خالد حسن قادری کے اشعار
بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا
ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف انساں نہیں ملتا
نہ آئے تم نہ آؤ تم کہ اب آنے سے کیا حاصل
خود اب تو ہم سے اپنی شکل پہچانی نہیں جاتی
مری جاں تیری خاطر جاں کا سودا
بہت مہنگا بھی ہے دشوار بھی ہے
گھٹن تو دل کی رہی قصر مرمریں میں بھی
نہ روشنی سے ہوا کچھ نہ کچھ ہوا سے ہوا
تمہارے نام پہ دل اب بھی رک سا جاتا ہے
یہ بات وہ ہے کہ اس سے مفر نہیں ہوتا
کس سے پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں
یاد اب ہم کو وہ گلی ہی نہیں
یہ وقفہ ساعتوں کا چند صدیوں کے برابر ہے
وہ اب آواز دیتے ہیں تو پہچانی نہیں جاتی
وہ کہاں اور حرف تلخ کہاں
تم نے کی ہوگی اشتعال کی بات
آدمی ہیں چند دن میں مر رہیں گے دیکھنا
ہم ہزاروں سال دنیا میں رہیں پتھر نہیں
صدائے شہر فسوں ہے نظر نہ در سے ہٹا
وہ مثل سنگ ہوا جس نے لوٹ کر دیکھا
معراج کمال قدوسی، آغاز شعور انساں ہے
کیا کوئی حقیقت تجریدی، الفاظ میں بھی محصور ہوئی؟