Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ضدی بادشاہ

مختار احمد

ضدی بادشاہ

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شہزادی گل فشاں تھا۔شہزادی گل فشاں اپنی خوبصورتی، خوش اخلاقی اور عقلمندی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی اور کئی ملکوں کے شہزادے اس سے شادی کے خواہش مند تھے مگر بادشاہ ان شہزادوں کی طرف سے آنے والے ہر رشتے کو نامنظور کر دیا کرتا تھا۔یہ بات نہیں تھی کہ وہ شہزادے خوبصورتی یا بہادری میں کسی سے کم تھے۔بادشاہ کے پاس ان رشتوں سے انکار کی صرف ایک ہی وجہ تھی۔شہزادی گل فشاں چونکہ اس کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اس سے بہت محبّت کرتا تھا، اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی لاڈلی بیٹی کی شادی کسی دور دراز کے ملک کے شہزادے سے ہوجائے اور وہ اس سے جدا ہو کر دور چلی جائے۔بادشاہ نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ اس کی شادی اپنے ملک کے ہی کسی اچھے سے نوجوان سے کر دے گا اور اس کا محل اپنے محل کے برابر میں بنوادے گا تاکہ وہ دونوں اس میں رہ سکیں۔اس مقصد کے لیے اس نے نہایت ماہر معماروں سے محل کی تعمیر بھی شروع کروادی تھی۔

    بادشاہ اپنی ملکہ سے بھی بہت محبّت کرتا تھا۔ویسے تو وہ ہر لحاظ سے ایک بہترین حکمران تھا، حکومت کے امور میں بہت دلچسپی لیتا تھا اور اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کوشاں رہتا تھا مگر اس کی اس ضد نے سب کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا کہ وہ شہزادی کی شادی کسی دور دراز ملک کے شہزادے سے نہیں کرے گا۔ملکہ اس کو لاکھ سمجھاتی کہ لڑکیاں تو پرائی ہوتی ہیں، ایک روز ان کو اپنے گھر جانا ہی پڑتا ہے مگر بادشاہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ایک روز جب اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی تو ملکہ نے بادشاہ کو اپنی مثال دی کہ وہ سات سمندر پار ایک ملک کی شہزادی تھی مگر بادشاہ سے شادی کر کے اسے بھی اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آنا پڑگیا تھا۔

    بادشاہ اس بات پر قائل تو کیا ہوتا، مسکرا کر بولا۔ ’’ملکہ اگر آپ کے ابّا بھی آپ سے اتنی محبّت کرتے جتنی کہ ہم شہزادی گل فشاں سے کرتے ہیں تو وہ بھی آپ کو بیاہ کر اتنی دور نہیں بھیجتے‘‘۔

    ملکہ نے یہ بات سنی تو منہ پھلا کر بولی۔’’جہاں پناہ آپ کو پتہ ہے میرے ابّا حضور میرے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے، میں ایک لمحے کے لیے بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی تھی تو وہ بے چین ہوجاتے تھے‘‘۔

    بادشاہ کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کے منہ سے ایک نامناسب بات نکل گئی ہے جس سے ملکہ کی دل آزاری ہوئی ہے۔اس نے کہا۔”پیاری ملکہ ۔ ہم معافی چاہتے ہیں، ہم نے مذاق ہی مذاق میں ایک غلط بات کہہ دی تھی ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام باپ اپنی بیٹیوں سے یکساں محبّت کرتے ہیں‘‘۔

    ملکہ نے بادشاہ کی شرمندگی محسوس کر کے نرمی سے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہماری شہزادی ملک فارس کے شہزادے احمر کو پسند کرتی ہے۔آپ کو یاد ہے نا وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ تھوڑے دن پہلے ہمارے ملک میں آیا تھا۔دونوں حالانکہ چند روز ہی ایک ساتھ رہے تھے مگر اتنے کم عرصے میں ہی آپس میں کافی گھل مل گئے تھے۔اس کی ماں نے شہزادی کا رشتہ بھی مانگا تھا مگر آپ نے کہہ دیا تھا کہ سوچ کر جواب دیں گے۔میرا تو خیال ہے کہ آپ ہاں کر ہی دیجیے، شہزادہ احمر ہماری بیٹی کو بہت خوش رکھے گا‘‘۔

    بادشاہ نے ملکہ کی بات کا جواب تو نہیں دیا، صرف اتنا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ملکہ تم اس سلسلے میں جلد ہی خوشخبری سنو گی‘‘۔یہ کہہ کر بادشاہ تو کمرے سے نکل گیا اور ملکہ دھک سے رہ گئی کہ جانے بادشاہ کیا کرنے والا ہے۔

    بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا، بہت عقلمند، وفادار اور بادشاہ کا جاں نثار وزیر کا ایک بیٹا بھی تھا اور اس کا نام شہریار تھا۔وہ تلوار بازی، تیر اندازی اور نیزہ بازی میں یکتا تھا۔صورت شکل اس کی ایسی تھی کہ جو دیکھے دیکھتا رہ جائے۔شہزادی گلفشاں اور شہریار کا بچپن ایک ساتھ ہی گزرا تھا۔بادشاہ اور ملکہ اس کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی چاہتے تھے۔یہ ہی وجہ تھی کہ اس کی تعلیم و تربیت اور تلوار بازی وغیرہ کی تربیت شہزادی گل فشاں کے ساتھ ہی ہوئی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت مانوس تھے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔

    گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔کھانا کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں آرام کررہے تھے۔زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک کنیز بھاگتی ہوئی ملکہ کے پاس آئی اور گھبرائے ہوے لہجے میں بولی۔’’ملکہ عالیہ جلدی سے آئیے۔شہزادی صاحبہ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے‘‘۔

    کنیز کی بات سن کر ملکہ گھبرا گئی اور دوڑ کر شہزادی کے کمرے میں آئی۔اس نے دیکھا شہزادی گل فشاں آنکھیں بند کیے اپنے بستر میں لیٹی ہوئی ہے۔ایسا معلوم دیتا تھا جیسے وہ بے خبر سو رہی ہے۔ملکہ نے غصیلی نظروں سے کنیز کی طرف دیکھا اور بولی۔’’شہزادی تو سو رہی ہے۔تم کہہ رہی ہو کہ اس کی طبیعت خراب ہو گئی ہے؟‘‘۔

    کنیز خوف سے تھر تھر کانپنے لگی اور بولی۔’’ملکہ حضور، شہزادی صاحبہ اچھی خاصی مجھ سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک انہوں نے ایک چیخ ماری اور بستر پر گر پڑیں۔میں نے انہیں بہت آوازیں دیں مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘۔

    یہ بات سن کر ملکہ کو بھی تشویش ہوئی۔اس نے پہلے تو شہزادی کو ہلا جلا کر اٹھانے کی کوشش کی پھر جب کوئی کامیابی نہیں ہوئی تو اس نے بادشاہ کو اطلاع کروائی۔

    شہزادی کی خراب طبیعت کے بارے میں سن کر بادشاہ کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔وہ بھاگا بھاگا آیا اور محل کے تمام طبیبوں کو طلب کر لیا۔وہ سب شہزادی کا معائینہ کرنے لگے۔ایک طرف وزیر زادہ شہریار بھی منہ لٹکائے خاموش کھڑا تھا۔تھوڑی دیر بعد جب طبیبوں نے معائینہ ختم کیا تو وہ خاصے مایوس تھے۔انہوں نے بادشاہ کو بتا دیا کہ شہزادی کا مرض ان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔یہ سن کر بادشاہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

    یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔بادشاہ نے اسی وقت ملک کے دوسرے حکیموں اور طبیبوں کو بھی طلب کرلیا اور شہزادی کو دکھایا گیا مگر بے سود۔شہزادی کا مرض کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور وہ بدستور اپنے بستر پر بے سدھ سوتی رہی۔

    اسی پریشانی میں شام ہو گئی ۔اگلے روز مایوس ہو کر بادشاہ نے یہ اعلان کروا دیا کہ جو بھی شہزادی کو نیند سے بیدار کرے گا، شہزادی کی شادی اس سے کردی جائے گی۔اس اعلان کو سن کر کوئی بھی حاضر نہیں ہوا۔سب لوگ یہ ہی سوچ رہے تھے کہ جب بڑے بڑے حکیم اور طبیب اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکے تو وہ کیا کر لیں گے۔

    اس صورت حال سے بادشاہ اور ملکہ سخت پریشان تھے۔ان کی مایوسی بڑھتی جا رہی تھی کہ ایسے میں ایک چوبدار نے آکر اطلاع دی کہ ملک فارس کا شہزادہ احمر آیا ہے اور شہزادی کے علاج کے سلسلے میں بادشاہ سے ملنا چاہتا ہے۔

    ناامید بادشاہ کی امید ابھی باقی تھی۔اس نے شہزادے احمر کو فورا ً ہی اپنے کمرے میں طلب کرلیا۔محل کے پہرے دار اس کو لے کر حاضر ہو گئے۔بادشاہ اس سے پہلے بھی ملا ہوا تھا۔چند روز قبل وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اس کے محل میں آیا تھا۔

    شہزادہ احمر نے جھک کر بڑے ادب سے بادشاہ کو سلام کیا اور بولا- “جہاں پناہ۔میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکار پر نکلا ہوا تھا۔منادی کرنے والوں سے سنا کہ شہزادی صاحبہ نیند سے نہیں جاگ رہیں۔میرا خیال ہے کہ ان کی بیماری کا علاج میرے پاس ہے اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہوں”۔

    اس کے گفتگو کرنے کے انداز اور وجاہت نے بادشاہ کو بہت متاثر کیاتھا۔اس نے دل میں سوچا کہ اگر اس خوبرو شہزادے نے اس کی بیٹی کو ٹھیک کر دیا تو وہ ضرور اس سے اس کی شادی کردے گا۔پھر بھی اس نے اپنی تسلی کے لیے ایک سوال کیا۔’’تم تو ایک شہزادے ہو۔حکمت کے کاموں سے تمہارا کیا واسطہ؟‘‘۔

    شہزادے احمر نے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہا۔’’جہاں پناہ۔شہزادی صاحبہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں۔یہ مسلہ دوسرا ہے‘‘۔

    بادشاہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔تمہارا مطلب ہے یہ کسی جادوگر یا دیو وغیرہ کا چکر ہے؟‘‘۔

    شہزادہ احمر نے نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔“جی نہیں۔میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا”۔پھر اس نے ہیرے جواہرات سے مرصّع ایک چھوٹی سی خوبصورت ڈبیہ نکالی اور اسے بادشاہ کو دکھا کر بولا۔ شہزادی صاحبہ کو کچھ بھی ہوا ہو، ان کا علاج اس ڈبیہ میں بند ہے‘‘۔

    بادشاہ حیرت اور دلچسپی سے اس ڈبیہ کو دیکھنے لگا۔احمر کی بات میں جانے کیا بات تھی کہ ملکہ کو بھی امید ہو گئی کہ اس کی بیٹی اب ٹھیک ہو جائے گی۔وزیر زادہ شہریار بھی وہیں تھا اور بڑی دلچسپی سے شہزادے کی باتیں سن رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر ایک دوستانہ مسکراہٹ تھی۔

    اس کے بعد بادشاہ اور وہ سب لوگ اس کمرے میں آئے جہاں شہزادی محوخواب تھی۔شہزادے احمر نے بغور شہزادی کو دیکھا، کچھ سوچتے ہوئے اس نے وہ خوبصورت ڈبیہ کھول کر اس میں سے ایک پر نکالا۔وہ پر حسین و جمیل رنگوں سے جگمگا رہا تھا۔شہزادے احمر نے اس پر کو شہزادی کے تلوؤں سے لگایا۔جیسے ہی پر نے اس کے تلوؤں کو چھوا، شہزادی کو ایک ہلکی سی چھینک آئی اور وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرانی سے سب کو دیکھنے لگی۔

    بادشاہ اور ملکہ کے منہ سے خوشی کی ایک چیخ نکل گئی۔بادشاہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر شہزادی کو گلے سے لگا لیا۔شہزادی گھبرائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔’’ابّا حضور مجھے کیا ہو گیا تھا؟‘‘۔اس نے پوچھا۔

    ’’کچھ نہیں میری بیٹی۔تم بالکل ٹھیک ہو‘‘۔پھر بادشاہ نے شہزادہ احمر کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔’’شہزادے۔ہم تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے‘‘۔

    یہ خبر تھوڑی ہی دیر میں پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔اس خوشی میں بادشاہ نے غریبوں کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے تھے۔چند روز کے بعد حسب وعدہ شہزادہ احمر اور شہزادی گل فشاں کی بڑی دھوم دھام سے شادی کر دی گئی۔رخصتی کے وقت شہزادی بادشاہ کے سینے سے لگ کر رونے لگی تو بادشاہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔’’بیٹی ہم غلطی پر تھے۔ہر لڑکی کو ایک نہ ایک روز اپنے گھر جانا پڑتا ہے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ تمھاری شادی احمر جیسے خوبصورت اور ذہین شہزادے سے ہوئی ہے‘‘۔

    ملکہ شہزادی کی جدائی سے رنجیدہ تو تھی مگر اس بات پر خوش بھی تھی کہ بادشاہ نے شہزادی کی شادی کے سلسلے میں اپنی ضد چھوڑ دی تھی۔اس نے بھی شہزادی کو گلے سے لگا کر دعائیں دیں۔

    اس موقع پر سارے وزیر، مشیر اور دوسرے ملازمین وہاں جمع تھے۔بادشاہ نے اپنی بیٹی کو بے شمار قیمتی تحفے دئیے تھے اور سو سپاہیوں کا دستہ ان کی حفاظت کے لیے ساتھ کر دیا تھا۔

    سفر پر روانہ ہونے سے پہلے شہزادی نے چاروں طرف دیکھا جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہو۔جلد ہی اس کی نگاہ وزیر زادے شہریار پر پڑی، وہ ایک کونے میں سر جھکائے اداس کھڑا تھا۔شہزادی دوڑ کر اس کے قریب پہنچی اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر بولی۔’’شہریار بھائی۔اگر آپ یہ سب کچھ نہ کرتے تو میری شادی کبھی بھی شہزادہ احمر سے نہیں ہوتی۔آپ نے اتنی اچھی ترکیب بتائ تھی کہ ابّا حضور اپنی شرط سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو گئے‘‘۔

    شہریار مسکرا کر بولا۔’’میں نے بہت ساری کہانیوں میں سن رکھا تھا کہ کوئی شہزادی جب کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاتی تھی تو بادشاہ سلامت یہ ہی اعلان کرواتے تھے کہ جو شہزادی کو اس مصیبت سے نجات دلائے گا اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی۔میں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تم جھوٹ موٹ کی سوتی ہوئی بن جاؤ اور شہزادہ احمر تمہیں ٹھیک کر دے۔اس نے بھی بڑی مہارت سے اپنا کام کیا تھا۔بادشاہ سلامت کو ذرا بھی شبہ نہیں ہو سکا تھا۔اب تم سے یہ ہی کہنا ہے کہ وہاں جا کر ہمیں بھول نہیں جانا‘‘۔

    اس کی بات سن کر شہزادی نے اداسی سے کہا۔’’ میں ابّا حضور کو، امی حضور کو اور شہریار بھائی آپ کو کیسے بھول سکتی ہوں‘‘۔یہ کہتے ہوےٴ اس کی آنکھوں سے دو آنسو ڈھلک گئے۔

    شہزادہ احمر بھی ان کے قریب آکر کھڑا ہوگیا تھا۔اس نے کہا۔’’شہریار تم ایک اچھے اور سچے دوست ہو۔تم اگر وہ ترکیب نہ بتاتے اور میری شادی شہزادی سے نہ ہوتی تو میں خود سچ مچ کا سوتا شہزادہ بن گیا ہوتا۔تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا‘‘۔یہ کہہ کر اس نے شہریار کو گلے سے لگا لیا۔شہریار نے شہزادی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر یہ قافلہ شہزادی کو لے کر پردیس روانہ ہوگیا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے