حبیب جالب
غزل 72
نظم 42
اشعار 27
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 17
کتاب 17
تصویری شاعری 10
بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے تری نگاہ_پشیماں کو کیسے دیکھوں_گا کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال عجیب صورت_حالات ہو گئی پیارے اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر یہ کیسی شام_خرابات ہو گئی پیارے وفا کا نام نہ لے_گا کوئی زمانے میں ہم اہل_دل کو اگر مات ہو گئی پیارے تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ الگ_تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبح_بے_نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا میں بھی خائف نہیں تختۂ_دار سے میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے ظلم کی بات کو جہل کی رات کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں اب نہ ہم پر چلے_گا تمہارا فسوں چارہ_گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں تم نہیں چارہ_گر کوئی مانے مگر میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا