ایک جنگل میں ایک بڑا سا تالاب تھا۔ اس تالاب کے کنارے بہت سارے پیڑ تھے۔ ان پیڑوں پر کچھ بندر رہتے تھے۔ بندروں کے بچے بڑے شریر تھے۔ وہ سارا دن چلاتے، لڑتے اور دنگا فساد کرتے رہتے۔ بڑے بندر انہیں سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے لیکن وہ ان کی سنتے ہی نہیں تھے۔
ایک بار چاندنی رات تھی۔ سارے بندر پیڑ پر سو رہے تھے۔ اتنے میں ایک بدر کا بچہ نیند سے جاگا اور تالاب کی طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں اسے تالاب کے پانی میں چاند نظر آیا۔ اسے لگا کہ آسمان سے پیر پھسل کر چاند تالاب میں گر گیا ہوگا۔ اس نے آہستہ سے باقی کے سارے بچوں کو اٹھا دیا۔
’’ارے اٹھو، سو کیا رہے ہو؟ چاند تالاب میں گر گیا ہے! بڑے بندروں کو پتا چلنے سے پہلے ہی ہم چاند کو باہر نکالیں گے اور آسمان میں جہاں تھا وہاں رکھ دیں گے۔‘‘
چاند کو باہر نکالنا سبھی بچوں نے طے کر لیا۔ پر اسے نکالیں کیسے؟ پانی تک ہاتھ پہنچےگا کس طرح؟
ایک بچے کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے کہا ’’چلو ہم اپنی زنجیر بنائیں۔‘‘
درخت کی ایک شاخ تالاب کے پانی کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ اس شاخ پر وہ بندر الٹا لٹک گیا۔ دوسرا بندر اس کے جسم پر سے ہو کر نیچے آ گیا۔ پہلے والے نے دوسرے بندر کی دم ہاتھ میں پکڑ لی تو دوسرا بندر الٹا لٹکنے لگا۔ اس طرح دوسرے نے تیسرے کی دم پکڑ لی۔ اس ترکیب سے ایک دوسرے کی دم پکڑ کر تالاب کے پانی تک سارے بندر کے بچوں نے اپنی زنجیر تیار کر لی۔
جب بالکل آخری بندر نے چاند کو نکالنے کے لئے اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈالے، تبھی کڑ کڑ کڑ کڑاک کڑ! درخت کی شاخ ٹوٹ کر ایک دم نیچے آ گئی۔ بندروں کی پوری زنجیر ایک جھٹکے سے پانی میں گر گئی۔ بندروں کے بچے گھبرا کر اتنی زور سے چلائے کہ بڑے بندر ایک دم جاگ اٹھے۔ انہوں نے دھڑا دھڑا چھلانگ لگاکر سارے بچوں کو جیسے تیسے باہر نکالا۔ منہ اور ناک میں پانی بھر جانے کی وجہ سے بندروں کے بچے گھبرا کر تھرتھر کانپ رہے تھے۔
دوسرے دن بڑے بندروں کو جب ساری بات معلوم ہوئی تب وہ پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنسنے لگے۔ چھوٹے بندر ایسا شرمائے کہ پوچھو مت۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.