ایک دن حضرت عیسیٰ کہیں جا رہے تھے۔ ساتھ ایک اور آدمی بھی ہو لیا۔ آپ نے ایک رومال میں تین روٹیاں باندھ کر اس کے حوالے کیں کہ انہیں سنبھال رکھو جہاں بھوک لگے گی مل کر کھا لیں گے۔‘‘
ساتھی کو بھوک لگی تو اس نے موقع پا کر چپکے سے ایک روٹی نکال کر کھا لی اور رومال ویسے کا ویسا باندھ دیا۔
تھوڑی دور چل کر آپ بھی ایک جگہ بیٹھ گئے کہ ’’آؤ دوست اب کھانا کھا لیں۔ مگر رومال کھولا تو اس میں صرف دو ہی روٹیاں باقی تھیں۔
آپ نے ساتھی سے پوچھا۔ ’’تیسری کہاں ہے؟‘‘ لیکن وہ صاف مکر گیا کہ ’’جناب! مجھے کیا معلوم؟ دو ہی بندھی ہوں گی۔‘‘
کھانا کھا کر آگے چلے تو آپ نے اسے دو تین معجزے دکھائے کہ جو دیکھتا حضرت کی عظمت کا یقین کر لیتا مگر اب بھی جب آپ نے اس سے تیسری روٹی کے لیے پوچھا تو اس نے وہی پہلا جواب دیا کہ مجھے تو کچھ خبر نہیں۔ گھر سے دو ہی روٹیاں آئی ہوں گی۔‘‘
اتنے میں چلتے چلتے آپ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سونے کی تین اینٹیں رکھی تھیں۔ آپ نے فرمایا۔ دوست! اس میں سے ایک تو تم لے لو۔ دوسری میں اور تیسری اس آدمی کے لیے رہنے دو جس نے ہماری تیسری روٹی کھائی تھی۔‘‘
یہ سن کر لالچی ساتھی فوراً بول اٹھا۔ ’’جناب! وہ روٹی تو میں نے ہی کھائی تھی اور اب مجھی کو ایک کی جگہ دو اینٹیں لنی چاہیئیں۔‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’دوست! مجھے ان کی بالکل ضرورت نہیں۔ تینوں کی تینوں تمہارا مال ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر آپ تو وہاں سے چلے آئے۔ وہ لالچی اینٹوں کے لیے سوچنے لگا کہ انہیں کس طرح لے جاؤں اور کہاں چھپاؤں۔
اتنے میں تین بھوکے چور بھی کسی طرف سے آ نکلے۔ اور انہوں نے سونے کی اینٹیں ایک کمزور آدمی کے پاس دیکھ کر اسی وقت اسے جان سے مار دیا۔ یہ تینوں چور بھوک سے بیتاب ہو رہے تھے۔ اس لیے ایک ساتھی کو گاؤں میں کھانا پکوانے بھیج دیا کہ کھانے کے بعد سب ایک ایک اینٹ لے کر ھر کی طرف چل دیں گے۔
اب لطف یہ ہوا کہ ان میں سے جو آدمی کھانا پکوانے گیا تھا۔ راستے میں اس کی نیت بدل گئی اور وہ کھانے میں زہر ملا کر لے آیا کہ جب کھانا کھا کر یہ دونوں مر جائیں گے تو میں اکیلا ہی تینوں اینٹیں سنبھال لوں گا۔
ادھر ان دنوں نے جو اینٹوں کے پاس بیٹھے تھے، ارادہ کیا کہ کھانا کھا کر تیسرے کو جان سے مار دیں اور ہم ایک کی جگہ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ بانٹ لیں گے۔
چنانچہ جب تیسرا آدمی کھانا لے آیا اور دونوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو انہوں نے کوئی جھگڑا نکال کر لانے والے کو جان سے مار ڈالا۔ پھر ذرا سی دیر میں زہر کے اثر سے خود بھی مر کر وہیں ڈھیر ہو گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.