Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہزادی اور لکڑہارا

مختار احمد

شہزادی اور لکڑہارا

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    شہزادی سلطانہ بادشاہ کی شادی کے بعد بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ تو اس کی پیدائش پر خوش تھے ہی مگر جس روز وہ پیدا ہوئی تھی پورے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ہر طرف جشن منایا جا رہا تھا۔ بادشاہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی پیاری بیٹی کا باپ بن گیا ہے۔

    وہ بار بار ملکہ کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور ننھی شہزادی کو دیکھ کر خوش ہوتا۔ ملکہ اس کو دیکھ دیکھ کر مسکراتی تھی۔ ملکہ نے اس سے کہا بھی کہ وہ شہزادی کو گود میں لے لے مگر بادشاہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا شہزادی اتنی سی تو ہے، ہماری گود سے گر نہ پڑے۔

    شہزادی بےانتہا خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی رنگ شہابی اور بال سنہری تھے۔ وہ روتی تھی تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے چاروں طرف جلترنگ بجنے لگے ہوں۔ اس کی ہنسی کی آواز کیسی تھی، یہ کوئی نہیں بتا سکتا کیوں کہ اتنے چھوٹے بچے ہنستے نہیں صرف مسکراتے ہیں۔

    بادشاہ کا دل اب دربار میں بھی نہیں لگا کرتا تھا، اس کا تمام دھیان شہزادی سلطانہ میں ہی لگا رہتا تھا۔ شہزادی سلطانہ کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ اس کے کھلونے سات سمندر پار سے آتے تھے۔ ماہر کاریگر ریشم کے کیڑوں سے حاصل کردہ ریشم سے اس کے لباس بناتے تھے۔ اس کے جوتے نہایت ہلکے پھلکے ہوتے تھے کیوں کہ وہ جانوروں کی کھال کے بجائے قیمتی پرندوں کی کھال سے تیار کیے جاتے تھے۔ اس زمانے میں پیمپروں کا رواج نہیں تھا ورنہ ملکہ بیش قیمت پیمپر بھی منگوا کر رکھتی۔ شہزادی سلطانہ کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی کنیزیں رکھی گئی تھیں، جو ہر وقت اس کے آس پاس رہتی تھیں۔

    رات کو بستر پر ملکہ اس کونے پر سوتی تھی، بادشاہ دوسرے کونے پر اور بیچ میں شہزادی سلطانہ۔ وہ ایک ٹانگ بادشاہ پر اور دوسری ملکہ پر رکھ کر بےخبر سو جاتی تھی۔ شہزادی سلطانہ کی پرورش بہت لاڈ پیار سے ہو رہی تھی اور اس لاڈ پیار نے اسے کسی حد تک بگاڑ دیا اور وہ کافی بدتمیز ہو گئی تھی۔ وہ کسی کا کہنا نہیں مانتی تھی، کھانے کی کوئی چیز پسند نہ ہوتی تو اس کو پھینک دیتی۔ ملکہ سے چیخ کر بات کرتی تھی، باپ سے چیخ کر بات تو نہیں کرتی تھی، لیکن اگر اسے بادشاہ کی کوئی بات پسند نہ آتی تو دانت پیس کر اس کے چٹکی بھر لیا کرتی تھی۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ صرف ملکہ کا کہا ہی نہیں مانتی تھی، بادشاہ بھی اس سے کچھ کہتا تو وہ اس کی بات بھی نہیں مانتی تھی۔

    یہ سب اس کے بچپن کی باتیں تھیں۔ بادشاہ اور ملکہ ان باتوں کو اس لیے نظرانداز کرتے رہے کا وہ بچی تھی اور اکلوتی تھی اور شادی کے بہت سالوں بعد پیدا ہوئی تھی۔ مگر بادشاہ کا ماتھا اس دن ٹھنکا، جب اپنی سولہویں سالگرہ کی تقریب میں غصے میں آ کر اس نے کیک کو زمین پر گرا دیا۔ اس تقریب میں وزیر، مشیر اور امرا اپنی بیگمات کے ساتھ شامل تھے۔ شہزادی سلطانہ کی اس حرکت سے بادشاہ کی سخت بے عزتی ہوئی تھی۔ وہ محفل سے اٹھ کر چلا گیا۔ خود ملکہ بھی سناٹے میں رہ گئی تھی۔ اس نے شہزادی کو سرزنش کی تو شہزادی اس سے بدزبانی کرنے لگی۔ اس نے میز پر رکھے ہوئے مشروبوں کے پیالے زمین پر پھینک دیے اور روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

    اگلے روز اس کے اس سلوک کا جگہ جگہ چرچا ہو گیا تھا۔ لوگ سخت افسوس کر رہے تھے کہ ان کا بادشاہ کس قدر اچھا اور رعایا پرور ہے مگر اس کی بیٹی کو دیکھو، نہایت چڑ چڑی، بددماغ اور بداخلاق ہے۔ اللہ ایسی بیٹی دشمن کو بھی نہ دے۔ بادشاہ کے کانوں میں بھی یہ باتیں پڑنے لگی تھیں۔ وہ بہت غمزدہ تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اور ملکہ کے لاڈ پیار نے شہزادی کو دو کوڑی کا کر دیا ہے۔ غلطی ان ہی کی تھی مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ ملکہ بھی بہت پریشان تھی۔

    سالگرہ والے واقعہ کے بعد بادشاہ اور ملکہ نے شہزادی سے بات چیت کم کردی تھی مگر شہزادی کو اس بات کی پرواہ بھی نہیں تھی۔ اپنی غلطی اگر تسلیم کرتی تو خود کو بدلنے کی کوشش کرتی، مگر اس نے آج تک خود کو غلط سمجھا ہی نہیں تھا۔ بادشاہ چپ چپ رہنے لگا تھا۔ اگر ایسی بیٹی کسی اور کی بھی ہو تی تو وہ بےچارہ بھی چپ چپ ہی رہتا۔

    بادشاہ کو یوں چپ چپ دیکھ کر ایک روز اس کے وفادار اور عقلمند وزیر نے کہا۔ ’’جہاں پناہ۔ ایسے تو حالات ٹھیک نہیں ہونگے۔ ان کو ٹھیک کرنے کی کوئی تدبیر کرنا ہوگی۔ میرا تو خیال ہے کہ شہزادی صاحبہ کی شادی کر دی جائے۔ امید ہے کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائیں گی‘‘۔

    بادشاہ نے کہا۔ ’’منہ پھٹ اور بدتمیز لڑکیوں سے کون شادی کرتا ہے۔ شہزادی سلطانہ کے ساتھ کوئی نوجوان شادی پر تیار نہیں ہوگا‘‘۔

    بادشاہ کی بات سن کر وزیر سوچ میں پڑ گیا۔ بہت دیر تک سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’جہاں پناہ۔ اگر آپ میری بات پر عمل کریں تو مجھے پکا یقین ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا‘‘۔

    بادشاہ نے بےبسی سے کہا۔ ’’اے وزیر اس پریشانی سے نکلنے کے لیے ہم تمھاری ہر بات ماننے کو تیار ہیں‘‘۔

    وزیر بولا۔ ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنے رویے اور لہجے میں سختی پیدا کریں۔ بچوں سے ہر وقت نرم لہجے کی گفتگو انھیں خودسر بنا دیتی ہے۔ دوسری بات میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا‘‘۔

    بادشاہ نے حامی بھرلی کہ وہ ایسا ہی کرےگا۔ بادشاہ جب محل میں پہنچا تو شہزادی سلطانہ کا موڈ خوشگوار تھا۔ باپ کو دیکھ کر وہ دوڑ کر اس کے قریب آئی اور محبت سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’ابا حضور آپ مجھ سے ناراض نہ ہوا کریں‘‘۔

    بادشاہ نے اپنا ہاتھ اس سے چھڑا لیا اور کچھ درشت لہجے میں بولا۔ شہزادی۔ ’’آپ محل کے آداب کا خیال رکھا کیجیے۔ ہم اس سلطنت کے شہنشاہ ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ ہم آپ کے باپ ہیں مگر تمیز بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘۔

    یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے تیز تیز چلتا ہوا باہر نکل گیا۔ شہزادی سلطانہ کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ بادشاہ کی اس بات نے اسے سہما دیا تھا حالانکہ اسے غصہ بھی آ رہا تھا۔ اس نے اس بات کی شکایت ملکہ سے کی۔ ملکہ تو خود اس کے برے رویے سے تنگ تھی، بیرخی سے بولی۔ ’’اتنی بڑی ہو گئی ہو، کچھ تو تمیز سیکھ لو‘‘۔

    شہزادی سلطانہ ماں کو تو کچھ سمجھتی ہی نہیں تھی، اس کی بات سن کر غصے میں پاؤں پٹختے ہوئے چلی گئی۔

    رات کو بادشاہ نے ملکہ سے کہا۔ ’’ملکہ ہم چاہتے ہیں کہ اب شہزادی سلطانہ کی شادی کر دی جائے‘‘۔

    ملکہ اداسی سے بولی۔ ’’اس سے کون شادی کرےگا۔ اس کی بدمزاجی کے قصے تو بچے بچے کی زبان پر ہیں‘‘۔

    ملکہ کی بات بادشاہ کے دل پر لگی تھی اور اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ خاموش ہو گیا۔ ان تمام واقعات کے بعد شہزادی سلطانہ اپنے کمرے میں ہی بند ہوکر رہ گئی تھی۔

    شام کو وزیر بادشاہ سے ملنے آیا، اس کے آنے کی خبر سنی تو بادشاہ کو یاد آ گیا کہ وزیر نے شہزادی والے معاملے میں کوئی بات بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے فوراً وزیر کو طلب کر لیا اور وہ دونوں ایک کمرے میں بیٹھ کر چپکے چپکے باتیں کرنے لگے۔

    اگلے بادشاہ کی ہدایت پر ملکہ نے شہزادی سلطانہ کو یہ اطلاع دی کہ اس کی شادی طے کر دی گئی ہے ۔ شہزادی نے یہ سنا تو وہ پھٹ پڑی۔ ’’ہاں ہاں کر دیجیے میری شادی۔ میں خود اب یہاں نہیں رہنا چاہتی ہوں‘‘۔

    کچھ دنوں بعد شادی کی تقریب ہوئی۔ شام کو شہزادی کو اس کے شوہر کے ساتھ ایک بگھی میں بیٹھا کر روانہ کر دیا گیا۔ شادی بڑی سادگی سے ہوئی تھی، نہ دھول تاشے بجے نہ آتش بازی کی گئی۔ شہزادی سلطانہ اس دوران اتنے غصے میں تھی کہ اس نے یہ بھی نہیں پوچھا تھا کہ اس کی شادی کس سے ہورہی ہے اور نہ ہی اس نے نظر بھر کر اپنے دولہا کو دیکھا اور تو اور رخصتی کے وقت وہ بادشاہ اور ملکہ سے لپٹ کر روئی بھی نہیں، اس کی یہ وجہ نہیں کہ اس کو ڈر تھا کہ رونے سے اس کا میک اپ خراب ہو جائےگا۔ اس کا تو کسی نے بناؤ سنگھار بھی نہیں کیا تھا، بلکہ وہ اس لیے نہیں روئی کہ اس کو رونا ہی نہیں آرہا تھا کیوں کہ وہ بادشاہ اور ملکہ سے سخت ناراض تھی۔

    بگھی میں بیٹھی تو اس نے کن آنکھوں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ وہ ایک بہت حسین و جمیل نوجوان تھا مگر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی بےرخی تھی، شادی کے موقع پر تو چہرے پر خوشی کے اثار ہوتے ہیں، مگر وہ تو سنجیدہ شکل بناے بیٹھا تھا۔

    شہزادی کو زندگی میں پہلی مرتبہ کچھ خوف کا احساس ہوا۔ تھوڑی دیر بعد بگھی رک گئی۔ ان کی منزل آگئی تھی، وہ اس نوجوان کا گھر تھا۔ وہ نوجوان اتر کر نیچے کھڑا ہو گیا۔ اس نے جب دیکھا کہ شہزادی اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی تو سختی سے بولا۔ ’’شہزادی صاحبہ اب اتر بھی جاوٴ۔ یہاں کنیزیں نہیں ہیں کہ ہاتھ پکڑ کر اتاریں گی۔ میں تو ایک لکڑ ہارا ہوں پہلے سارا کام میں خود کرتا تھا اب تم سے کروایا کروں گا، میں نے زندگی میں بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں، اب سکھ کا وقت آیا ہے‘‘۔

    شہزادی تو ہکا بکا رہ گئی۔ اس کی شادی ایک لکڑہارے سے کر دی گئی تھی۔ دکھ اور شرمندگی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے روتا دیکھ کر لکڑہارا نرم پڑ گیا۔ ’’میری تکلیف کا سن کر تمھاری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں، مجھے خوشی ہوئی، اچھی بیویاں ایسی ہی ہوتی ہیں‘‘۔

    ’’غلط نہ سمجھو، میں تو اس بات پر روئی ہوں کہ میری شادی ایک لکڑ ہارے سے کر دی گئی ہے۔ ابّا حضور سے مجھے یہ امید نہیں تھی‘‘۔ شہزادی سلطانہ نے بگھی سے نیچے اترتے ہوئے کہا۔

    لکڑہارا ہنسنے لگا۔ ’’تو تم کیا سمجھ رہی تھیں کہ تم جیسی بدتمیز لڑکی کی شادی کسی شہزادے سے ہوتی؟‘‘

    ’’تم مجھے میرے منہ پر بدتمیز کہہ رہے ہو‘‘۔ شہزادی نے چیخ کر کہا۔

    ’’میں تو منہ پر ہی کہہ رہا ہوں، لوگ تو تمہیں پیٹھ پیچھے بھی یہ ہی کہتے ہیں۔ وہ تو بادشاہ سلامت کا حکم تھا کہ میں تم سے شادی کروں، میں مجبور ہو گیا تھا، ورنہ تم جیسی لڑکی سے کبھی بھی شادی کی حامی نہ بھرتا۔ انہوں نے اپنی مصیبت میرے گلے ڈال دی ہے اب زندگی بھر بھگتوں گا‘‘۔

    لکڑ ہارے کی یہ توہین آمیز باتیں سن کر شہزادی نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ لکڑہارا اس کے رونے سے گھبرا گیا تھا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا، شہزادی سے بولا۔ ’’تم نے اگر رونا دھونا بند نہیں کیا تو میں تمہیں جنگل میں چھوڑ آوں گا۔ شیر چیتے دن میں تو نہیں البتہ رات کو ضرور باہر نکل آتے ہیں‘‘۔

    ’’اس کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی، شہزادی نے رونا بند کر دیا۔ لکڑہارا اسے لے کر گھر میں داخل ہوا۔ گھر کافی بڑا تھا اور اس سے بڑا اس کا صحن تھا مگر اس میں سامان بہت معمولی تھا۔ شہزادی منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گئی۔ لکڑہارے نے باورچی خانے میں جاکر کھانے کا انتظام کیا۔ شہزادی کو بھوک لگ رہی تھی اس لیے اس نے چپ چاپ کھانا کھا لیا۔ کھانے کے دوران وہ چپ ہی بیٹھی رہی تھی۔ کھانے کے بعد بولی۔ میں اپنی قسمت پر شاکر ہوں مگر ابا حضور اور امی حضور نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ہے‘‘۔

    لکڑہارا تلخی سے بولا۔ ’’ان کی زیادتی تو تمہیں یاد ہے، تم کیا کرتی تھیں بھول گئیں۔ تم نے ان کے لاڈ پیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ تم اکلوتی تھیں، اس لیے وہ تم سے بہت پیار کرتے تھے، تمھاری ہر بات مانتے تھے اور ہر خواہش پوری کرتے تھے اور تم نے اس کا یہ صلہ دیا کہ اپنی من مانی کرنے لگیں اور یہ من مانیاں بڑھ کر بدتمزیوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ضد تو چھوٹے بچے کرتے ہیں اور ضد کرتے بچے اچھے بھی لگتے ہیں مگر تمھارے جیسی بڑی لڑکیاں ضد کرتے ہوئے کتنی واہیات لگتی ہیں، میرا بس چلے تو ایسی لڑکیوں کو مرکھنے بیل کے آگے ڈالدوں تاکہ وہ ان کے خوب ٹکریں ماریں اور مزہ چکھا دیں‘‘۔

    یہ سن کر شہزادی پھر رونے لگی۔ ’’تم میری بے عزتی کر رہے ہو‘‘۔

    ’’اب تم میری بیوی ہو، تمھاری بری باتوں کا تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کہ تم ان کو چھوڑ دو تاکہ ہماری زندگی ہنسی خوشی گزرے۔ یاد کرو سالگرہ والے دن تم نے کتنی بدتمیزی کی تھی‘‘۔ لکڑہارے نے اسے یاد دلایا۔

    شہزادی چونک گئی۔ ’’تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘

    ’’یہ بات تو ہمارے ملک کے بچے بچے کو پتہ ہے۔اس دن ہمارے محلے میں دو عورتوں کی لڑائی ہو رہی تھی تو ان میں سے ایک عورت نے دوسری عورت کو یہ کہہ کر بددعا دی تھی کہ اللہ کرے تیری بچی شہزادی کی طرح بدتمیز ہو جائے‘‘۔

    یہ سن کر شہزادی کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ لکڑہارے کی باتیں سن کر اس کو احساس ہونے لگا تھا کہ واقعی اس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت زیادتی کی تھی۔ وہ اس سے اتنی محبت کرتے تھے مگر اس نے ہمیشہ اس محبت کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ اپنی یہ باتیں سوچ سوچ کر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ لکڑ ہارے نے کہا۔ ’’صبح مجھے جلدی اٹھا دینا۔ اب ہم ایک سے دو ہو گئے ہیں۔ مجھے زیادہ لکڑیاں کاٹنا پڑیں گی تاکہ اتنے پیسے ملیں تاکہ ہمارے گھر کے اخراجات ٹھیک طرح سے چلیں، ویسے بھی تم بادشاہ کی بیٹی ہو، خرچ کے معاملے میں تمہارا ہاتھ کھلا ہوگا اور دیکھو ہمارے گھر میں بہت سی مرغیاں بھی ہیں، ان کے انڈے سنبھال کر رکھنا، محلے والے انھیں خریدنے آئیں تو انھیں فروخت کر دیا کرنا‘‘۔

    کمرے میں دو ہی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، ایک لکڑہارے کے بولنے کی آواز اور دوسری شہزادی کی سسکیوں کی۔ شہزادی کو اپنی امی اور ابا شدت سے یاد آ رہے تھے۔ اگلے روز لکڑہارے کو بڑی حیرت ہوئی، وہ سو کر اٹھا تو شہزادی نے اس کے لیے انڈے اور پراٹھوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ ناشتہ تم نے بنایا ہے؟‘‘۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’نہیں یہ چیزیں میں نے محلے کے ایک بچے سے نانبائی کی دکان سے منگوائی تھیں۔ مجھے تو کچھ پکانا ہی نہیں آتا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے شہزادی کا شرم سے منہ سرخ ہو گیا وہ سوچ رہی تھی کہ اس کا لکڑہارا شوہر کیا سوچےگا کہ یہ اتنی بڑی ہو گئی ہے اور اسے کھانا بھی پکانا نہیں آتا۔ لکڑہارا شام کو گھر آیا تو اسے صبح سے بھی زیادہ حیرت ہوئی، شہزادی کمر سے دوپٹہ باندھے صحن میں جھاڑو دے رہی تھی، مرغیاں اس کے آگے پیچھے پھر رہی تھیں، گھر کا دروازہ حالانکہ کھلا ہوا تھا مگر وہ شہزادی کے پاس سے بھاگ کر باہر نہیں گئیں۔

    دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ لکڑہارے نے کہا۔

    وہ جلدی سے اس کے پاس آئی۔ وہ ایک بدلی ہوئی لڑکی لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر اب وہ وحشت اور کرختگی بھی نظر نہیں آرہی تھی جو لکڑہارے نے کل دیکھی تھی۔ لکڑہارے نے بہت سارے سرخ سرخ بیر اس کے ہاتھوں پر رکھ دئیے ’’انہیں میں نے جنگل میں سے تمہارے لیے توڑا تھا‘‘۔

    اس نے خوش ہو کر انھیں لے لیا اور مزے سے کھانے لگی”۔یہ تو بڑے مزے کے ہیں۔ اس نے کہا۔

    اس کی آواز سن کر لکڑہارے کو بہت اچھا لگا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کہیں آس پاس جلترنگ بج اٹھے ہوں۔ کل تو شہزادی کی آواز ایسی تھی کہ اسے سن کر لکڑ ہارے کا دل چاہ رہا تھا کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے۔

    ’’میں نے محلے کے اسی لڑکے سے کھانا منگوا لیا ہے۔ اس کو میں انعام میں دو سکے دیتی ہوں وہ بھاگ کر میرا کام کر دیتا ہے‘‘۔ شہزادی نے بتایا۔

    کھانے کے بعد لکڑہارے نے کہا۔ ’’شہزادی مجھے خوشی ہے کہ تم بہت بدل گئی ہو‘‘۔

    وہ بولی۔ ’’آپ کی باتیں سن کر مجھے احساس ہو گیا ہے کہ میں کس قدر بدتمیز اور بداخلاق تھی۔ میں نے امی حضور اور ابا حضور کو بہت دکھ دئیے ہیں۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ میں ان سے مل کر ان سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ آپ مجھے ان سے ملانے لے جائیں گے؟‘‘

    لکڑہارے نے گھبرا کر کہا ’’کبھی بھی نہیں، تم وہاں جاؤگی تو وہیں رہ جاؤگی۔ میں کیا کروں گا۔ میری مرغیوں کو دانا کون ڈالے گا۔ گھر کی صفائی کون کرےگا؟‘‘

    شہزادی نے شرما کر کہا۔ ’’ان سے مل کر میں واپس آ جاؤنگی۔ میرا اصل گھر تو اب یہ ہی ہے‘‘۔

    لکڑہارے نے یہ بات سنی تو اس کا دل چاہا کہ مارے خوشی کے ایک زور کی چیخ مارے مگر اس نے ضبط کیا اور دھیرے سے بولا۔ ’’ٹھیک ہے ہم کل محل چلیں گے۔ مگر میں لکڑیاں کاٹنے جنگل نہیں گیا تو پیسے نہیں ملیں گے‘‘۔

    اس کی اس بات پر وہ بولی ’’اس کی تو تم فکر ہی مت کرو۔ میں نے بہت ساری اشرفیاں جمع کر رکھی ہیں جو محل میں میرے کمرے میں ہی ہیں۔ میں وہ بھی لیتی آؤں گی‘‘۔

    اگلے روز وہ لوگ محل پہنچ گئے۔ انھیں دیکھا تو ملکہ نے جلدی سے شہزادی کو گلے سے لگا لیا اور رونے لگی۔ بادشاہ کو بھی اطلاع مل گئی تھی، وہ بھی وہاں آ گیا۔ اسے دیکھ کر شہزادی روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ ’’ابا حضور مجھے معاف کر دیں۔ مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے، میں نے آپ لوگوں کو بہت تنگ کیا تھا اور اپنی حرکتوں سے آپ کو بہت دکھ پہنچایا تھا۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گی‘‘۔

    بادشاہ کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ اس نے بھی شہزادی کو محبت سے لپٹا لیا اور بولا ’’غلطیاں بچے ہی کرتے ہیں۔ بڑوں کا فرض ہے کہ انھیں معاف کر دیں۔ بیٹی۔ ہمیں تم سے کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ اس بات کی خوشی ہے کہ تمہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے‘‘۔ پھر وہ لکڑہارے کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’شہزادہ بابر ہم تمھارے مشکور ہیں کہ تم نے شہزادی کو راہ راست پر لانے میں ہماری مدد کی‘‘۔

    لکڑہارا جو اصل میں شہزادہ تھا اس نے ہاتھ باندھ کر بادشاہ کو تعظیم دی اور بولا۔ ’’یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے شہزادی جیسی بیوی ملی ہے‘‘۔

    ان دونوں کی باتوں کو شہزادی بہت حیرت سے سن رہی تھی جب کہ ملکہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس کی حیرت بھانپ کر بادشاہ نے کہا۔ ’’بیٹی۔ ہمارے وزیر نے ہی ہمیں یہ صلاح دی کہ شہزادہ بابر کو ایک لکڑہارا بناکر اس کی شادی تم سے کر دی جائے۔ شہزادہ بابر ایک ذہین نوجوان ہے، اس کی باتوں سے متاثر ہوکر تمہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے۔ ہم بہت خوش ہیں“۔

    شہزادی کی اس تبدیلی سے ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے تھے۔ شہزادی نے ان شاہی غلاموں اور کنیزوں سے بھی معافی مانگی جن کے ساتھ اس نے کبھی اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ ان لوگوں میں اس نے اشرفیاں بھی تقسیم کیں۔ وہ سب بھی خوش ہو گئے۔ رات کے کھانے کے بعد شہزادی نے شہزادہ بابر سے کہا۔ ’’میں تیار ہو کر آتی ہوں پھر چلتے ہیں‘‘۔

    ملکہ نے حیرت سے پوچھا۔ ’’بیٹی۔ کہاں جانے کا کہہ رہی ہو؟‘‘

    شہزادی نے شرما کر کہا۔ ’’اپنے گھر، جہاں ہماری مرغیاں ہیں اور محلے میں وہ لڑکا ہے، جو چھوٹے بھائیوں کی طرح بھاگ بھاگ کر میرے کام کرتا ہے‘‘۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ کھلکھلاکر ہنس پڑے۔ بہت دنوں بعد محل میں ان دونوں کی ہنسی لوگوں نے سنی تھی۔ خیر بادشاہ نے دوبارہ تو ان کو وہاں نہیں بھیجا، مرغیاں اس نے محل میں ہی منگوا لی تھیں تاکہ شہزادی خوش ہو جائے۔ اس لڑکے کو جو بازار سے شہزادی کے لیے چیزہیں خرید کر لایا تھا، شہزادی نے بہت سے تحفے بھجوا دیے تھے۔ پھر کچھ دن محل میں گزار کر شہزادہ بابر شہزادی سلطانہ کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے