Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زبان کا زخم

نامعلوم

زبان کا زخم

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    ایک بادشاہ کسی جنگل میں اکیلا جا رہا تھا کہ اچانک اسے شیر نے آ لیا۔ مگر اتفاق سے کوئی کسان بھی اسی وقت آ نکلا۔ جس کے ایک ہاتھ میں تو ٹیڑھی ترچھی لکڑی تھی اور دوسرے میں درانتی۔

    شیر بادشاہ پر حملہ کرنے ہی کو تھا کہ کسان نے پھرتی سے ٹیڑھی لکڑی اس کے گلے میں دے کر ہاتھ کی درانتی سے پیٹ چاک کر دیا۔ جس سے بادشاہ کی جان بچ گئی۔ اور شیر مارا گیا۔

    بادشاہ نے کسان کو اس امداد کے صلے میں گاؤں کی نمبرداری کے ساتھ بہت سی زمین بھی عطا فرما دی اور کہا کہ ’’ہر ایک تہوار کے موقع پر ہمارے یہاں دوستوں، رشتہ داروں کی جو خاص دعوت ہوتی ہے اس میں تم بھی آیا کرو۔ کہ تم بھی اب میرے سچے دوست ہو۔‘‘

    تھوڑے دنوں میں بادشاہ کے یہاں دعوت ہوئی تو کسان بھی آیا۔ مگر اول تو اس کے کپڑے موٹے جھوٹے تھے۔ دوسرے بادشاہوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے کا ادب و سلیقہ بھی نہ جانتا تھا۔ اس سے کئی غلطیاں ہوئیں۔ کھانا آیا تو یہ بادشاہ کے ساتھ ہی کھانے کو بیٹھ گیا۔

    بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا۔ ’’تم بڑے گنوار آدمی ہو۔ چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں کر سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ اسی وقت اٹھ جاؤ۔‘‘

    کسان شرمندہ ہو کر چلا آیا اور کئی سال تک بادشاہ کے پاس نہ گیا۔

    ایک دن بادشاہ گاڑی پر سوار ایک تنگ پل پر جا رہا تھا کہ ایک طرف سے گاڑی کا پہیہ نکل گیا اور اگر اسی وقت سہارا دے کر اس کی اونچائی دوسرے پہیے کے برابر نہ کر دی جاتی تو ضرور تھا کہ بادشاہ دریا میں گر جاتا۔

    حسن اتفاق کہو یا تقدیر کہ یہی کسان اس وقت بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے پہیہ نکلتے ہی گاڑی کو اپنے بازو پر سنبھال کر گرنے سے بچا لیا۔

    بادشاہ کسان کی اس دوبارہ خدمت سے اس قدر خوشنود ہوا کہ اپنے ساتھ لے جا کر کئی دن مہمان رکھا اور چلتے وقت بہت سا انعام دے کر ہمیشہ آنے کی تاکید کر دی۔

    کسان نے کہا۔ بادشاہ سلامت! میں نے دو دفعہ حضور کی جان بچائی ہے۔ اب حضور بھی ایک میرا کہا مان لیں کہ میری پیشانی میں درد ہے اور اس کا حکمی علاج یہ ہے کہ آپ ایک تلوار کا ہاتھ مار دیں۔ اس میں اگر ہڈی بھی ٹوٹ جائے تو کوئی خوف نہیں۔ میں چند دن میں اچھا ہو جاؤں گا مگر یہ درد جاتا رہے گا۔‘‘

    بادشاہ پہلے تو ہرگز مانتا نہ تھا۔ مگر کسان کے سخت اصرار کرنے اور زور دینے پر آخر اس نے تلوار کا ہاتھ مار ہی دیا جس سے ایک انچ گہرا زخم پڑ گیا۔

    کسان زخم کھا کر گھر کو چلا گیا اور چند روز میں معمولی علاج سے زخم بھی اچھا ہو مگر جب کچھ دن بعد بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا کر حال پوچھا تو کسان نے عرض کی۔’’بادشاہ سلامت! حضور فرما لیں کہ خدا کے فضل سے تلوار کے زخم کا اب نشان تک نہیں رہا مگر پہلی دعوت میں حضور کے ’’بدتمیز، گنوار‘‘ کہنے اور نکال دینے کا زخم اب تک میرے دل پر ویسے کا ویسا ہرا ہے۔‘‘

    یہ سن کر بادشاہ نے گردن جھکا لی۔ اور کہا۔ ’’بے شک تم سچے ہو۔ میں ہی غلطی سے داناؤں کے اس قول کو بھول گیا تھا کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان کا نہیں بھرتا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے