Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Krishn Bihari Noor's Photo'

کرشن بہاری نور

1926 - 2003 | لکھنؤ, انڈیا

مقبول عام شاعر، لکھنوی زبان و تہذیب کے نمائندے

مقبول عام شاعر، لکھنوی زبان و تہذیب کے نمائندے

کرشن بہاری نور کے اشعار

15.5K
Favorite

باعتبار

کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں

جس آئینے میں عکس نہ اس کا دکھائی دے

چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو

آئنہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

آئنہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں مگر

آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں

میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا

اسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے

اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں

میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی

کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت

میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا

سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے

جتنے موسم ہیں سبھی جیسے کہیں مل جائیں

ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مجھ میں

کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے

آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دکھائی دے

آئنہ یہ تو بتاتا ہے میں کیا ہوں لیکن

آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے

جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری

گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

یہی ملنے کا سمے بھی ہے بچھڑنے کا بھی

مجھ کو لگتا ہے بہت اپنے سے ڈر شام کے بعد

اک طرف قانون ہے اور اک طرف انسان ہے

ختم ہوتا ہی نہیں جرم و سزا کا سلسلہ

موسم ہیں دو ہی عشق کے صورت کوئی بھی ہو

ہیں اس کے پاس آئنے ہجر و وصال کے

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

جیسے ان دیکھے اجالے کی کوئی دیوار ہو

بند ہو جاتا ہے کچھ دوری پہ ہر اک راستا

ایسا نہ ہو گناہ کی دلدل میں جا پھنسوں

اے میری آرزو مجھے لے چل سنبھال کے

مٹے یہ شبہ تو اے دوست تجھ سے بات کریں

ہماری پہلی ملاقات آخری تو نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے