Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وزیر شہزادہ

مختار احمد

وزیر شہزادہ

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کا نام شعیب اور چھوٹے کانام زوہیب تھا۔اگرچہ شعیب تھا تو بڑا مگر وہ بہت سیدھا سادہ تھا اور اس میں زیادہ عقل و شعور بھی نہ تھا۔جب کہ چھوٹا بیٹا زوہیب اس سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار تھا-

    بادشاہ اس بات پر کڑھا کرتا تھا کہ اس کے بڑے بیٹے میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں جو کہ ایک ولی عہد میں ہونا چاہئیں۔گرمیوں کی ایک دوپہر کا ذکر ہے۔بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ کمرے میں بیٹھا تھا۔ملکہ اس سے بہت محبّت کرتی تھی۔وہ کوشش کرتی تھی کہ بادشاہ کے سارے کام وہ خود کرے۔اس وقت بھی وہ بیٹھی بادشاہ کو پنکھا جھل رہی تھی۔ملکہ نے محسوس کیا کہ بادشاہ کچھ فکرمند ہے۔اس نے کہا ’’ہم آپکے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ نصیب دشمناں طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘۔

    بادشاہ نے کہا ’’ملکہ ہماری طبیعت تو ٹھیک ہے مگر ہم ایک بات کی طرف سے بہت فکرمند ہیں اور ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم کیا کریں‘‘۔

    ملکہ بولی’’مناسب سمجھیں تو ہمیں بتائیے کہ آپ کو کس بات کی فکر ہے۔ہو سکتا ہے ہم ناچیز کوئی مشوره دے سکیں‘‘۔بادشاہ نے کہا ’’ہم نے سوچا ہے کہ ہم تخت و تاج اپنے کسی بیٹے کو سونپ کر خود یاد الہیٰ میں مصروف ہوجائیں۔شہزادہ شعیب اگرچہ ہمارا بڑا بیٹا ہے مگر ہمیں امید نہیں کہ وہ کاروبار مملکت کو ٹھیک طرح سے چلا پائے گا۔ہم یہ تاج چھوٹے شہزادہ زوہیب کو دینا چاہتے ہیں۔وہ نہایت سمجھدار اور عقلمند ہے۔ہمیں امید ہے کہ وہ بادشاہ بن گیا تو ہمارے ملک کے لیے بہت اچھا ثابت ہوگا‘‘۔

    ملکہ نے کہا ’’جہاں پناہ۔شعیب اور زوہیب دونوں میرے بیٹے ہیں، مجھے ان دونوں میں کوئی خامی نظر نہیں آتی کیونکہ میں ان کو ایک ماں کی نظر سے دیکھتی ہوں، اس نظر سے نہیں دیکھتی جس سے آپ دیکھتے ہیں۔پھر بھی مجھے امید ہے کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ اچھا ہوگا‘‘۔

    ’’تو پھر ٹھیک ہے۔اس ملک کا اگلا بادشاہ ہمارا چھوٹا شہزادہ زوہیب ہی ہوگا‘‘۔بادشاہ نے کہا اور پھر خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔

    بادشاہ کا ایک وزیر شہباز تھا۔وہ نہایت خوشامدی، چاپلوس اور بادشاہ کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے والا شخص تھا۔اس کی ان حرکتوں سے بادشا یہ سمجھتا تھا کہ وہ اس کا جان نثار اور وفادار ہے مگر وہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔خوشامدی اور چاپلوس لوگ لالچی بھی ہوتے ہیں، اور ایسے لوگوں سے بچ کر رہنے میں ہی عافیت ہے۔مگر بادشاہ اپنے سیدھے پن کی وجہ سے اس کی چالاکیوں سے بے خبر تھا۔

    وزیر شہباز کے دل میں لالچ اور ہوس اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ تخت پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا۔اپنے اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ سائے کی طرح بادشاہ کے پیچھے لگا رہتا تھا۔اس وقت بھی وہ بادشاہ کے کمرے کے باہر ایک کھڑکی کے قریب کھڑا بادشاہ اور ملکہ کی گفتگو سن رہا تھا۔اسے جب بادشاہ کے فیصلے کا علم ہوا تو وہ خوش ہو گیا اور اسے ایسا لگا جیسے اس کی منزل قریب آگئی ہے۔ بادشاہ کے اس فیصلے سے دونوں بھائیوں میں چقپلش شروع ہوجاتی اور مکار وزیر ان دونوں کو آپس میں لڑوا کر اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

    وہ یہ تمام باتیں سن کر اسی وقت کوتوال کے پاس پہنچا۔کوتوال اس کا دوست تھا اور اس کا دوست ہونے کی وجہ سے وہ بھی اسی کی طرح چالاک اور عیار شخص تھا۔

    اس نے کوتوال سے کہا’’ہماری کامیابی قریب ہے۔تم تیار رہنا۔دونوں شہزادوں میں جھگڑا شروع ہونے والا ہے۔بادشاہ چھوٹے شہزادے کو تخت و تاج دینا چاہتا ہے۔ہم بڑے شہزادے کو اپنے ساتھ ملا لیں گے اور بغاوت کرکے اسے تخت پر بیٹھا دیں گے۔اس کے بعد اس کو بھی راستے سے ہٹانا کوئی مشکل بات نہ ہوگی۔اس کو راستے سے ہٹا کر میں تخت پر قبضہ کر کے بادشاہ بن جاؤں گا اور پھر تمہیں اپنا وزیر بنا لوں گا۔ تمہیں اس معاملے میں میرا ساتھ دینا ہوگا‘‘۔

    اس کی باتیں سن کر کوتوال مسکرانے لگا اور بولا۔ ’’حضور۔ جو آپ کا حکم۔ میں تیار ہوں‘‘۔

    رات کو بادشاہ نے دونوں شہزادوں کو اپنے کمرے میں طلب کیا۔وہاں ملکہ بھی موجود تھی۔بادشاہ نے ملکہ کو مخاطب کر کے کہا ’’ملکہ۔ عقلمندی اور سمجھداری بہت بڑی نعمت ہیں۔الله نے ہمیں دو بیٹے دئیے ہیں۔ان بیٹوں میں شہزادہ شعیب نہایت نیک، شریف، سعادتمند اور سیدھا سادہ ہے۔شہزادہ زوہیب میں بھی یہ تمام خوبیاں موجود ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے دنیا داری اور دنیا کے لوگوں کو چلانا بھی آتا ہے۔بادشاہ کی بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں اگر وہ ان کو درست طریقے سے انجام نہیں دے گا تو آخرت میں پکڑ ہوگی۔ہم اب بوڑھے ہو چلے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تخت و تاج سے دستبردار ہوجائیں۔ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بعد شہزادہ زوہیب اس تخت پر بیٹھے‘‘۔

    بڑا بھائی شہزادہ شعیب یہ سن کر بہت خوش ہوا اور چھوٹے بھائی شہزادہ زوہیب سے بولا ’’میں بہت خوش ہوں کہ ابّا حضور کی جگہ تم بادشاہ بن جاؤ گے۔ایک وعدہ کرو کہ اپنے بادشاہ والے تخت پر تم مجھے بھی بیٹھنے دیا کرو گے‘‘-

    شہزادہ زوہیب نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔بادشاہ کو اس کے روئیے پر بڑی حیرت ہوئی۔اسے تو یہ توقع تھی کہ وہ اپنے بادشاہ بنائے جانے کا سن کر خوشی سے اچھل پڑے گا مگر وہ تو خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا۔بادشاہ نے بڑے شہزادے شعیب کو بھی جانے کی اجازت دے دی۔

    شہزادہ شعیب باہر نکلا تو وزیر پہلے کی طرح چھپ کر ان کی باتیں سن رہا تھا۔وہ جلدی سے اس کے قریب آیا اور بولا’’شہزادے میرے ساتھ آؤ۔میں نے چھپ کر بادشاہ سلامت کی ساری باتیں سن لی ہیں‘‘۔

    ’’چھپ کر سننے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ اندر چلے آتے‘‘۔شہزادے شعیب نے بڑے بھولپن سے کہا۔

    اس کی بات سن کر وزیر کو سخت غصہ آیا۔اس کا دل چاہا کا جوتا اتار کر اس غبی اور بے وقوف شہزادے پر برسا دے مگر وہ ضبط کر کے بولا ’’شہزادے صاحب میرے ساتھ آئیے، میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے‘‘۔

    وزیر کی باتیں شہزادے کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر اس کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ چل پڑا۔وزیر شہزادے کو لے کر پائیں باغ میں آیا اور دونوں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔

    ’’آپ کو پتہ ہے، بادشاہ سلامت اپنا تاج شہزادہ زوہیب کے سر پر رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔وزیر نے بڑے پراسرار لہجے میں کہا۔

    ’’تو اس سے ہمیں کیا۔ہمارے پاس اتنی رقم موجود ہے کہ ہم جب چاہئیں ایک تاج بنوا کر اپنے سر پر رکھ لیں۔ہمیں جو جیب خرچ ملتا ہے ہم اسے ایک جگہ جمع کرتے جا رہے ہیں۔ہمارے پاس بہت ساری اشرفیاں جمع ہوگئی ہیں‘‘۔شہزادے شعیب نے لاپرواہی سے کہا۔

    اس کی بات سن کر وزیر جھنجلا گیا اور تیز آواز میں بولا ’’شہزادے صاحب آپ سمجھ کیوں نہیں رہے۔بادشاہ سلامت آپ کو نظر انداز کر کے آپ کے چھوٹے بھائی کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ یہ حق آپ کا ہے‘‘۔

    ’’یہ تو ہمیں پہلے ہی سے پتہ ہے کہ اگلا بادشاہ زوہیب ہوگا۔ ابّا حضور نے خود بتایا تھا۔بس ہمیں یہ سوچ سوچ کر ہنسی آرہی ہے کہ اسے بادشاہ بنا کر وہ خود کیا کریں گے؟‘‘۔شہزادہ شعیب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    وزیر کو غصہ تو بہت آرہا تھا مگر اس نے نرمی سے کہا ’’مجھے تو نہیں پتہ کہ وہ کیا کریں گے، مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بادشاہت کا حق بڑے بھائی کا ہوتا ہے۔میرا مشوره ہے کہ جب بادشاہ سلامت یہ بات کریں تو تم ان سے یہ ہی کہنا کہ وہ بادشاہ تمہیں ہی بنائیں ورنہ بہت برا ہوگا‘‘۔

    شہزادہ شعیب سوچ میں پڑ گیا اور تھوڑی دیر بعد بولا ’’اب ہماری سمجھ میں بھی ساری باتیں آنے لگی ہیں۔بادشاہ بننا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم بڑے ہیں، ہم اس حق کے لیے ضرور آواز بلند کریں گے‘‘۔

    وزیر اس کی بات سن کر خوش ہو گیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ تیر نشانے پر لگا ہے۔اس نے شہزادے کو شاباش دی اور خود رخصت ہوگیا۔

    وزیر کے جانے کے بعد شہزادہ شعیب اس انتظار میں تھا کہ اسے موقع ملے تو وہ بادشاہ سے کہے کہ وہ چونکہ اس کا بڑا بیٹا ہے اس لیے تخت و تاج اس کے سپرد کیا جائے۔ شام کو وہ بادشاہ سے ملنے کے لیے اس کے کمرے میں گیا مگر وہ وہاں نہیں تھا۔اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ باغ کی طرف نکل گیا۔اس نے دیکھا کہ بادشاہ، ملکہ اور شہزادہ زوہیب ایک درخت کے نیچے کھڑے باتوں میں مصروف ہیں۔اس کے دل میں تجسّس پیدا ہوا اور وہ ایک درخت کی اوٹ میں ہو کر ان لوگوں کی باتیں سننے لگا۔

    شہزادہ زوہیب بادشاہ سے کہہ رہا تھا ’’ابّا حضور یہ ایک اصول ہے کہ ہر بادشاہ کا بڑا بیٹا تخت کا وارث ہوتا ہے۔بادشاہ بننے کا حق شعیب بھائی کا ہے۔میں ان کی حق تلفی نہیں کروں گا۔میں نہایت ادب سے عرض کر رہا ہوں کے مجھے آپ کے فیصلے سے اختلاف ہے‘‘۔

    شہزادہ زوہیب کی بات سن کر بادشاہ نے آگے بڑھ کراسے گلے سے لگا لیا اور بولا۔ ’’بیٹا۔ اس تخت و تاج کے لیے تو اپنے اپنوں کا گلا کاٹ دیتے ہیں۔ہماری تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ تم اس کو ٹھکرا رہے ہو‘‘۔

    ’’ابّا حضور یہ ہی تو میں چاہتا ہوں کہ میری یہ بات بھی تاریخ میں آجائے اور پڑھنے والوں کو پتہ چلے کہ کسی زمانے میں ایک شہزادہ ایسا بھی تھا جس نے تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی تھی‘‘۔ شہزادہ زوہیب نے مسکرا کر کہا۔

    بادشاہ ابھی بھی کچھ الجھا ہوا تھا۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا ’’لیکن ہمارا شعیب ایک سیدھا سادہ نوجوان ہے۔اسے مملکت کے امور چلاتے ہوئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔

    ’’پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی پرورش بہت لاڈ پیار سے ہوئی تھی۔ لاڈ پیار سے پرورش پانے والے بچوں میں خود اعتمادی کی بہت کمی ہوتی ہے مگر آپ فکر نہ کریں میں سب ٹھیک کرلوں گا۔ان کو بادشاہ بن جانے دیجیے پھر میں ان کو ایسے ایسے مشورے دوں گا کہ ان پر عمل کرکے ہمارا ملک دن رات ترقی کرے گا‘‘۔شہزادہ زوہیب نے کہا۔

    ملکہ بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔شہزادہ خاموش ہوا تو وہ بادشاہ سے بولی ’’میں نے دیکھا ہے ہمارے زوہیب میں بس دو چیزیں نہیں ہیں‘‘۔

    بادشاہ نے حیرت سے پوچھا ’’ملکہ وہ کونسی دو چیزیں ہیں جو ہمارے شہزادے میں نہیں ہیں‘‘۔

    اپنی ماں کی اس بات پر شہزادہ بھی حیرانی سے اس کا منہ تکنے لگا تھا۔ملکہ پیار سے بولی ’’ہمارے شہزادے میں لالچ اور حرص نہیں ہے‘‘۔اس کی بات سن کر بادشاہ اور شہزادہ زوہیب مسکرانے لگے۔

    جب بادشاہ اور ملکہ وہاں سے چلے گئے تو شہزادہ شعیب درخت کے پیچھے سے نکل کر اس کے سامنے آگیا۔

    ’’بھائی جان آپ یہاں کہاں؟‘‘شہزادہ زوہیب نے پوچھا۔

    ’’ہم درختوں کے پیچھے کھڑے تم لوگوں کی ساری باتیں سن رہے تھے۔تم نے بہت اچھا کیا کہ ابّا حضور کی بات ماننے سے انکار کردیا ورنہ ہم تو اس نا انصافی پر ان سے لڑ پڑتے۔یہ آج ہم نے سوچ لیا تھا‘‘۔

    ’’لیکن یوں چھپ چھپ کر کسی کی باتیں سننا تو بہت بری بات ہے۔اخلاق بھی اس کی اجازت نہیں دیتا‘‘۔ شہزادہ زوہیب نے کہا۔

    ’’کوئی بری بات نہیں ہے‘‘۔ شہزادہ شعیب نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔’’ہمارے وزیر محترم بھی چھپ کر ابّا حضور کی باتیں سنتے ہیں۔انہوں نے ہی تو ہمیں یہ بتایا تھا کہ چونکہ ہم بڑے بیٹے ہیں لہٰذا بادشاہ بننے کا حق ہمارا ہے۔اسی لیے تو ہم ابّا حضور سے بات کرنا چاہ رہے تھے‘‘۔

    شہزادہ زوہیب کی سمجھ میں چالاک وزیر کی تمام عیاریاں آ گئی تھیں۔وہ اپنے گھناونے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھائیوں میں دشمنی پیدا کرنا چاہتا تھا۔اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس عیار وزیر کا بھی بندوبست کرے گا۔اس کے بعد دونوں بھائی محل میں آگئے۔

    اگلے روز شہزادہ زوہیب نے جب وزیر کے بارے میں چھان بین کی تو دوسری باتوں کے علاوہ اس کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ اس کے ساتھ شہر کا کوتوال بھی ملا ہوا ہے اور دونوں تخت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔یہ تمام معلومات حاصل کر کے شہزادہ زوہیب نے سوچ لیا تھا کہ اس کو کیا کرنا ہے۔

    کچھ دنوں بعد بادشاہ نے اپنا تخت و تاج شہزادہ شعیب کے سپرد کردیا۔

    اسی شام شہزادہ زوہیب نے اس سے کہا ’’بھائی جان اب تو آپ بادشاہ بن گئے ہیں۔میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ مجھے اپنا وزیر مقرر کر لیجئے۔اگر میں وزیر بن گیا تو یہ دنیا کی پہلی مثال ہوگی کہ ایک شہزادہ وزیر بنا ہے۔یہ درخواست میں اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ آخر کبھی میری بھی تو شادی ہوگی، اپنا گھر بار چلانے کے لیے میری بھی تو کوئی نوکری ہو۔نوکری نہ ہوئی تو میں اپنے بیوی بچوں کو کیا کھلاؤں گا‘‘۔

    ’’تم اس کی فکر مت کرو۔ہمارے سات خزانے ہیں۔ایک خزانہ ہم تمہیں بخش دیں گے‘‘۔شعیب جو اب بادشاہ بن گیا تھا شاہانہ انداز سے بولا۔

    شہزادہ زوہیب نے کہا ’’اس خیال کو دل سے نکال دیجیے کہ وہ خزانے آپ کے ہیں۔وہ رعایا کی امانت ہیں۔ویسے بھی میں اپنی محنت کی کمائی پر یقین رکھتا ہوں۔اگر وزیر بن گیا تو آپ کو بھی یہ ہی مشوره دوں گا کہ انعامات بانٹنے کا سلسلہ ختم کردیں۔اور بھائی جان ایک بات اور بھی یاد رکھیے گا کہ اگر میرے وزیر بن جانے کا بعد آپ نے میری کوئی بات یا مشوره نہیں مانا تو میں اسی وقت وزارت پر لات مار دوں گا‘‘۔

    شہزادہ شعیب کی سمجھ میں شائد اس کی بات نہیں آئی تھی، اس نے حیرت سے پوچھا ’’وزارت پر کیا مار دو گے؟‘‘۔شہزادہ زوہیب نے ایک پاؤں آگے کر کے کہا ’’یہ‘‘۔

    شہزادہ زوہیب وزیر بن گیا۔وزیر اور کوتوال یہ صورت حال دیکھ کر جل بھن کر رہ گئے تھے۔ان کا تو منصوبہ یہ تھا کہ شاہی خاندان میں بھائی بھائی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں، کشت و خون ہو اور وہ ان کی اس دشمنی کا فائدہ اٹھا کر تخت پر قبضہ کر کے مزے کریں۔

    اگلے روز بادشاہ بن جانے کے بعد شعیب نے پہلی دفعہ دربار لگایا۔ رات شہزادہ زوہیب نے اسے خوب سمجھا دیا تھا کہ دربار میں کیا کرنا ہے۔اس نے دربار شروع ہوتے ہی اشارے سے ایک لمبے تڑنگے اور خوبصورت نوجوان کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔اس کا نام بہرام تھا اور وہ شہزادہ زوہیب کا بچپن کا دوست تھا۔وہ بہت بہادر اور نڈر تھا۔وہ درباریوں کی نشست سے اٹھا اور قریب آ کر بادشاہ کو جھک کر سلام کیا اور پھر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔

    بادشاہ نے کہا ’’آج سے ہم اس نوجوان بہرام کو شہر کا کوتوال مقرر کرتے ہیں اور پرانے کوتوال کو نوکری سے برخواست کرتے ہیں‘‘۔

    بادشاہ کا حکم سن کر وزیر کا مکار اور سازشی دوست کوتوال گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور چلا کر بولا۔ ’’بادشاہ سلامت۔رحم کیجیے۔میرا قصور کیا ہے جو مجھے اتنی بڑی سزا مل رہی ہے؟ ‘‘۔

    بادشاہ نے کہا ’’قصور بھی بتا دیں گے مگر اس سے پہلے تمہاری گرفتاری ہوگی پھر تمہارے جرائم کا پردہ چاک کیا جائے گا‘‘۔

    کوتوال سمجھ گیا تھا کہ اس کی اور وزیر کی سازش پکڑی گئی ہے۔وہ ہاتھ جوڑ کر بولا ’’حضور میں بے قصور ہوں۔یہ وزیر ہی تھا جو مجھے بہکاتا تھا‘‘۔

    وزیر نے جو یہ سنا تو وہ طیش میں آ کر کھڑا ہوگیا ’’کیا بہکایا تھا میں نے تمہیں۔جھوٹ بولتے ہو؟‘‘

    کوتوال نے بھی تڑخ کر جواب دیا ’’تم ہی نے تو کہا تھا کہ بادشاہ سلامت چھوٹے شہزادے کو تخت و تاج سونپ رہے ہیں، ہم بڑے شہزادے کو اپنے ساتھ ملالیں گے اور اسے بہکائیں گے کہ تخت پر بیٹھنے کا حق اس کا ہے۔ اس طرح دونوں بھائیوں میں دشمنی ہوجائے گی اور دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں گے۔اس دشمنی سے فائدہ اٹھا کر ہم تخت پر قبضہ کرلیں گے۔میں بادشاہ بن جاؤں گا اور تم وزیر‘‘۔

    بہرام جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی کوتوال بنا تھا اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وزیر اور معزول کوتوال کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے، ان پر بغاوت کا مقدمہ چلے گا۔حکم کی تعمیل اسی وقت ہوگئی۔سپاہی انھیں زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔

    اس کے بعد بادشاہ شعیب نے دربار میں آئے ہوئے لوگوں کی فریادیں سنیں، اور انھیں شہزادہ زوہیب کے مشوروں سے نمٹا دیا۔ تھوڑی دیر بعد دربار کا وقت ختم ہوگیا اور سب اٹھ کر چلے گئے۔

    شہزادہ زوہیب وزیر بن جانے کے بعد اپنے بھائی کو اچھے اچھے مشورے دینے لگا تھا جس کی وجہ سے چند روز بعد ہی ملک میں ایک خوشگوار تبدیلی نظر آنے لگی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ یہ دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور خدا کا شکر ادا کرتے تھے کہ شہزادہ زوہیب کی عقلمندی کی وجہ سے سارے معاملات ٹھیک ٹھیک چلنے لگے ہیں۔

    بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی بھائیوں میں نفاق ڈالنے اور ان میں جھگڑا کروانے کی کوشش کرے تو اس کی ان کوششوں کو اپنی حکمت عملی اور عقلمندی سے ناکام بنادینا چاہئے جیسا کہ شہزادہ زوہیب نے بنا یا تھا۔ دنیا کی ساری دولت بھی مل جائے تو وہ بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے