طہٰ میاں کی سالگرہ آئی اور ڈھیر سارے تحفے ساتھ لائی۔ خود بخود گھومنے والی اور سائرن بجانے والی کار، ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کشتی، ایک چھوٹا سا بٹوے کی شکل کا ٹیلی ویژن جو جیب میں رکھا جا سکتا تھا۔ چھوٹا سا کیمرہ اور دوربین، چھوٹی سی چھرے والی بندوق وغیرہ وغیرہ۔ اتنے اچھے اچھے اور دلچسپ کھلونوں میں بے چاری پرانی گیند کو کون پوچھتا۔ گیند بے چاری ایک کونے میں پڑی ہوئی تھی۔
وہ دن بھی تھے جب منے طٰہٰ اور اس گیند میں بڑی دوستی تھی۔ ہر وقت دونوں ساتھ رہتے تھے۔ ہاتھ سے چھوٹ کر گیند نیچے گر پڑتی تو طٰہٰ میاں دوڑ کر اسے اپنی گود میں اٹھا لیتے اور رات کو بھی گیند کو اپنے ساتھ سلاتے۔
یہ بڑی پیاری سی لال رنگ کی مخملی ہلکی پھلکی، اچھلتی کودتی گیند تھی۔ اسے ہواخوری کا بہت شوق تھا۔ طٰہٰ میاں جہاں کہیں جاتے اپنی گیند ساتھ لے جاتے۔ پارک میں اس گیند کی ملاقات دوسری گیندوں سے ہوتی۔ بچے ادھر ادھر دوڑ لگاتے۔ جھولا جھولتے۔ پھسل منڈی پر چڑھ کر دور تک پھسلتے اور ان کی گیندیں گھاس پر لیٹ کر آپس میں باتیں کرتیں، اپنے اپنے قصے سناتیں، تازہ ہوا کھا کر ان کا بھی دل خوش ہو جاتا۔
اب جب سے طٰہٰ میاں کی نئی نئی دلچسپیاں نئے کھلونوں نے اپنی طرف کھینچ لی تھیں تو گیند بےچاری طٰہٰ میاں کے کمرے میں ایک میز کے نیچے کونے میں پڑی رہتی تھی۔ طٰہٰ میاں اسے بالکل ہی بھول گئے تھے۔ گیند اداس رہتی اور کبھی کبھی چاہتی کہ کوئی اسے اٹھا کر باہر پھینک دے، کم سے کم کچھ تازہ ہوا ہی کھانے کو لےگی۔
ایک دن گیند بہت پریشان تھی۔ شام ہونے کو آئی تو اسے ایک چوہا اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ گیند نے کہا چوہے صاحب میں تو بہت دنوں سے آپ کا انتظار کر رہی تھی، مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کو طٰہٰ کی مخملی بلی سے اتنا ڈر لگتا ہے، مگر نہ تو اس کے نکیلے ناخن ہیں اور نہ چمکتے ہوئے تیز دانت۔ وہ جھوٹ موٹ کی بلی ہے اور اب تو وہ بھی رفو چکر ہوئی۔ طٰہٰ نے وہ بلی ماسی کی لڑکی کو دے دی۔ آپ اب میرا ایک کام کر دیجئے۔ مجھے لڑھکا کر باہر لان پر لے جائیے۔ ٹھنڈی ہوا کھانے کو ترس گئی ہوں۔ چوہے نے کہا کہ یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے یہ لو۔
وہ گیند کو لڑھکاتا ہوا برآمدے میں لے گیا اور برآمدے سے باہر لان کی طرف دھکیل دیا۔ گیند ایک جھاڑی کے قریب جاکر رکی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں اس کا جی خوش ہو گیا، مگر رات آئی تو اوس پڑنے لگی اور گیند کو سردی لگنے لگی مگر اب اسے اندر کون لے جاتا؟ چوہا تو سیر سپاٹے کو نکل گیا ہوگا اور گھر کے تمام دروازے بند ہو گئے ہوں گے۔
اوس اتنی پڑی کہ گیند کا مخملی رواں تربتر ہو گیا اور سردی لگ کر اسے بخار ہو گیا۔ مچھروں نے بھی اسے خوب کاٹا اور جھینگروں نے اسے دل بھر کے چاٹا۔ اللہ اللہ کر کے دن نکلا تو کچھ جان میں جان آئی مگر ایک چیل نے اوپر سے جھاڑیوں کے پاس لال رنگ کی چیز پڑی دیکھی۔ وہ سمجھی شاید تازے گوشت کا ٹکڑا ہے، چیل نے جھپٹا مار اور گیند کو اپنے مضبوط پنجوں میں لے کر اڑی ۔یہ تو اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ گوشت نہیں ہے لیکن اسے گیند کا رنگ پسند آیا اور اس نے سوچا کہ گھونسلےمیں بچے اسے دیکھ کر خوش ہوں گے۔ پہاڑ کے نیچے ایک درخت پر اس کا گھونسلہ تھا ۔چیل اتری اور گیند کو گھونسلے میں اپنے بچوں کے پاس ڈال دیا۔ بچے لپکے اور گیند کو ٹھونکیں مارنے لگے۔ کوئی بچہ پنجوں سے نوچتا تو کوئی چونچ سے جگہ جگہ سے گیند کا مخملی رواں اکھڑ گیا اور سفید سفید ربر نکل آیا۔
گیند نے دیکھا کہ گھونسلے کے اندر اور بھی کئی چھوٹی چھوٹی چمک دار چیزیں بڑی ہوئی ہیں۔ گیند کو بڑا تعجب ہوا کہ چیل بھی اپنے بچوں کے لئے کھلونے جمع کرتی ہے۔ ان چیزوں میں ایک خوبصورت اور نازک سی زنجیر بھی تھی۔ گیند کو یہ زنجیر بہت پسند آئی اور اس کا دل چاہا کہ اس زنجیر کو اپنے اندر چھپا لے۔
چیل اور اس کے بچوں نے چونچیں مار مار کر گیند کے جسم میں زخم ڈال دیئے، جگہ جگہ سے اس کا ربڑ کٹ گیا مگر خوب صورت زنجیر چھپانے کی جگہ بن گئی۔ درخت پر ہوا بہت تیز چلتی تھی اور گیند کو گھونسلے میں ادھر ادھر لڑھکاتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ گیند لڑھکی تو سنہری زنجیر اپنے وزن سے گیند کے گھونسلے میں ادھر ادھر لڑھکاتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ گیند لڑھکی تو سنہری زنجیر اپنے وزن سے گیند کے پیٹ میں جاپڑی۔ اب چیل کے بچوں کا دل بھی گیند سے بھر چکا تھا۔ انہوں نے گیند کو دھکیل کر گھونسلے کے باہر پھینک دیا اور گیند نیچے پتھریلی زمین پر ببول کے کانٹوں پر گر پڑی۔
گیند کو طٰہٰ میاں بہت یاد آتے تھے۔ طٰہ میاں نے اسے بھلا تو دیا تھا مگر وہاں وہ آرام سے تو پڑتی رہتی تھی، مگر اب وہ واپس اس گھر میں کیسے جا سکتی تھی؟ اسے اپنی بےوقوفی پر غصہ آنے لگا۔ نہ وہ گیند چوہے کی چاپلوسی کر کے باہر لان پر آتی اور نہ اس مصیبت میں پھنستی۔ ببول کے درخت کے نیچے لمبے لمبے نوک دار کانٹے اسے بہت برے لگتے تھے۔ گیند بیچاری روتی چلاتی مگر اس جنگل میں اس کی مدد کو کون پہنچتا؟
پھر ہوا یہ کہ ایک بندر کے تماشے والے کی بندریا بھاگ گئی اور بندر کے تماشے والا اپنی بندریا کو ڈھونڈتا ڈھانڈتا پہاڑی کی طرف نکل آیا۔ اس طرف سے گزرا تو لال رنگ کی زخمی سی گیند پر نظر پڑی۔ گیند اٹھا کر اس نے اپنے تھیلے می ڈال لی اور گھر کی طرف چل دیا۔ وہ چار دن بعد اسے اپنی کھوئی ہوئی بندریا بھی مل گئی۔
تماشے والے نے بندریا کو ایک نیا کرتب سکھایا۔ تھیلے میں پڑی ہوئی گیند دیکھ کر یہ کرتب اس کی عقل میں آیا تھا۔ تماشے والا ہاتھ سے گیند اچھا کر بندریا کی طرف پھینکتا، بندریا پھدک کر فٹ بال کے کھلاڑی کی طرف گیند پر اپنے سر سے ہٹ لگائی اور تماشے والا گیند لپک لیتا۔ تھوڑی دیر یہ کرتب یونہی جاری رہتا۔ لوگ خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور پیسے پھینکتے۔ گیند کے اندر سے ہر دفعہ چھن سے آواز آتی۔ تماشے والا سمجھتا کہ گیند میں کنکریاں بھری ہوئی ہیں۔
ایک دوپہر کو بندر کے تماشے والا ڈگڈگی بجاتا ہوا طہٰ میاں کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا طہ میاں کا دل چاہا کہ تماشا دیکھا جائے اور ان کی امی نے اجازت بھی دے دی۔ تماشا شروع ہوا طٰہ کو بندریا اور گیند کا تماشا بہت پسند آیا۔ ایک دفعہ بندریا نے اس زور سے چھل کر اپنے سر گیند کو ہٹ لگائی کہ گیند جھاڑیوں میں جا چھپی اور تلاش کے باوجود نہیں ملی۔ طٰہ میاں میاں نے تماشے والے کو ایک روپیہ اور دلوادیا کہ نئی گیند خرید لے۔
گیند جھاڑیوں میں پڑی تھی۔ اوس اور دھوپ میں اس کا زخم کھل گیا اور زخم سے سنہری زنجیر جھانکنے لگی۔ اتفاق سے طٰہٰ میاں کی نظر پڑی۔ گیند اٹھا کر زنجیر نکالی۔ گیند اور زنجیر کو غور سے دیکھا اور وہیں سے چلائے۔ امی امی! آپ تو کہتی تھیں آپ کی سونے کی چین ماسی نے اٹھا لی ہوگی مگر یہ دیکھئے! میری پرانی گیند آپ کی چین ڈھونڈلائی ہے اور دیکھئے بےچاری کتنی زخمی ہو رہی ہے۔
طٰہٰ کی امی نے گیند کو پیار کیا۔ اس پر نئی سرخ مخمل کا خول چڑھایا تو گیند بالکل نئی دکھائی دینے لگی۔ طہٰ میاں نے اپنی پرانی اور وفادار گیند کو اپنی پیڈل والی کار کے ایک کونے میں رکھ لیا۔ طٰہ میاں جب اپنی کار دوڑاتے تو گیند ان کے ساتھ ہوتی۔ یہ عزت صرف گیند ہی کو حاصل تھی۔ گیند بھی خوش تھی اور طٰہٰ میاں بھی خوش تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.