Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زیادہ اچھا کون؟

مختار احمد

زیادہ اچھا کون؟

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    آفتاب، ولید اور ثمینہ کے امی ابّو اتنے ہی اچھے تھے جتنا کہ سب بچوں کے امی ابّو ہوتے ہیں۔ دوسرے ماں باپوں کی طرح ان کی بھی یہ ہی خواہش تھی کہ ان کے بچے خوب آرام سے زندگی گزاریں، پڑھیں لکھیں، کھیلیں کودیں اور بڑے ہو کر ایک کامیاب انسان بنیں اور اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لیں۔

    ان تینوں بچوں کی ایک خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ ان کے ماں باپ پڑھے لکھے تھے۔ پڑھائی لکھائی انسان کو زیادہ سمجھ بوجھ اور عقل عطا کرتی ہے۔ ان کے ابّو ثاقب صاحب ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کی تنخواہ بہت اچھی تھی اور انہوں نے اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخلہ دلوا رکھا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ خوب تعلیم حاصل کریں۔

    ثاقب صاحب گھر کے کاموں میں اپنی بیوی تسلیمہ کا ہاتھ بٹانے میں کوئی شرم یا جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔ تسلیمہ اگر کپڑے دھو رہی ہوتی تو وہ اس کام میں بھی اس کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ گھر کی صفائی ستھرائی میں بھی لگے رہتے تھے۔ انھیں یہ فکر بھی رہتی تھی کہ بچوں نے اسکول کا کام کیا ہے یا نہیں۔

    رات کو سونے سے پہلے وہ اپنے تینوں بچوں کو ساتھ لے کر گھر کا ایک چکر لگاتے تھے جس سے یہ اطمینان ہو جاتا تھا کہ کھڑکی دروازوں کی کنڈیاں ٹھیک سے بند ہیں یا نہیں۔ وہ چاہتے تو یہ کام خود اکیلے بھی کر سکتے تھے مگر ان تینوں کو ساتھ رکھنے کا یہ مقصد ہوتا تھا کہ ان میں بھی احساس ذمہ داری پیدا ہوجائے اور اپنی آئندہ زندگی میں وہ اس طرح کی چیزوں کا خود ہی دھیان رکھیں۔

    ان کی ان عادتوں کا بچوں نے بھی گہرا اثر لیا تھا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آگئی تھی کہ گھر کے کسی کام کو کرنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیے۔ جب وہ لوگ اپنے اسکول کے کام سے فارغ ہوجاتے تو ان کی یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ گھر کے کاموں میں اپنی امی کا ہاتھ بٹائیں۔ ان کی اس عادت سے ان کی امی کی بہت مدد ہوجاتی تھی۔ ان کو وہ تھکن بھی نہیں ہوتی تھی جو ان بچوں کی امیوں کو ہوجاتی ہے جو گھر کے کسی کام میں ہاتھ نہیں لگاتے اور ان کی امیوں کو اکیلے ہی سارے کام کرنا پڑتے ہیں۔

    ثاقب صاحب کے تینوں بچوں میں یہ عادت بھی تھی کہ کھانے کے بعد اپنے اپنے برتن خود دھو کر ان کو قرینے سے ان کی جگہ پر رکھتے تھے۔ یہ سب انہوں نے اپنے ابّو کو دیکھ کر سیکھا تھا۔

    ثاقب صاحب گھر میں سب کے دوست بن کر رہتے تھے۔ ان کی اس عادت نے ان کے بچوں میں ایک خود اعتمادی پیدا کر دی تھی۔

    بارش ہوتی تو وہ بچوں کے ساتھ کاغذ کی ناؤ بنا بنا کر بہتے پانی میں تیراتے۔ کنچوں کا موسم آتا تو لان میں پِل بنا کر بچوں کے ساتھ رنگ برنگی کانچ کی گولیوں سے کھیلتے۔ ان کی بیٹی ثمینہ کو رسی کودنے کا شوق تھا جیسا کہ اس عمر کی دوسری تمام لڑکیوں کو ہوتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ اس کھیل میں بھی شریک ہوجایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ تو انہوں نے درخت کی لکڑیوں سے ایک چھوٹا سا گلی ڈنڈا بھی بنایا تھا اور بچوں کو بتایا تھا کہ اپنے بچپن میں وہ دوستوں کے ساتھ کیسے گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ انھیں بچوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے میں کسی قسم کی کوئی جھجک یا پریشانی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    ان کی بیوی تسلیمہ بھی بچوں کے ساتھ بہت اچھی طرح سے پیش آتی تھی جس کی وجہ سے بچے اس سے اپنے دل کی ہر بات کہہ لیا کرتے تھے۔ بچے جب ہر اچھی بری بات اپنی ماں سے کہہ دیتے ہیں تو یہ عادت ان کے اپنے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ ماں جہاں ضروری سمجھتی ہے انھیں نصیحت بھی کر دیتی ہے اور ان کی اچھی باتوں پر شاباش بھی دیتی ہے۔ اس سے بچوں میں اچھی بری باتوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور یہ چیز ان کی تربیت میں بہت کام آتی ہے۔ اس طرح کے دوستانہ ماحول میں زندگی گزارنا بہت اچھا ہوتا ہے۔ اس سے گھر میں اتفاق، ایثار اور محبت برقرار رہتی ہے۔

    ایک روز چھٹی والے دن ثاقب صاحب تسلیمہ کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں اخبار تھا مگر وہ اسے پڑھ نہیں رہے تھے، بلکہ اسے ہاتھ میں لیے کچھ سوچ رہے تھے۔ تسلیمہ دوپہر کو پکانے کے لیے سبزی کاٹنے ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔

    اچانک ثاقب صاحب نے کہا ۔ ’’بیگم۔ میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ بچے مجھ سے زیادہ تم سے محبّت کرتے ہیں اور تم سے زیادہ قریب ہیں‘‘۔

    ان کی بات سن کر تسلیمہ ہنس پڑی۔ ’’یہ آپ نے کیسے سوچ لیا؟ پتہ ہے جب آپ آفس گئے ہوئے ہوتے ہیں تو سب آپ کو ہی یاد کرتے ہیں۔ مجھے تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے‘‘۔

    ’’یہ تو خیر تم میرا دل رکھنے کے لیے کہہ رہی ہو۔ مگر حقیقت وہ ہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں‘‘۔ ثاقب صاحب نے کہا۔

    ’’وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا‘‘۔ تسلیمہ نے بات ختم کرنے کی غرض سے کہا۔

    ’’وہم تو ایک ذہنی بیماری ہوتی ہے۔ میں اس کی بات نہیں کررہا۔ میں تو ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں اور اس کا علاج میرے پاس ہے‘‘۔

    ’’اس علاج کا ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے‘‘۔ تسلیمہ نے دلچسپی سے پوچھا۔

    ثاقب صاحب نے ادھر ادھر دیکھ کر دھیرے سے کہا ۔’’ہم اس کے لیے بچوں سے ووٹ ڈلوا لیتے ہیں۔ خفیہ رائے شماری ہوگی۔ پتہ چل جائے گا کہ بچے تم سے زیادہ محبّت کرتے ہیں یا مجھ سے۔ ان کی نظروں میں زیادہ اچھا کون ہے میں یا تم۔ مگر دیکھو جب تک ساری تیاری مکمل نہ ہوجائے، یہ بات بچوں کو پتہ نہیں چلنی چاہیے‘‘۔

    ’’ٹھیک ہے۔ میں کھانا پکا لوں۔ کھانا کھا کر ہم رائے شماری کر والیں گے۔ آپ کی غلط فہمی بھی دور ہوجائے گی۔ اور یہ بات بھی ثابت ہوجائے گی کہ آج کل کے بچے ماں کو تو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں، ان کے باپ ہی ان کے لیے سب کچھ ہوتے ہیں‘‘۔ تسلیمہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔

    ثاقب صاحب خاموشی سے گھر کے اوپر والے پورشن میں جا کر ایک کمرے میں ووٹنگ کا انتظام کرنے میں مصروف ہوگئے۔

    بچے باہر برآمدے سے کھیل کر گھر میں آئے تو انھیں کئی پراسرار باتیں محسوس ہوئیں۔ امی خاموشی سے کام میں لگی ہوئی تھیں انھیں دیکھ کر بھی انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ ابو بھی کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ ان کی تلاش میں وہ اوپر گئے تو انھیں دیکھ کر ابّو نے کہا ’’تم سب نیچے ہی رہو میں کچھ کام کر رہا ہوں‘‘۔

    بچے سوچ میں پڑ گئے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کہا کہ ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے۔ وہ چونکہ اچھے بچے تھے اس لیے انہوں نے زیادہ کرید مناسب نہیں سمجھی اور خاموشی سے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ٹی وی پر کارٹون دیکھنے لگے۔

    کھانا بڑی خاموشی سے کھایا گیا۔ حالانکہ تسلیمہ نے سبزی پکائی تھی مگر کھانا کھاتے ہوئے کسی بچے نے ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ کھانے کے بعد ثاقب صاحب نے کہا۔

    ’’بچو۔ ہمارے سامنے ایک اہم سوال کھڑا ہوگیا ہے۔ اگر ہم اس سوال کا جواب تم لوگوں سے زبانی پوچھیں گے تو تم لوگ گڑ بڑا جاؤ گے اور حقیقت بیان کرنے سے گھبراؤ گے۔ اس لیے ہم نے اس سلسلے میں خفیہ رائے شماری کروانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

    ’’ویری گڈ‘‘۔ آفتاب نے کہا۔ ’’کھیل تو دلچسپ معلوم دیتا ہے۔ رائے شماری کے بارے میں تو میں یہ جانتا ہوں کہ اس میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں، جیسا کہ الیکشن کے وقت ہوتا ہے۔ کیا ہمیں ووٹ ڈالنا پڑیں گے اور کیا آپ اور امی بھی اس رائے شماری میں حصہ لیں گے؟‘‘۔

    ’’نہیں۔ ہم تو منتظمین میں سے ہونگے۔ ووٹ تم تینوں ہی ڈالو گے۔ ہم ابھی اوپر کمرے میں چلیں گے۔ تمہیں تمھاری امی ایک ایک پرچی دیں گی۔ اس پرچی میں دو خانے بنے ہوئے ہیں۔ ایک خانے میں ’’امی‘‘ لکھا ہوا ہے دوسرے میں ’’ابو‘‘۔ اگر تم امی کو زیادہ پسند کرتے ہو تو ان کے خانے میں اپنے انگوٹھے کا نشان لگادینا اور اور تمہیں ابو زیادہ پسند ہوں تو ان کے خانے میں۔ ویسے تو ووٹوں پر اسٹیمپ لگانا پڑتی ہے مگر اتنی جلدی ہم اس کا انتظام نہیں کرسکے”۔ ثاقب صاحب نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

    بچوں کو یہ ایک دلچسپ کھیل لگا تھا۔ وہ پرجوش نظر آنے لگے۔ ان کے ابو نے کہا۔ ’’ایک اور بات کا بھی دھیان رہے کہ تم لوگ اس سلسلے میں ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرو گے۔ یہ چیز تمہارے اپنے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہے‘‘۔

    تینوں بچوں نے اس کی حامی بھرلی اور اس کا ثبوت یوں دیا کہ اس ووٹنگ کے بارے میں ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی۔

    تھوڑی دیر بعد وہ لوگ اوپری منزل پر پہنچے۔ کمرے کے باہر تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ تینوں بچے ایک ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ اندر کمرے میں ان کی امی ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھیں اور خوش اخلاقی سے مسکرا رہی تھیں۔

    ولید نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے کمرے میں جھانکا اور شرارت سے بولا۔’’امی آج پہلی مرتبہ آپ کو اتنے پیار سے مسکراتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔

    اس کی امی بھی اسی کے انداز میں بولیں۔ ’’غلط فہمی میں مبتلا مت ہوجانا۔ جس سیٹ پر میں بیٹھی ہوں اس کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خوش اخلاق نظر آؤں‘‘۔

    ثمینہ نے اٹھ کر کمرے کے اندر جھانکا۔ ایک کونے میں ایک میز رکھی تھی اور ایک کپڑے کی چادر تان کر اس کے گرد ایک آڑ سی بنا دی گئی تھی۔ اس میز پر اسی کی ٹین کی ڈھکن والی گولک رکھی تھی۔ اس گولک میں انھیں ووٹ ڈالنا تھا۔ گولک کے قریب ایک اسٹیمپ پیڈ رکھا تھا تاکہ بچے اس پر انگوٹھا رکھ کر اس کی سیاہی کی مدد سے ووٹ پر نشان لگا سکیں۔

    انتظامات بہت اچھے تھے۔ ایک رجسٹر میں ان تینوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اپنے اپنے ناموں کے آگے انہوں نے اپنے انگوٹھے کے نشانات لگائے۔ ان کی امی نے انھیں ووٹ کی پرچی دی۔ جنہیں لے کر باری باری وہ کونے میں رکھی ہوئی میز کے قریب آئے اور ان پر انگوٹھے کے نشانات لگا کر میز پر رکھی گولک میں ڈال دیا ۔

    جب تمام ووٹ کاسٹ ہوگئے تو ان کے ابو نے گولک اٹھا کر کھولا اور تینوں پرچیاں نکال کر اپنی بیگم کے حوالے کردیں اور بولے۔ ’’یہ شاید دنیا کا پہلا انتخاب ہے جس میں ہنڈریڈ پرسنٹ ووٹروں نے اپنا ووٹ ڈالا ہے۔ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہیں‘‘۔

    ’’میں تو بہت ہی سنسنی خیزی محسوس کر رہی ہوں۔ بچوں نے ہم دونوں میں سے جانے کس کو پسند کیا ہوگا اور کس کو ناپسند۔ میں تو ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے رہتی تھی‘‘۔

    ’’میری بھی کچھ ایسی ہی حالت ہے۔ میں نے بھی بہت غور کیا تھا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرا بھی رویہ بچوں کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہی رہا ہے‘‘۔ ان کے ابو نے کہا۔

    اس دوران تسلیمہ تینوں پرچیوں کی تہیں کھول چکی تھی۔ انہوں نے پرچیوں پر نظر ڈالی تو حیران رہ گئے۔ تینوں بچوں نے دونوں خانوں میں اپنے اپنے انگوٹھوں کے نشانات لگا رکھے تھے، امی والے خانے میں بھی اور ابو والے خانے میں بھی۔

    ’’لو بھئی۔ یہ تو سارے ووٹ ضائع ہوگئے۔ نشان تو صرف ایک خانے میں لگانا تھا‘‘۔ ثاقب صاحب نے سر کھجاتے ہوئے اپنی بیگم کی طرف دیکھا۔

    ’’ووٹ ضائع ہوتے ہوں تو ہوں، ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمارے لیے تو جتنے اچھے ہمارے ابو ہیں، اتنی ہی اچھی ہماری امی بھی ہیں اور جتنی اچھی ہماری امی ہیں، اتنے ہی اچھے ہمارے ابو ہیں‘‘۔ ثمینہ نے محبّت سے اپنے ابو کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔

    ’’ایسے ہی خیالات میرے اور ولید کے بھی ہیں‘‘۔ آفتاب نے کہا۔

    ’’میں تو بہت ہی شکر کر رہی ہوں کہ بچے ہم دونوں ہی سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ان کی نظروں میں ہم دونوں ہی بہت اچھے ہیں۔ میں تو یہ کوشش بھی کروں گی کہ آئندہ ان کے ساتھ اور بھی بہتر طریقے سے رہا کروں‘‘۔ تسلیمہ خوش ہو کر بولی۔

    ’’تاکہ اگلے انتخاب میں جیت جاؤ‘‘۔ ثاقب صاحب نے ہنس کر کہا۔ ویسے ہم دونوں کو اچھا بنانے میں ان بچوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ خوب دل لگا کر پڑھتے ہیں۔ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں تمہارا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اپنے اسکول اور محلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیار محبّت سے رہتے ہیں، ان سے لڑتے جھگڑتے نہیں ہیں۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے ہمارا دل بھی خوش ہوتا ہے۔ ماں باپ خوش ہوں تو وہ نہ صرف اپنے بچوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں بلکہ ان سے ڈانت ڈپٹ بھی نہیں کرتے، کوئی سزا دینا تو دور کی بات ہے‘‘۔

    ولید نے کہا۔ ’’ابو ہم آپ دونوں کی اس جیت کے پر مسرت موقعہ پر یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ آئندہ بھی ہمیشہ وہ کام کریں گے جن سے آپ خوش ہوں‘‘۔

    ’’ہمیں تم لوگوں سے یہ ہی امید ہے‘‘۔ تسلیمہ نے کہا اور تینوں بچوں کو پیار سے لپٹا لیا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے