تعریف کے لڈو
تحسین میاں گھر میں سب کے چہیتے تھے۔ ان کا پورا نام تحسین احمد تھا۔ بچپن ہی سے گول مٹول بالکل گڈے جیسے تھے۔ امی، ابو کے علاوہ سب انہیں کبھی لڈو تو کبھی گڈو کہہ کر پکارتے تھے۔ گھر کا ہر شخ ان کی توتلی اور معصوم باتوں کا دیوانہ تھا۔ ایک دن ان کی امی نے انہیں نہلا دھلا کر کرتا پاجامہ پہنا کر تیار کیا۔ وہ بڑے خوش خوش نظر آ رہے تھے۔ پتہ نہیں ان کے جی میں کیا آیا سیدھے گئے اور اپنے دادا جی کی جائے نماز بچھائی، سجدے کیے اور امی کے پاس چلے آئے۔ اپنی توتلی زبان میں کہنے لگے ’’امی دی، امی دی نون آیا نون آیا‘‘ ان کی بات سن کر بے چاری امی پریشان ہو گئی۔ ’’نون کیا بیٹا، ٹھیک سے بتاؤ‘‘ اس پر وہ جھنجھلا گئے۔ پھر وہی الفاظ دہرانے لگے۔ ’’امی نون۔۔۔ نون‘‘ ان کی امی نے سوال کیا ابھی ’ الف بے‘ کا قاعدہ پڑھا تھا پھر تمہیں نون کیوں یاد آیا؟ تحسین امی کو سمجھانے لگے امی اللہ میاں کو یاد کریں تونون آتا ہے نا۔ وہ نون۔ ’’تب کہیں تحسین میاں کی بات امی کی سجھ میں آئی۔ انہوں نے بیٹے کو پیار کرتے ہوئے کہا’’ میرے لڈو۔ وہ نور ہے نور۔ تم اللہ کو یاد کر کے آئے ہونا۔ ہاں ہاں۔ تمہارے چہرے پر نور آیا ہے۔
اکثر تحسین میاں کے ابو امی ان کی باتیں یاد کر کے ہنستے اور خوش ہوتے۔ وہ بھی کیا دن تھے صبح سے شام تک ان کی تعریف ہوتی۔ لڈو میاں اپنی تعریف سن کر خوش خوش ہوتے۔ ’الف سے اللہ کو پہچان‘ نظم ہو یا ‘A For Apple’ ایک سانس میں سناتے۔ گھر پر آئے مہمانوں کے سامنے ابو امی کی فرمائش پر طوطے کی طرح شروع ہو جاتے۔ تعریف کے لڈو کھا کر پھول جاتے، انعام کے طور پر جب انہیں چاکلیٹ یا آئس کریم ملتی تو ان کی خوشی اور بھی بڑھ جاتی۔ اگر کسی نے تعریف نہیں کیا یا پھر امی نے توجہ نہیں دیا تو بس لڈو میاں روٹھ جاتے۔ اس لیے تحسین کے چاچا انہیں ’’جھٹ خفا‘‘ کہہ کر چھیڑتے تھے۔
ایک دن سالگرہ پر انہوں نے نئے کپڑے پہنے۔ کیک اور مٹھائی لیے پڑوس کی عافی باجی کے گھر گئے۔ وہ کام میں مصروف تھیں، انہوں نے تحسین کو دیکھے بغیر پوچھا ’’لڈومیاں کیسے آنا ہوا؟‘‘ تحسین کو غصہ آ گیا، جواب دیا ’’یہ مٹھائی لیجئے‘‘ عافی نے سوال کیا ’’کس خوشی میں؟‘‘ ہم نہیں بتائیں گے، آپ امی سے پوچھ لیجئے۔ یہ کہہ کر مٹھائی ٹیبل پر رکھی اور منہ پھلائے گھر لوٹ آئے۔ ان کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر امی سے رہا نہ گیا۔ پوچھا ’’لڈو بیٹا کیا ہوا؟‘‘
امی کی بات سن کر دو موٹے موٹے آنسو ان کی آنکھوں سے گر پڑے۔ امی سے کہنے لگے ’’عافی باجی بہت خراب ہیں۔ انہوں نے نہ ہمیں دیکھا اور نہ ہمارے نئے کپڑوں کی تعریف کی اور نہ سالگرہ مبارک کہا۔‘‘
’’اب ہم کبھی ان کے گھر نہیں جائیں گے۔‘‘
ممی سمجھانے لگیں۔ بیٹا! عافی تمہاری سالگرہ کی تاریخ بھول گئی ہوگی۔ اچھا، بیٹا ہنس دو۔ دیکھو تمہارے دوست اور بھائی بھی آئے ہیں۔ چلو ہم کیک کاٹتے ہیں۔
لڈو میاں سالگرہ کی خوشی میں سب کچھ بھول کر دوستوں میں مصروف ہو گئے، مگر بات بات پر خفا ہونے کی عادت کم نہ ہوئی۔ جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو ہفتے میں ایک دوبار ان کا موڈ بگڑ جاتا۔ اسکول میں ٹیچر بچوں کی زبانی نظمیں سن کر نہ صرف شاباش کہتیں بلکہ بچوں کی کلائی پر ستارے کے نشان بھی بتاتی تھیں۔ جس دن تحسین میاں کو سب سے زیادہ ستارے ملتے اور ٹیچر واہ واہ کرتے ہوئے ان کی پیٹھ تھپتھپاتی تو ان کا چہرہ کھل جاتا۔ کبھی ستارے کم ملتے تو وہ بہت خفا ہوتے۔ اگلی جماعت تک پہنچتے پہنچتے ان میں اپنی تعریف سننے کی عادت بڑھ گئی تھی۔ ان کی جماعت کے چالاک بچے تحسین میاں کی خوب تعریف کر کے انہیں بےوقوف بناتے۔ کبھی ان کی رنگین پنسیلیں اڑا لیتے اور کبھی ان کی ڈرائنگ بک ہی غائب کر دیتے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔
ایک دن تحسین میاں خراب موڈ میں گھر لوٹے۔ جوتے اتارے، بیگ صوفے پر رکھا۔ ٹائی نکال کر پھینکی۔ منہ پھلائے سر نیچے کیے بیٹھے رہے۔ ممی سمجھ گئیں، ان کے لاڈلے کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ پیار سے پوچھا ’’میرے لڈو کو غصہ کس بات پر ہے؟‘‘
خفا ہوتے ہوئے انہوں نے پہلے تو سر سے امی کا ہاتھ جھٹک دیا، کہنے لگے ’’امی آپ مجھے لڈو نہ کہیے، اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔‘‘
امی نے خوشی سے کہا ’’اچھا اب میرا لڈو بڑا ہوگیا۔ اب تو تمہیں تحسین میاں کہنا پڑےگا۔ بیٹا میری سنو! یہ ذرا ذرا سی بات پر روٹھنا اچھی بات نہیں۔ پہلے کچھ کھا لو پھر بتانا اسکول میں کیا ہوا؟‘‘
میگی کی پلیٹ دیکھ کر ان کا غصہ بھاگ گیا۔ وہ ہاتھ منہ دھوکر آئے اور شوق سے میگی کھانے لگے۔ پھر سامنے اخبار پڑھتے چاچا کی بغل میں جا بیٹھے۔ چاچا نے اخبار سے نظریں ہٹاکر سوال کیا ’’تحسین میاں کیا بات ہے، کیا کوئی کام؟‘‘
انہوں نے آہستہ سے جواب دیا ’’چاچا آپ کی دی ہوئی نئی کیپ کھو گئی۔‘‘
’’ارے بدھو، آخر تم کب سدھروگے‘‘ چاچا ڈانٹنے لگے۔
تحسین میاں چاچا کو تفصیل سے بتانے لگے ’’جمیل، سمیر اور نعمان کو میری کیپ بہت پسند آئی، سب تعریف کرتے رہے، سمیر پہن کر خوش ہوا اور کہنے لگا یہ میرے سائز کی ہے۔ پتہ نہیں اس نے کب کیپ بیگ میں رکھ لی۔ میرے پوچھنے پر وہ رونے لگا، کیا میں چور ہوں، تمہاری کیپ میرے پاس کیوں ہوگی۔‘‘
تحسین کی باتیں سن کر چاچا نے سوال کیا ’’بیٹا تم نے اپنی ٹیچر سے شکایت نہیں کی۔‘‘
’’چاچا کبھی میری پنسل کھو گئی تھی، جب ٹیچر سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے ہی ڈانٹ دیا تھا۔‘‘
چاچا کو تحسین کے بھولے پن پر ترس آیا۔ سمجھانے لگے ’’بیٹا تحسین! آئندہ احتیاط برتنا۔ تم بڑے ہو گئے ہو۔ تمہیں اپنی چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ تعریف کے لڈو کھاؤگے تو پچھتانا پڑےگا۔ تمہیں وہ چالاک لومڑی اور بے وقوف کوے کی کہانی یاد ہے۔ جسے میں بچپن میں روٹی کا ٹکڑا دیکھا تو لگی اس کی آواز کی تعریف کرنے، بےوقوف کوے نے خوش ہوکر جیسے ہی چونچ کھولی روٹی کا ٹکڑا زمین پر گر پڑا اور لومڑی لے کر بھاگ گئی۔‘‘
تحسین میاں آیا سمجھ میں؟ تمہیں اپنے نام تحسین کے معنی معلوم ہیں۔ تحسین بمعنی تعریف، مگر یاد رکھنا، جھوٹی تعریف سے بچ کر رہنا۔ ورنہ تمہارے دوست جھوٹی تعریف کے لڈو کھلاکر تمہیں بےوقوف بناتے رہیں گے۔ اس میں نقصان تمہارا ہوگا۔ اچھا اب موڈ خراب نہ کرو، میں تمہارے لیے بازار سے ایک اور نئی کیپ خرید کر لاؤں گا۔
تحسین میاں یہ سن کر چاچا کے گلے میں جھول گئے۔ انہیں تعریف کے لڈوؤں کی حقیقت بھی معلوم ہوئی اور ایک نئی کیپ بھی مل گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.