٹیاں ہوگئی تھیں۔ گرمی کی وجہ سے امی اسے باہر دوستوں کے پاس بھی نہیں جانے دیتی تھیں۔ ٹی وی پر چلنے والی تیز گرمیوں کی خبروں سے وہ بھی گھبرا گئی تھیں۔ احتشام زیادہ تر گھر میں ہی رہتا تھا۔
گھر میں اس کے دادا ابو اس کے دوست تھے۔ انھیں کتابوں سے بہت دلچسپی تھی اور وہ اپنا بہت سا وقت مطالعہ میں مصروف رہ کر گزارتے تھے۔ جب وہ فارغ ہوتے تھے تو احتشام ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتا۔
دادا ابو اس کو اپنے ساتھ مختلف کاموں میں لگائے رکھتے تھے۔ ان کاموں کے کرنے میں احتشام کو بہت مزہ آتا تھا۔ دادا ابو سے اس نے دیواروں اور دروازوں پر رنگ کرنا بھی سیکھ لیا تھا۔ گھر کے کسی دروازے کی چٹخنی یا کنڈی خراب ہوجاتی تو وہ دونوں بازار سے لاکر انہیں خود ہی تبدیل کردیتے۔ کپڑے سکھانے کی رسی گل سڑ جاتی تو نئی رسی لا کر لگا دیتے۔ پانی کا کوئی نل ٹپکنے لگتا تو دونوں مل کر یا تو اس کا واشر تبدیل کر دیتے نہیں تو نئی ٹونٹی لا کر لگا دیتے۔
دادا ابو نے بہرحال اس کو ایک ہدایت کررکھی تھی کہ بجلی کے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی الیکٹریشن کو بلا کر لانا چاہیے۔ اس کام کو خود کبھی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ اس میں بہت خطرہ ہوتا ہے۔
دادا ابو کے ساتھ اس طرح کے کام کرتے ہوئے احتشام نے بہت ساری چیزیں سیکھ لی تھیں۔ وہ سوچتا تھا کہ گھر کے ان کاموں کو کرنے سے گھر والوں کو کتنی آسانی ہوجاتی ہے۔ اس کی امی بھی اس کی ان مصروفیات سے بہت خوش ہوتی تھیں کیوں کہ اس طرح احتشام نئی نئی چیزیں سیکھتا تھا۔ انھیں یہ بھی اطمینان ہوجاتا تھا کہ اپنے دادا ابو کے ساتھ ساتھ رہنے سے ان کا بھی دل لگا رہتا تھا۔ دادا ابو اس کے ساتھ بیٹھ کر کارٹون بھی دیکھتے تھے اور خبریں بھی۔
دادا ابو چند سال پہلے تک تو کام پر جاتے تھے۔ مگر پھر ان کی عمر زیادہ ہوگئی اور چند ایک بیماریاں بھی لاحق ہوگئیں تو وہ گھر بیٹھ گئے۔ احتشام کے ابو ان کی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے اور وقفے وقفے سے اپنے ایک خاندانی معالج سے ان کا چیک اپ کرواتے رہتے تھے۔
ان کی جان شوگر کے مرض سے نہیں چھوٹ رہی تھی۔ کسی زمانے میں انھیں میٹھی چیزیں کھانے کا بہت شوق تھا اور وہ دل بھر کر اپنا یہ شوق پورا کرتے تھے۔ ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ یہ بات اس وقت ثابت ہوگئی جب ڈاکٹر نے ان کے شوگر کے مرض کی تشخیص کردی۔ ان کا شوگر لیول کافی ہائی ہوگیا تھا جو کہ بہت خطرناک بات تھی۔
دوائیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے انھیں میٹھی چیزوں سے پرہیز کی سختی سے تاکید کی تھی۔ احتشام کی امی اس بات کا خاص خیال رکھتی تھیں کہ وہ میٹھی چیزیں نہ کھائیں۔
ناشتے کے بعد دادا ابو اپنے کمرے میں چلے گئے۔ احتشام کی امی ناشتے کی ٹیبل صاف کرنے لگیں۔ انھیں گھر کے کچھ اور کام بھی نمٹانے تھے اس لیے انہوں نے سوچا کہ ناشتے کے برتن دھو کر وہ ان کاموں میں لگیں گی۔
اچانک ان کی نظر احتشام پر پڑی۔ وہ پنجوں کے بل اچک کر ڈائننگ روم میں رکھے ہوئے فرج کااوپری ڈور کھول کر فریزر میں سے کچھ نکال رہا تھا۔ اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں لال رنگ کے شربت سے بھری ایک بڑی پلاسٹک کی بوتل تھی۔ اس کی یہ حرکت اس کی امی کو کچھ پراسرار سی لگی۔ ان کے گھر میں تو روح افزا اور جام شیریں کب کی ختم ہوگئی تھیں، پھر یہ شربت کیسے بنا؟ اپنے تجسس کو رفع کرنے کے لیے وہ احتشام کو جھانک کر دیکھنے لگیں۔ وہ اپنے دادا ابو کے کمرے کی طرف گیا تھا۔ ان کے کمرے کے دروازے پر اس نے دستک دی، دروازہ کھلا اور دادا ابو نے جھانک کر دیکھا۔ احتشام نے بوتل انھیں تھما دی اور خود واپس آکر ڈرائنگ روم میں
ٹی وی کھول کر بیٹھ گیا۔
یہ منظر دیکھ کر اس کی امی بہت پریشان ہوگئی تھیں۔ انہوں نے حالانکہ احتشام کو بتا رکھا تھا کہ اس کے دادا ابو کو شوگر کی شکایت ہے اور میٹھی چیزیں ان کے لیے زہر ہیں۔ پھر بھی اس نے ان کی بات پر کان نہیں دھرے اور شربت کی بوتل انھیں دے کر آگیا۔ دادا پوتے نے یہ شربت چپکے چپکے خود ہی بنایا ہوگا۔
ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سسر سے کیسے کہیں کہ انھیں یہ بات پتہ چل گئی ہے کہ احتشام نے انھیں شربت کی بوتل دی تھی۔ وہ اپنے سسر کا بہت احترام کرتی تھیں۔ انھیں بہت سوچ سمجھ کر اس مسلے کو حل کرنا تھا اور اس بات کی بھی کوشش کرنا تھی کہ ان کی کسی بات سے احتشام کے دادا ابو کی دل آزاری نہ ہو۔
وہ ان ہی سوچوں میں گم، پھر اپنے کاموں میں لگ گئیں۔ احتشام کے کمرے میں جب وہ صفائی کرنے گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے کپڑے بستر پر پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وہ کپڑے اٹھا کر الماری میں رکھنے چاہے۔ اس کی الماری کھولی تو کیا دیکھتی ہیں کہ اس میں بہت ساری پیپسی، کوک، فانٹا، سیون اپ اور اسپرائٹ کی خالی بوتلیں نیچے والے خانے میں ایک ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں۔ ان کے برابر میں ہی انھیں روح افزا اور جام شیریں کی چار بھری ہوئی بوتلیں بھی نظر آئیں۔ ان کا دل دھک سے رہ گیا۔
“احتشام۔ یہ تم اپنے دادا ابو سے محبت نہیں ان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہو۔ تم نہیں جانتے کہ میٹھا کھانا یا پینا ان کے لیے کتنا خطرناک ہے”۔ انہوں نے بڑے دکھ سے سوچا اور الماری کا دروازہ بند کردیا۔ وہ کمرے سے باہر آئیں تو احتشام پر نظر پڑی۔ ان کا قطعی دل نہیں چاہا کہ اس سے کوئی بات کریں۔ وہ اگرچہ پورے دس سال کا ہوگیا تھا مگر انھیں محسوس ہوا کہ اس میں سمجھداری نام کو بھی نہیں ہے۔ اگر دادا ابو نے اس سے کہا بھی تھا کہ وہ ان کے لیے شربت بنا بنا کر رکھے تو اسے یہ بات مجھے ضرور بتانا چاہیے تھی۔
دس بج گئے تھے۔ احتشام کی امی کا کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اس کے ابو آئیں گے تو وہ یہ بات ان کے سامنے رکھیں گی اور وہ ہی احتشام کے دادا ابو کو سمجھائیں گے کہ میٹھا شربت پینا ان کے لیے کتنا خطر ناک ہے۔
پھر بیٹھے بیٹھے انھیں احتشام پر ایک دم بہت سا غصہ آگیا۔ انہوں نے تیز آواز میں اسے بلایا۔ ان کے لہجے کی سختی محسوس کر کے وہ کچھ حیران سا ان کے پاس پہنچا۔ اس کا معصوم حیرت زدہ چہرہ دیکھ کر امی کو افسوس سا ہوا۔ انھیں احساس ہوا کہ انھیں اس لہجے میں اسے نہیں بلانا چاہیے تھا۔
“امی کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے؟” اس نے آہستگی سے پوچھا۔
“بیٹا غلطی نہیں بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے”۔ اس کی امی نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ “تم جانتے ہو تمھارے دادا ابو کو شوگر کی بیماری ہے؟”۔
“یہ بات مجھے پتہ ہے”۔ احتشام نے سر جھکا کر کہا۔
“تمہارے کمرے کی الماری میں شربت کی بوتلیں کہاں سے آئی ہیں؟”۔ انہوں نے یکلخت پوچھا۔
لمحہ بھر کو تو احتشام حیران رہ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بولا۔ “میں اور دادا ابو بازار سے لائے تھے”۔
“اور وہ خالی مشروبات کی بوتلیں؟”۔ امی نے پھر جراح کی۔
“وہ بوتلیں آپ خالی ہونے کے بعد پھینک دیتی تھیں۔ میں انھیں اچھی طرح دھو کر اپنی الماری میں رکھ دیتا تھا”۔ احتشام نے بتایا۔
“تاکہ ان میں شربت بنا بنا کر دادا ابو کو دو”۔ امی نے تلخ لہجے میں کہا۔
“جی۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں روز رات کو ایک بوتل شربت بنا کر فریزر میں رکھی چیزوں کے پیچھے رکھ دیا کرتا ہوں۔ صبح اسے دادا ابو کو دے دیتا ہوں”۔ احتشام نے خوش ہو کر بتایا۔
“یہ پتہ ہونے کے باوجود کہ انھیں میٹھی چیزوں سے ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے”۔ امی کا لہجہ شکایتی تھا۔
ان کی بات سن کر احتشام ہنس پڑا۔ “امی آپ کی ساری جاسوسی بے کار گئی”۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی بانہیں ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی۔
احتشام کی ڈھٹائی پر انھیں ایک دم سے غصہ آگیا اور انہوں نے اسے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا۔”میں تم سے پیار کرتی ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم میرے سر پر چڑھ جاؤ”۔
عین اسی وقت گلی میں سے خاکروب کی تیز آواز ان کے کانوں میں آئی۔ “باجی۔ کوڑا دیدیں”۔
یہ خاکروب روز آکر گھر گھر سے کوڑا لے جاتا تھا۔ مہینہ ختم ہوتا تھا تو اسے ہر گھر سے دو دو سو روپے ملا کرتے تھے۔
“اب آپ خود اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیجیے گا”۔ احتشام ان کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم کی اس کھڑکی تک لایا جہاں سے گھر کا مین گیٹ نظر آرہا تھا۔ خاکروب کی آواز سن کر دادا ابو گیٹ کھولنے گئے تھے۔ امی یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ ان کے ہاتھ میں وہ ہی شربت کی بوتل تھی جو احتشام نے کچھ دیر پہلے ان کے حوالے کی تھی۔
دادا ابو نے گیٹ کی ذیلی کھڑکی کھولی۔ پسینے میں شرابور اور تیز دھوپ کی وجہ سے لال بھبوکا چہرہ لیے خاکروب اندر داخل ہوا۔ اس نے کونے میں رکھی کچرے کی بالٹی اپنی ہتھ گاڑی میں خالی کی، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ رکھ دیا۔
“بھئی برکت مسیح۔ آج تو گرمی نے کمال ہی کردیا ہے”۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے شربت کی بوتل اس کے حوالے کر دی۔
برکت مسیح کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ “صاحب۔ آپ روز میرے لیے اتنی تکلیف کرتے ہیں۔ خدا آپ کو خوش رکھے”۔ اس نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا۔
“گرمی بھی تو بہت ہے۔ اور یہ میں تھوڑا ہی کرتا ہوں، یہ تو احتشام کرتا ہے۔ ویسے بھی ہم تو آرام سے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ تم تو محلے محلے اس چلچلاتی دھوپ میں پھرتے رہتے ہو۔ تمہیں پیاس تو لگتی ہی ہوگی”۔
وہ ان کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ امی نے یہ منظر دیکھا تو ان کا دل بھر آیا۔ انہوں نے احتشام کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور بولیں ۔ “تم اور دادا ابو تو یہ بہت اچھا کام کرتے ہو۔ اس تیز گرمی میں اگر کوئی مجھے اتنی بڑی بوتل ٹھنڈے شربت کی دے تو میں تو ایک ہی سانس میں غٹ غٹ پی جاؤں۔ مگر احتشام یہ بات تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہیں بتا دی تھی؟”۔
“جب ہم یہ کام شروع کرنے والے تھے تو دادا ابو نے کہا تھا کہ احتشام بیٹے یہ ایک نیکی کا کام ہے”۔
“تو پھر؟”۔ اس کی بات امی کی بالکل بھی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
“میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ نیکی کے کام خاموشی سے اور چھپا کر کرنے چاہییں ورنہ نیکی ضائع ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے میں نے یہ بات آپ کو نہیں بتائی تھی۔ ہم تو کب سے یہ بوتلیں خاکروب انکل کو دے رہے ہیں”۔ احتشام نے کہا۔
“میرے اپنے خیال میں تو اس طرح کی نیکیوں کو چھپانا نہیں چاہیے۔دوسرے لوگوں کو اس طرح کی باتوں کے بارے میں پتہ چلے گا تو وہ خود بھی انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور جانوروں کی بھوک پیاس کا خیال بھی رکھنے کی کوشش کریں گے۔ آج سے میں بھی تمہارے اس کام میں ہاتھ بٹایا کروں گی”۔
ان کی بات سن کر احتشام خوش ہوگیا اور اس خوشی میں اس نے دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ملا کر منہ میں ڈال کر سیٹی بجانے کی کوشش کی مگر اسے ابھی تک اس طرح سیٹی بجانا نہیں آئی تھی اس لیے سیٹی بج نہ سکی۔ وہ تھوڑا جھینپ سا گیا ۔ اس کی حالت دیکھ کر امی زور سے ہنس پڑیں اور اسے گلے سے لگا لیا۔
(ختم شد)
موضوعات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.