Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طلسمی جھیل کا راز

مختار احمد

طلسمی جھیل کا راز

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    کسی گاؤں میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بیٹے کا نام انور تھا۔ اس کے باپ نے اسے بچپن ہی سے ایک مدرسے میں پڑھنے کے لیے بٹھا دیا تھا۔ وہ ذہین تھا اس لیے استاد جو بھی سبق دیتے تھے، اس کو دوسرے بچوں کی بہ نسبت جلدی یاد کر لیا کرتا تھا۔ اس کے یہ استاد بہت شفیق تھے اور بچوں کو بہت پیار سے پڑھاتے تھے۔ ان کو دیکھ کر انور نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بھی بڑا ہو کر ان ہی جیسا ایک استاد بنے گا اور ان ہی کی طرح پیار محبّت اور نرمی سے بچوں کو تعلیم دیا کرے گا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ بہت دل لگا کر پڑھتا تھا تاکہ ایک روز وہ بھی اس قابل ہوجائے کہ دوسروں کو تعلیم دے سکے۔

    وہ پندرہ سولہ سال کا ہوا تو اس نے مدرسے سے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔ اس کا باپ اسے کھیتوں پر اپنے ساتھ کام کے لیے نہیں لے جاتا تھا۔ اس کی نظروں میں وہ ابھی تک بچہ تھا اور وہ سوچتا تھا کہ یہ انور کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ اس کے باپ کا یہ بھی خیال تھا کہ جب اس کی شادی ہوجائے گی تو وہ خود گھر کی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگے گا اور بیوی بچوں کا خرچ اٹھانے کے لیے کوئی نہ کوئی کام شروع کردے گا۔

    دو تین سال بعد اس کے ماں باپ نے انور کی شادی ایک اچھی اور خوبصورت لڑکی سے کر دی۔ اس کی بیوی کا نام سونا تھا اور وہ بہت سمجھدار بھی تھی۔ شادی کے بعد کچھ دنوں تک تو دونوں میاں بیوی نے رشتے داروں کی دی ہوئی خوب دعوتیں اڑائیں۔ جب شادی کو چند ہفتے گزر گئے تو سونا نے انور سے کہا۔ “انور۔ اب کل سے تمہیں بھی کام پر جانا چاہیے۔ یہ اچھا معلوم نہیں دیتا کہ تمہارے ابّا اتنی عمر میں کام کریں اور ہم سب مل کر کھائیں۔ شادی سے پہلے کی بات اور تھی۔ اب لوگ سنیں گے تو باتیں بنائیں گے کہ انور اتنا بڑا ہوگیا ہے مگر کماتا نہیں ہے۔ بوڑھے باپ کو گھر کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے”۔

    اس کی بات انور کی سمجھ میں آگئی اور اس نے کہا۔ “ٹھیک ہے پیاری سونا میں کل سے کام کی تلاش میں جاؤں گا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ مجھے پہلے ہی سے کوئی کام کرکے اپنے ابّا کا ہاتھ بٹانا چاہیے تھا۔ مگر میں کام کیا کروں گا؟ کھیتوں پر کام کرنا تو مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میرا ایک مدرسہ ہو اور میں بچوں کو اچھی اچھی باتوں کی تعلیم دوں۔ تعلیم حاصل کرنے ہی سے ایک انسان اچھا انسان بنتا ہے”۔

    سونا نے کہا۔ “تم فکر مت کرو۔ شہر میں میرے ماموں رہتے ہیں۔ وہ بادشاہ سلامت کے محل میں مالی ہیں۔ تم ان سے ملنا ہوسکتا ہے وہ بادشاہ سلامت سے کہہ کر تمہیں کسی مدرسے میں لگوا دیں”۔

    اگلے روز سونا نے اسے صبح سویرے بستر سے اٹھا کر بٹھا دیا اور خود جلدی جلدی سب کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ پھر انور کو ساتھ لے جانے کےلیے کھانا بنا کر دیا۔ انور کی ماں اور باپ کو جب پتہ چلا کہ آج وہ سونا کے ماموں کے پاس کام کے سلسلے میں شہر جائے گا تو وہ دونوں بھی بہت خوش ہوئے۔ سونا کے پاس کچھ رقم موجود تھی جو اسے شادی کے موقع پر ملی تھی۔ وہ اس نے انور کے حوالے کی تاکہ وقت پڑنے پر وہ اسے خرچ کر سکے اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔

    شہر کے راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا۔ ابھی وہ جنگل سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اس نے ایک جھونپڑی دیکھی جس کے باہر ایک بوڑھی عورت اور اس کا شوہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ بوڑھی عورت کہہ رہی تھی کہ آج ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ بھوک سے برا حال ہے۔

    انور یہ سن کر بہت افسردہ ہوا۔ اس نے اپنا کھانا نکال کر ان کے سامنے رکھا اور قریبی کنویں سے صراحی میں ٹھنڈا ٹھنڈا پانی لا کر انھیں دیا۔ دونوں میاں بیوی خوش ہوگئے اور اسے دعائیں دے کر مزے سے کھانے میں مشغول ہوگئے۔ چلتے ہوئے انور نے سونا کی دی ہوئی رقم میں سے آدھے پیسے بوڑھے کو دے دیے۔

    بوڑھا وہ رقم دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بولا۔ “اس رقم سے میں ایک کلہاڑی خریدوں گا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچا کروں گا۔ اس طرح جو پیسے ملیں گے وہ ہم دونوں میاں بیوی کے گزارے کے لیے کافی ہوں گے”۔

    اس کی بات سن کر انور مسکراتے ہوئے وہاں سے چل پڑا اور تھوڑی دیر بعد جنگل میں پہنچ گیا۔ جنگل میں پہنچا تو اسے بھوک ستانے لگی۔ کھانا تو وہ اس بوڑھی عورت اور اس کے شوہر کو دے چکا تھا، اب اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ اتنا بڑا جنگل ہے کسی درخت سے پھل توڑ کر کھالے گا۔

    اس کی نظر ایک بڑے سے درخت پر پڑی جس پر سیب کی طرح کے پھل لگے ہوئے تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ خوش ہوگیا۔ وہ پھل کافی اونچائی پر تھے اور انور انھیں زمین پر کھڑے کھڑے نہیں توڑ سکتا تھا اس لیے اس نے درخت پر چڑھنے کا ارادہ کرلیا۔

    وہ درخت پر چڑھا تو اسے اوپر کی ایک شاخ پر چڑیا سے تھوڑا بڑا کئی رنگوں والا ایک پرندہ دکھائی دیا۔ وہ پرندہ چاروں طرف سے بے خبر ایک پھل پر چونچ مار مار کر اسے کھا رہا تھا۔ انور کو وہ پرندہ بہت اچھا لگا۔ اس نے سوچا کہ اس خوبصورت پرندے کو میں گھر لے جا کر سونا کو دے دیدوں گا۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوگی۔ یہ سوچ کر وہ بغیر کوئی آواز نکالے اس کے نزدیک آیا اور پھر جھپٹ کر اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔

    اس اچانک آفت سے پرندہ گھبرا گیا اور زور زور سے اپنی سریلی آواز میں چلانے لگا۔ پھر اس نے سہمی ہوئی نظروں سے انور کو دیکھتے ہوئے کہا۔ “اگر تم مجھے چھوڑنے کا وعدہ کرو تو میں تمہیں طلسمی جھیل کا راز بتاؤں گا۔ ممکن ہے وہ تمھارے کسی کام آجائے”۔

    اسے انسانوں کی طرح باتیں کرتا دیکھ کر انور حیران رہ گیا۔ وہ سنبھل کر ایک موٹی سی شاخ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ “ٹھیک ہے۔ تم مجھے طلسمی جھیل کا راز بتاؤ۔ میں تمہیں چھوڑ دوں گا”۔

    پرندے نے کہا۔ “تم اس جنگل میں کسی بھی جگہ کھڑے ہو کر پورے سو قدم گن کر سامنے کی جانب چلو۔ سو قدم پورے ہوجائیں تو رک جاؤ اور پھر پورے سو قدم گن کر دوبارہ پیچھے کی جانب آؤ۔ اگر قدموں کی گنتی بالکل ٹھیک ہوئی تو تمہارے سامنے ایک جھیل نمودار ہوجائے گی۔ یہ ہی طلسمی جھیل ہے۔ اگر اس جھیل کا پانی کسی ایسے شخص پر ڈال دیا جائے جو جادو جانتا ہو، تو اس عمل سے وہ اپنا سارا جادو ہمیشہ کے لیے بھول جائے گا اور پھر کبھی بھی کسی پر جادو نہیں کرسکے گا۔ اس کے علاوہ اس نے جس جس پر بھی اپنا جادو کیا ہوگا ان لوگوں پر سے بھی اس کے جادو کا اثر ختم ہوجائے گا۔ یہ ہے طلسمی جھیل کا راز!”

    انور کو یہ بات بہت عجیب سی لگی۔ اس نے پرندے کو چھوڑ دیا اس کے بعد اس نے کچھ پھل کھا کر اپنی بھوک مٹائی۔ پھر درخت سے نیچے اتر کر وہ ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ وہاں سے وہ سو قدم آگے کی طرف گیا۔ پھر جب سو قدم پورے ہوگئے تو وہ گن گن کر سو قدم پیچھے کی جانب آیا۔ جب یہ گنتی پوری ہوگئی تو اچانک اس کے سامنے ایک ہلکے سے دھماکے کے ساتھ ایک جھیل نمودار ہوگئی جس میں سبزی مائل پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں جگہ جگہ کنول کے پھول نظر آ رہے تھے۔

    انور نے جلدی سے اپنی چھاگل میں اس جھیل کا پانی بھرا اور جیسے ہی واپسی کے لیے مڑا تو اس کے کانوں میں پھر ہلکے سے دھماکے کی آواز آئی۔ اس نے گھوم کر دیکھا تو وہ طلسمی جھیل نظروں سے غائب ہوگئی تھی اور اب وہاں پر بڑی بڑی جھاڑیاں نظر آ رہی تھیں جن میں خرگوش کے چند بچے چھپے ہوئے تھے اور اپنی چھوٹی چھوٹی لال لال آنکھوں سے انور کو دیکھ رہے تھے۔

    اس کے بعد انور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ شام ہوتے ہوتے وہ شہر پہنچ گیا۔ اسے سونا کے ماموں کے گھر تک پہنچنے میں کوئی دقّت نہ ہوئی۔ وہ چونکہ بادشاہ کے محل میں کام کرتا تھا اس لیے بہت سے لوگ اسے جانتے تھے جنہوں نے انور کو اس کے گھر پہنچا دیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کی خوب خاطر مدارت کی۔

    انور نے جب اس کو بتایا کہ وہ کام کے سلسلے میں شہر آیا ہے تو اس نے انور سے کہا کہ وہ کوشش کرے گا کہ اس کی نوکری محل میں ہی لگ جائے۔ مگر اس میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ بادشاہ سلامت ایک مسلے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔

    انور کے پوچھنے پر اس نے بتایا۔ دو تین روز پہلے ایک نہایت بدصورت جادوگر بادشاہ سلامت کے پاس آیا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ شہزادی کی شادی اس کے ساتھ کردے۔ اس کی بات سن کر بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو گرفتار کر لیں۔ مگر وہ جادوگر بہت مکار تھا۔ اس سے پہلے کہ سپاہی اسے پکڑتے، وہ چھلانگ لگا کر چھت سے لٹکے فانوس پر چڑھ گیا اور جانے کیا پڑھ کر شہزادی پر پھونکا کہ سترہ اٹھارہ سال کی شہزادی کا قد دو تین سال کے بچے جتنا ہوگیا۔ جادوگر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ اگر بادشاہ نے اس کی شادی اپنی بیٹی کے ساتھ نہیں کی تو شہزادی ہمیشہ اتنے ہی قد کی رہے گی۔ اس نے بادشاہ سلامت کو سوچنے کے لیے تین روز دئیے ہیں۔ کل اس مہلت کا آخری دن ہے۔ کل وہ جادوگر پھر آئے گا۔ دیکھو کیا ہوتا ہے”۔

    یہ کہانی سن کر انور سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے سونا کے ماموں سے کوئی بات نہیں کی۔ اگلے روز سونا کا ماموں اس کو لے کر محل گیا اور خود باغیچے میں کام کرنے لگا۔ محل آتے ہوئے انور چھاگل اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا جس میں طلسمی جھیل کا پانی تھا۔

    محل میں موجود سارے لوگ خاموش تھے اور سہمے سہمے اپنے کام کرتے پھر رہے تھے۔ وہ سب اپنے بادشاہ سے بہت محبّت کرتے تھے کیوں کہ وہ اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا۔ انھیں یہ فکر ہوگئی تھی کہ جانے آج وہ جادوگر آکر کیا گل کھلائے گا۔

    بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا۔ اسے اس ظالم جادوگر کا انتظار تھا۔ بادشاہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے بہت سی دولت دے کر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ شہزادی پر سے جادو کا اثر ختم کردے اور اس سے شادی کا خیال بھی چھوڑ دے۔

    اچانک محل میں کھلبلی سی مچ گئی۔ چاروں طرف شور مچ گیا “جادوگر آگیا۔ جادوگر آگیا”۔

    یہ آوازیں سن کر انور بھی دربار کی جانب لپکا۔ پہرے دار تو اپنے ہوش و حواس میں ہی نہیں تھے، سب کی نظریں اس اڑتے ہوئے جادوگر پر لگی ہوئی تھیں جو اب محل میں داخل ہو کر بھرے دربار میں داخل ہوگیا تھا۔ انور کو دربار کے دروازے پر کسی نے بھی نہیں روکا کیونکہ تمام دربان اور پہرے دار جادوگر کی طرف متوجہ تھے ۔ وہ بڑی آسانی سے دربار میں پہنچ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔

    وہاں اس نے ایک عجیب و غریب شکل والے شخص کو دیکھا جس کی ایک آنکھ چھوٹی اور دوسری آنکھ بہت بڑی تھی۔ اس کی ناک بہت لمبی تھی اور آگے سے مڑی ہوئی تھی۔ وہ بادشاہ کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔ انور سمجھ گیا کہ یہ ہی وہ ظالم جادوگر ہے جس کی وجہ سے بادشاہ پریشان ہے۔

    انور جادوگر کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔ اسے اپنے سامنے دیکھ کر جادوگر کے چہرے پر غصے کے اثرات نمودار ہوگئے۔ “لڑکے تو کون ہے۔ میرے سامنے یوں کھڑے ہونے کا تیرا مقصد کیا ہے؟ کیا تو مجھے نہیں جانتا کہ میں کتنا بڑا جادوگر ہوں؟”

    میرا نام انور ہے۔ تم بھی مجھے نہیں جانتے ہو ورنہ اس انداز میں مجھ سے باتیں نہ کرتے۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ شہزادی صاحبہ پر سے جادو کا اثر ختم کردو اور اپنی منحوس شکل لے کر یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ کبھی اس جگہ کا رخ نہ کرو”۔ انور نے کہا۔

    بادشاہ اور تمام درباری حیرت سے انور کو دیکھ رہے تھے۔ شہزادی جو جادو کی وجہ سے بالکل ننھی منی ہوگئی تھی اس کو انور کی بہادری بہت اچھی لگی اور وہ اس بات سے اتنی خوش ہوئی کہ زور زور سے تالیاں بجانے لگی۔

    جادوگر کو یہ دیکھ کر مزید غصہ آگیا۔ اس نے شہزادی سے کہا۔ “بونی شہزادی تم سے تو میں بعد میں نمٹوں گا۔ پہلے اس لڑکے کو اس کی گستاخی کا مزہ چکھا دوں”۔ وہ آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔

    اتنی دیر میں انور نے اپنی چھاگل میں سے تھوڑا سا پانی نکال کر جادوگر کے چہرے پر پھینک دیا۔ اس کے منہ پر پانی پڑا تو سب کے کانوں میں بادلوں کے گرجنے اور بجلی کے کڑکنے کی تیز آوازیں آنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی جادوگر کے منہ سے کالے سیاہ رنگ کا دھواں نکلا اور ایک گولے کی شکل میں کچھ اوپر جمع ہونے لگا۔ اس گولے میں عجیب عجیب خوفناک شکلیں نظر آ رہی تھیں۔ پھر اس دھویں کے گولے میں سے نہایت خوفناک چیخوں کی آوازیں آئیں اور کچھ دیر بعد وہ گولہ بڑی تیزی سے ایک کھڑکی میں سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔

    جادوگر سخت گھبرا گیا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انور کو دیکھنے لگا۔ عین اسی وقت فضا میں جلترنگ سے بجنے لگے۔ سب لوگوں نے چونک کر دیکھا۔ دربار کی چھت سے چھوٹے چھوٹے سنہری اور بے حد چمکدار ستارے گرنا شروع ہوگئے۔ ان ستاروں نے شہزادی کے گرد حصار بنایا اور اس کے چاروں طرف گھومنے لگے اور پھر اگلے ہی لمحے شہزادی کا قد پہلے ہی جیسا ہوگیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا تھا۔

    انور نے جادوگر سے کہا۔ بد بخت جادوگر میں نے تم پر طلسمی جھیل کا پانی پھینک دیا ہے۔ اب تم زندگی بھر کسی پر جادو نہیں کر سکو گے”۔

    اس کی بات سن کر جادوگر کا منہ خوف سے پیلا پڑ گیا۔ سارے دربار میں شور مچ گیا۔ بادشاہ خود حیرت کے مارے اپنے تخت سے اٹھ کھڑا ہوگیا تھا۔

    انور نے نہایت ادب سے کہا۔ “بادشاہ سلامت۔ اپنے سپاہیوں کو حکم دیجیے کہ وہ اس نامراد جادوگر کو گرفتار کرلیں۔ اب یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا”۔

    بادشاہ کے حکم پر جادوگر کو سپاہیوں نے گرفتار کرلیا اور اسے لوہے کی بیڑیاں پہنا کر جیل میں ڈالنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔

    شہزادی نے جب دیکھا کہ اس پر سے جادو کا اثر ختم ہوگیا ہے اور اس کا قد پھر پہلے جیسا ہی ہوگیا تو وہ خوش ہو کر ملکہ کے گلے سے لگ گئی۔ سارا دربار مبارک، سلامت اور مرحبا کے نعروں سے گونجنے لگا۔ بادشاہ نے آگے بڑھ کر انور کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

    ملکہ نے انور سے کہا۔ “تمہاری وجہ سے ہمیں یہ خوشی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہماری شہزادی پھر پہلے جیسی ہوگئی ہے۔ نوجوان تمہارا بہت بہت شکریہ”۔

    انور نے ملکہ کی بات سن کر سر جھکا کر اسے تعظیم دی۔ بادشاہ کے پوچھنے پر انور نے اپنی پوری کہانی اسے سنا دی۔ بادشاہ اس کا بہت احسان مند تھا۔ اس نے کہا۔ “نوجوان تم نے ہمیں ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات دلائی ہے۔ ہم زندگی بھر تمہارے احسانمند رہیں گے”۔

    انور نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا۔ “جہاں پناہ۔ آپ ہمارے بادشاہ سلامت ہیں۔ آپ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ وقت پڑنے پر ہم آپ کے کام آئیں اور آپ کی مدد کریں”۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا۔ “تم نے ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں۔ مانگو کیا مانگتے ہو”۔

    انور بولا۔ “بادشاہ سلامت۔ میں تو اپنی بیوی سونا کے کہنے پر گاؤں سے چل کر شہر نوکری کرنے آیا ہوں۔ اگر مجھے کوئی نوکری مل جائے تو میں سمجھوں گا کہ یہ ہی میرا انعام ہے۔ میری نوکری لگ جائے گی تو سونا بہت خوش ہوگی۔ وہ چاہتی ہے کہ میں کچھ کماؤں تاکہ میرا بوڑھا باپ آرام سے گھر میں بیٹھے”۔

    اس کی معصومانہ باتیں سن کر بادشاہ بہت ہنسا ملکہ اور شہزادی بھی مسکرانے لگی تھیں۔ بادشاہ نے کہا۔ “ٹھیک ہے ہمیں تمہاری خواہش منظور ہے۔ مگر اب ہم تمہیں کہیں اور نہیں جانے دیں گے۔ کہو تم کون سا کام کرنا پسند کروگے؟ ہم تو چاہتے ہیں تم ہمارے وزیر خاص بن جاؤ”۔

    “میں بچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے یہ ذمہ داری دے دی جائے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا”۔ انور نے کہا۔ “میرا دل چاہتا ہے کہ ہمارے ملک کا ایک ایک بچہ اور ایک ایک بچی تعلیم حاصل کرے اور ایک مفید شہری بنے جس سے ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا اور لوگ بھی خوش حال ہوجائیں گے”۔

    بادشاہ اس کی بات سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا۔ “تمہاری بات سے ہم بہت خوش ہوئے ہیں۔ تم اگر چاہتے تو ہم سے بھاری انعام و اکرام لے کر اپنی زندگی آرام سے گزار سکتے تھے مگر تمھارے دل میں ذرا سا بھی لالچ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تم نیک دل اور سمجھدار بھی ہو۔ یہ ہی تو وہ باتیں ہیں جو تعلیم دینے والوں میں ہوتی ہیں۔ ہماری طرف سے تمہیں اجازت ہے کہ تم ہماری سلطنت کے بچوں کو تعلیم دو۔ اس سلسلے میں ہم تمہیں تمام سہولتیں مہیا کریں گے”۔

    چونکہ بادشاہ سلامت کا حکم تھا اس لیے چند ہی دنوں میں ایک بہت بڑا مدرسہ بن کر تیار ہوگیا۔ اس مدرسے کا سارا انتظام انور کے ہاتھوں میں تھا۔ اس نے مدرسے میں بہت سارے دوسرے اتالیق بھی مقرر کر دیے تھے اور تھوڑے ہی عرصے میں دور دور سے بچے یہاں پڑھنے کے لیے آنے لگے جنہیں انور اور دوسرے استاد نہایت پیار محبّت سے تعلیم دیتے تھے۔ وہ نہ تو بچوں کو مارتے پیٹتے تھے اور نہ ہی ان سے سخت لہجے میں بات کرتے تھے۔ سارے بچے اس اچھے ماحول کی وجہ سے خوب دل لگا کر اور شوق سے پڑھتے تھے۔ بادشاہ نے یہاں پر تعلیم دینے والوں کی معقول تنخواہیں بھی مقرر کردی تھیں جو سرکاری خزانے سے دی جاتی تھیں۔

    بادشاہ نے اپنی طرف سے انور کو رہنے کے لیے ایک بڑا سے گھر بھی دے دیا تھا اور ایک شاہی بگھی بھی دی تھی جس میں چار گھوڑے جتے تھے۔ اس کے علاوہ اس نے پانچ ہزار اشرفیاں بھی اسے دی تھیں اور کہا تھا کہ یہ اس کا انعام ہے۔

    سونا کا ماموں بھی بہت خوش تھا۔ انور کی وجہ سے بادشاہ سلامت کی نظروں میں اس کی بھی بہت عزت بڑھ گئی تھی۔ جب انور ان تمام کاموں سے فارغ ہوگیا تو ایک روز وہ اپنی بگھی میں بیٹھ کر اپنے گھر آیا۔ وہ شہر سے اپنے ساتھ بہت سے کپڑے اور دوسرے تحفے تحائف بھی لایا تھا جو اس نے گاؤں کے تمام لوگوں میں تقسیم کیے۔ اس کے علاوہ اس نے ان لوگوں کو نقد رقم بھی دی۔ اس کے ماں باپ اور اس کی بیوی سونا سب بے حد خوش تھے۔ اگلے روز انور اپنے گھر والوں کو اپنے ساتھ شہر لے آیا اور پھر سب لوگ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے