تیسرا کمرہ
حامد صاحب کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنی بیوی، بیٹے شہزاد، بہو گلبدن اور دو پوتوں حسن اور محمود کے ساتھ ایک شہر میں رہتے تھے۔ ان کی کپڑا بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی جس سے انھیں اتنی آمدنی ہوجاتی تھی جو ان کی اچھے طریقے سے گزر بسر کے لیے کافی تھی۔
وہ سال کے دس مہینے تو فیکٹری کے کاموں میں مصروف رہتے تھے مگر بقیہ دو ماہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی پرفضا مقام پر گھومنے پھرنے کے لیے چلے جاتے تھے۔ اکثر اوقات ان کا بیٹا شہزاد ان کے ساتھ نہیں ہوتا تھا کیوں کہ حامد صاحب کی غیر موجودگی میں وہ ہی فیکٹری کے کاموں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
ایک روز حامد صاحب کے ذہن میں آیا کہ جب وہ ہر سال سیر سپاٹے کے لیے جاتے ہیں تو کیوں نہ کسی پرفضا پہاڑی مقام پر اپنا کاٹیج بنوا لیں کیوں کہ گھومنے پھرنے کے دوران ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں کمرے بڑی دشواری کے بعد ملتے تھے اور ان پر اخراجات بھی بہت ہوتے تھے۔
کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اپنے شہر سے تقریباً تین سو کلو میٹر دور کالی پہاڑی نامی ایک پر فضا جگہ پر پلاٹ لے کر ایک کاٹیج کی تعمیر شروع کروادی۔ یہ پلاٹ کالی پہاڑی کے اوپر اس کے درمیان میں تھا۔ وہاں کچھ دوسرے بھی کاٹیجز بنے ہوئے تھے مگر ہر ایک کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ ان کاٹیجز کو بھی ان لوگوں نے بنوایا تھا جو یہاں گرمیوں کے موسم میں آتے تھے۔ باقی پورا سال یہ بند ہی پڑے رہتے تھے۔ کالی پہاڑیوں کے نیچے چند گاؤں بھی تھے اور پندرہ بیس منٹ کی مسافت کے بعد وہاں تک پہنچا جاسکتا تھا۔
حامد صاحب کا یہ کاٹیج چھ ماہ میں بن کر تیار ہوگیا تھا۔ اس کی تعمیر کے دوران انہوں نے کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے یہاں کے کافی چکر بھی لگائے تھے اور وہ بہت خوش تھے۔ ایک تو آس پاس کے نظارے بڑے دلفریب تھے، دوسرے وہاں سکون بہت تھا۔ شہر کے ہنگاموں سے دور اتنے پرسکون ماحول میں کچھ وقت گزارنا واقعی خوشی کی بات تھی۔
خوش قسمتی سے وہاں گیس، بجلی اور پانی کی سہولتیں بھی میسر تھیں۔ انہوں نے احتیاطاً ایک بڑے سے جنریٹر کا بھی انتظام کر لیا تھا۔ تین کمروں کا یہ کا ٹیج مکمل ہوا تو وہ خاص طور سے اس کا جائزہ لینے کے لیے کالی پہاڑی پہنچے۔ اسے پوری طرح مکمل دیکھ کر انھیں بہت خوشی ہوئی۔ شہزاد بھی ان کے ساتھ تھا، اس نے بھی اس کی بہت تعریف کی اور فوراً ہی تیسرے کمرے پر قبضہ جما کر اسے لاک کیا اور چابی جیب میں ڈال کر بولا۔ “پا پا۔ مجھے امید نہیں تھی کہ اس قدر خوبصورت جگہ پر ہمارا ایسا ٹھکانہ ہوگا۔ اب تو میں بھی کبھی کبھی یہاں آ کر رہ لیا کروں گا۔ تیسرا کمرہ میرا ہے”۔
اس کے منہ سے کاٹیج کی تعریف سن کر حامد صاحب خوش ہوگئے۔ گھر پہنچ کر انہوں نے سب کو بتایا کہ کاٹیج شہزاد کو بہت پسند آیا ہے اور اس کے تیسرے کمرے پر اس نے قبضہ بھی کر لیا ہے۔
سردیوں کی آمد آمد تھی۔ آسمان پر بادل نظر آنے لگے تھے۔ ان کے دونوں پوتوں حسن اور محمود کی سردیوں کی چھٹیاں بھی شروع ہونے والی تھیں۔ ایک روز انہوں نے شہزاد سے کہا۔ “تم نے تو کاٹیج دیکھ لیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ بچوں کو بھی دکھا لاؤں۔ وہ کاٹیج بھی دیکھ لیں گے اور ان کی سیر بھی ہوجائے گی”۔
شہزاد نے کہا ۔ “میں تو فی الحال اس کا مشوره نہیں دوں گا۔ کل رات میں نے ٹی وی پر محکمہ موسمیات کی رپورٹ دیکھی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ وقت سے پہلے ہی برفباری شروع ہوجائے گی اور دوسرے سالوں کی نسبت زیادہ شدت سے ہوگی”۔
حامد صاحب ہنسنے لگے اور بولے۔ “ٹی وی والے تو سنسنی پھیلانے میں ماہر ہیں۔ مجھے پتہ ہے جب آدھی سردیاں گزر جائیں گی، تب برف باری شروع ہوگی۔ اور ویسے بھی ہم کون سا لمبے عرصے کے لیے جائیں گے۔ بچوں کو کاٹیج دکھا کر اگلے روز واپس آجائیں گے۔ اگلے ہفتے سے ان کے اسکول بھی پندرہ دن کے لیے بند ہو رہے ہیں”۔
ان کی بات سن کر شہزاد خاموش ہوگیا۔ بچوں کو جب اس پروگرام کے بارے میں پتہ چلا تو وہ بھی خوشی سے اچھل پڑے۔ اس سلسلے میں تیاریاں بھی شروع ہوگئیں۔ حامد صاحب کا خیال تھا کہ وہ اتوار کو نکلیں گے اور پیر کو واپسی کے لیے نکل کھڑے ہونگے۔
اسی دوران شہزاد نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ ایک دو روز کے لیے شہر سے باہر جا رہا ہے۔ حامد صاحب نے یہ سنا تو گھبرا کر بولے۔ “ہم اگلے اتوار کو کالی پہاڑی جائیں گے۔ اتوار سے پہلے ہی واپس آجانا ورنہ ہمارا پروگرام رہ جائے گا۔ بچوں کو بہت مایوسی ہوگی۔ وہ تو دن گن گن کر کاٹ رہے ہیں”۔
شہزاد نے انھیں اطمینان دلادیا کہ وہ ان کے جانے سے پہلے ہی آجائے گا۔ وعدے کے مطابق وہ اتوار سے پہلے ہی واپس آگیا تھا۔
اتوار کی صبح دس بجے کے قریب وہ لوگ گھر سے نکلے۔ شہزاد ان کے ساتھ نہیں تھا۔ حامد صاحب کی غیر موجودگی میں اسے فیکٹری کے معاملات دیکھنا تھے۔ شہزاد کی بیوی گلبدن نے بہت سارا کھانا پکا کر ساتھ رکھ لیا تھا۔ کاٹیج میں فرج کا بھی انتظام تھا اس لیے کھانوں کے خراب ہونے کا اندیشہ بھی نہیں تھا۔ شہزاد بچوں کے لیے ڈھیر ساری چیزیں لے آیا تھا جنہیں اس نے گاڑی میں رکھ دیا۔
موسم انتہائی خوشگوار تھا ۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے۔ چار ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ کالی پہاڑی پہنچ چکے تھے۔ ایک صاف شفاف سڑک پہاڑوں کے اوپر تک جاتی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف میں گہری کھائیاں تھیں، اس لیے اس کے دونوں اطراف میں لوہے کے پائپوں کی ریلنگ لگی ہوئی تھی۔ یہاں پر بادل گہرے ہوگئے تھے اور بارش کے آثار نظر آ رہے تھے۔
ان کی گاڑی سے آگے بھی ایک گاڑی جا رہی تھی۔ اس میں میاں بیوی اور تین بچے سوار تھے۔ گلبدن سوچنے لگی کہ شاید یہ لوگ ان کے قریبی پڑوسی ہونگے کیونکہ یہ گاڑی بھی اسی راستے پر جا رہی تھی جس پر وہ جا رہے تھے۔ اس کا خیال درست ہی تھا۔ وہ گاڑی سیدھے ہاتھ مڑ کر تھوڑی دور ایک عمارت کے احاطے میں داخل ہوگئی۔
کاٹیج پہنچ کر حسن اور محمود بہت خوش تھے۔ سب نے مل کر گاڑی سے سامان اتارا۔ سامان بہت زیادہ تھا اور اس میں زیادہ تر چیزیں کھانے پینے کی تھیں۔ برتن انہوں نے ساتھ نہیں لیے تھے کیوں کہ ضروریات زندگی کی تمام چیزیں اس کاٹیج میں پہلے ہی سے موجود تھیں۔ حامد صاحب نے تالا کھولا اور وہ اندر داخل ہوگئے۔ کاٹیج کو اندر سے دیکھ کر سب خوش ہوگئے۔ بڑے بڑے بستر، آرام دہ کرسیاں، کرسیوں کے ساتھ میزیں۔ گھر کے کمروں میں خوبصورت قالین بچھے ہوئے تھے۔
حامد صاحب کی بیوی اور گلبدن پکے ہوئے کھانوں کو فرج میں رکھنے لگیں۔ حامد صاحب نے کچن میں جا کر چائے کی کیتلی میں پانی بھر کر اسے گیس کے چوہلے پر رکھ دیا۔ دونوں بچے کھڑکی میں سے باہر دیکھنے لگے۔
حامد صاحب نے ان سے کہا۔ “تم دونوں گھر سے نکل کر باہر نہیں جاؤ گے۔ اس پہاڑ پر جنگلوں میں مختلف قسم کے جانور بھی رہتے ہیں”۔
محمود نے کہا “میں تو دادا ابّو ان سے نہیں ڈرتا۔ آپ کے پاس بندوق جو ہے”۔
حامد صاحب جب بھی ایسی جگہوں پر جاتے تھے تو اپنی بندوق کو ساتھ لے جانا نہیں بھولتے تھے۔ انہوں نے ہنس کر کہا ۔ “ہاں بندوق تو ہے میرے پاس مگر تم دونوں کے پاس تو نہیں ہے نا۔ ہم اکھٹے ہی باہر جایا کریں گے تاکہ ایک ہی بندوق سے تینوں کا کام نکل جائے”۔
اتنی دیر میں گلبدن کام ختم کر کے آگئی اور چائے بنانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب لوگ چائے پی رہے تھے۔ سردی بڑھ گئی تھی اور اس سردی میں چائے نے بہت مزہ دیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بجلی چمکنے لگی اور بادلوں کی گھن گرج دلوں کو دہلانے لگی۔ تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں اور درختوں سے ٹکرا کر عجیب طرح کا شور پیدا کررہی تھیں۔ یکلخت اتنی ساری تبدیلیاں دیکھ کر حامد صاحب کو کچھ فکر سی ہوئی۔ وہ کھڑکی کے نزدیک کرسی پر بیٹھ گئے اور باہر دیکھنے لگے۔
طوفانی ہواؤں اور بارش میں شدت آتی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد تیز ہوائیں چلنا بند ہوئیں اور بارش تھمی تو روئی کے سفید سفید گالے آسمان سے گرنا شروع ہوگئے۔ ان کی وجہ سے آس پاس کا منظر تو دلکش نظر آنے لگا تھا مگر حامد صاحب کو بہت سی فکروں نے گھیر لیا۔ موسم کی اس اچانک تبدیلی نے انھیں پریشان کر دیا تھا۔ وہ سوچنے لگے اگر یہ بے وقت کی برف باری نہ رکی تو واپسی کے راستے بند ہوجائیں گے۔
ان کی بیوی نے کھڑکی دروازے بند کیے اور بولیں ۔ “بچو سردی بڑھ گئی ہے۔ تم لوگ کمبلوں میں بیٹھ جاؤ۔ تھوڑی دیر بعد کھانا لگ جائے گا”۔
حامد صاحب نے دیوار پر لگے اسمارٹ ٹی وی پر بچوں کو کارٹون لگا دئیے اور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ بچے بہت خوش اور مگن تھے اور بڑے مزے سے کارٹون دیکھ رہے تھے۔
تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا۔ انھیں سفر کی بھی تھکن تھی۔ کھانا کھا کر جو انھیں نیند آئی ہے تو سب نے رات ہی کی خبر لی تھی۔ حامد صاحب کی آنکھ موبائل کی بیل کی آواز سے کھلی تھی۔ شہزاد کا فون تھا۔ حامد صاحب اٹھ کر برآمدے میں آگئے تاکہ ان کے باتیں کرنے کی وجہ سے کسی کی نیند خراب نہ ہو۔ باہر نکلے تو حیران رہ گئے۔ ہر چیز نے برف کی سفید چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اس وقت بھی روئی کے گالے تیزی سے زمین پر گر رہے تھے۔
شہزاد نے جب پوچھا کہ کیا حال ہیں تو حامد صاحب گھبرا کر بولے۔ “یہاں تو تیز برف باری شروع ہوگئی ہے۔ تم ٹھیک کہہ رہے تھے۔ موسم ایک دم سے تبدیل ہوگیا ہے۔ ہم نے یہاں آکر غلطی کی ہے”۔
شہزاد نے ہنس کر کہا۔ “میری مجبوری تھی ورنہ میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ آتا”۔
“لیکن شہزاد میں ایک اور بات سوچ رہا ہوں۔ برف باری بہت تیزی سے ہو رہی ہے۔ اگر راستے بند ہوگئے تو پھر ہم کیا کریں گے۔ ہمارے پاس تو کھانے پینے کا سامان بھی نہیں ہے۔ بچوں کا کیا ہوگا؟”۔ حامد صاحب نے فکرمندی سے کہا۔
شہزاد بولا۔ “الله مالک ہے۔ آپ بالکل پریشان مت ہوئیے”۔ چند دوسری باتیں کرنے کے بعد شہزاد نے انھیں خدا حافظ کہہ دیا۔
ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بجلی اور گیس بدستور آ رہی تھیں۔ ان لوگوں نے رات کا کھانا دس بجے کھایا۔ باہر بہت برف پڑی ہوئی تھی۔ ان کے کاٹیج کے برآمدے اور دوسرے کھلے حصوں پر تو موٹی لکڑی کی چھت پڑی ہوئی تھی مگر داخلی دروازے پر اتنی برف موجود تھی کہ باہر کی جانب دروازہ کھول کر نکلنا محال تھا۔ خوش قسمتی سے دروازہ دونوں جانب کھلنے والا تھا اس لیے انھیں فکر نہیں تھی۔
بچے تو برف دیکھ کر بہت خوش تھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بیلچے لا کر برف ہٹانے لگے۔ حامد صاحب کی بیوی بھی آکر ان کے قریب کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ “ہمارا کل یہاں سے نکلنا تو ناممکن لگ رہا ہے۔ سڑک پر نظر ڈالیں ایک فٹ سے تو کیا کم ہوگی برف۔ رات تک اگر برف باری نہ تھمی تو صبح تک تو اور بھی برا حال ہوجائے گا۔ اگر ہمیں یہاں زیادہ دنوں تک رہنا پڑ گیا تو کھانے پینے کا کیا ہوگا۔ دور دور تک یہاں کوئ دکان نظر نہیں آ رہی۔ راستے میں میں نے اکثر بنگلے بند دیکھے تھے۔ ہمیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا”۔
“غلطی میری ہے۔ حالانکہ شہزاد نے مجھے منع بھی کیا تھا مگر میں نے ہنس کر ٹال دیا تھا۔ بہرحال تم فکر مت کرو۔ اگر ہمیں زیادہ دنوں تک یہاں رکنا بھی پڑ گیا تو پہاڑ کے نیچے کچھ فاصلے پر بہت سے گاؤں ہیں۔ میں کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ کر کھانے پینے کی اشیا لے آؤں گا”۔ حامد صاحب نے ان کی ہمت بڑھانے کی خاطر کہا۔
اس صورتحال سے گلبدن بالکل بھی پریشان نہیں تھی۔ بہرحال حامد صاحب اور ان کی بیوی کی طرح اسے بھی تھوڑی سی یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ زیادہ دنوں تک رکنے کی صورت میں کھانے پینے کا کیا ہوگا”۔
رات کو ان تینوں نے بڑے حساب سے کھانا کھایا تاکہ وہ مزید ایک دو دن تک چل جائے۔ یہ تو اچھا ہوا تھا کہ گلبدن نے چلتے ہوئے زیادہ کھانا بنا لیا تھا۔ اس کے علاوہ شہزاد نے بچوں کے لیے بہت سارے بسکٹ، چپس اور ان کی پسند کی ڈھیر ساری چیزیں لا کر اس کے حوالے کردی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ ان چیزوں کو احتیاط سے چلائے تو دو تین روز تک کام چل جائے گا۔
رات گیارہ بجے ٹی وی میں اس علاقے کے بارے میں خبر دی گئی۔ شدید برف باری کی وجہ سے بے شمار لوگ راستے میں پھنس گئے تھے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ راستے صاف ہونے میں کم از کم ایک ہفتہ لگے گا۔ یہ خبر دیکھ کر حامد صاحب کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ وہ خود کو پریشان ظاہر کرکے دوسروں کو پریشان نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ اس سے ان لوگوں کی ہمتیں بھی جواب دے جاتیں مگر وہ گم سم سے ضرور ہوگئے تھے۔
ایسے میں ان کی بہو نے ان کی ہمت بندھائی۔ “ابّا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ ہمارے پاس وافر مقدار میں کھانے کی چیزیں ہیں۔ بسکٹوں کے تو ڈبے کے ڈبے شہزاد لے آئے تھے۔ چائے کا بھی ڈھیر سارا سامان ہے”۔
“مجھے تو بچوں کی زیادہ فکر ہے۔ ایک بات کا دھیان رہے۔ ہماری اس پریشانی کا علم بچوں کو نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پریشان ہوجائیں گے”۔ حامد صاحب نے اپنی بیوی اور گلبدن سے کہا۔
ابھی وہ تینوں اپنی اپنی سوچوں میں ہی گم تھے کہ حامد صاحب کے موبائل پر کسی کی کال آئی۔ انہوں نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو شہزاد کا نمبر تھا۔ انہوں نے بٹن دبا کر موبائل کان سے لگایا۔ شہزاد کہہ رہا تھا۔ “میں نے ابھی ابھی ٹی وی پر دیکھا ہے۔ کالی پہاڑی کے راستے بند ہوگئے ہیں”۔
“ہاں بیٹا۔ ہم نے بھی یہ خبر دیکھ لی ہے”۔ حامد صاحب نے اداسی سے کہا۔ “میں نے تمہاری بات نہ مان کر سخت غلطی کی ہے”۔
“پاپا ایسا نہ کہیں۔ آپ نے جو بھی کیا ٹھیک کیا”۔ شہزاد نے کہا۔
“ہم بہت فکر مند ہیں شہزاد۔ ہمیں اندازہ ہوگیا ہے کہ ہم کئی روز کے لیے اس کاٹیج میں قید ہوگئے ہیں۔ بچوں کا ساتھ ہے۔ کھانے پینے کا کیا ہوگا”۔ حامد صاحب نے بڑی فکر مندی سے کہا۔ ان کی بیوی اور گلبدن ان کی باتیں غور سے سن رہی تھیں۔ ان کی بیوی تو دور کھڑی سر ہلا ہلا کر ان کی باتوں کی تائید بھی کر رہی تھیں۔
“پاپا آپ کو زحمت ہوگی۔ ذرا میری گلبدن سے بات کروا دیجئے”۔ شہزاد کی اس بات پر حامد صاحب نے موبائل بہو کو دے دیا۔
دوسری طرف سے شہزاد کی شوخ آواز آئی۔ “برف باری ہو رہی ہے۔ مزہ تو خوب آرہا ہوگا؟”۔
گلبدن ہنس کر بولی “اگر آپ ساتھ ہوتے تو اور مزہ آتا۔ کہیے۔ کھانا کھا لیا۔ میں سب چیزیں پکا کر فرج میں رکھ آئی تھی”۔
“میں ابھی تو فیکٹری سے آیا ہوں۔ میں نے بوا سے کھانا نکالنے کا کہہ دیا ہے۔ تھوڑی دیر میں کھالوں گا۔ اور ہاں سنا ہے کہ تم لوگ وہاں برف باری کی وجہ سے پھنس گئے ہو۔ حسن اور محمود گھبرا تو نہیں رہے؟”۔ شہزاد نے پوچھا۔
“بچے تو ٹھیک ہیں۔ انھیں ہم نے احساس ہی نہیں ہونے دیا ہے۔ ابّا اور امی البتہ پریشان ہیں”۔ گلبدن نے بتایا۔
“اور تم؟”۔ شہزاد نے پوچھا۔
“الله کے فضل سے جب تک آپ ہیں میں کیوں پریشان ہوں گی۔ آپ سے تو مجھے یہ امید بھی ہے کہ اگر حالات مزید خراب ہوےٴ تو آپ ہمیں ہیلی کاپٹر میں بھی لے کر چلے جائیں گے”۔ گلبدن نے بڑے خلوص سے کہا۔
“جیتی رہو”۔ شہزاد نے ہنس کر کہا۔ “اچھا اب اپنا پرس اٹھاؤ اور اس کے چھوٹے خانے کی زپ کھولو۔ اس میں تمہیں ایک چابی ملے گی۔ یہ چابی اس تیسرے کمرے کی ہے جو کونے میں ہے۔ کمرہ کھول کر دیکھو پھر اس کے بعد مجھے فون کرنا”۔
فون بند ہوگیا تھا۔ گلبدن شہزاد کی باتیں سن کر سخت حیران تھی۔ اس نے جلدی سے اپنا پرس اٹھا کر اس کی چھوٹی جیب سے چابی نکالی۔ حامد صاحب اور ان کی بیوی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ انھیں لے کر وہ تیسرے کمرے کی طرف آئی۔ چابی سے دروازے کا قفل کھولا۔ دروازہ کھلتے ہی ان سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کمرہ کمرہ نہیں کسی جنرل اسٹور کا منظر پیش کر رہا تھا۔ آٹے ، چاول اور چینی کے تھیلے، دودھ کے ڈبے، دالوں کے بہت سے پیکٹ، چائے کی پتی، خشک گوشت کے ٹن، بچوں کے کھانے پینے کی اشیا غرض کونسی شے تھی جو وہاں نہیں تھی۔
گلبدن نے جلدی سے اپنا موبائل نکالا اور شہزاد کے نمبر ملائے۔ “شہزاد۔ آپ نے تو دل خوش کردیا۔ شکریہ۔ مگر یہ سب آپ نے کب کیا تھا؟”۔
دوسری طرف سے شہزاد بولا۔ “یاد ہے میں گزشتہ ہفتے ایک دو دن کے لیے گھر سے غائب ہوگیا تھا۔ میں یہ ہی انتظام کرنے کے لیے یہاں آیا ہوا تھا۔ میرا ایک دوست محکمہ موسمیات میں بھی ہے۔ اس نے بھی مجھے بتایا تھا کہ اگلے ہفتے سے اچانک شدید برفباری شروع ہوجائے گی۔ مجھے پتہ تھا کہ تم لوگوں کا پکا پروگرام بن گیا ہے۔ اس لیے میں نے احتیاطاً چپکے سے یہ انتظام کر دیا تھا۔ یہ سب سامان اتنا ہے کا دو ماہ سے بھی زیادہ چلے گا۔ اس تیاری کا میں نے پہلے اس لیے نہیں بتایا تھا کہ اچانک پتہ چلنے پر سب لوگوں کو حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوگی”۔
حامد صاحب بھی بہت خوش تھے۔ انہوں نے گلبدن کے ہاتھ سے فون لے کر شہزاد کو خوب شاباش دی۔ گلبدن اور حامد صاحب کی بیوی خوشی خوشی سامان کو قرینے سے لگانے لگیں۔ حامد صاحب بڑے اطمینان سے بچوں کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔
صبح وہ لوگ ناشتے سے فارغ ہو کر کھڑکیوں سے باہر جھانکنے لگے۔ حسن نے اپنی ماں گلبدن سے کہا۔ “امی پتہ نہیں ہمارے پڑوسیوں کے پاس کھانے پینے کی چیزیں ہونگی بھی یا نہیں۔ وہ ہی جو کل ہمارے ساتھ ساتھ آرہے تھے؟۔
گلبدن نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور میز کی طرف اشارہ کر کے بولی۔ “وہ دیکھو”۔
حسن نے مڑ کر دیکھا۔ میز پر دو بڑے بڑے پلاسٹک کے تھیلے رکھے ہوئے تھے۔ گلبدن نے کہا “میں نے اس تھیلے میں بہت ساری کھانے پینے کی چیزیں رکھ دی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم ان کے گھر جائیں گے اور انھیں یہ چیزیں دے دیں گے”۔
حامد صاحب حسن کی بات سن کر بہت خوش ہوےٴ اور بولے۔ “شاباش حسن۔ تم نے بہت اچھی بات کی ہے۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ تمہاری امی کی بھی یہ بہت اچھی بات ہے کہ انہوں نے خود احساس کرکے پڑوسیوں کے بارے میں سوچا اور ان کو دینے کے لیے پہلے ہی سے یہ چیزیں نکال کر رکھ لیں”۔
ان کے منہ سے تعریفی کلمات سن کر گلبدن اور حسن مسرور نظر آنے لگے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب گھر سے نکلے اور برف پر سنبھل سنبھل کر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پڑوسیوں کے گھر پہنچ گئے۔ ان کا گھر تقریباً ایک فرلانگ دور تھا۔
دونوں میاں بیوی حیران پریشان بیٹھے تھے۔ ان کے بچے کھڑکی کے پاس کھڑے باہر کا نظارہ کررہے تھے۔ گلبدن نے جب وہ چیزیں اس عورت کے حوالے کیں تو وہ بہت خوش ہوگئی۔ اس کا شوہر بھی اٹھ کر ان کے قریب آگیا۔ دونوں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا۔
اس آدمی کی بیوی بولی ۔ “بہن۔ ہم تو بالکل ناامید ہوگئے تھے، بچوں کا ساتھ ہے اس لیے زیادہ پریشانی ہوگئی تھی۔ آپ سے ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہمیں اپنے آس پاس کے ان لوگوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو کسی بھی لحاظ سے ہماری مدد کے مستحق ہیں”۔
حامد صاحب کی بیوی اور گلبدن یہ سن کر مسکرانے لگیں۔ حسن اور محمود ان کے بچوں میں گھل مل گئے اور ان کے ساتھ کھیلنے لگے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.