ظفر، شوکت اور اقبال اپنے چچا سے کہانی سننے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ چھوٹی نسرین بھی توتلی زبان سے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔ ’’چچا ہمیں تھگوں والی کہانی سناؤ‘‘۔
’’ہاں ہاں! ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔‘‘۔ دوسرے بھی بول پڑے اور شور مچانے لگے۔
’’اچھا بھیٔ لو۔ ٹھگوں والی کہانی ہی سن لو۔ ہاں نسرین، بھئی تم ہنکارا دیتی جانا۔‘‘
’’ہاں تو ایک بڑھیا تھی‘‘۔
’’جیسے ہماری نانی ہیں؟۔۔۔ نسرین بول پڑی۔‘‘
’’نہیں، جیسے میری نانی ہیں۔‘‘ شوکت نے کہا۔
’’تم سب جھوٹے ہو وہ تو میری نانی کی طرح تھی‘‘۔ ظفر بول پڑا۔
’’ہاں بھئی تمہاری نانی کی طرح ہی تھی۔ اب اگر بیچ میں کوئی بولا تو میں کہانی نہیں سناؤں گا۔‘‘
’’ہاں تو وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پاتا پہن کر کہیں جا رہی تھی۔‘‘
’’چچا کیا کیا گہنا تھا؟‘‘
’’دیکھو نسرین! تم پھر بیچ میں بول پڑیں۔ گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ باہوں میں کنگن تھے اور گلے میں ہار تھا۔ مگر یہ سارے زیور تھے سونے کے۔۔۔ سمجھی نا۔ پھر یہ ہوا کہ بےچاری بڑھیا کے پیچھے دو ٹھگ لگ گئے۔ دونوں بڑے چال باز، مکار اور عیار تھے۔ دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔ دونوں چاہتے تھے کہ بڑھیا سے سارے کا سارا زیور ہتھیالیں۔ لیکن بڑھیا نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے۔ وہ ٹھگ تو ٹھگ تھے ہی۔۔۔ یہ بڑھیا ان کی بھی نانی تھی۔
ایک ٹھگ نے آگے بڑھ کر علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ ’’بڑی اماں کہاں جا رہی ہو؟‘‘
’’بیٹا! شہر جا رہی ہوں‘‘ بڑھیا نے جواب دیا۔
’’پھر تو خوب ساتھ ہوا۔ بڑی اماں ہم بھی تو شہر ہی جا رہے ہیں‘‘۔ دوسرا ٹھگ بولا۔
’’ہاں بیٹا! اچھا ہو گیا‘‘۔ بڑھیا نے کہا۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک ٹھگ بولا۔
’’بڑی اماں کوئی کہانی ہی سناؤ۔ جس سے سفر کی تکان معلوم نہ ہو اور وقت بھی جلد کٹ جائے‘‘۔
’’بیٹا! میں بھلا کون سی کہانی سناؤں؟ تم ہی کچھ کہو‘‘۔
’’ہم سنائیں‘‘۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ ’’مگر بڑی اماں ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ اگر تم نے ہماری کہانی کو جھوٹ کہا تو ہم تمہارے کنگن اتار لیں گے‘‘۔ بڑھیا نے ان کی یہ شرط مان لی اور ایک ٹھگ کہانی سنانے لگا۔
’’بڑی اماں! ہماری ایک گائے تھی۔ بڑی خوب صورت موٹی موٹی آنکھیں تھیں اس کی لمبے لمبے کان تھے۔ دودھ اتنا دیتی تھی کہ ہم دوہتے دوہتے تھک جاتے تھے۔ لیکن دودھ پھر بھی ختم نہ ہوتا تھا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ اگر ہم اس کے داہنے سینگ پر بیٹھ جاتے تو مغرب میں پہنچ جاتے اور جب بائیں پر بیٹھتے تو مشرق میں آ جاتے۔
’’پاکستان بننے پر جب ہم قافلے کے ساتھ پاکستان آ رہے تھے تو ہم پر فسادیوں نے حملہ کر دیا۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی۔ ہماری گائے کو لگی اور بے چاری وہیں ڈھیر ہو گئی۔‘‘
’’بڑا افسوس ہے‘‘۔ بڑھیا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’بڑی اماں! اب تم کچھ سناؤ۔‘‘ ٹھگ نے تیر نشانے پر نہ لگتے دیکھ کر کہا۔
’’میں سناؤں؟‘‘ بڑھیا نے کہا۔ اگر تم نے میری بات کو غلط جانا تو تمہیں ایک سو روپیہ دینا پڑے گا‘‘۔
ٹھگوں نے کہا۔ ’’ہمیں منظور ہے‘‘۔
’’تو پھر سنو بیٹو! جب میری شادی ہوئی تو میرے والد نے ایک بیل بھی مجھے جہیز میں دیا۔ بڑا اچھا بیل تھا۔ کسی کو کچھ نہ کہتا تھا۔ ایک دفعہ یوں ہی باہر کھیت میں کوئی دوسرا بیل اس سے لڑ پڑا۔ ایسا لڑا کہ ہمارے بیل کے ماتھے پر اچھا خاصا زخم ہو گیا ہم نے بہتیرے علاج کرائے لیکن زخم نہ بھر سکا۔۔۔ کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بنولے کا دانہ اس کے زخم میں کہیں سے گر گیا۔ ہوتے ہوتے وہ اچھا خاصا پودا بن گیا۔ اس میں ایسی نفیس کپاس لگی کہ تمہیں کیا بتاؤں۔ وہ کپاس ہم نے جمع کرنی شروع کر دی۔ اتنی کپاس جمع ہو گئی کہ اب گھر میں جگہ نہ رہی۔ گھر گھر ہمارے بیل کے چرچے ہونے لگے۔ بڑی بڑی دور سے لوگ باگ اس انوکھے بیل کو دیکھنے کے لئے آتے۔ اس کی کپاس کو دیکھتے اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ اب ہمارے پاس اتنی زیادہ کپاس ہو گئی کہ سنبھالنا مشکل ہو گئی۔ ہم نے اسے بیلوا کر کاتنا شروع کیا اور اس کا کپڑا لتا بنانے لگے۔ کئی قسم کے کپڑے بنوائے۔ جن میں کھیس بھی تھے۔ ان کھیسوں میں سے دو کھیس کہیں چوری ہو گئے۔ بیٹا! خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ یہ کھیس جو تم اوڑھے ہوئے ہو، وہی ہیں جو چوری ہوئے تھے۔ مہربانی کر کے یہ کھیس اتار دو‘‘۔
دونوں ٹھگوں نے اپنے کھیس بڑھیا کو دے دیے اور کرتے بھی کیا۔ شرط جو بدی تھی۔ مجبور تھے۔
’’ہاں تو بیٹا! بڑھیا نے پھر کہانی کا سلسلہ شروع کیا۔ ’’ہم نے اس کپاس میں سے ململ کے تھان بنوائے۔ ململ کے تھانوں میں سے ایک تھان گم ہو گیا۔ یہ جو تمہاری پگڑیاں ہیں، اسی تھان کی ہیں۔ یہ بھی اتار دو۔‘‘
انہوں نے پگڑیاں بھی اتار دیں۔ نہ اتارتے تو شرط کے مطابق سو روپیہ دیتے۔
اب شہر نزدیک ہی تھا۔ ایک ٹھگ بولا۔ ’’بڑی اماں! بھوک لگ رہی ہے‘‘۔
’’اچھا بیٹا! شہر آیا ہی سمجھو۔ مجھے اپنے کنگن بیچنے ہیں۔ کنگن بیچ لیں اور پھر آرام سے کسی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے‘‘۔
وہ خاموش ہو گئے اور سوچنے لگے کہ بڑھیا کنگن بیچ لے پھر کوئی داؤ چلائیں گے۔ وہ بڑھیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے دماغی سڑکوں پر تدبیروں کے گھوڑے دوڑانے لگے۔
اب وہ شہر میں پہنچ گئے تھے۔ ہر طرف خوب چہل پہل تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ بڑھیا نے اپنے کنگن اتار لیے اور ان سے کہنے لگی:
’’بیٹا! سنار کی دکان آ گئی ہے۔ تم یہاں بیٹھو میں اپنے کنگن بیچ لوں‘‘
وہ سنار کی دکان کے قریب ہی بیٹھ گئے اور بڑھیا سنار کی دکان پر پہنچ گئی۔
’’کیا چاہئے اماں تمہیں؟ سنار نے پوچھا۔
’’میں اپنے دو نوکر بیچنا چاہتی ہوں وہ سامنے بیٹھے ہیں‘‘۔
’’نوکروں کی تو ہمیں بہت ضرورت تھی‘‘۔ سنار نے کہا۔ ’’بولو اماں! کیا قیمت ہے ان دونوں کی؟‘‘
’’تین سو روپے‘‘۔ بڑھیا نے کہا اور بات دو سو روپے پر طے ہو گئی۔
’’میں نوکروں سے پوچھ لوں کہ ان میں سے ایک بکنا چاہتا ہے یا دونوں؟‘‘ بڑھیا نے کہا اور پھر بلند آواز سے پوچھنے لگی۔ بیٹا ایک بیچوں یا دونوں؟‘‘
ادھر سے جواب ملا۔ ’’اماں! دونوں بیچ دے۔ ایک کو کہاں رکھےگی؟‘‘
بڑھیا نے دو سو روپوں میں دونوں ٹھگوں کو سنار کے ہاتھ بیچ دیا اور ان کے پاس آکر کہنے لگی۔ ’’بیٹا! تم یہیں بیٹھو۔ میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں‘‘۔
’’کچھ مٹھائی بھی لیتی آنا اماں!‘‘ دونوں نے کہا اور بڑھیا ’’اچھی بات‘‘ کہہ کر نو دو گیارہ ہو گئی۔
تھوڑی دیر بعد سنار نے انہیں بلایا اور دریاں جھاڑنے کا حکم دیا تو ان کو حقیقت معلوم ہوئی اور انہوں نے کہا:
’’ارے، وہ تو ہماری بھی نانی نکلی‘‘۔
’’کیوں ظفر! اچھی کہانی ہے نا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں چچا جان! اچھی کہانی ہے۔ کوئی اور سنائیے‘‘۔ بچوں نے کہا۔
’’نہیں بھئی۔ اب رات زیادہ ہو گئی ہے سو جاؤ۔ صبح تمہیں اسکول بھی جانا ہے۔ دیکھو نسرین بھی جمائیاں لے رہی ہے۔ کل تم نے اپنے سبق فر فر سنا دیے تو ایک اور دلچسپ کہانی سناؤں گا۔ اچھا اب سو جاؤ۔ شاباش‘‘۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.