Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تاروں کی جادوگری

نعیمہ جعفری پاشا

تاروں کی جادوگری

نعیمہ جعفری پاشا

MORE BYنعیمہ جعفری پاشا

    گاؤں کے بڑے سے کچھ کچے کچھ پکے مکان کی کھلی چھت پر دریوں کے اوپر سفید چادریں بچھاکر سونے کی کوشش کرتے ہوئے دس سالہ عیان اور چھ سالہ حفضہ کے سروں پر تاروں بھرے آسمان کی خوبصورت چادر تنی ہوئی تھی ۔دونوں بہن بھائی بڑی دیر سے لاکھوں کروڑوں چھوٹے بڑے تاروں کے جال پر نظریں گڑاءے نہ جانے کس سوچ میں گم تھے۔

    عیان کو لگ رہا تھا جیسے یہ کسی اسکول کا بڑا سا کھیل کا میدان ہے۔ کھیل کے گھنٹے میں کچھ تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اور کچھ ایک دوسرے کان میں سرگوشی کرکے کسی نئ شرارت کا پلان بنارہے تھے۔ بوڑھا آسمان انھیں دیکھ کر دھیمے دھیمے مسکرا رہا تھا۔ کچھ دیر میں ہیڈ ماسٹر اپنی کرنوں کی چھڑی لےکر آئیں گے اور سب تارے اپنی کلاسوں میں جاکر چھپ جائیں گے۔

    پھر وہ سوچتا ،یہ تارے کیا ہیں؟ سائنس کی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ جلتے ہوئے آگ کے گولے ہیں جو ہماری زمین سے اربوں کھربوں میل دور ہیں اس لئے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ کچھ تو سورج سے بھی بڑے ہیں۔ کچھ سورج کے گرد گھوم رہے ہیں، وہ سیارے ہیں۔ کچھ ٹھہرے ہوئے ہیں وہ تارے ہیں۔

    حافظ جی کہتے ہیں ’’اللہ پاک نے تارے اس لیے بنائے ہیں تاکہ رات کے وقت زمین اور سمندر میں سفر کرنے والوں کو راستہ دکھاںیں‘‘۔

    ہندی کے سر کہتے ہیں کہ ’’جیوتش ودیا کے مطابق بڑے گھومنے والے تارے دیوی دیوتا ہیں اور چھوٹے چھوٹے تاروں سے ان کے گھر بنے ہیں۔ یہ کبھی اپنے گھر میں ہوتے ہیں اور کبھی دوستوں اور دشمنوں کے گھروں کا چکر لگالیتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے ہر آدمی کا ایک سیارہ ہوتا ہے‘‘۔ نانی امیرن تو کچھ اور ہی کہتی ہیں۔

    عیان انھیں سوچوں میں گم تھا کہ حفضہ نے کروٹ لے کر پوچھا ,بھیا جو لوگ مرجاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں؟

    پچھلے مہینے دادی کے انتقال کی وجہ سے حفضہ اتنی متاثر تھی کہ کھانا پینا، ہنسنا بولنا، لکھنا پڑھنا سب چھوڑ رکھا تھا۔ ہر وقت روتی رہتی۔ امی بہت پریشان تھیں اس کی وجہ سے۔

    عیان نے جھٹ نانی امیرن کی بات دہرادی، منی وہ آسمان میں تارے بن جاتے ہیں۔

    تو کیا ہماری دادی بھی تارہ بن گئی ہیں؟ اس نے آنکھوں میں آنسو بھر کر پوچھا۔

    ہاں منی، وہ دیکھو۔ وہ جو سب سے روشن تارا ہے نا وہ ہماری دادی ہی تو ہیں۔ وہاں سے ہمیں دیکھ رہی ہیں اور ہم پر اپنی ر وشنی بکھیر رہی ہیں۔

    بھیا کیا اب دادی کبھی نہیں آئیں گی؟

    ارے بے وقوف تارہ بننے کے بعد بھی کوئ واپس آتا ہے! ’’دیکھو وہ کتنی خوش ہیں۔ اپنی سہیلیوں میں گھری بیٹھی ہیں۔ دیکھو کتنی چمک رہی ہیں۔ اب وہیں سے ہمارا خیال رکھتی ہیں۔ جب تم روتی ہو، پڑھائی نہیں کرتی ہو، اسکول نہیں جاتی ہو، تو وہ بھی دکھی ہوجاتی ہیں۔ ان کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے، اور کبھی تو وہ بادلوں میں منہ چھپاکر روپڑتی ہیں۔ کیا تم دادی کو دکھی کرنا چاہتی ہو؟

    ’’نہیں بھیا، اب میں کبھی نہیں روؤں گی۔ پابندی سے اسکول جاؤں گی اور خوب دل لگا کر پڑھوں گی۔ دادی چاہتی تھیں نا کہ میں ڈاکٹر بنوں، میں انھیں ڈاکٹر بن کر دکھاؤں گی .

    حفضہ نے اپنی خواب آلود آنکھوں سے تارے کو دیکھا اور خوابوں کی دنیا میں کھو گئ۔

    اور عیان سوچ رہا تھا، تارے تو سچ مچ جادوگر ہوتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے