Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ضدی لڑکا

مختار احمد

ضدی لڑکا

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    شہر یار کی چھٹی سالگرہ ہونے والی تھی- اس کے امی ابّو ہر سال اس کی سالگرہ دھوم دھام سے مناتے تھے- اس کی چھوٹی خالہ لاہور میں رہتی تھیں اور وہ بھی شہر یار سے بہت پیار کرتی تھیں- ان کے کالج کچھ دنوں کے لیے بند ہوگئے تھے اس لیے شہر یار کی امی نے سالگرہ سے چند روز پہلے انھیں بلا لیا تھا تاکہ وہ سالگرہ کی تقریب کے کاموں میں ان کی مدد کرسکیں- یہ پیغام ملتے ہی وہ کراچی پہنچ گئیں-

    چھوٹی خالہ نے یہاں آ کر دیکھا کہ ویسے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے مگر شہر یار کی من مانیاں اور ضدیں اپنے عروج پر ہیں- وہ ہر کام اپنی مرضی کا کرتا تھا- اپنی امی کا کہنا بالکل نہیں مانتا تھا اور دوسروں سے بداخلاقی سے پیش آتا- اس کی ان حرکتوں سے اس کی امی فکرمند رہنے لگی تھیں اور سوچتی تھیں کہ اگر شہر یار کی یہ عادتیں بڑے ہونے پر بھی برقرار رہیں تو کیا ہوگا- لوگ اس کی عادتوں کی وجہ سے اسے ناپسند کرنے لگیں گے-

    شہر یار کی ان بدتمیزیوں کا چھوٹی خالہ نے بھی نوٹس لیا- انھیں اس کا بہت ہی افسوس تھا کہ اتنا خوب صورت لڑکا مگر حد سے زیادہ بدتمیز اور ضدی- وہ سمجھ گئی تھیں کہ اکلوتا ہونے کی وجہ سے شہر یار کے سب لوگ لاڈ اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں ضدی پن آگیا ہے- وہ چاہتا تھا کہ ہر بات اس کی مرضی کی ہو-

    کچھ بچوں کو ماں باپ کا لاڈ پیار بہت اچھا بنا دیتا ہے- ایسے بچے بہت سمجھدار اور عقلمند ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اس لاڈ پیار کا غلط فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مزید اچھی اچھی باتیں کریں اور خوب دل لگا کر پڑھیں تاکہ ان کے ماں باپ ان سے اور زیادہ خوش ہوجائیں-

    کچھ بچے اس لاڈ پیار کا غلط فائدہ اٹھانے لگتے ہیں- یہ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں- ان کا خیال ہوتا ہے کہ گھر میں ان کی کوئی خاص اہمیت ہے اسی لیے سب ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں- اپنے اس خیال کی وجہ سے ان میں ضدی پن آجاتا ہے اور وہ بدتمیز اور بداخلاق بن جاتے ہیں- بدتمیز اور بداخلاق بچوں کو کوئی پسند نہیں کرتا- اسی لیے کہتے ہیں کہ ضد کرنا اچھی بات نہیں ہوتی-

    شہریار کی امی اس سے بے جا لاڈ پیار نہیں کرتی تھیں مگر اس کے ابّو اس سے بہت پیار کرتے تھے اور بچہ سمجھ کر اس کی ہر جائز اور ناجائز بات کو مان لیتے تھے- وہ پورے دن میں امی کی شاید ہی کوئی بات مانتا تھا- امی اس بات سے چڑ جاتی تھیں اور جب اس کے ابّو شام کو گھر آتے تو وہ اس کی شکایت کرتیں- وہ ہنس کر کہتے کہ بچہ ہے، بڑا ہو کر ضد کرنا چھوڑ دے گا- شہریار امی کے شکایت کرنے پر ان سے ناراض ہوجاتا اور ابّو کی طرفداری کرنے پر امی کو زبان چڑا کر انگوٹھا دکھا دیتا- یہ بہت بدتمیزی کی بات تھی مگر وہ اس کو کرتا تھا-

    چھوٹی خالہ کو ان سب باتوں کا علم ہوگیا تھا اور وہ کافی فکرمند ہوگئی تھیں- انھیں پتہ تھا کہ ایسے بچوں کی یہ بری عادتیں پختہ ہوجائیں تو وہ بڑے ہو کر بہت نقصان اٹھاتے ہیں- وہ نہ تو ایک اچھے شہری بنتے ہیں اور نہ گھر کے اچھے فرد- دوسرے لوگ ان کے غلط رویے کی وجہ سے ان سے دور دور رہتے ہیں اور انھیں دوست نہیں بناتے- مل جل کر رہنے والے اور خوش اخلاق بچوں سے سب خوش رہتے ہیں-

    چھوٹی خالہ نے دیکھا کہ کھانا کھاتے ہوئے شہر یار کے سو نخرے ہوتے تھے- یہ کیا پکایا ہے، وہ کیوں نہیں پکایا- اس پلیٹ میں کیوں دیا ہے، اس پلیٹ میں کیوں نہیں دیا- میں شیشے کے گلاس میں نہیں پیتل کے گلاس میں پانی پیوں گا- آج بھی یہ ہی ہوا تھا- اس کی امی نے انڈے آلو کا سالن بنایا- شہر یار نے ضد پکڑ لی کہ کوفتے کیوں نہیں بنائے- اس کی امی نے بہت خوشامدیں کیں مگر اس نے کھانا نہیں کھایا-

    شام ہونے سے پہلے اس کی امی اسے کچھ دیر باہر دروازے پر کھیلنے کے لیے بھیج دیتی تھیں- وہ اسے تیار کرنے لگیں تو وہ پھر ضد میں آگیا- میں کالی نہیں، بلیو جینز پہنوں گا- آپ نے یہ کونسے جوتے پہنا دیے ہیں- میں تو اسکول والے جوتے پہن کر باہر جاؤں گا- امی نے اپنی حد تک تو اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ آنکھوں میں آنسو لے آیا اور زمین پر بیٹھ کر مچلنے لگا جس سے اس کے کپڑوں پر مٹی لگ گئی اور وہ گندے ہوگئے-

    چھوٹی خالہ جلدی سے اس کے لیے شربت بنا کر لائیں کہ شائد وہ خوش ہوجائے مگر اس نے ہاتھ مار کر گلاس دور زمین پر پھینک دیا اور زور زور سے رونے لگا- چھوٹی خالہ کو اس کے اس رویے سے بہت افسوس ہوا تھا اس لیے وہ خاموشی سے اندر چلی گئیں- امی کو اس کی بدتمیزی پر سخت غصہ آگیا تھا- انہوں نے ہلکے سے اس کا کان مروڑا اور بولیں”- اب مجھ سے بات نہیں کرنا- تم بہت بدتمیز ہوگئے ہو”- یہ کہہ کر وہ بھی اندر چلی گئیں- شہر یار وہیں بیٹھا روتا رہا-

    رات کو شہر یار کا موڈ ٹھیک ہوگیا تھا- وہ چھوٹی خالہ کے پاس آکر بیٹھ گیا- انہوں نے اس سے کہا۔” شہر یار- مجھے ایک بہت مزے دار کہانی آتی ہے- سنو گے؟‘‘۔

    شہر یار کو کہانی سننے میں تو بہت مزہ آتا تھا- اس نے خوشی سے ان کے گلے میں باہیں ڈالیں اور بولا”- ہاں چھوٹی خالہ مجھے اچھی سی کہانی سنائیں- گندی امی تو ہر وقت پودنے پودنی کی کہانی سناتی ہیں- دوسری اور کوئی کہانی تو انھیں آتی ہی نہیں ہے’’-

    چھوٹی خالہ کو ان کی یہ بدتمیزی والی بات سن کر تھوڑا سا غصہ تو آگیا تھا مگر وہ ضبط کرگئیں- تھوڑی دیر بعد انہوں نے کہانی شروع کی- کہانی ایک غریب لڑکی اور شہزادے کی تھی، جس میں خوفناک دیو بھی تھے اور بد صورت جادوگرنیاں بھی- شہر یار کو کہانی بہت اچھی لگی اور اسے سنتے سنتے وہ سو گیا-

    اگلے روز شہر یار کی امی اور چھوٹی خالہ سالگرہ کی تیاری کے لیے چیزوں کی خریداری کے لیے بازار گئیں- شہر یار بھی ان کے ساتھ تھا- وہاں سے انہوں نے ڈھیروں چیزیں خریدیں- سب سے آخر میں شہر یار کے کپڑوں اور جوتوں کی باری آئی- وہ سب کپڑوں کے اسٹور میں آئے- اسٹور ایک بڑے سے ہال میں تھا اور ہر طرف سلے سلائے کپڑے نظر آ رہے تھے- اس ہال کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا- ایک حصے میں مردوں کے، دوسرے حصے میں عورتوں کے اور تیسرے حصے میں بچوں کے ملبوسات تھے-

    وہ بچوں والے حصے میں آگئے- رنگ رنگ کے کپڑے ہینگروں میں لٹکے دیکھ کر شہر یار بہت خوش تھا اور بڑی دلچسپی سے انھیں دیکھ رہا تھا- اس کی امی اور چھوٹی خالہ اس کے لیے سالگرہ کا لباس پسند کرنے لگیں-

    شہر یار کو ایک نہایت خوب صورت سنہری شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ نظر آیا- شیروانی تیز بلبوں کی روشنی میں جھلمل جھلمل کر رہی تھی- شہر یار نے کسی انیمٹڈ مووی میں ایک شہزادے کو بالکل ایسی ہی شیر وانی پہنے دیکھا تھا-

    ’’امی- امی- میں تو سالگرہ کے لیے یہ شیر وانی اور پاجامہ خریدوں گا- شاپ والے انکل سے کہہ کر اسے پیک کروالیں‘‘- اس نے کہا-

    ’’آپی یہ شیروانی اور پاجامہ تو بالکل ویسا ہی لگ رہا ہے جیسا کہ ایک کہانی میں کسی پری نے ایک شہزادے کو دیا تھا- مگر آپ اسے مت لیجیے گا‘‘- چھوٹی خالہ نے کہا-

    شہر یار نے یہ سنا تو وہ ضد کرنے لگا کہ وہ تو یہ والے ہی کپڑے لے گا- اس کی ضد سے مجبور ہو کر امی کو وہ کپڑے لینا پڑ گئے- چھوٹی خالہ کاؤنٹر پر کھڑی ہو کر کپڑے پیک کروانے لگیں اور دوکان دار سے کوئی بات کرنے لگیں- امی شہر یار کے ساتھ ہال میں موجود شو کیسوں میں کپڑے دیکھنے لگیں-

    پندرہ بیس منٹ بعد وہ وہاں سے نکلے- وہاں سے وہ جوتوں کی دوکان پر آئے اور اس کے خوب صورت کھسّے لیے- سالگرہ کی تیاری مکمل ہوگئی تھی- وہ لوگ گھر چلے آئے-

    گھر پہنچ کر شہر یار کا موڈ بہت بہتر تھا- ’’چھوٹی خالہ- آپ ان کپڑوں کو لینے کے لیے کیوں منع کر رہی تھیں؟ اتنے اچھے تو ہیں وہ کپڑے- ایسے کپڑے تو اس شہزادے نے بھی پہن رکھے تھے جس کی فلم میں نے ٹی وی پر دیکھی تھی‘‘- اس نے محبّت سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا-

    ’’میں ڈر رہی تھی کہ اس شہزادے کے کپڑوں کی طرح تمھارے کپڑے بھی لمبے نہ ہوجائیں‘‘- انہوں نے جواب دیا-

    ’’کپڑے لمبے کیوں ہوجائیں گے- اسٹور میں امی نے مجھے پہنا کر دیکھے تھے- وہ بالکل میرے سائز کے تھے‘‘- شہر یار نے چھوٹی خالہ کو اطمینان دلایا-

    ’’یہ بات تو ٹھیک ہے- میں بھی دیکھ رہی تھی کہ وہ تمہیں بالکل فٹ آئے ہیں- بس نہ جانے میرے دل میں بار بار یہ بات کیوں آئے جا رہی ہے کہ سالگرہ کی تقریب میں جب تم انہیں پہننے لگو گے تو یہ بڑے نہ ہوجائیں- شہزادے کے تو ہوگئے تھے- آئے ہوئے مہمانوں کے سامنے ہماری بڑی سبکی ہوگی‘‘- چھوٹی خالہ نے بدستور فکر مندی سے کہا-

    ’’شہزادے کے کپڑے کیوں لمبے ہوگئے تھے؟ شہر یار نے دلچسپی سے پوچھا-‘‘

    ’’اس کی بھی سالگرہ تھی- سالگرہ کی پوشاک ایک پری تیار کر کے لائی تھی- وہ پوشاک ایسی تھی کہ پہلے کبھی نہ کسی نے دیکھی تھی نہ سنی تھی- اس پری نے بتایا تھا کہ یہ کپڑے اگرچہ دیکھنے میں شہزادے کے ناپ کے ہیں لیکن اگر شہزادہ بدتمیز، جھگڑالو ، بداخلاق اور ضدی ہوا تو یہ لمبے ہوجائیں گے اور شہزادہ انھیں نہیں پہن سکے گا- اور شہزادہ چونکہ ایسا ہی تھا، کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا، اس لیے سالگرہ والے دن جب اس نے یہ کپڑے پہنے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے- اس کے وہ ہی کپڑے جو کل تک اس کے ناپ کے تھے اب بہت لمبے ہوگئے تھے- شیروانی کی آستینیں نیچے لٹک رہی تھیں اور پاجامہ زمین پر گھسٹ رہا تھا‘‘-

    چھوٹی خالہ کی بات سن کر شہر یار کی آنکھوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی- وہ ان کی گود سے اتر کر اندر بھاگا، الماری سے کپڑوں کو نکال کر دیکھا- وہ بالکل اس کے ہی سائز کے تھے- یہ خوش خبری چھوٹی خالہ کو سنا کر کہ کپڑے لمبے نہیں ہوئے ہیں وہ اپنے کھیل کود میں لگ گیا-

    مگر اگلے روز وہ ہی ہوا جس کا چھوٹی خالہ کو ڈر تھا- مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی تھی- شہر یار کی امی اسے تیار کرنے لگیں- شہر یار نے جیسے ہی پاجامہ پہنا اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہوگئے- وہ ہی پاجامہ جو کل تک ٹھیک ٹھاک تھا اب اتنا لمبا ہوگیا تھا کہ اس کے پائنچوں میں اس کے دونوں پاؤں چھپ گئے- شیروانی بھی لمبی ہوگئی تھی اور ٹخنوں تک آ رہی تھی- اس کی آستینیں بھی بڑی ہوگئی تھیں اور نیچے لٹک رہی تھیں- امی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں- خود شہر یار کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں- گھر میں مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی تھی- اب ان کے سامنے وہ یہ کپڑے پہن کر جائے تو جائے کیسے؟

    اتنی دیر میں چھوٹی خالہ بھی وہاں آگئیں- انہوں نے اطلاع دی کہ شہر یار کی کلاس ٹیچر بھی سالگرہ میں شرکت کے لیے آگئی ہیں- ان کے ساتھ کلاس کے بھی بہت سارے بچے تھے جنہیں شہر یار نے خود سالگرہ میں شرکت کی دعوت دی تھی-

    ان کی آمد کا سنا تو شہر یار کی حالت غیر ہوگئی- ’’امی اب میں کیا کروں؟ شہزادے کے کپڑے لمبے ہوجانے والی کہانی تو میرے کلاس فیلوز نے بھی سن رکھی ہوگی- سب سمجھ جائیں گے کہ میں کیسا لڑکا ہوں اور مجھے میری حرکتوں کی سزا ملی ہے‘‘-

    ’’میں خود بے حد پریشان ہوں- جب سب لوگ تمہیں ان کپڑوں میں دیکھیں گے اور مجھ سے سوال کریں گے تو میں انھیں کیا جواب دوں گی- کیا مجھے ان سے یہ کہنا پڑے گا کہ میرا بچہ بہت بدتمیز تھا- اسے بدتمیزیوں کی سزا ملی ہے؟‘‘۔ اس کی امی نے سر پکڑ کر کہا-

    شہر یار یہ باتیں سن سن کر بہت شرمندہ ہو رہا تھا- ’’ کاش میں ایک اچھا بچہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا- میری سالگرہ کے کپڑے بھی لمبے نہ ہوتے‘‘-

    اس کی امی اس کی شیروانی اتارنے لگیں- جب اس نے دوسرے کپڑے پہن لیے اور اس کی امی سالگرہ والے کپڑوں کی تہہ بنا کر بستر پر رکھنے لگیں تو چھوٹی خالہ اسے لے کر دوسرے کمرے میں آئیں-

    شہر یار کی پریشان شکل دیکھ کر چھوٹی خالہ کو اس پر ترس آنے لگا تھا- انہوں نے کہا- ’’اس کہانی میں یہ بھی تو تھا کہ جب شہزادے کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا اور اس نے بادشاہ اور ملکہ سے اپنے برے روئیے کی معافی مانگ لی اور یہ وعدہ کیا کہ اب وہ تمام بری حرکتیں چھوڑ دے گا تو اس کی پوشاک پھر پہلے جیسی ہوگئی تھی جسے پہن کر اس نے اپنی سالگرہ میں شرکت کی‘‘-

    اتنی دیر میں شہر یار کی امی بھی وہاں آگئیں- چھوٹی خالہ کو دیکھ کر وہ مسکرائیں مگر جیسے ہی شہر یار نے انھیں دیکھا انہوں نے اپنا چہرہ سنجیدہ بنا لیا اور افسردہ نظر آنے لگیں-

    ’’امی میں آپ سے سوری کرتا ہوں- مجھے معاف کردیں- میں ایک اچھا لڑکا نہیں تھا مگر اب میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ایک اچھا لڑکا بن کر دکھاؤں گا- آئندہ نہ تو میں کوئی ضد کروں گا اور نہ ہی کوئی بدتمیزی- آپ جو کہیں گی میں وہ کیا کروں گا- میں آپ کے بغیر کہے روزانہ خود ہی اسکول کا کام کرنے بھی بیٹھ جایا کروں گا‘‘- اس نے نہایت شرمساری سے کہا-

    چھوٹی خالہ نے کہا- ’’ہاں آپی- آپ شہر یار کو معاف کردیں- اب یہ اچھا بچہ بن گیا ہے- ہوسکتا ہے آپ کے معاف کرنے اور اس کے اچھا بننے کے وعدے سے اس کے کپڑے ٹھیک ہوجائیں جیسے شہزادے کے ہوگئے تھے‘‘-

    ان کی سفارش کام آگئی- امی نے شہر یار کو گلے لگا کر پیار کیا اور بولیں”- ٹھیک ہے- میں نے شہر یار کو معاف کیا‘‘-

    ’’چلیں اب دیکھتے ہیں کہ کپڑوں کا کیا حال ہے- تمام مہمان آگئے ہیں- کیک کاٹنے کا وقت ہوگیا ہے‘‘- چھوٹی خالہ نے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا- امی بھی ان کے پیچھے چل دیں- ان دونوں کے پیچھے پیچھے شہر یار بڑی سعادتمندی سے سر جھکائے آرہا تھا-

    کمرے میں بستر پر اس کے کپڑے رکھے ہوئے تھے- امی نے کہا- ’’ہم دوسری طرف منہ کیے لیتے ہیں- تم جلدی سے پاجامہ پہن کر دکھاؤ‘‘-

    شہر یار پاجامہ پہننے لگا- اس کے پائنچے تنگ تھے اور اسے پہننے میں دیر لگ رہی تھی- اس لیے اس نے کہا- ’’ابھی منہ ادھر مت کیجیے گا‘‘- کچھ دیر بعد اس کی خوشی بھری آواز ان کے کانوں میں آئی- ’’امی- یہ تو بالکل میرے سائز کا ہے‘‘-

    دونوں نے مڑ کر دیکھا- واقعی پاجامہ اس کے بالکل ٹھیک آیا تھا- پھر امی نے اسے شیروانی پہنائی- وہ بھی ٹھیک تھی اور بالکل شہر یار کے ناپ کی تھی- شہر یار کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا- وہ جلدی جلدی تیار ہو کر مہمانوں میں پہنچ گیا- امی اور چھوٹی خالہ نے کمرے میں سے جھانک کر دیکھا- شہر یار نے مہمانوں کو ادب سے سلام کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ لوگ اس کی سالگرہ میں شرکت کرنے کے لیے آئے ہیں-

    اس کا یہ ادب دیکھ کر اس کی امی مسکرائیں اور چھوٹی خالہ سے بولیں- ’’تم نے بہت اچھی ترکیب نکالی تھی کہ دو شیروانیاں ، ایک چھوٹی اور دوسری بڑی، اور دو پاجامے، ایک چھوٹا اور دوسرا بڑا، خرید لیے تھے- اگرچہ شیروانی کے بڑے جوڑے کو خریدنے کے لیے ہمیں پیسے تو خرچ کرنا پڑ گئے تھے مگر اس کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ ہمارا شہر یار بالکل سدھر گیا ہے اور ایک نیا بچہ بن گیا ہے‘‘-

    چھوٹی خالہ ہنس کر بولیں”- مجھے پیسوں کی بھی فکر نہیں ہے- ہم اس بڑے سائز کی شیروانی اور پاجامے کو دوکان پر واپس کر آئیں گے- میں نے دوکان والے سے اس بارے میں بات کرلی تھی- کہانی کا شہزادہ بھی بہت اچھا بن گیا تھا- مجھے امید ہے کہ شہر یار بھی ایسا ہی بن جائے گا‘‘-

    تھوڑی دیر بعد سالگرہ کی تقریب شروع ہوگئی اور سب بچے ہلہ گلہ کرنے میں مصروف ہوگئے-

    اس روز کے بعد شہر یار واقعی ایک اچھا بچہ بن گیا- اس نے اپنی تمام بری حرکتیں چھوڑ دی تھیں- اب نہ تو وہ ضد کرتا تھا اور نہ ہی اپنی امی کے کسی حکم کی نافرمانی کرتا تھا- اس کی اس تبدیلی سے امی بہت خوش تھیں اور چھوٹی خالہ کی بہت شکر گزار تھیں، جن کی کپڑوں والی ترکیب نے شہر یار کو ایک اچھا بچہ بنا دیا تھا-

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے